Bhook Tehzeeb K Aadaab Bhula Daiti Hey (بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے)

  • Work-from-home

Lost Passenger

Senior Member
Aug 10, 2009
889
1,976
1,293
Loh-e-jahan pe herf-e-mukerer nahin hoon main
Assalam-o-Alaikum
Bhook Tehzeeb K Aadaab Bhula Daiti Hey
Based on a true story
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
میں اور ولید بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھھ ساتھھ ہیں اس لیئے گہرے دوست ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہماری سوچ بھی ملتی ہے بہت ساری معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف رہتا تھا لیکن ایک ان پڑھ نے نا صرف میری سوچ بدل دی بلکہ میرا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیا میں نے ہمیشہ علم کو دنیا میں ایک مقام حاصل کرنے کا زریعہ سمجھا لیکن ولید کی سوچ مجھھ سے مختلف تھی وہ کہتا تھا علم ہمیں ہمارے صحیح اور غلط کی پہچان کراتا ہے ہمیں ہمارے رب کے نزدیک کرتا ہے بلکہ ہمیں خود اپنے آپ سے بھی ملواتا ہے وہ کہتا ہے"علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا ہمارے اطراف میں بےشمار پڑھے لکھے جاہل بستے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریوں کے مالک ہیں اور ان ڈگریوں کے حصول کے لیئے انھوں نے بہت محنت کی ہے لیکن کس کام کا وہ علم جو ہمیں بزنس کے اسرار و رموز تو سکھاتا ہے لیکن غربت کا خاتمہ کس طرح ہوگا یہ نہیں سکھاتا جو میرے بزنس میں گھاٹے کی تکلیف کا احساس تو مجھے دلاتا ہے لیکن کسی دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کے فن سے نا آشنا رکھتا ہے جو ہمیں کپڑے پہننے کا سلیقہ تو سکھاتا ہے لیکن سردی میں ٹھٹرتے کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کے خیالات سے دور رکھتا ہے جو مجھے یہ بتاتا ہے کہ مشکل میں صدقہ خیرات کرو لیکن اللہ کا شکر ادا کرنے کی سوچ سے دور رکھتا ہے جو کبھی میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہونے دیتا کہ مجھے مرنا بھی ہے جسے صرف اپنا پیٹ بھرنے سے مطلب ہے جسے اپنے اطراف میں بھوک سے بلکتے لوگ اور بچے نظر نہیں آتے جو انھیں جھڑک دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ "بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے" تو کچھھ اس قسم کے خیالات تھے اُسکے اور پھر ہوا یوں کہ وہ اپنی سوچ کے تحت آگے بڑھتا چلا گیا اور میں سیاست میں آگیا لیکن ہم آج بھی بہت گہرے دوست ہیں خیر یہ سب چھوڑیئے ہم اپنی اسٹوری کی طرف آتے ہیں جہاں سے میری اس سوچ کی تبدیلی کا آغاز ہوا، یہ آج سے کوئی 5 سال پہلے کی بات ہے آیئے آپ کو آنکھوں*دیکھا حال سناتے ہیں، "آج کا دن میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے آج میں نے اپنے سیاسی کیریر کی پہلی کامیابی حاصل کی ہے اور میں اپنے شہر کے ایک بہترین حلقے کا کونسلر بنا ہوں اور اپنے ہی حلقے میں آج میں نے وہ گھر خریدا ہے جسے خریدنے کا میں ایک عرصے سے خواہشمند تھا وہ گھر ہر لحاظ سے بہترین ہے بس اُس میں ایک ہی بات مجھے ُالجھن میں مبتلا کرتی ہے اور وہ ہے میرا پڑوسی بظاہر یہ ایک عام سا انسان ہے جو میری زباں میں نرا جاہل ہے سبزی منڈی میں کام کرتا ہے کیا کام کرتا ہے یہ میں نے جاننے کی کوشش نہیں کی بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اتنا ضرور کماتا ہے کہ اپنی فیملی کو اچھی طرح پال رہا ہے" وقت گذرتا چلا گیا اور میں اپنے علاقے میں اپنے کام کی بدولت مقبول ہوتا گیا لیکن میری سوچ وہیں کی وہیں رہی اور میں نے اپنی بیگم اور بچوں کو اپنے پڑوس سے دور ہی رکھا، آیئے آگے چلتے ہیں " آج کا دن کچھھ عجیب سا ہے ایک اداسی اور نا معلوم سی اُلجھن اور پریشانی سی طاری ہے کیوں یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا شاید اسکی وجہہ یہ رہی ہو کہ میں نے پچھلے تین دنوں سے اپنے پڑوسی یا اُسکے بچوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا میں ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں اور کھانا کھانے بیٹھا ہی ہوں کہ ہمارے پڑوسی کی سب سے چھوٹی بیٹی جو غالباً 6 یا 7 برس کی رہی ہوگی ہمارے گھر آگئی شاید وہ آج پہلی بار ہمارے یہاں آئی ہوگی میں نے اُسکی جانب دیکھا وہ عجیب سی نظروں سے کھا نے کی جانب دیکھھ رہی ہے میں نے سوچا کہ یہ تعلیم کے نا ہونے کی وجہہ ہے کہ بچوں کو یہ تہذیب سکھاتے کہ کسی کے گھر جاکر کھانے کو ایسی ندیدی نظروں سے نہیں گھورتے میری بیگم نے اُسے کھانے کے لیئے بلایا ہے لیکن اُس نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے صرف اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ وہ اُس پوچھے کیا بات ہے اور میری بیگم نے اُس سے پوچھھ کر جو مجھے بتایا ہے اُسے سن کر میرے ہاتھوں سے نوالہ گر گیا ہے اور مجھے اپنی سوچ پر شرم آنے لگی اور میرے اندر سے یہ آواز آئی کہ کیا تم نہیں جانتے کہ"بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے"، اُس نے کہا ہے کہہ " ہمارے گھر میں 3 دنوں سے کسی نے کچھھ نہیں کھایا اور جب اُس سے کہا کہ بتایا کیوں نہیں تو اُس کا جواب ہے کہ ابو نے منع کیا تھا کسی کو بتانے سے بھی اور گھر سے باہر جانے کو بھی میں اپنے گھر سے سارا کھانا لے کر اپنے پڑوسی کے گھر آگیا ہوں کہ میری سوچ کیسی بھی رہی ہو شاید ابھی اتنی بھی نھیں بگڑی کہ اللہ کا یہ فرمان بھول جاؤں کہ،
اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالٰی تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(٤)٘(سورة النساء . آیت36)
وہ میرے سامنے خاموشی سے کھڑا ہے میں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا تم نے نا صرف خود اس بات کو دوسروں سے چھپایا بلکہ بچوں کو بھی بتانے اور گھر سے باہر نکلنے سے منع کردیا اور میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھاتا رہا تم نے کیوں مجہے گناہ گار کیا؟ تو میری نظر میں اُس جاہل اور گنوار شخص نے مجھے جو جواب دیا اُس نے نا صرف مجھے ہلا کر رکھھ دیا بلکہ علم کے حوالے سے میری سوچ کو بدل ڈالا وہ کیا کہہ رہا ہے آپ بھی سنیئے وہ کہہ رہا ہے "اللہ نے ساری زندگی کھلایا ہے اور بہت اچھا کھلایا ہے تو اگر 3 دن کھانے کو نہیں ملا تو کیا میں دنیا کے سامنے رونا شروع کردوں " میں ایک لمحے کے لیئے سناٹے میں آگیا کہ مجھے اُس ین پڑھ شخص سے ایسے کسی بھی جواب کی توقع نہیں تھی اور دوسرے ھی لمحے ولید کا یہ جملہ میری یاداشت پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا "علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا" اور میرا اپنا آپ مجھھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہہ واقعئ ایسے ھی ہوتے ہیں علم والے جو اپنے رب کے حضور ہر حال میں شکر گذار رہتے ہیں مجھے سمجھھ آگئ تھی کہہ اُس نے مجھے نہیں بتایا تو اس میں اُس کا قصور نہیں تھا میں* اُس کا پڑوسی ہوتے ہؤئے بھی بے خبر رہا تو یہ تو میرا کام تھا اور آج اس بات کو گو کہ کافی عرصہ گذر چکا ہے لیکن مجھے آج بھی یاد ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک میری استطاعت ہے اپنے اطراف میں بھوک کے عفریت کے شکار لوگوں اور خاص کر بچوں کی مدد کر سکوں لیکن میں اکیلا کچھھ بھی نہیں کرسکتا کیا آپ اس میں میری کچھھ مدد کریں گے اور اگر آپ کا جواب ہاں میں*ہے تو آپ بھی تلاشیئے ایسے لوگوں کو اور اُن کی مدد کیجیئے اور ہمیشہ یاد رکھیئے کہ،
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں (١) بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں(سورة البقرة . آیت177)
اللہ ہم سب کو علم اور ہدایت کی روشنی سے نوازے
آمین
 

