کومل جذبوں کا شاعر محبت وہ لازوال جذبہ ہے کہ یہ جب کسی کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے تو اس شخص کے نزدیک کائنات کے معنی ہی بدل جاتے ہیں۔ بصارت بصیرت میں کا ملبوس اوڑھ لیتی ہے اور قدم قدم پر ایک نیا جہان معنی آباد نظر آتا ہے۔ عاطف سعید کی شاعری بھی محبت کے اسی بنیادی انسانی جذبے کی سرزمین سے پھوٹی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ بے پناہ محبت میں سرشار نظر آتا ہے۔ یہی سرشاری اس کے جذبوں کو شدت عطا کرتی ہے اور وہ جذبے کی اس شدت کو کسی کی محبت ہی کا مرہون منت خیال کرتا ہے۔ عاطف سعیدکی شاعری الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں۔ اس کے ہاں دورازکار تشبیہات و استعارات کی بھر مار بھی نظر نہیں آتی۔ اس کی شاعری سادہ اور نرم الفاظ میں دھیمے سروں اور کومل جذبوں کی شا عری ہے۔ شاعر کے جذبے کی سیال سطح پر جب سوچ کا پتھر آگرتا ہے تو پہلے دائرے میں اس کی اپنی ذات ابھرتی ہے۔ ادراک ذات سے اگلا دائرہ محبوب کی ذات کا دائرہ ہوتا ہے اور جب تیسرا دائرہ ابھرتا ہے تو فرد کی محبت اجتماعی محبت کا روپ دھار کر پورے معاشرے، پوری انسانیت بلکہ پوری کائنات کو اپنی باہوں میں بھر لیتی ہے۔ یہی دائرہ بالآخر وسعت پذیر ہو کر خداکی محبت سے ہمکنار کرا دیتا ہے۔ عاطف سعید کی شاعری میں پہلے دو دائروں کے نقوش واضح نظر آتے ہیںتاہم خوش آئند بات یہ ہے ان کے یہاں تیسرے دائرے کی مدہم لکیریں بھی ابھرتی نظر آتی ہیں۔ اگر اس کے اندر تخلیقی فعالیت موجود رہی توآگے چل کر یہی مدہم لکیریں مزید واضح ہوتی چلی جائیں گی۔ اس نوجوان شاعر کی یہ چند نمائندہ تخلیقات اس کے فن کے راستے میں جابجا رکھے چراغوں کی صورت جگمگا رہے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ یہی تخلیقی لو اس کے لئے فنی سفر میں مختلف سطحوں پر معاون ثابت ہو گی۔*
(پروفیسر اطہر علی زیدی)