Munawar Rana

  • Work-from-home

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
مہاجر نامہ

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں

تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے

کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں

نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں

پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی

وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی

کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں

پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے

نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں

جو اک پتلی سڑک اُنّاو سے موہان جاتی ہے

وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں

یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد

ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں

ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے

ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں ہجرت کی اس اندھی گپھا میں یاد آتا ہے

اجنتا چھوڑ آئے ہیں الورا چھوڑ آئے ہیں

سبھی تیوہار مل جل کر مناتے تھے وہاں جب تھے

دوالی چھوڑ آئے ہیں دسہرا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں سورج کی کرنیں اس لئے تکلیف دیتی ہیں

اودھ کی شام کاشی کا سویرا چھوڑ آئے ہیں

گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب

الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں

ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی

کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں

کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں

کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں

شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی

کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں

وہ برگد جس کے پیڑوں سے مہک آتی تھی پھولوں کی

اسی برگد میں ایک ہریل کا جوڑا چھوڑ آئے ہیں

ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے

کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں

بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی

وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں

یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی

کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں

ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر

کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بدبداتی تھیں

سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی

ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں

یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے

مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں

ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی

میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں

وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے

کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں

اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا

جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں

جنابِ میر کا دیوان تو ہم ساتھ لے آئے

مگر ہم میر کے ماتھے کا قشقہ چھوڑ آئے ہیں

اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں

ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں

ہماری رشتے داری تو نہیں تھی، ہاں تعلق تھا

جو لکشمی چھوڑ آئے ہیں جو درگا چھوڑ آئے ہیں

۔ق۔

کل اک امرود والے سے یہ کہنا آ گیا ہم کو

جہاں سے آئے ہیں ہم اس کی بغیا چھوڑ آئے ہیں

وہ حیرت سے ہمیں تکتا رہا کچھ دیر پھر بولا

وہ سنگم کا علاقہ چھٹ گیا یا چھوڑ آئے ہیں

ابھی ہم سوچ میں گم تھے کہ اس سے کیا کہا جائے

ہمارے آنسوؤں نے راز کھولا چھوڑ آئے ہیں

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا

مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر

تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں

تسلی کو کوئی کاغذ بھی ہم چپکا نہیں پائے

چراغِ دل کا شیشہ یوں ہی چٹخا چھوڑ آئے ہیں

سڑک بھی شیر شاہی آ گئی تقسیم کی زد میں

تجھے ہم کر کے ہندوستان چھوٹا چھوڑ آئے ہیں

ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو

بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں

گزرتے وقت بازاروں میں اب بھی یاد آتا ہے

کسی کو اس کے کمرے میں سنورتا چھوڑ آئے ہیں

ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی

وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں

تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے

ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی

وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں

ہمیں مرنے سے پہلے سب کو یہ تاکید کرنا ہے

کسی کو مت بتا دینا کہ کیا کیا چھوڑ آئے ہیں
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
کبھی تھکن کے اثر کا پتہ نہیں چلتا