yoursks

Always different.., Confirm
VIP
Jul 22, 2008
17,222
8,013
1,113
دعاؤں میں
@Lost Passenger - bohat sabaq amooz baat hai..., zaroorat iss baat ki hai hum apne khol se baahir nikal kar sochaen or daikhen...., keh dunya kis haal maen hai....,
hum khud apni zaat se kis hud tak kisi ki madad kar sakte haen, aya mera parosi kisi mushkil maen giraftaar to naheen hai..., mera dost, rishtedaar meri madad ka talabgaar to naheen hai, yeah meri apni koshish honi chahiye, iss ke liye hamaen khud hee step lena chahiye nah ke iss baat ka intezaar ho keh doosra aake apni problem bataye or maen kuch karun....
in simple to say that "No Thinking / Waiting but to take next step...."

Allah hamen samajh or taufeeq ataa farmaye, ameen
 

ShyPrincess

Iz Perfectly Imperfect :)
TM Star
Oct 29, 2012
3,488
3,520
1,313
TX
Assalam-o-Alaikum
Bhook Tehzeeb K Aadaab Bhula Daiti Hey
Based on a true story
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
میں اور ولید بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھھ ساتھھ ہیں اس لیئے گہرے دوست ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہماری سوچ بھی ملتی ہے بہت ساری معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف رہتا تھا لیکن ایک ان پڑھ نے نا صرف میری سوچ بدل دی بلکہ میرا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیا میں نے ہمیشہ علم کو دنیا میں ایک مقام حاصل کرنے کا زریعہ سمجھا لیکن ولید کی سوچ مجھھ سے مختلف تھی وہ کہتا تھا علم ہمیں ہمارے صحیح اور غلط کی پہچان کراتا ہے ہمیں ہمارے رب کے نزدیک کرتا ہے بلکہ ہمیں خود اپنے آپ سے بھی ملواتا ہے وہ کہتا ہے"علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا ہمارے اطراف میں بےشمار پڑھے لکھے جاہل بستے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریوں کے مالک ہیں اور ان ڈگریوں کے حصول کے لیئے انھوں نے بہت محنت کی ہے لیکن کس کام کا وہ علم جو ہمیں بزنس کے اسرار و رموز تو سکھاتا ہے لیکن غربت کا خاتمہ کس طرح ہوگا یہ نہیں سکھاتا جو میرے بزنس میں گھاٹے کی تکلیف کا احساس تو مجھے دلاتا ہے لیکن کسی دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کے فن سے نا آشنا رکھتا ہے جو ہمیں کپڑے پہننے کا سلیقہ تو سکھاتا ہے لیکن سردی میں ٹھٹرتے کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کے خیالات سے دور رکھتا ہے جو مجھے یہ بتاتا ہے کہ مشکل میں صدقہ خیرات کرو لیکن اللہ کا شکر ادا کرنے کی سوچ سے دور رکھتا ہے جو کبھی میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہونے دیتا کہ مجھے مرنا بھی ہے جسے صرف اپنا پیٹ بھرنے سے مطلب ہے جسے اپنے اطراف میں بھوک سے بلکتے لوگ اور بچے نظر نہیں آتے جو انھیں جھڑک دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ "بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے" تو کچھھ اس قسم کے خیالات تھے اُسکے اور پھر ہوا یوں کہ وہ اپنی سوچ کے تحت آگے بڑھتا چلا گیا اور میں سیاست میں آگیا لیکن ہم آج بھی بہت گہرے دوست ہیں خیر یہ سب چھوڑیئے ہم اپنی اسٹوری کی طرف آتے ہیں جہاں سے میری اس سوچ کی تبدیلی کا آغاز ہوا، یہ آج سے کوئی 5 سال پہلے کی بات ہے آیئے آپ کو آنکھوں*دیکھا حال سناتے ہیں، "آج کا دن میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے آج میں نے اپنے سیاسی کیریر کی پہلی کامیابی حاصل کی ہے اور میں اپنے شہر کے ایک بہترین حلقے کا کونسلر بنا ہوں اور اپنے ہی حلقے میں آج میں نے وہ گھر خریدا ہے جسے خریدنے کا میں ایک عرصے سے خواہشمند تھا وہ گھر ہر لحاظ سے بہترین ہے بس اُس میں ایک ہی بات مجھے ُالجھن میں مبتلا کرتی ہے اور وہ ہے میرا پڑوسی بظاہر یہ ایک عام سا انسان ہے جو میری زباں میں نرا جاہل ہے سبزی منڈی میں کام کرتا ہے کیا کام کرتا ہے یہ میں نے جاننے کی کوشش نہیں کی بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اتنا ضرور کماتا ہے کہ اپنی فیملی کو اچھی طرح پال رہا ہے" وقت گذرتا چلا گیا اور میں اپنے علاقے میں اپنے کام کی بدولت مقبول ہوتا گیا لیکن میری سوچ وہیں کی وہیں رہی اور میں نے اپنی بیگم اور بچوں کو اپنے پڑوس سے دور ہی رکھا، آیئے آگے چلتے ہیں " آج کا دن کچھھ عجیب سا ہے ایک اداسی اور نا معلوم سی اُلجھن اور پریشانی سی طاری ہے کیوں یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا شاید اسکی وجہہ یہ رہی ہو کہ میں