’’اور یہ روٹی ابا کے لیے۔۔۔‘‘ اس نے مٹی کی روٹی بنا کر توے پہ ڈالی تب ہی بیرونی دروازے پر کھٹکا ہوا تھا۔ نجف نے گردن گھما کر دیکھا۔ ابا اپنی سائیکل سمیت گھر میں داخل ہو رہے تھے اور وہ نہ جانے کس خیال کے تحت بھاگ کر ابا کے پاس آئی تھی اور انکا ہاتھ تھام لیا تھا۔ باپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی یہ معصوم سی کوشش بلکل غیرارادی تھی۔
’’افوہ ہٹو پیچھے، ہاتھ دیکھے ہیں تم نے اپنے۔۔۔‘‘ ابا نے اسکا مٹی سے لتھڑا ہوا ننھا سا ہاتھ سختی سے جھٹک دیا تھا۔ ’’گھر میں داخل ہوتے ہی منحوس صورتیں سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بازو سے پکڑ کر اسے ایک طرف دھکیلا تو وہ لڑکھڑا کر گر گئی۔ مٹی سے بنے ہوئے برتن اسکے گھٹنوں اور ہاتھوں کے زور سے چور چور ہوگئے تھے۔ اسکی بڑی بڑی شفاف آنکھوں میں آنسو بہت جلد چلے آئے تھے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا ابا صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ چکے تھے۔ گندا سندا عظیم انکی گود میں چڑھا بیٹھا تھا۔ اور ابا شاپر میں سے سیب نکال کر دیتے ہوئے اسکے پھولے پھولے گالوں پر پیار کر رہے تھے۔ درِ نجف کو اس لمحے ابا اور عظیم دونوں ہی بہت برے لگے تھے۔
’’ابا نے مجھے پیار نہیں کیا، عظیم کو کیا ہے، مجھے سیب نہیں دیا عظیم نے پورا شاپر لیا ہے میں بھی ابا کو روٹی نہیں دونگی۔۔ آج بھوکے رہیں گے وہ۔‘‘ اس نے مٹی کی روٹی کو اپنے ہاتھوں سے مسل دیا۔ ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو پھسل کر اسکے گالوں پر چلے آئے۔ ہونٹ نکال کر بےآواز روتے ہوئے اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرنا چاہے تو مٹی کے کتنے ہی زرات آنکھوں میں گھس گئے۔