Culture Liaqat ali khan پاکستان کے پہلے وزیراعظم

  • Work-from-home

dream girl

Khwabon se bahre Naina
VIP
Jul 30, 2008
20,331
11,629
0
ITALY
LIAQAT ALI KHAN





پاکستان کے پہلے وزیراعظم




لیاقت علی خان


لیاقت علی خانلیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور 1922 میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی۔ 1923 میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936 میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔


ابتدائی زندگی
نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ 2 اکتوبر، 1896ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر آپ کے لئے قرآن اور احادیث کی تعلیم کی انتظام کروایا۔ 1918 میں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918 میں ہی آپ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد آپ برطانیہ چلے گئے جہاں سے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔


سیاسی زندگی

لیاقت علی خان اپنے خاندان کے ساتھ1923 میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے کے لئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1924 میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ اس اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔

1926 میں آپ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940 میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔

1932 میں آپ نے دوسری شادی کی۔ آپ کی دوسری بیگم رعنا لیاقت علی خان ایک ماہر تعلیم اور معیشت دان تھیں۔ آپ لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں۔


قاتلانہ حملے
16 اکتوبر 1951ء کی اس شام کمپنی باغ راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں لیاقت علی خاں کے قتل کو ایک انفرادی جرم قرار دینا مشکل ہے ۔ وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کے فوراً بعد کمپنی باغ میں ہونے والے واقعات پر ان گنت سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

وزیر اعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس تو موجود تھے مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ، آئی جی پولیس قربان علی خاں اور ڈی آئی جی، سی آئی ڈی انور علی غائب تھے۔ درحقیقت جلسہ گاہ میں فرائضِ منصبی پر مامور پولیس کا اعلی ترین عہدیدار راولپنڈی کا ایس پی نجف خاں تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل یوسف خٹک پنڈی میں تھے مگر جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے۔

گولی کی آواز سنتے ہی نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، ’اسے مارو‘۔ نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا پولیس کا ضلعی سربراہ اضطراری حالت میں یاد رکھ سکتا ہے کہ اس کے درجنوں ماتحت تھانیدار کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے؟

جب انسپکٹر شاہ محمد نے سید اکبر پر ایک دو نہیں، پانچ گولیاں چلائیں، اس وقت سفید پوش انسپکٹر ابرار احمد نے حاضرینِ جلسہ سے مل کر قاتل سے پستول چھین لیا تھا اور اسے قابو کر رکھا تھا ۔ کیا انسپکٹر شاہ محمد قاتل پر قابو پانے کی بجائے اسے ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے؟

لیاقت علی کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کا کہنا ہے کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنایا گیا، اصل قاتل کوئی اور تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیاقت علی خاں کو گولی سامنے سے نہیں، عقب سے ماری گئی تھی۔ جلسہ گاہ میں موجود مسلم لیگ گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے۔ اس کے جسم پر بھالوں کے درجنوں زخم تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس بہت سے مسلح افراد موجود تھے جس سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشاندہی ہوتی ہے۔

نجف خاں کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی جس سے جلسہ گاہ میں افراتفری پھیل گئی اور زخمی وزیراعظم کو طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ہوائی فائرنگ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔

ایس پی نجف خاں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ماتحتوں کو ہوائی فائرنگ کا حکم نہیں دیا بلکہ ایس پی نے اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کر لی۔ انکوائری کمیشن کے سامنے اس ضمن میں پیش کیا جانے والا حکم 29 اکتوبر کا تھا۔ تاہم عدالت نے رائے دی کہ ریکارڈ میں تحریف کی گئی تھی۔ اصل تاریخ 20 نومبر کو بدل کر 29 اکتوبر بنایا گیا مگر اس کے نیچے اصل تاریخ 20 نومبر صاف دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نجف خاں نے فائرنگ کا حکم دینے کے الزام کی تردید کا فیصلہ 20 نومبر کو کیا۔ سرکاری کاغذات میں ردوبدل ایس پی نجف خاں کے سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ وارانہ بددیانتی کا پختہ ثبوت تھا۔

انکوائری کمیشن کے مطابق نجف خاں نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوئی لیکن انہیں باعزت بحال کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی صورت حال کے لیے طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں تھا حتٰی کہ کسی زخمی کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولنس تک موجود نہیں تھی۔

چاروں طرف اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں اور چند افراد اس بھگڈر میں سید اکبر کو ختم کرنے میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ ایک وزنی آرائشی گملا اٹھا لائے اور اسے سید اکبر پر دے مارا جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری میں سید اکبر پر حملہ کرنے والوں کا اطمینان حیران کن تھا۔

سید اکبر نے زرد رنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی نہیں تھی۔ واردات کے فوراً بعد یہ افواہ کیسے پھیلی کہ قاتل خاکسار تھا بلکہ صوبہ بھر میں خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئیں۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی؟

خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غلام محمد پنڈی ہی میں تھے۔ دونوں نے جلسے میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم کے قتل کی خبر پاتے ہی یہ اصحاب صلاح مشورے کے لیے جمع ہو گئے۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اس وقت پہنچی جب نیم مردہ وزیراعظم کو جلسہ گاہ سے باہر لایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی صاحب ان کے جسد خاکی کو ہسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے روز کراچی میں تدفین تک منظرِ عام پر نہیں آئے۔

اس سازش کے ڈانڈوں پر غور و فکر کرنے والوں نے تین اہم کرداروں کی راولپنڈی سے بیک وقت دُوری کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن کے ہسپتال میں تھے اور سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے اگلے احکامات کے منتظر تھے۔

قتل کی تفتیش

غلام نبی پٹھان (تب جوائنٹ سیکرٹری مسلم لیگ) کے مطابق لیاقت علی کے قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی، چالان پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چلایا گیا۔

جسٹس منیر اور اختر حسین پر مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد لیاقت علی خان کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا۔ بیگم لیاقت علی کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اور سرحد کے پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہوگئے۔

انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت مبہم اور بڑی حد تک بے معنی تھے۔ مثال کے طور پر :

الف) ہم بیان کردہ واقعات کی بنا پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ معاملہ زیرِ تفتیش ہے۔ تحقیقات کرنے والے افسر کئی نظریات پر غور و فکر کر رہے ہیں۔

ب) اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ ملا ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان خط و کتابت ہو رہی ہے ۔ ہم نے ان سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ان کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں ہے۔

ج) سید اکبر کا کسی سازش سے تعلق معلوم نہیں ہو سکا، بہرحال ایک قابل پولیس افسر مصروفِ تفتیش ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایک یا دو سازشوں سے سید اکبر کے تعلق کا پتہ مل جائے گا۔

د) اگر سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم ایسے بھیانک جرم کے سازشیوں کا اتا پتا معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔

سید اکبر کی موت کے متعلق پولیس رپورٹ میں سب انسپکٹر محمد شاہ کی فائرنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس چشم پوشی کا مقصد پولیس کی غفلت یا ملی بھگت پر پردہ ڈالنا تھا۔
 

ENCOUNTER-007

Newbie
Feb 10, 2011
516
834
0
Medan e Jihad
قائد ملت لیاقت علی خان ایک نفیس انسان تھے
اور قائد اعظم صاحب کے دست راست تھے
ان کی شہادت یقینا قوم و ملت کے لئے عظیم نقصان تھا کیوں کہ قائد ملت قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کو علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر اور قائد اعظم رحمہ اللہ کی سوچ اور فکر پر پاکستان میں خلافت راشدہ کے نظام کو نافذ کرنے کے لئے کوشاں تھے
یہی وجہ ہے کہ وفات قائد کے چند ماہ بعد لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظور کرکے پاکستان میں نظام خلافت کی بنیاد قائم کی
اور یہی وہ نظام خلافت کی بنیاد ہے جس پر انہیں شہید کیا گیا

آج بھی پاکستانی قوم اپنے ان محسنوں کے خواب کو پورا ہونے کی راہ دیکھ رہی ہے
انشاء اللہ یہ خواب پورا ہوکر رہے گا

 

Atif-adi

-{عادي}-{Adi}-
VIP
Oct 1, 2009
34,469
21,486
1,313
Sharjah, U.A.E
nice share, ye wo pehla hadsa hia pakistan me curuption ki shuruwat ka is k bad wo sisla ab tak chal raha hai...

he was the one who said k pakistanio ko english bhi seekhni chaiye n Ala taleem bhi seekhni chiaye,
to wo kaun they jo in k khilaf they? kaun they jo kehte they k hum yahoodi isaio ki zaban nai seekhenge? kaun they jo logo me shaour n taleem lana hi nai chahte the?? ye wohi hain jinhu ne is azeem hasti ka katal kia...

aj bhi sisla wahi ka wahi hain, hum waha k waha hi khare
hain...

Circumstances which led to the Creation of Pakistan
Pakistan and the Modern World’ is, in fact, the speech of Liaquat Ali Khan that he made at University of Kansas, America. In his speech he tried to introduce Pakistan to the modern world by justifying the causes of its creation and highlighting its future expectations from the developed nations of the world.
 

Redvirus

Business Opportunities Network
VIP
Jul 3, 2009
13,363
7,771
1,313
Torino, Italy
Mate ye Sir Syed Ahmed khan ki bat kar rahy ho ap. Liaqat ali khan ny aisa kuch ni kaha tha. English seekhny ka concept Sir Syed Ahmed khan ny uthaya tha sb sy pehly.