نے پچھلے تین دنوں سے اپنے پڑوسی یا اُسکے بچوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا میں ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں اور کھانا کھانے بیٹھا ہی ہوں کہ ہمارے پڑوسی کی سب سے چھوٹی بیٹی جو غالباً 6 یا 7 برس کی رہی ہوگی ہمارے گھر آگئی شاید وہ آج پہلی بار ہمارے یہاں آئی ہوگی میں نے اُسکی جانب دیکھا وہ عجیب سی نظروں سے کھا نے کی جانب دیکھھ رہی ہے میں نے سوچا کہ یہ تعلیم کے نا ہونے کی وجہہ ہے کہ بچوں کو یہ تہذیب سکھاتے کہ کسی کے گھر جاکر کھانے کو ایسی ندیدی نظروں سے نہیں گھورتے میری بیگم نے اُسے کھانے کے لیئے بلایا ہے لیکن اُس نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے صرف اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ وہ اُس پوچھے کیا بات ہے اور میری بیگم نے اُس سے پوچھھ کر جو مجھے بتایا ہے اُسے سن کر میرے ہاتھوں سے نوالہ گر گیا ہے اور مجھے اپنی سوچ پر شرم آنے لگی اور میرے اندر سے یہ آواز آئی کہ کیا تم نہیں جانتے کہ"بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے"، اُس نے کہا ہے کہہ " ہمارے گھر میں 3 دنوں سے کسی نے کچھھ نہیں کھایا اور جب اُس سے کہا کہ بتایا کیوں نہیں تو اُس کا جواب ہے کہ ابو نے منع کیا تھا کسی کو بتانے سے بھی اور گھر سے باہر جانے کو بھی میں اپنے گھر سے سارا کھانا لے کر اپنے پڑوسی کے گھر آگیا ہوں کہ میری سوچ کیسی بھی رہی ہو شاید ابھی اتنی بھی نھیں بگڑی کہ اللہ کا یہ فرمان بھول جاؤں کہ،
اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالٰی تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(٤)٘(سورة النساء . آیت36)
وہ میرے سامنے خاموشی سے کھڑا ہے میں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا تم نے نا صرف خود اس بات کو دوسروں سے چھپایا بلکہ بچوں کو بھی بتانے اور گھر سے باہر نکلنے سے منع کردیا اور میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھاتا رہا تم نے کیوں مجہے گناہ گار کیا؟ تو میری نظر میں اُس جاہل اور گنوار شخص نے مجھے جو جواب دیا اُس نے نا صرف مجھے ہلا کر رکھھ دیا بلکہ علم کے حوالے سے میری سوچ کو بدل ڈالا وہ کیا کہہ رہا ہے آپ بھی سنیئے وہ کہہ رہا ہے "اللہ نے ساری زندگی کھلایا ہے اور بہت اچھا کھلایا ہے تو اگر 3 دن کھانے کو نہیں ملا تو کیا میں دنیا کے سامنے رونا شروع کردوں " میں ایک لمحے کے لیئے سناٹے میں آگیا کہ مجھے اُس ین پڑھ شخص سے ایسے کسی بھی جواب کی توقع نہیں تھی اور دوسرے ھی لمحے ولید کا یہ جملہ میری یاداشت پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا "علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا" اور میرا اپنا آپ مجھھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہہ واقعئ ایسے ھی ہوتے ہیں علم والے جو اپنے رب کے حضور ہر حال میں شکر گذار رہتے ہیں مجھے سمجھھ آگئ تھی کہہ اُس نے مجھے نہیں بتایا تو اس میں اُس کا قصور نہیں تھا میں* اُس کا پڑوسی ہوتے ہؤئے بھی بے خبر رہا تو یہ تو میرا کام تھا اور آج اس بات کو گو کہ کافی عرصہ گذر چکا ہے لیکن مجھے آج بھی یاد ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک میری استطاعت ہے اپنے اطراف میں بھوک کے عفریت کے شکار لوگوں اور خاص کر بچوں کی مدد کر سکوں لیکن میں اکیلا کچھھ بھی نہیں کرسکتا کیا آپ اس میں میری کچھھ مدد کریں گے اور اگر آپ کا جواب ہاں میں*ہے تو آپ بھی تلاشیئے ایسے لوگوں کو اور اُن کی مدد کیجیئے اور ہمیشہ یاد رکھیئے کہ،
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں (١) بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں(سورة البقرة . آیت177)
JazakAllah Khair bhai...:-bd
bhtttt hi khoob likha hai aur yeh true story hai tou behad afsoos howa waqai hum bht blessed hain us k bawajood aaur se aaur k talib hain : ( ..

laikin aajkal khas taur se Pakistan me bht logon ne begging apna proffession bana liya hai : ( afsos hai iss ki wajah se haqdaar logon ko nahien mil pata..
mene tv channels pe bhi bht se aisey true cases dekhey hain jin me logon ne begging ik profession bana liya hai..

mera yeh khayal hai kisi ko money dene se better hai kuch khaaney peeney ko di jae ta k humein pata rahay k hamari money sahi jaga kharch howi hai.. ya agr kisi ki help ki jae.. aur zaroor apne neighbors ka tou khaas khayal rekhna chahiye : )
اللہ ہم سب کو علم اور ہدایت کی روشنی سے نوازے
(aameen)
 
