*مسئلہ طلاق ثلاثہ پر اعتراضات و شبہات اور دعاوی کی حقیقت *
قارئین کرام ! یہاں تک تو قرآن و سنت سے معلوم ہونے والی جائز و ناجائز صورتیں لکھی گئی ہیں اب اس سلسلے میں ان اعتراضات ، شبہات اور دعوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے جو ’’ بعض النا س‘‘ کی طرف سے حاملین کتا ب وسنت کے موقف پر کئے جا تے ہیں۔
* دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا فتویٰ سیدنا عمرؓ نے دیا تھا ۔‘‘
* کہا جاتا ہے کہ ’’فیصلہ عمر فاروقؓ کے بعد کسی صحابیؓ و تابعی ؒ نے سیدنا عمر سے اختلاف نہیں کیا اور نہ ہی ان کے فیصلے کے خلاف فتوی ٰ دیا ‘‘
* مسئلہ طلاق ثلاثہ میں احناف اور ائمہ اربعہ کا مذہب برحق ہے اور یہ اجماع کے مترادف ہے۔
* کہا جاتا ہے کہ’’ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں اہلحدیث اجماع امت سے ہٹ کر شیعوں کے نقشے قدم پر ہیں ۔‘‘
* کہا جاتا ہے کہ ’’ حدیث مسلم جو آپ پیش کر تے ہیں وہ سنداً اور متناً مضطرب ہے۔‘‘
* اس حدیث کے روایت کرنے میں طاؤ س متفرد ہے، حالانکہ وہ متکلم فیہ ہے اور ابن عباسؓ سے منکر روایتیں نقل کر تا ہے۔
* امام احمد ؒ اور امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر نہیں کیا ۔
* یہ حدیث منسو خ ہو گئی تھی ۔
* ابن عباسؓ کا فتوی ٰ اس کے خلاف ہے۔
انتہا ئی اختصار کے ساتھ ہم ان اعتراضا ت ، کہا وتوں اور دعو ؤ ں کا جائزہ علی الترتیب لیتے ہیں ۔
* صحیح مسلم کی حدیث بالکل واضح ہے کہ نبی مکرم ﷺ کے (مکمل)عہد میں ، صدیق اکبرؓ کے (مکمل) دور خلافت میں اور خود عمرؓ کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ تعامل امت زیادہ صحیح ہے جو عہد رسالت ﷺ و عہد صدیقیؓ اور عہد فاروقیؓ کے ابتدائی سالوں تک چلتا رہا یا وہ تعامل جو بعد میں شروع ہوا؟
خود امیر عمرؓ کے پاس اگر ایسے شخص کو لا یا جاتا کہ جس نے اکٹھی تین طلاقیں اپنی بیوی کو دی ہوتیں تو آپؓ اسے کوڑے لگایا کر تے تھے۔
(شرح معانی الآثار 59/3)
خو د نبی مکرم ﷺ نے بیک وقت کی تین اکٹھی طلاقوں کو کتا ب اللہ کے ساتھ کھیل و مذاق قرار دیا ہے۔
(النسائی۔کتا ب الطلاق)
تو پھر کیا بلا وجہ اور بغیر کسی مقصد کے سیدنا عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا فیصلہ دیا؟؟
اس کا جواب خود صحیح مسلم ہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ لوگوں نے مسئلہ طلاق کو بوجہ عجلت غلط انداز سے برتنا شروع کر دیا تھا اور اسی روک تھا م کے سلسلے میں امیر عمرؓ نے یہ سیاسی اور تعزیری فیصلہ صادر فرمایا تاکہ لوگ متنبہ ہو جائیں اور کثرت سے بیک وقت تیں طلاقیں دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔
*امیر عمرؓ کا فیصلہ شرعی نہیں بلکہ سیاسی اور تعزیری تھا*
دیکھئے، حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار 105/2، مجمع الانھر شرح منتقی الابھر :328
(بحوالہ ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔دارالسلام)
یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے پر امیر عمرؓ نے ندامت کا اظہا ر بھی کیا تھا ۔
(اغا ثۃاللفھان 351/1)
*