Liaqat Ali khan sahib ny to Quaid e azam ko pehly din offer ki the america ki k qarza ly lo 2 rupy par 1 rupiya wapis karna pary ga at that time Quaid e azam said k agr KARZ HE LYNA THA TO PAKISTAN BNANY KI ZARORAT KYA THE. Quadi E Azam was the only loyal leader for Pakistan
.
 

Atif-adi

-{عادي}-{Adi}-
VIP
Oct 1, 2009
34,469
21,486
1,313
Sharjah, U.A.E
Mate ye Sir Syed Ahmed khan ki bat kar rahy ho ap. Liaqat ali khan ny aisa kuch ni kaha tha. English seekhny ka concept Sir Syed Ahmed khan ny uthaya tha sb sy pehly.

Liaqat Ali khan sahib ny to Quaid e azam ko pehly din offer ki the america ki k qarza ly lo 2 rupy par 1 rupiya wapis karna pary ga at that time Quaid e azam said k agr KARZ HE LYNA THA TO PAKISTAN BNANY KI ZARORAT KYA THE. Quadi E Azam was the only loyal leader for Pakistan.
han per inhun ne bhi english seekhne ka n alam taleem ka kaha tha...
n do u think his murder was a good sign?
 
  • Like
Reactions: ENCOUNTER-007

ENCOUNTER-007

Newbie
Feb 10, 2011
516
834
0
Medan e Jihad
ریڈ وائرس بھائی نے بالکل درست فرمایا
میں یہاں دو باتوں کی وضاحت کردوں

انگریزی ایک زبان ہے، علم نہیں
زبان سیکھنے کی ممانت نہیں اور نہ ہی کوئی روکتا ہے
لیکن علم اپنی قومی زبان میں حاصل کر نا ضروری ہوتا ہے
ہمارا بچہ انگلش میڈیم میں پڑھتا ہے
اس کے سامنے پورا ماحول اردو کا ہوتا ہے یعنی گھر میں اردو بولی جاتی ہے باہر اردو بولی جاتی ہے اور اسکول میں وہ لٹری
چر انگلش میں پڑھتا ہے
یہی وجہ ہے کہ ہمارا بچہ علم تو نہیں سیکھ پاتا صرف اردو اور انگریزی زبان میں الجھ کر رہ جاتا ہے وہ انگریزی زبان جانتا نہیں وہ علم کو کیسے جانے گاپندرا بیس سال اسے صرف انگریزی زبان سیکھنے اور اسے سمجھنے میں لگ جاتا ہے لہذا اتنے سال جو پڑھا وہ سب بیکار صرف رٹا لگا کر بغیر سمجھے پاس ہوجاتا ہے
لہذا بنیادی مسلہ علم حاصل کرنا ہے اور ایسی صورت میں نرسری سے صرف اپنی زبان میں ہی علم حاصل کیا جاسکتا ہے
ساتھ ساتھ انگریزی زبان بھی سیکھے لیکن علم اپنی زبان میں حاصل کرنا ہوگا
دنیا میں تقریبا ترقی یافتہ ممالک جن کی زبان انگریزی سے الگ ہے انہوں نے علم کے لئے انگریزی زبان کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنی زبان میں علم حاصل کرکے ترقی کی چین اور جاپان ہمارے سامنے ہے
لہذا یہ بات نوٹ کرلینے کی ہے کہ زبان اور علم الگ الگ ہے
دوسری بات
انگریزی کا مسلہ سر سید احمد خان کے زمانے میں پیش آیا تھا اس وقت بیک گراؤنڈ ، پسمنظر کچھ اور تھا اس وقت انگریز کے خلاف دینی تحریکیں چل رہیں تھیں اور مسلمانوں نے انگریز کے خلاف محاذ قائم کئے تھے
دو بنیادی باتیں تھی دینی جماعتوں کے اکابر انگریز کے خلاف برسر پیکار ہو کر انگریز کو برصغیر سے بے دخل کرنا چاہتے تھے اور سر سید احمد خان کی سوچ تھی کہ ہندو انگریز کے قریب ہوتا جارہا ہے اور انگریز اب مسلمانوں کی جگہ ہندؤں کو حیثیت دے رہا ہے لہذا ہمیں یہ مزاحمت والا راستہ چھوڑ کر انگریز کے قریب آنا چاہئے اور انگریزی زبان سیکھ کر انگریز کے وزارتوں میں حصہ داری لینی چاہئے ورنہ اگر انگریز کے دربار میں ہندؤں کی مکمل رسائی ہوئی تو مسلمانوں کے لے پریشانی ہوگی
یہ بنیادی معاملہ تھا اس وقت اور یہی ہوا آگے چل کر کانگریس نے پہلی بار انیسو ارٹیس میں الیکشن کے ذریعے انگریز سے وزارتیں لینے میں کامیاب ہوئے