  • Like
Reactions: Lost Passenger

whiteros

'"The queen of kindness''
Super Star
Dec 20, 2011
10,936
3,866
1,313
علم ہمیں ہمارے صحیح اور غلط کی پہچان کراتا ہے ہمیں ہمارے رب کے نزدیک کرتا ہے بلکہ ہمیں خود اپنے آپ سے بھی ملواتا ہے وہ کہتا ہے"علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا ہمارے اطراف میں بےشمار پڑھے لکھے جاہل بستے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریوں کے مالک ہیں
best lines .....bas yehe bat koi achhy se samajh le to mushkilat he hal ho jaen kafi had tak.
BOHAT HE ZABARDAST TOPIC
 
  • Like
Reactions: Lost Passenger

Lost Passenger

Senior Member
Aug 10, 2009
889
1,976
1,293
Loh-e-jahan pe herf-e-mukerer nahin hoon main
@Lost Passenger - bohat sabaq amooz baat hai..., zaroorat iss baat ki hai hum apne khol se baahir nikal kar sochaen or daikhen...., keh dunya kis haal maen hai....,
hum khud apni zaat se kis hud tak kisi ki madad kar sakte haen, aya mera parosi kisi mushkil maen giraftaar to naheen hai..., mera dost, rishtedaar meri madad ka talabgaar to naheen hai, yeah meri apni koshish honi chahiye, iss ke liye hamaen khud hee step lena chahiye nah ke iss baat ka intezaar ho keh doosra aake apni problem bataye or maen kuch karun....
in simple to say that "No Thinking / Waiting but to take next step...."

Allah hamen samajh or taufeeq ataa farmaye, ameen
Buhat shukria mairey bhai keh tum ney na sirf mairi is tehreer ko perha belkeh buhat hi achey comments bhi kiye, mairi is derja hosla afzai erney ka buhat shukria
sada khush raho
Ameen[DOUBLEPOST=1354780232][/DOUBLEPOST]
JazakAllah Khair bhai...:-bd
bhtttt hi khoob likha hai aur yeh true story hai tou behad afsoos howa waqai hum bht blessed hain us k bawajood aaur se aaur k talib hain : ( ..

laikin aajkal khas taur se Pakistan me bht logon ne begging apna proffession bana liya hai : ( afsos hai iss ki wajah se haqdaar logon ko nahien mil pata..
mene tv channels pe bhi bht se aisey true cases dekhey hain jin me logon ne begging ik profession bana liya hai..

mera yeh khayal hai kisi ko money dene se better hai kuch khaaney peeney ko di jae ta k humein pata rahay k hamari money sahi jaga kharch howi hai.. ya agr kisi ki help ki jae.. aur zaroor apne neighbors ka tou khaas khayal rekhna chahiye : )
اللہ ہم سب کو علم اور ہدایت کی روشنی سے نوازے
(aameen)
Sahi kaha tum ney mairi behen keh buhat sey logoo'n ney isey profession banaya huwa hey
laikin kia sirf is sey hamari zimmey dari khatem ho jati hey aur kia hamara ferz nahi'n
banta keh hum haqiai zaroret mandoo'n ko talashai'n?
mairi is kawish ko serhaney kabuhat shukria
hamaisha khush aur salamet raho
Ameen[DOUBLEPOST=1354780334][/DOUBLEPOST]
علم ہمیں ہمارے صحیح اور غلط کی پہچان کراتا ہے ہمیں ہمارے رب کے نزدیک کرتا ہے بلکہ ہمیں خود اپنے آپ سے بھی ملواتا ہے وہ کہتا ہے"علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا ہمارے اطراف میں بےشمار پڑھے لکھے جاہل بستے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریوں کے مالک ہیں
best lines .....bas yehe bat koi achhy se samajh le to mushkilat he hal ho jaen kafi had tak.
BOHAT HE ZABARDAST TOPIC
Buhat shukria mairi behen mairi hosla afzai kerney key liye
hamaisha khush aur salamet raho
Ameen
 

