Surah Furqan Ayat 43 With Tafseer

  • Work-from-home

arzi_zeest

Senior Member
Jul 2, 2018
940
554
93
اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ(۴۳)​
ترجمہ: کنزالایمان
کیا تم نے اُسے دیکھا جس نے اپنے جی کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے

تفسیر: ‎صراط الجنان​

{اَرَءَیْتَ: کیا تم نے دیکھا۔} زمانۂ جاہلیت میں عرب کے مشرکین کا دستور تھا کہ ان میں سے ہر ایک کسی پتھرکو پوجتا تھا اور جب کہیں اُسے کوئی دوسرا پتھر اس سے اچھا نظر آتاتو پہلے کو پھینک دیتااور دوسرے کو پوجنے لگتا۔اس آیت میں اسی چیز کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اورا پنے نفس کی خواہش کو پوجنے لگا اوراسی کا فرمانبردار ہوگیا، وہ ہدایت کس طرح قبول کرے گا۔ توکیا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُس پر نگہبان ہو کہ انہیں خواہش پرستی سے روک دو؟( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۰۴)

عقل خواہشات سے کیسے مغلوب ہوکر چھپ جاتی ہے؟

یاد رہے کہ بعض اوقات خواہشات کے سامنے بندے کی عقل مغلوب ہو کر چھپ جاتی ہے اور خواہش غالب آکر آدمی کو اپنا غلام بنا لیتی ہے،ایسا کیسے اور کس طرح ہوتا ہے؟ اسے جاننے کے لئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام ملاحظہ ہو،چنانچہ آپ فرماتے ہیں ’’ایک دل وہ ہوتا ہے جو خواہشات سے بھرا ہوا اور بری عادات سے آلودہ ہو اور اس میں ایسی خباثیتں ہوتی ہیں جن میں شیطا نوں کے دروازے کھلتے اور فرشتوں کے دروازے بند ہوتے ہیں ۔ ایسے دل میں شر کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ اس میں نفسانی خواہشات کا خیال پیدا ہوتا اور کھٹکتا ہے تو دل حاکم یعنی عقل کی طرف دیکھ کر اس سے حکم پوچھنا چاہتا ہے تاکہ صحیح بات واضح ہو جائے اور چونکہ عقل نفسانی خواہشات کی خدمت سے مانوس ہوتی ہے لہٰذاوہ اس کے لیے طرح طرح کے حیلے تلاش کرتی اور خواہش کو پورا کرنے پر اس کی مدد کرتی ہے۔جب وہ دل کی مدد کرتی ہے تو سینہ خواہش کے ساتھ کھلتا ہے اور اس میں خواہش کا اندھیرا پھیلتا ہے کیونکہ عقل کے لشکر اس کا مقابلہ کرنے سے رک جاتے ہیں اور خواہش پھیلنے کی وجہ سے شیطان کی سلطنت مضبوط ہوجاتی ہے اور اس وقت وہ ظاہری زینت، دھوکہ اورجھوٹی تمناؤں کے ذریعے دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دھوکہ دینے کے لیے من گھڑت باتیں دل میں ڈالتا ہے اور یوں ایمان کی حکومت کمزور پڑجاتی ہے یعنی وعدہ اور وعید پر یقین نہیں رہتا اور اُخروی خوف کے یقین کانور ٹھنڈا پڑجاتا ہے کیونکہ خواہش سے ایک سیاہ دھواں دل کی طرف اٹھتا ہے جو اس کے اَطراف کو بھردیتا ہے حتّٰی کہ اس کے انوارمٹ جاتے ہیں اور اس وقت عقل اس آنکھ کی طرح ہوتی ہے جس کے پپوٹےدھوئیں سے بھر جائیں اوراس وجہ سے بندہ دیکھنے پر قدرت نہیں رکھتا، شہوت کے غلبے سے بھی دل کی یہی حالت ہوتی ہے حتّٰی کہ دل سوچ وبچار کرنے کے قابل نہیں رہتا اور اس کی بصیرت ختم ہو جاتی ہے اور اگر کوئی واعظ اسے حق بات بتا اور سنا دے تو وہ سمجھنے سے اندھا اور سننے سے بہرہ ہوجاتا ہے اورجب شہوت میں ہیجان ہوتا ہے تو شیطان اس پر حملہ کرتا ہے،پھر اَعضاء خواہش کے مطابق حرکت کرتے ہیں اور یوں گناہ عالَمِ غیب سے ظاہر کی طرف آتا ہے اور یہ اللہ تعالٰی کی قضاء و قَدر سے ہوتا ہے۔ اسی قسم کے دل کی طرف اللہ تعالٰی کے اس ارشادِ گرامی میں اشارہ ہے۔

’’اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ(۴۳) اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَؕ-اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠‘‘( فرقان:۴۳،۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا ہے توکیا تم اُس پر نگہبان ہو؟یا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ان میں اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ یہ تو صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں ۔

اورارشادِباری تعالٰی ہے:

’’لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(یس:۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ان میں اکثر پر (اللہ کے عذاب کی) بات ثابت ہوچکی ہے تو وہ ایمان نہ لائیں گے۔

اور ارشادِ باری تعالٰی ہے :

’’وَ سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(یس:۱۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارا اُنہیں ڈرانا اور نہ ڈرانا ان پر برابرہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

اور کئی دل ایسے ہیں کہ بعض خواہشات کی طرف نسبت کی صورت میں ان کی یہ حالت ہوتی ہے جیسے کوئی شخص بعض چیزوں سے پرہیز کرتا ہے لیکن جب وہ کسی حسین چہرے کو دیکھتا ہے تو اس کی آنکھ اور دل اس کے قابو میں نہیں رہتے، اس کی عقل چلی جاتی ہے اور دل کا ٹھہراؤ باقی نہیں رہتا یا وہ شخص جاہ ومرتبے، حکومت اور تکبر کے سلسلے میں اپنے دل کو قابو میں نہیں رکھ سکتا اور جب ان باتوں کے اسباب ظاہر ہوتے ہیں تو ضبط نہیں کرسکتا یا اس شخص کی طرح ہے جس کے عیب بیان کیے جائیں یا اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ اپنے غصہ پر قابو نہیں پاسکتا یاوہ شخص جو درہم یا دینار لینے کی طاقت رکھتے وقت اپنے اوپر کنٹرول نہیں کرسکتا بلکہ وہ اس پر ایک دیوانے کی طرح گرتا ہے اور تقویٰ و مُرَوَّت کو بھی بھول جاتا ہے یہ سب باتیں اس لیے ہوتی ہیں کہ خواہش کا دھواں دل کی طرف چڑھتا ہے حتّٰی کہ وہ تاریک ہوجاتا ہے اور اس سے معرفت کے انوارمٹ جاتے ہیں اوریوں حیائ، مروت اور ایمان مٹ جاتا ہے اور وہ شیطانی مراد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتاہے۔( احیاء علوم الدین،کتاب شرح عجائب القلب،بیان سرعۃ تقلب القلب وانقسام القلوب فی التغییر والثبات،۳ / ۵۷-۵۸)

 
Top