 
  • Like
Reactions: Atif-adi

Atif-adi

-{عادي}-{Adi}-
VIP
Oct 1, 2009
34,469
21,486
1,313
Sharjah, U.A.E
ریڈ وائرس بھائی نے بالکل درست فرمایا
میں یہاں دو باتوں کی وضاحت کردوں

انگریزی ایک زبان ہے، علم نہیں
زبان سیکھنے کی ممانت نہیں اور نہ ہی کوئی روکتا ہے
لیکن علم اپنی قومی زبان میں حاصل کر نا ضروری ہوتا ہے
ہمارا بچہ انگلش میڈیم میں پڑھتا ہے
اس کے سامنے پورا ماحول اردو کا ہوتا ہے یعنی گھر میں اردو بولی جاتی ہے باہر اردو بولی جاتی ہے اور اسکول میں وہ لٹری
چر انگلش میں پڑھتا ہے
یہی وجہ ہے کہ ہمارا بچہ علم تو نہیں سیکھ پاتا صرف اردو اور انگریزی زبان میں الجھ کر رہ جاتا ہے وہ انگریزی زبان جانتا نہیں وہ علم کو کیسے جانے گاپندرا بیس سال اسے صرف انگریزی زبان سیکھنے اور اسے سمجھنے میں لگ جاتا ہے لہذا اتنے سال جو پڑھا وہ سب بیکار صرف رٹا لگا کر بغیر سمجھے پاس ہوجاتا ہے
لہذا بنیادی مسلہ علم حاصل کرنا ہے اور ایسی صورت میں نرسری سے صرف اپنی زبان میں ہی علم حاصل کیا جاسکتا ہے
ساتھ ساتھ انگریزی زبان بھی سیکھے لیکن علم اپنی زبان میں حاصل کرنا ہوگا
دنیا میں تقریبا ترقی یافتہ ممالک جن کی زبان انگریزی سے الگ ہے انہوں نے علم کے لئے انگریزی زبان کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنی زبان میں علم حاصل کرکے ترقی کی چین اور جاپان ہمارے سامنے ہے
لہذا یہ بات نوٹ کرلینے کی ہے کہ زبان اور علم الگ الگ ہے
دوسری بات
انگریزی کا مسلہ سر سید احمد خان کے زمانے میں پیش آیا تھا اس وقت بیک گراؤنڈ ، پسمنظر کچھ اور تھا اس وقت انگریز کے خلاف دینی تحریکیں چل رہیں تھیں اور مسلمانوں نے انگریز کے خلاف محاذ قائم کئے تھے
دو بنیادی باتیں تھی دینی جماعتوں کے اکابر انگریز کے خلاف برسر پیکار ہو کر انگریز کو برصغیر سے بے دخل کرنا چاہتے تھے اور سر سید احمد خان کی سوچ تھی کہ ہندو انگریز کے قریب ہوتا جارہا ہے اور انگریز اب مسلمانوں کی جگہ ہندؤں کو حیثیت دے رہا ہے لہذا ہمیں یہ مزاحمت والا راستہ چھوڑ کر انگریز کے قریب آنا چاہئے اور انگریزی زبان سیکھ کر انگریز کے وزارتوں میں حصہ داری لینی چاہئے ورنہ اگر انگریز کے دربار میں ہندؤں کی مکمل رسائی ہوئی تو مسلمانوں کے لے پریشانی ہوگی
یہ بنیادی معاملہ تھا اس وقت اور یہی ہوا آگے چل کر کانگریس نے پہلی بار انیسو ارٹیس میں الیکشن کے ذریعے انگریز سے وزارتیں لینے میں کامیاب ہوئے

yep i agreed wid u bhai apka naam to hume nai pata per apne bilkul durust kaha hai k english k sath sath hume apni qaumi zaban bhi seekhni chiaye be shak... :) n ye such hai ajkal hum apni hi zaban se duur hote ja rahe hain...

n apki dosri baat k lie me ye kahunga k bht bht shukriya sir syed ahmed khan ki hsitory pari hai mene bahi, n apne sahi farmaya bilkul :)
 
  • Like
Reactions: ENCOUNTER-007

ENCOUNTER-007

Newbie
Feb 10, 2011
516
834
0
Medan e Jihad


yep i agreed wid u bhai apka naam to hume nai pata per apne bilkul durust kaha hai k english k sath sath hume apni qaumi zaban bhi seekhni chiaye be shak... :)
شکریہ بھائی
میرا نام ریحان تقدیس ہے
آپ کے سوالات کے ضمن میں ایک پوسٹ کے آخر میں اپنا نام لکھا تھا لیکن شاید آپ کی نظر نہیں پڑی

 

ramza

Newbie
Jul 28, 2011
1
0
0
26
NABI ney farmaya hai ki ALLAH se tum daro gulamo
NABI ney farmaya hai ki ALLAH ki tahjim karo gulamo
 
Top