piya

Newbie
Jul 21, 2011
992
672
243
Istanbul
Assalam-o-Alaikum
Bhook Tehzeeb K Aadaab Bhula Daiti Hey
Based on a true story
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
میں اور ولید بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھھ ساتھھ ہیں اس لیئے گہرے دوست ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہماری سوچ بھی ملتی ہے بہت ساری معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف رہتا تھا لیکن ایک ان پڑھ نے نا صرف میری سوچ بدل دی بلکہ میرا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیا میں نے ہمیشہ علم کو دنیا میں ایک مقام حاصل کرنے کا زریعہ سمجھا لیکن ولید کی سوچ مجھھ سے مختلف تھی وہ کہتا تھا علم ہمیں ہمارے صحیح اور غلط کی پہچان کراتا ہے ہمیں ہمارے رب کے نزدیک کرتا ہے بلکہ ہمیں خود اپنے آپ سے بھی ملواتا ہے وہ کہتا ہے"علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا ہمارے اطراف میں بےشمار پڑھے لکھے جاہل بستے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریوں کے مالک ہیں اور ان ڈگریوں کے حصول کے لیئے انھوں نے بہت محنت کی ہے لیکن کس کام کا وہ علم جو ہمیں بزنس کے اسرار و رموز تو سکھاتا ہے لیکن غربت کا خاتمہ کس طرح ہوگا یہ نہیں سکھاتا جو میرے بزنس میں گھاٹے کی تکلیف کا احساس تو مجھے دلاتا ہے لیکن کسی دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کے فن سے نا آشنا رکھتا ہے جو ہمیں کپڑے پہننے کا سلیقہ تو سکھاتا ہے لیکن سردی میں ٹھٹرتے کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کے خیالات سے دور رکھتا ہے جو مجھے یہ بتاتا ہے کہ مشکل میں صدقہ خیرات کرو لیکن اللہ کا شکر ادا کرنے کی سوچ سے دور رکھتا ہے جو کبھی میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہونے دیتا کہ مجھے مرنا بھی ہے جسے صرف اپنا پیٹ بھرنے سے مطلب ہے جسے اپنے اطراف میں بھوک سے بلکتے لوگ اور بچے نظر نہیں آتے جو انھیں جھڑک دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ "بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے" تو کچھھ اس قسم کے خیالات تھے اُسکے اور پھر ہوا یوں کہ وہ اپنی سوچ کے تحت آگے بڑھتا چلا گیا اور میں سیاست میں آگیا لیکن ہم آج بھی بہت گہرے دوست ہیں خیر یہ سب چھوڑیئے ہم اپنی اسٹوری کی طرف آتے ہیں جہاں سے میری اس سوچ کی تبدیلی کا آغاز ہوا، یہ آج سے کوئی 5 سال پہلے کی بات ہے آیئے آپ کو آنکھوں*دیکھا حال سناتے ہیں، "آج کا دن میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے آج میں نے اپنے سیاسی کیریر کی پہلی کامیابی حاصل کی ہے اور میں اپنے شہر کے ایک بہترین حلقے کا کونسلر بنا ہوں اور اپنے ہی حلقے میں آج میں نے وہ گھر خریدا ہے جسے خریدنے کا میں ایک عرصے سے خواہشمند تھا وہ گھر ہر لحاظ سے بہترین ہے بس اُس میں ایک ہی بات مجھے ُالجھن میں مبتلا کرتی ہے اور وہ ہے میرا پڑوسی بظاہر یہ ایک عام سا انسان ہے جو میری زباں میں نرا جاہل ہے سبزی منڈی میں کام کرتا ہے کیا کام کرتا ہے یہ میں نے جاننے کی کوشش نہیں کی بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اتنا ضرور کماتا ہے کہ اپنی فیملی کو اچھی طرح پال رہا ہے" وقت گذرتا چلا گیا اور میں اپنے علاقے میں اپنے کام کی بدولت مقبول ہوتا گیا لیکن میری سوچ وہیں کی وہیں رہی اور میں نے اپنی بیگم اور بچوں کو اپنے پڑوس سے دور ہی رکھا، آیئے آگے چلتے ہیں " آج کا دن کچھھ عجیب سا ہے ایک اداسی اور نا معلوم سی اُلجھن اور پریشانی سی طاری ہے کیوں یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا شاید اسکی وجہہ یہ رہی ہو کہ میں نے پچھلے تین دنوں سے اپنے پڑوسی یا اُسکے بچوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا میں ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں اور کھانا کھانے بیٹھا ہی ہوں کہ ہمارے پڑوسی کی سب سے چھوٹی بیٹی جو غالباً 6 یا 7 برس کی رہی ہوگی ہمارے گھر آگئی شاید وہ آج پہلی بار ہمارے یہاں آئی ہوگی میں نے اُسکی جانب دیکھا وہ عجیب سی نظروں سے کھا نے کی جانب دیکھھ رہی ہے میں نے سوچا کہ یہ تعلیم کے نا ہونے کی وجہہ ہے کہ بچوں کو یہ تہذیب سکھاتے کہ کسی کے گھر جاکر کھانے کو ایسی ندیدی نظروں سے نہیں گھورتے میری بیگم نے اُسے کھانے کے لیئے بلایا ہے لیکن اُس نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے صرف اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ وہ اُس پوچھے کیا بات ہے اور میری بیگم نے اُس سے پوچھھ کر جو مجھے بتایا ہے اُسے سن کر میرے ہاتھوں سے نوالہ گر گیا ہے اور مجھے اپنی سوچ پر شرم آنے لگی اور میرے اندر سے یہ آواز آئی کہ کیا تم نہیں جانتے کہ"بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے"، اُس نے کہا ہے کہہ " ہمارے گھر میں 3 دنوں سے کسی نے کچھھ نہیں کھایا اور جب اُس سے کہا کہ بتایا کیوں نہیں تو اُس کا جواب ہے کہ ابو نے منع کیا تھا کسی کو بتانے سے بھی اور گھر سے باہر جانے کو بھی میں اپنے گھر سے سارا کھانا لے کر اپنے پڑوسی کے گھر آگیا ہوں کہ میری سوچ کیسی بھی رہی ہو شاید ابھی اتنی بھی نھیں بگڑی کہ اللہ کا یہ فرمان بھول جاؤں کہ،
اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالٰی تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(٤)٘(سورة النساء . آیت36)
وہ میرے سامنے خاموشی سے کھڑا ہے میں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا تم نے نا صرف خود اس بات کو دوسروں سے چھپایا بلکہ بچوں کو بھی بتانے اور گھر سے باہر نکلنے سے منع کردیا اور میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھاتا رہا تم نے کیوں مجہے گناہ گار کیا؟ تو میری نظر میں اُس جاہل اور گنوار شخص نے مجھے جو جواب دیا اُس نے نا صرف مجھے ہلا کر رکھھ دیا بلکہ علم کے حوالے سے میری سوچ کو بدل ڈالا وہ کیا کہہ رہا ہے آپ بھی سنیئے وہ کہہ رہا ہے "اللہ نے ساری زندگی کھلایا ہے اور بہت اچھا کھلایا ہے تو اگر 3 دن کھانے کو نہیں ملا تو کیا میں دنیا کے سامنے رونا شروع کردوں " میں ایک لمحے کے لیئے سناٹے میں آگیا کہ مجھے اُس ین پڑھ شخص سے ایسے کسی بھی جواب کی توقع نہیں تھی اور دوسرے ھی لمحے ولید کا یہ جملہ میری یاداشت پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا "علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا" اور میرا اپنا آپ مجھھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہہ واقعئ ایسے ھی ہوتے ہیں علم والے جو اپنے رب کے حضور ہر حال میں شکر گذار رہتے ہیں مجھے سمجھھ آگئ تھی کہہ اُس نے مجھے نہیں بتایا تو اس میں اُس کا قصور نہیں تھا میں* اُس کا پڑوسی ہوتے ہؤئے بھی بے خبر رہا تو یہ تو میرا کام تھا اور آج اس بات کو گو کہ کافی عرصہ گذر چکا ہے لیکن مجھے آج بھی یاد ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک میری استطاعت ہے اپنے اطراف میں بھوک کے عفریت کے شکار لوگوں اور خاص کر بچوں کی مدد کر سکوں لیکن میں اکیلا کچھھ بھی نہیں کرسکتا کیا آپ اس میں میری کچھھ مدد کریں گے اور اگر آپ کا جواب ہاں میں*ہے تو آپ بھی تلاشیئے ایسے لوگوں کو اور اُن کی مدد کیجیئے اور ہمیشہ یاد رکھیئے کہ،
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں (١) بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں(سورة البقرة . آیت177)
اللہ ہم سب کو علم اور ہدایت کی روشنی سے نوازے
آمین

 
  • Like
Reactions: Lost Passenger

Bela

~*~A|!c3 in w0nd3r|@nd~*~
Active Member
Feb 4, 2010
5,975
3,851
1,113
Madrid, Spain
bht khubsurat bht mukamal likha ha sohail bhaiya.............
apki tehreeron ka intezar rehta ha hamesha....

waqai sach ha illm degreeion ka muhtaj nai ha.....

lakn wo log waqai blessed hain jinko esa moka milta ha jo unki soch badal deta ha....
yahan bht se ese log bhi hain jinto har din ese kisi sanihy se guzarna hota ha
lakn wo phr bhi nazarr chura lety hain...... apni soch nai badal paty...
 