جہا ں تک تعلق ہے اس دعوے کا کہ امیر عمرؓ سے کسی نے اختلاف ہی نہیں کیا تو یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے کیونکہ صحا بہ کرامؒ میں سے سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں سیدنا عمرؓ سے اختلاف کیا تھا،جبکہ سیدناعبداللہ بن عباسؓ ، سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ اور سیدنا علیؓ سے دونوں طرح کے فتوے منقول ہیں، جبکہ تابعین کرامؒ میں سے سیدنا عکرمہ ، سیدنا طاؤسؒ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں امیر عمرؓ سے اختلاف کیا ہے۔
( اعلام المو قعین از ابن القیم، ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل از عبدالرحمن کیلانی)
ان دونوں حوالہ جات میں انتہائی تفصیل سے صحابہؓ، تابعین ؒ ، تبع تابعین ؒ و دیگر ائمہ و امحدثین کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ ان سب نے امیر عمرؓ کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
*
جہا ں تک تعلق ہے ’’اجماع‘‘ کے دعوے کا تو یہ بھی کوئی دلیل نہیں رکھتا کیو نکہ عہد فاروقیؓ سے قبل عہد نبویﷺو صدیقیؓ میں کم از کم ایک ہزار صحابہؓ وغیرھم کاتین طلاق (فی مجلس واحد) کے ایک ہی ہونے پر اجماع رہا ہے لہٰذا بعد کے اجماع کی کوئی حیثیت نہیں رہی ۔
اور پھر صحیح بخاری کا ترجمۃالباب ’’من جوز طلاق الثلاث‘‘ بھی دلیل ہے کہ سلف صالحین میں سے بعض ایسے بھی گزرے ہیں جو تین طلاق کے (ایک ساتھ) وقوع کو جائز نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صراحت کی ہے۔
خود علمائے احناف کے سر خیلوں میں سے علامہ عینیؒ اور علامہ طحاویؒ نے خو د اس سلسلے میں سلف کے اختلاف کا ذکر کیا ہے۔
(دیکھئے عمدۃالقاری اور شرح معانی الآثار)
جس مسئلے میں صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، ائمہ و محدثین کا سخت اختلاف مو جو د ہو اسے اجماعی مسئلہ قرار دینا سراسر علم سے دوری اور ہٹ دھرمی ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے ۔
(ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔دارالسلام)
*
رہی یہ بات کہ اس مسئلے میں اہلحدیث اجماع امت سے ہٹ کر شیعوں کے نقشے قدم پر ہیں تو اس سلسلے میں ہماری بات بالکل واضح ہے کہ اس مسئلے پر اجماع امت ہے ہی نہیں ، جیسا کہ ’’اختلاف‘‘ کی بحث سے واضح ہو چکا ہے اور میں نہ مانوں کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے۔
اور شیعیت کا الزام کس قدر جسارت کی بات ہے کیا وہ ہزاروں صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ جو امیر عمرؓ کے فیصلے سے اختلاف کر تے چلے آ ئے ہیں سارے شیعہ تھے؟؟ نعوذ باللہ من ذلک
*
اور یہ دعویٰ بھی بالکل بودا ہے کہ حدیث صحیح مسلم مضطرب ہے! کیونکہ یہ بات کسی بھی اہل علم نے ذکر نہیں کی۔
*
طاؤ س پر اعتراض او ر اس کے تفرد پر لب کشائی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا، کیونکہ وہ فقیہ بھی ہے اور فاضل بھی ، ثقہ بھی حتیٰ کہ علامہ ذہبیؒ امام عمرو بن دینا ر سے نقل کر تے ہیں کہ میں نے طاؤ س کا مثل تو دیکھا ہی نہیں ، اور ثقہ راوی کا تفرد حدیث کے ضعف کو مستلزم نہیں ہو تا۔
*