وہ ساتھ ہو تو سفر کا پتہ نہیں چلتا

وہی ہوا کہ میں آنکھوں میں اس کی ڈوب گیا

وہ کہہ رہا تھا بھنور کا پتہ نہیں چلتا

الجھ کے رہ گیا سیلاب قریۂ دل سے

نہیں تو دیدۂ تر کا پتہ نہیں چلتا

اسے بھی کھڑکیاں کھولے زمانہ بیت گیا

مجھے بھی شام و سحر کا پتہ نہیں چلتا

یہ منصبوں کا علاقہ ہے اس لئے شائد

کسی کے نام سے گھر کا پتہ نہیں چلتا
***********************

جسے دشمن سمجھتا ہوں وہی اپنا نکلتا ہے

ہر اک پتھر سے میرے سر کا کچھ رشتہ نکلتا ہے

ڈرا دھمکا کے تم ہم سے وفا کرنے کو کہتے ہو

کہیں تلوار سے بھی پاؤں کا کانٹا نکلتا ہے؟

ذرا سا جھٹ پٹا ہوتے ہی چھپ جاتا ہے سورج بھی

مگر اک چاند ہے جو شب میں بھی تنہا نکلتا ہے

کسی کے پاس آتے ہیں تو دریا سوکھ جاتے ہیں

کسی کی ایڑیوں سے ریت میں چشمہ نکلتا ہے

فضا میں گھول دی ہیں نفرتیں اہل سیاست نے

مگر پانی کوئیں سے آج تک میٹھا نکلتا ہے

جسے بھی جرمِ غداری میں تم سب قتل کرتے ہو

اسی کی جیب سے کیوں ملک کا جھنڈا نکلتا ہے

دوائیں ماں کی پہنچانے کو میلوں میل آتی ہیں

کہ جب پردیس جانے کے لئے بیٹا نکلتا ہے
******************


کئی گھروں کو نگلنے کے بعد آتی ہے

مدد بھی شہر کے جلنے کے بعد آتی ہے

نہ جانے کیسی مہک آ رہی ہے بستی میں

وہی جو دودھ ابلنے کے بعد آتی ہے

ندی پہاڑوں سے میدان میں تو آتی ہے

مگر یہ برف پگھلنے کے بعد آتی ہے

وہ نیند جو تیری پلکوں کے خواب بنتی ہے

یہاں تو دھوپ نکلنے کے بعد آتی ہے

یہ جھگیاں تو غریبوں کی خانقاہیں ہیں

قلندری یہاں پلنے کے بعد آتی ہے

گلاب ایسے ہی تھوڑے گلاب ہوتا ہے

یہ بات کانٹوں پہ چلنے کے بعد آتی ہے

شکایتیں تو ہمیں موسم بہار سے ہیں

خزاں تو پھولنے پھلنے کے بعد آتی ہے
**********************


جب بھی دیکھا مرے کردار پہ دھبا کوئی

دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی

لوگ ماضی کا بھی اندازہ لگا لیتے ہیں

مجھ کو تو یاد نہیں کل کا بھی قصہ کوئی

بے سبب آنکھ میں آنسو نہیں آیا کرتے

آپ سے ہوگا یقیناً مرا رشتہ کوئی

یاد آنے لگا ایک دوست کا برتاؤ مجھے

ٹوٹ کر گر پڑا جب شاخ سے پتّہ کوئی

بعد میں ساتھ نبھانے کی قسم کھا لینا

دیکھ لو جلتا ہوا پہلے پتنگا کوئی

اس کو کچھ دیر سنا لیتا ہوں رودادِ سفر

راہ میں جب کبھی مل جاتا ہے اپنا کوئی

کیسے سمجھیگا بچھڑنا وہ کسی کا رانا

ٹوٹتے دیکھا نہیں جس نے ستارہ کوئی
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
بھروسہ مت کرو سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جاتی ہے

چھتیں محفوظ رہتی ہیں حویلی ٹوٹ جاتی ہے

محبت بھی عجب شے ہے وہ جب پردیس میں روئے

تو فوراً ہاتھ کی ایک آدھ چوڑی ٹوٹ جاتی ہے

کہیں کوئی کلائی ایک چوڑی کو ترستی ہے

کہیں کنگن کے جھٹکے سے کلائی ٹوٹ جاتی ہے

لڑکپن میں کئے وعدے کی قیمت کچھ نہیں ہوتی

انگوٹھی ہاتھ میں رہتی ہے منگنی ٹوٹ جاتی ہے

کسی دن پیاس کے بارے میں اس سے پوچھیے جس کی

کنویں میں بالٹی رہتی ہے رسی ٹوٹ جاتی ہے

کبھی اک گرم آنسو کاٹ دیتا ہے چٹانوں کو

کبھی اک موم کے ٹکڑے سے چھینی ٹوٹ جاتی ہے
 
Top