H!N@

TM Star
Jul 12, 2009
4,098
2,198
1,113
Karachi
"اللہ نے ساری زندگی کھلایا ہے اور بہت اچھا کھلایا ہے تو اگر 3 دن کھانے کو نہیں ملا تو کیا میں دنیا کے سامنے رونا
شروع کردوں "



واقعئ ایسے ھی ہوتے ہیں علم والے جو اپنے رب کے حضور ہر حال میں شکر

گذار رہتے ہیں


Boht Aala
keep sharing
 

Piyari

Active Member
Nov 17, 2012
338
420
63
Kite In Sky
Assalam-o-Alaikum
Bhook Tehzeeb K Aadaab Bhula Daiti Hey
Based on a true story
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
میں اور ولید بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھھ ساتھھ ہیں اس لیئے گہرے دوست ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہماری سوچ بھی ملتی ہے بہت ساری معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف رہتا تھا لیکن ایک ان پڑھ نے نا صرف میری سوچ بدل دی بلکہ میرا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیا میں نے ہمیشہ علم کو دنیا میں ایک مقام حاصل کرنے کا زریعہ سمجھا لیکن ولید کی سوچ مجھھ سے مختلف تھی وہ کہتا تھا علم ہمیں ہمارے صحیح اور غلط کی پہچان کراتا ہے ہمیں ہمارے رب کے نزدیک کرتا ہے بلکہ ہمیں خود اپنے آپ سے بھی ملواتا ہے وہ کہتا ہے"علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا ہمارے اطراف میں بےشمار پڑھے لکھے جاہل بستے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریوں کے مالک ہیں اور ان ڈگریوں کے حصول کے لیئے انھوں نے بہت محنت کی ہے لیکن کس کام کا وہ علم جو ہمیں بزنس کے اسرار و رموز تو سکھاتا ہے لیکن غربت کا خاتمہ کس طرح ہوگا یہ نہیں سکھاتا جو میرے بزنس میں گھاٹے کی تکلیف کا احساس تو مجھے دلاتا ہے لیکن کسی دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کے فن سے نا آشنا رکھتا ہے جو ہمیں کپڑے پہننے کا سلیقہ تو سکھاتا ہے لیکن سردی میں ٹھٹرتے کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کے خیالات سے دور رکھتا ہے جو مجھے یہ بتاتا ہے کہ مشکل میں صدقہ خیرات کرو لیکن اللہ کا شکر ادا کرنے کی سوچ سے دور رکھتا ہے جو کبھی میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہونے دیتا کہ مجھے مرنا بھی ہے جسے صرف اپنا پیٹ بھرنے سے مطلب ہے جسے اپنے اطراف میں بھوک سے بلکتے لوگ اور بچے نظر نہیں آتے جو انھیں جھڑک دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ "بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے" تو کچھھ اس قسم کے خیالات تھے اُسکے اور پھر ہوا یوں کہ وہ اپنی سوچ کے تحت آگے بڑھتا چلا گیا اور میں سیاست میں آگیا لیکن ہم آج بھی بہت گہرے دوست ہیں خیر یہ سب چھوڑیئے ہم اپنی اسٹوری کی طرف آتے ہیں جہاں سے میری اس سوچ کی تبدیلی کا آغاز ہوا، یہ آج سے کوئی 5 سال پہلے کی بات ہے آیئے آپ کو آنکھوں*دیکھا حال سناتے ہیں، "آج کا دن میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے آج میں نے اپنے سیاسی کیریر کی پہلی کامیابی حاصل کی ہے اور میں اپنے شہر کے ایک بہترین حلقے کا کونسلر بنا ہوں اور اپنے ہی حلقے میں آج میں نے وہ گھر خریدا ہے جسے خریدنے کا میں ایک عرصے سے خواہشمند تھا وہ گھر ہر لحاظ سے بہترین ہے بس اُس میں ایک ہی بات مجھے ُالجھن میں مبتلا کرتی ہے اور وہ ہے میرا پڑوسی بظاہر یہ ایک عام سا انسان ہے جو میری زباں میں نرا جاہل ہے سبزی منڈی میں کام کرتا ہے کیا کام کرتا ہے یہ میں نے جاننے کی کوشش نہیں کی بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اتنا ضرور کماتا ہے کہ اپنی فیملی کو اچھی طرح پال رہا ہے" وقت گذرتا چلا گیا اور میں اپنے علاقے میں اپنے کام کی بدولت مقبول ہوتا گیا لیکن میری سوچ وہیں کی وہیں رہی اور میں نے اپنی بیگم اور بچوں کو اپنے پڑوس سے دور ہی رکھا، آیئے آگے چلتے ہیں " آج کا دن کچھھ عجیب سا ہے ایک اداسی اور نا معلوم سی اُلجھن اور پریشانی سی طاری ہے کیوں یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا شاید اسکی وجہہ یہ رہی ہو کہ میں نے پچھلے تین دنوں سے اپنے پڑوسی یا اُسکے بچوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا میں ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں اور کھانا کھانے بیٹھا ہی ہوں کہ ہمارے پڑوسی کی سب سے چھوٹی بیٹی جو غالباً 6 یا 7 برس کی رہی ہوگی ہمارے گھر آگئی شاید وہ آج پہلی بار ہمارے یہاں آئی ہوگی میں نے اُسکی جانب دیکھا وہ عجیب سی نظروں سے کھا نے کی جانب دیکھھ رہی ہے میں نے سوچا کہ یہ تعلیم کے نا ہونے کی وجہہ ہے کہ بچوں کو یہ تہذیب سکھاتے کہ کسی کے گھر جاکر کھانے کو ایسی ندیدی نظروں سے نہیں گھورتے میری بیگم نے اُسے کھانے کے لیئے بلایا ہے لیکن اُس نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے صرف اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ وہ اُس پوچھے کیا بات ہے اور میری بیگم نے اُس سے پوچھھ کر جو مجھے بتایا ہے اُسے سن کر میرے ہاتھوں سے نوالہ گر گیا ہے اور مجھے اپنی سوچ پر شرم آنے لگی اور میرے اندر سے یہ آواز آئی کہ کیا تم نہیں جانتے کہ"بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے"، اُس نے کہا ہے کہہ " ہمارے گھر میں 3 دنوں سے کسی نے کچھھ نہیں کھایا اور جب اُس سے کہا کہ بتایا کیوں نہیں تو اُس کا جواب ہے کہ ابو نے منع کیا تھا کسی کو بتانے سے بھی اور گھر سے باہر جانے کو بھی میں اپنے گھر سے سارا کھانا لے کر اپنے پڑوسی کے گھر آگیا ہوں کہ میری سوچ کیسی بھی رہی ہو شاید ابھی اتنی بھی نھیں بگڑی کہ اللہ کا یہ فرمان بھول جاؤں کہ،
اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالٰی تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(٤)٘(سورة النساء . آیت36)
وہ میرے سامنے خاموشی سے کھڑا ہے میں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا تم نے نا صرف خود اس بات کو دوسروں سے چھپایا بلکہ بچوں کو بھی بتانے اور گھر سے باہر نکلنے سے منع کردیا اور میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھاتا رہا تم نے کیوں مجہے گناہ گار کیا؟ تو میری نظر میں اُس جاہل اور گنوار شخص نے مجھے جو جواب دیا اُس نے نا صرف مجھے ہلا کر رکھھ دیا بلکہ علم کے حوالے سے میری سوچ کو بدل ڈالا وہ کیا کہہ رہا ہے آپ بھی سنیئے وہ کہہ رہا ہے "اللہ نے ساری زندگی کھلایا ہے اور بہت اچھا کھلایا ہے تو اگر 3 دن کھانے کو نہیں ملا تو کیا میں دنیا کے سامنے رونا شروع کردوں " میں ایک لمحے کے لیئے سناٹے میں آگیا کہ مجھے اُس ین پڑھ شخص سے ایسے کسی بھی جواب کی توقع نہیں تھی اور دوسرے ھی لمحے ولید کا یہ جملہ میری یاداشت پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا "علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا" اور میرا اپنا آپ مجھھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہہ واقعئ ایسے ھی ہوتے ہیں علم والے جو اپنے رب کے حضور ہر حال میں شکر گذار رہتے ہیں مجھے سمجھھ آگئ تھی کہہ اُس نے مجھے نہیں بتایا تو اس میں اُس کا قصور نہیں تھا میں* اُس کا پڑوسی ہوتے ہؤئے بھی بے خبر رہا تو یہ تو میرا کام تھا اور آج اس بات کو گو کہ کافی عرصہ گذر چکا ہے لیکن مجھے آج بھی یاد ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک میری استطاعت ہے اپنے اطراف میں بھوک کے عفریت کے شکار لوگوں اور خاص کر بچوں کی مدد کر سکوں لیکن میں اکیلا کچھھ بھی نہیں کرسکتا کیا آپ اس میں میری کچھھ مدد کریں گے اور اگر آپ کا جواب ہاں میں*ہے تو آپ بھی تلاشیئے ایسے لوگوں کو اور اُن کی مدد کیجیئے اور ہمیشہ یاد رکھیئے کہ،
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں (١) بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں(سورة البقرة . آیت177)
اللہ ہم سب کو علم اور ہدایت کی روشنی سے نوازے
آمین
Aap ne buhat hi achi bat sy ashna karwaya hai ,,Allah Is Nai k Kam Ka Ajar Apko bhi ata kare Ameenn.......
aj kal ziyda tar dekha jaye to har aik ko apne aap ki ziyda fikar hoti hai buhat kam asy log reh gaye hein jo dusron k liye bhi soch rahy hein,,,,
meri jahan tak koshish hoti hai mein help kar deti hn,, ,,
magar jo safiad posh log hoty hein jesy k ap k parosi ,,asy log apna haq nahe le paty un k liye kia kiya ja skta hai ???
 

