Jazbati Larki

  • Work-from-home
Sep 2, 2008
1,451
674
0
U.S.A
میں فرنٹ آفس میں داخل ہوا۔
" سر، یہ اسٹوڈنٹ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ میں نے بتایا کہ کلاس ختم ہونے میں دو گھنٹے ہیں اور فوری آپ کی دوسری کلاس ہے۔ مگر وہ دو گھنٹے سے بیٹھی ہے"۔ میری سیکرٹری نے کہا۔ " ٹھیک ہے پانچ منٹ کے بعد اندر بھیج دو "۔ میں نے سیکرٹری کی بات کو نظر انداز کر کے کہا۔ کیونکہ میرے اسٹوڈینٹ ہمیشہ مشوروں کے لیے بے وقت آتے جاتے ہیں ۔
آفس میں داخل ہو کر میں نے اپنے اسکیجول پر نگاہ ڈالی۔ اگلی کلاس آدھا گھنٹے بعد اسی فلور پر پڑھانا تھی۔ میں نے اندازہ لگایا، دس منٹ کلاس روم تک پہنچنے کے، دس منٹ نوٹس اور لیکچر کے کاغذات کو اکٹھے کرنے کے۔ میرے پاس اس لڑکی کے لیےصرف دس منٹ بچتے تھے۔
دروزاہ کھلا اور وہ خاموشی سے آ کر ڈیسک کے قریب کھڑی ہو گی۔ وہ چھوٹے قد کی ایک قبول صورت لڑکی تھی۔ جس کے کمر تک کالے لمبے بال ایک ربر بینڈ کی مدد سے پونی ٹیل میں بنے ہوئے تھے۔
" بولو"۔
اس نےایک پرچہ میرے سامنے رکھ دیا۔
" یہ کیا؟ "
" تمہارا اسائنمنٹ "۔
" تمہیں پتہ ہے کہ میں اسائنمنٹ نہیں دیکھتا۔ اسے اپنے مقررہ ٹیچر اسسٹنٹ کو دے دو "۔
" نہیں۔ یہ اسائنمنٹ نہیں ہے۔ مجھے آپ سے میرے سوال کا جواب چاہیے۔ مجھے بتائیے کہ میں کیا کروں؟"۔
اُس کی آواز میں اضطراب تھا مگر مضبوطی اور سختی بھی۔
" ٹھیک ہے ۔ باہر انتظار کرو "۔ میں نے کہا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔وہ خاموشی سے مڑی اور دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
میں نے اپنے پڑھانے کے کاغذات جمع کر کے بریف کیس میں رکھے اور آنکھ بند کر کے آرام کرنے لگا۔ جب میں نے آنکھ کھولی تو گھڑی کے مطابق اب میرے پاس دس منٹ رہ گئے تھے۔ میں ڈیسک پر رکھے ہوئے پرچے کو بھول چکا تھا۔
دروازے کی طرف بڑھتے ہوےے مجھےخیال آیا کہ وہ لڑکی باہر بیٹھی ہو گی۔ایک سیکنڈ کے لیے میں نےسوچا کہ بازو کےدروازے سےنکل جاؤں وہ دیکھ نہ پائے گی۔ مگر شرم محسوس ہوئی ۔ میں نے پرچے کو اُٹھایا اور صوفے پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کیا۔
" میرا نام سدرہ ہے ۔ کچھ عرصہ پہلےمیری ملاقات شبنم سے ہوئی ۔ ہم دونوں فوراً دوست بن گئے۔ شبنم بہت بے باک ہے اور لڑکے اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ لڑکوں کےساتھ اکیلی بھی جاتی ہے۔ میں شروع سے ہی اس کےدوستوں سے دور رہی۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنےساتھ پارٹیوں میں لےجانا چاہتی تھی۔ میں منع کر دیتی تھی۔ ایک دن اس نےمجھے اپنے ایک دوست سےملایا۔ جاوید اس کا نام ہے ۔ وہ کالج کے آخری سال میں ہے۔ جاوید سندر ہے اور میں اُسے پسند کرنے لگی۔ تھوڑا عرصہ بعد شبنم کے کہنے پر ہم تینوں باہر ملنے لگے۔ ۔ جاوید مجھ سے ہمیشہ اچھی طرح پیش آتا۔ مجھےایسا لگا کہ وہ بھی مجھے پسند کرتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد جاوید اور میں نے اکیلے ملنا شروع کر دیا۔ ۔ میں جاوید کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔
کچھ عرصہ گزرا اور ایک میچ ملانے والی ہمارےگھر آئیں۔ انہوں نےماں کو بتایا کہ ایک عزت دار اور مالدارگھرا نا اپنے لڑکے کے لیے ایک قبول صورت ،گھریلو، کم پڑھی لکھی لڑکی کی تلاش میں ہے ۔ تمہاری لڑکی ایسی ہی ہے۔ لڑکا ماشا اللہ خوبصورت ہے اور جلد ہی تعلیم ختم کر کے باپ کے ساتھ بزنس میں شرکت کرے گا۔ ماں نےمجھ سے پوچھا۔ میں نےماں سے کہا میں ابھی شادی نہیں کروں گی۔ میں کالج کی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں۔