اور یہ مطالبہ بھی بالکل جاہلانہ ہے کہ اس حدیث کو بخاری ؒ اور احمدؒ نے ذکر کیوں نہیں کیا ، اس لئے کہ امام بخاریؒ نے ایسا کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا کہ میں ہر صحیح حدیث کو ’’الجامع الصحیح‘‘ میں ذکر کرونگا بلکہ طوالت کے خوف سے انہوں نے بہت سی احادیث کو چھوڑ دیا ہے۔ اور امام احمدبن حنبلؒ نے تو اسے مسند احمد میں 314/1پر ذکر کیا ہے اور کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔
*
اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ بھی بالکل غیر علمی ہے، کیونکہ اگر یہ منسوخ تھی تو عہد نبوی ﷺ، عہد صدیقیؓ اور خود عہد فاروقیؓ کے ابتدائی سالوں میں اس کا علم کسی کو کیوں نہ ہو سکا؟ اور پھر اس کا ناسخ کیا تھا؟ کیا قول عمرؓ ؟معاذاللہ کیا قول امتی بھی قول رسولﷺ کو منسوخ کر سکتا ہے؟؟
کیا ’’تواصی بالتقلید ‘‘ پر عمل پیر ا لوگ نہیں جانتے کہ اسی حدیث کے آخری حصے پر تو ان کے ’’ فرضی اجماع‘‘ کی بنیا د ہے اگر یہ حدیث منسوخ ہے، مضطرب ہے تو پھر خو د ان
کے ’’فرضی اجماع‘‘ کی دلیل کہا ں سے ملے گی ؟؟؟
( لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا! )
*
اور یہ بھی کم علمی کی علامت ہے کہ جی ابن عباسؓ (جو اس حدیث کے راوی ہیں) ان کا فتویٰ اس حدیث کے خلاف ہے ، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ راوی کی روایت کا اعتبار کیا
جائے گا اس کی رائے کا نہیں ۔(فتح الباری 97/9) جبکہ اس کا فتویٰ مرفوع روایت کے خلاف ہو۔
اور ابوداؤد میں تو صراحت موجود ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ
’’جب کوئی یہ کہے (اپنی بیوی کو) کہ تجھے تین طلاق تو یہ ایک طلاق ہی شمار ہو گی۔‘‘
دیکھ لیجئے کہ ابن عباسؓ نے کیا فتویٰ دیا ہے۔
*رجوع اور تجدید نکاح وغیرہ*
یاد رکھنا چاہیے کہ’’ عدم رجوع‘‘ کی صرف تین صورتیں ہیں!
قرآن مجید میں طلاق کے متعلق جو آیات بیان کی گئی ہیں ان میں بالا طلاق خاوند کو رجوع کا حق دیا گیا ہے۔
ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۔۔۔
(سورۃ البقرۃ آیت:۲۲۸)
’’ان کے خاوند انہیں لوٹالینے کے پورے حقدار ہیں اس مدت میں اگر وہ اصلاح کا اراداہ رکھتے ہوں۔‘‘
صرف تین صورتوں میں رجوع کی اجازت نہیں ہے۔
۱
۔وہ عورت جسے تیسری مرتبہ (شرعی طریقہ پر) طلاق دی جا چکی ہو۔
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۔۔۔
(البقرۃ آیت :۲۳۰)
’’پس اگر وہ(خاوند) اسے (تیسری) طلاق بھی دیدے تو پھر اس کے لئے جائز نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
۲
۔وہ عورت جس نے از خود طلاق (بصورت خلع) حاصل کی ہو۔
ترجمہ : پس اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت جو کچھ بدلہ دے کر خود کو چھڑالے تو اس میں دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔
(البقرۃ آیت:۲۲۹)
اس طرح عورت گو یا فدیہ دیکر خاوند کے حق رجوع کو ختم کر دیتی ہے۔
۳
۔وہ عورت جسے قبل از صحبت طلاق دے دی جائے۔
ترجمہ: اے ایمان والوں! جب تم مومنات سے نکاح کرو ، پھر انہیں مس کئے بغیر طلاق دیدو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو انہیں کچھ دیکر اچھے انداز میں رخصت کر دو۔
(سورہ احزاب :49)
ان تین صورتوں کے علاوہ اور جو کوئی بھی صورت ہو فقط طلاق رجعی شمار ہو گی اب ایک ہی بار دی ہوئی تین (اکٹھی) طلاقوں کو تین شمار کر لینا اپنی طرف سے چوتھا استثناء نہیں تو اور کیا ہے؟
(تین طلاقیں از خواجہ قاسم)