faari

Super Star
Nov 13, 2009
6,380
4,321
713
Allama iQbal ki zameen
buhat hi achi sharing thi bro waqai Allah jis ka dimag kholna chahy us k dimag se pardy hatana chahy tu waja kuch bhi bana deta hai aur bhook ki shiddat se tu ameer bi waqif hota hai aur gareeb bhi :)
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
waalaikum assalam
MASHAALLAH Hamesha ki tara purasar tehreer khubsurat message ,,sochne pe majbur karne waala andazz aur references..ghaflat se aag;hi ki taraf laane waali soch
ALLAH tala hum sabko ghaur karne aur amal ki taufeeq ata farmayain
aur aap issi tara apni khubsurat soch apni tehreer k zariye hum tak pohchante rhe INSHALALAH
JAZAKALLAH :)
 

FallenAngeL

Active Member
Oct 31, 2012
402
472
213
Bohat sabaq amooz vakai ahai aur jo lesson is me chupa hai vo to ajkal ki life me bht important hai learn karna...
Jazak ALLAH for sharing it with us...
 

melody1000

TM Star
Nov 13, 2008
1,085
644
813
Bangalore,India
Assalam-o-Alaikum
Bhook Tehzeeb K Aadaab Bhula Daiti Hey
Based on a true story
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
میں اور ولید بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھھ ساتھھ ہیں اس لیئے گہرے دوست ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہماری سوچ بھی ملتی ہے بہت ساری معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف رہتا تھا لیکن ایک ان پڑھ نے نا صرف میری سوچ بدل دی بلکہ میرا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیا میں نے ہمیشہ علم کو دنیا میں ایک مقام حاصل کرنے کا زریعہ سمجھا لیکن ولید کی سوچ مجھھ سے مختلف تھی وہ کہتا تھا علم ہمیں ہمارے صحیح اور غلط کی پہچان کراتا ہے ہمیں ہمارے رب کے نزدیک کرتا ہے بلکہ ہمیں خود اپنے آپ سے بھی ملواتا ہے وہ کہتا ہے"علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا ہمارے اطراف میں بےشمار پڑھے لکھے جاہل بستے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریوں کے مالک ہیں اور ان ڈگریوں کے حصول کے لیئے انھوں نے بہت محنت کی ہے لیکن کس کام کا وہ علم جو ہمیں بزنس کے اسرار و رموز تو سکھاتا ہے لیکن غربت کا خاتمہ کس طرح ہوگا یہ نہیں سکھاتا جو میرے بزنس میں گھاٹے کی تکلیف کا احساس تو مجھے دلاتا ہے لیکن کسی دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کے فن سے نا آشنا رکھتا ہے جو ہمیں کپڑے پہننے کا سلیقہ تو سکھاتا ہے لیکن سردی میں ٹھٹرتے کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کے خیالات سے دور رکھتا ہے جو مجھے یہ بتاتا ہے کہ مشکل میں صدقہ خیرات کرو لیکن اللہ کا شکر ادا کرنے کی سوچ سے دور رکھتا ہے جو کبھی میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہونے دیتا کہ مجھے مرنا بھی ہے جسے صرف اپنا پیٹ بھرنے سے مطلب ہے جسے اپنے اطراف میں بھوک سے بلکتے لوگ اور بچے نظر نہیں آتے جو انھیں جھڑک دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ "بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے" تو کچھھ اس قسم کے خیالات تھے اُسکے اور پھر ہوا یوں کہ وہ اپنی سوچ کے تحت آگے بڑھتا چلا گیا اور میں سیاست میں آگیا لیکن ہم آج بھی بہت گہرے دوست ہیں خیر یہ سب چھوڑیئے ہم اپنی اسٹوری کی طرف آتے ہیں جہاں سے میری اس سوچ کی تبدیلی کا آغاز ہوا، یہ آج سے کوئی 5 سال پہلے کی بات ہے آیئے آپ کو آنکھوں*دیکھا حال سناتے ہیں، "آج کا دن میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے آج میں نے اپنے سیاسی کیریر کی پہلی کامیابی حاصل کی ہے اور میں اپنے شہر کے ایک بہترین حلقے کا کونسلر بنا ہوں اور اپنے ہی حلقے میں آج میں نے وہ گھر خریدا ہے جسے خریدنے کا میں ایک عرصے سے خواہشمند تھا وہ گھر ہر لحاظ سے بہترین ہے بس اُس میں ایک ہی بات مجھے ُالجھن میں مبتلا کرتی ہے اور وہ ہے میرا پڑوسی بظاہر یہ ایک عام سا انسان ہے جو میری زباں میں نرا جاہل ہے سبزی منڈی میں کام کرتا ہے کیا کام کرتا ہے یہ میں نے جاننے کی کوشش نہیں کی بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اتنا ضرور کماتا ہے کہ اپنی فیملی کو اچھی