کچھ دنوں بعد لڑکے کی فیملی مجھے دیکھنے آٰئی اور مجھے پسند کیا۔ اس کے بعد ایک دن وہ لڑکے کو لائے تا کہ میں بھی پردے سے اس کو دیکھ سکوں۔ میں تو جاوید کی محبت میں گرفتار تھی اوراس سے مل بھی رہی تھی۔ میں نےلڑکے کو دیکھنے سے انکار کر دیا اور ماں سے کہا میں شادی نہیں کروں گی۔ ماں باپ کو لڑکا اورگھرانا پسند آیا اور شادی طے ہو گئی۔ میں بہت روئی مگر کوئی چارہ نہ تھا۔ میرا گھر سے باہر نکلنا بند ہو گیا۔ میں جاوید سے مل بھی نہ سکی۔ شادی کا دن آیا اور میں دلہن بنی بیٹھی تھی۔ دروازہ کھلا اور میرا شوہر کمرے میں داخل ہوا ۔میں نے گھونگٹ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ یہ کون! یہ تو جاوید ہے۔ میرا دل خوشی میں زور زور سےدھک دھک کرنے لگا۔ یا اللہ میں کتنی خوش قسمت ہوں۔ تیری مہربانی ہے۔ میں نے قدموں کے قریب آنے کی آواز سننی ۔ اب میرا دل زور و شور سےدھڑک رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جاوید بھی اس ملاپ پرخوش ہو گا۔ جاوید نےمیرا گھونگٹ اُٹھایا۔ مجھے دیکھ کر جاوید کےچہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔ مجھے ایسا لگا جیسے اُسےسانپ نے کاٹ لیا ہو اور وہ غصہ میں چلایا۔
" آوارہ، طوائف "۔
پھر وہ بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ میں ساری رات روتی رہی۔ میں نے کیا غلطی کی؟۔ میں خراب لڑکی نہیں ہوں۔
دوسرے دن جاوید کےگھر والوں نے مجھےمیرے باپ کےگھر بھیج دیا اور طلاق مانگی۔ تمام کوششوں کے باوجود ہماری طلاق ہو رہی ہے۔ میرے اور جاوید کےخاندان کو میرے آوارہ ہونے پر یقین آ گیا ہے۔ میرا اب کوئی نہیں ہے۔ میں کیا کروں؟ پروفیسر میں کیا کروں؟ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس اس کا جواب ہے۔ اگر آپ کے پاس اس کا جواب نہیں تو میں خود کشی کر لوں گی“۔
میں اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔
وہ فرنٹ آفس میں نہیں تھی ۔
" وہ لڑکی کہاں ہے؟"۔
میں سیکرٹری پر چلایا۔
" سر وہ ابھی باہر نکلی ہے۔ آپ اس کو لفٹ میں داخل ہونے سے پہلے پکڑ لیں گے"۔ سکریٹری نے بوکھلا کر کہا۔
" میری کلاس کینسل کر دو"۔ میں نے دروازے کی طرف دوڑتے ہوئے کہا۔
لفٹ کےقریب کوئی نہیں تھا۔ سیدھے ہاتھ پر دوسری منزل کا بیس فٹ چوڑا کھلا برآمدہ تھا۔میں اس طرف دوڑا۔ وہ برآمدہ کی تین فٹ دیوار پر کھڑی تھی۔
" ٹھہرو ، میرے پاس حل ہے" ۔ میں نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت استعمال کی اور دیوار کی طرف دوڑا مگر وہ جاچکی تھی۔۔۔
دیوار کے پاس پہنچ کر میں نے نیچے دیکھا۔ وہ منہ کے بل زمیں پر تھی اس کی بانہیں دونوں طرف اُڑتے پرندے کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کے لمبے بال بکھر گئے اور بالوں نے اُس کے اوپری جسم کو ڈھانپ لیا ۔
سامنے کے درخت پر ایک چیل نے چیخ ماری اور محو پرواز ہوئی ۔
" دیکھو میں تمھارے بغیر بھی اُڑتی ہوں"۔ چیل پھر چلائی۔
میرا دل چیخا مگر میری زبان نےساتھ نہ دیا۔
میرے دل رویا مگر میری آنکھوں نے انکار کر دیا۔
صرف ہاتھوں نےساتھ دیا وہ فضا میں بلند ہوئے اور میں اپنا سر پکڑ کر فرش پر بیٹھ گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

abdulbasit91

Newbie
Jan 6, 2010
1
0
0
37
yar story zaror likhay magar hindi zaban use mat karain {:)P)}{:)P)}{(angry)}what is sunder is kay badlay khubsorat bhi to likh saktay hayn
 
Top