طرح پال رہا ہے" وقت گذرتا چلا گیا اور میں اپنے علاقے میں اپنے کام کی بدولت مقبول ہوتا گیا لیکن میری سوچ وہیں کی وہیں رہی اور میں نے اپنی بیگم اور بچوں کو اپنے پڑوس سے دور ہی رکھا، آیئے آگے چلتے ہیں " آج کا دن کچھھ عجیب سا ہے ایک اداسی اور نا معلوم سی اُلجھن اور پریشانی سی طاری ہے کیوں یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا شاید اسکی وجہہ یہ رہی ہو کہ میں نے پچھلے تین دنوں سے اپنے پڑوسی یا اُسکے بچوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا میں ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں اور کھانا کھانے بیٹھا ہی ہوں کہ ہمارے پڑوسی کی سب سے چھوٹی بیٹی جو غالباً 6 یا 7 برس کی رہی ہوگی ہمارے گھر آگئی شاید وہ آج پہلی بار ہمارے یہاں آئی ہوگی میں نے اُسکی جانب دیکھا وہ عجیب سی نظروں سے کھا نے کی جانب دیکھھ رہی ہے میں نے سوچا کہ یہ تعلیم کے نا ہونے کی وجہہ ہے کہ بچوں کو یہ تہذیب سکھاتے کہ کسی کے گھر جاکر کھانے کو ایسی ندیدی نظروں سے نہیں گھورتے میری بیگم نے اُسے کھانے کے لیئے بلایا ہے لیکن اُس نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے صرف اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ وہ اُس پوچھے کیا بات ہے اور میری بیگم نے اُس سے پوچھھ کر جو مجھے بتایا ہے اُسے سن کر میرے ہاتھوں سے نوالہ گر گیا ہے اور مجھے اپنی سوچ پر شرم آنے لگی اور میرے اندر سے یہ آواز آئی کہ کیا تم نہیں جانتے کہ"بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے"، اُس نے کہا ہے کہہ " ہمارے گھر میں 3 دنوں سے کسی نے کچھھ نہیں کھایا اور جب اُس سے کہا کہ بتایا کیوں نہیں تو اُس کا جواب ہے کہ ابو نے منع کیا تھا کسی کو بتانے سے بھی اور گھر سے باہر جانے کو بھی میں اپنے گھر سے سارا کھانا لے کر اپنے پڑوسی کے گھر آگیا ہوں کہ میری سوچ کیسی بھی رہی ہو شاید ابھی اتنی بھی نھیں بگڑی کہ اللہ کا یہ فرمان بھول جاؤں کہ،
اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالٰی تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(٤)٘(سورة النساء . آیت36)
وہ میرے سامنے خاموشی سے کھڑا ہے میں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا تم نے نا صرف خود اس بات کو دوسروں سے چھپایا بلکہ بچوں کو بھی بتانے اور گھر سے باہر نکلنے سے منع کردیا اور میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھاتا رہا تم نے کیوں مجہے گناہ گار کیا؟ تو میری نظر میں اُس جاہل اور گنوار شخص نے مجھے جو جواب دیا اُس نے نا صرف مجھے ہلا کر رکھھ دیا بلکہ علم کے حوالے سے میری سوچ کو بدل ڈالا وہ کیا کہہ رہا ہے آپ بھی سنیئے وہ کہہ رہا ہے "اللہ نے ساری زندگی کھلایا ہے اور بہت اچھا کھلایا ہے تو اگر 3 دن کھانے کو نہیں ملا تو کیا میں دنیا کے سامنے رونا شروع کردوں " میں ایک لمحے کے لیئے سناٹے میں آگیا کہ مجھے اُس ین پڑھ شخص سے ایسے کسی بھی جواب کی توقع نہیں تھی اور دوسرے ھی لمحے ولید کا یہ جملہ میری یاداشت پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا "علم ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا" اور میرا اپنا آپ مجھھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہہ واقعئ ایسے ھی ہوتے ہیں علم والے جو اپنے رب کے حضور ہر حال میں شکر گذار رہتے ہیں مجھے سمجھھ آگئ تھی کہہ اُس نے مجھے نہیں بتایا تو اس میں اُس کا قصور نہیں تھا میں* اُس کا پڑوسی ہوتے ہؤئے بھی بے خبر رہا تو یہ تو میرا کام تھا اور آج اس بات کو گو کہ کافی عرصہ گذر چکا ہے لیکن مجھے آج بھی یاد ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک میری استطاعت ہے اپنے اطراف میں بھوک کے عفریت کے شکار لوگوں اور خاص کر بچوں کی مدد کر سکوں لیکن میں اکیلا کچھھ بھی نہیں کرسکتا کیا آپ اس میں میری کچھھ مدد کریں گے اور اگر آپ کا جواب ہاں میں*ہے تو آپ بھی تلاشیئے ایسے لوگوں کو اور اُن کی مدد کیجیئے اور ہمیشہ یاد رکھیئے کہ،
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں (١) بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں(سورة البقرة . آیت177)
اللہ ہم سب کو علم اور ہدایت کی روشنی سے نوازے
آمین
hi..can u translate in english coz i dont understand what you have written
 
Top