ہمت، حوصلے اور بہادری کی عظیم داستانیں۔

  • Work-from-home

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
کسی بھی قسم کی تکلیف، مشکلات یا بیماری ا آتی ہےتوان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خالق کائنات کی مخلوق خاص طور پر انسان ان مشکلات و تکالیف پر کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
جن کا اپنے پروردگار پر ایمان کم زور ہوتا ہے، جن کی ناامیدی حد سے بڑھ جاتی ہے وہ تو کسی بیماری یا پریشانی کی وجہ سے جینا چھوڑدیتے ہیں اور خود کو ہمیشہ کے لیے اس تکلیف کا اسیر سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی بے شمار لوگ ہیں جو کسی بیماری یا پریشانی کو دنیا والوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے اور دوسروں کو اس پریشانی یا تکلیف سے بچانے کا موقع سمجھ کر کام شروع کردیتے ہیں، ایسے ہی لوگ سراہے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ نے ہر سال کی طرح گذشتہ سال 2014 کے لیے بھی ’’سال کیبہترین شخصیات‘‘ کے ایوارڈ کا اعلان کیا اور اس بار یہ اعزاز اُن 5 افراد کے نام کیا گیا جو انتہائی مہلک بیماری ایبولا وائرس کے خلاف لڑرہے ہیں۔
ان پانچوں افراد نے اپنی بیماری کے باوجود ہمت نہیں ہاری، اُن کی اسی جرأت و ہمت کا اعتراف عالمی سطح پر ’’ٹائم میگزین ‘‘ کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ٹائم میگزین ہر سال ایسی شخصیات یا افراد یا کسی چیز کو اس ایوارڈ سے نوازتا ہے، جو پورے سال خبروں میں رہے ہوں۔ ٹائم میگزین کی منتخب کردہ یہ پانچوں شخصیات ڈاکٹر جیری برائون (Dr Jerry Brown)، ڈاکٹر کینٹ برینٹلی (Dr Kant Brantly)، فودے گالا (Foday Galla)، ایلا واٹسن اسٹرائیکر(Ella Watson Stryker) اور سیلوم کاروا (Salome Karwah) ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں چمک دار ہتھیاروں سے نہیں بل کہ حوصلہ مند دلوں سے جیتی جاتی ہیں، ایبولا وائرس کے خلاف کام کرنے والے یہ لوگ بھی اس مشکل جنگ کو حوصلے سے لڑرہے ہیں۔
آئیے ان پانچوں شخصیات کے بارے میں ضروری تفصیلات جانتے ہیں:

٭ ڈاکٹر کینٹ برینٹلی (Dr Kant Brantly)
لائبیریا میں ایبولا وائرس کے شکار مریضوںکا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہوئے۔ جب انھیں یہ خبر ملی کہ اُن کا نام بھی ’’ٹائم میگزین ‘‘ نے سال کی سب سے نمایاں شخصیات میں شامل کیا ہے تو ڈاکٹر کینٹ برینٹلی کا کہنا تھا،’’یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔‘‘ ڈاکٹر کینٹ کہتے ہیں کہ مجھے صحیح طرح اندازہ نہیں کہ میں کب اور کس طرح اس بیماری کا شکار ہوا۔ ہم تو روزانہ ہی بہت سے مریضوں کا چیک اپ کرتے تھے، لیکن مجھے کچھ کچھ احساس ہورہا ہے کہ جب مجھے بخار کی شدت نے جکڑا تو اُس سے 9 روز قبل ایک لڑکی اپنی والدہ کو لے کر آئی تھی، اُس کی والدہ کی حالت بہت خراب تھی۔ کچھ گھنٹوں کے علاج کے بعد وہ عورت انتقال کرگئی۔ اُس کے ایک ہفتے بعد ہی میں بیمار ہوا اور چند میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے بعد چلا کہ میں جس بیماری سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہا ہوں، وہ مجھے لاحق ہوگئی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں زندہ ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ لوگوں کو اس وائرس سے بچائوں۔
٭ڈاکٹر جیری براؤن (Dr Jerry Brown)
افریقی ملک لائبیریا کے دارالحکومت مونروویا کے اسپتال میں میڈیکل ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب 2014 ء کے مارچ میں ہمیں اس ایبولا کے تیزی سے پھیلنے کا پتہ چلا توہم نے فوری طور پر اس سے بچائو کے اقدامات شروع کردیے تھے۔ ابتدائی دنوں میں تو بہت سے لوگ ایبولا وائرس کی سنگینی کا احساس نہیں کرپائے ۔ جب لوگوں میں کچھ شعور بڑھا تو اس وقت بہت سے لوگوں کے لیے دیر ہوچکی تھی۔
٭ فودے گالا (Foday Galla)
میڈیکل کے طالب علم اور ایمبولینس ڈرائیور کی حیثیت سے فودے گالا نے درجنوں مریضوں کو ان کے گھروں سے اسپتال منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک مریض کو اسپتال لے جاتے ہوئے ہی وہ ایبولا کا شکار ہوا۔ فودے گالا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی بھرپور محنت اور حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے کہ میں ایبولا کا مریض ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے کام کررہا ہوں۔
٭ایلا واٹسن اسٹرائیکر(Ella Watson Stryker)
(ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے والی ہیلتھ پروموٹر)
ایلا واٹسن کہتی ہیں کہ مجھے گذشتہ سال مارچ (2014) میں ایبولا وائرس کے بارے میں پہلی بار پتا چلا۔ مجھے اپنے ادارے کی جانب سے افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس پھیلنے کی خبر ملی ۔ میں ایک لمبا سفر کرکے متاثرہ علاقوں میں پہنچی، میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے، جب میں متاثرہ مریضوں سے ملتی رہی، ان کے ساتھ وقت گزار ا تو مجھے کافی سوالات کے جواب مل گئی۔ مجھے اپنی بھی فکر تھی، گھر والے بھی اس حوالے سے کافی پریشان تھے، لیکن میں ان لوگوں کی پریشانیاں دور کرنا چاہتی ہوں جو ایبولا کی وجہ سے اپنی خوشیوں کو خود سے دور کربیٹھے ہیں۔

٭ سیلوم کاروا (Salome Karwah)
سیلوم کاروا بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ افریقہ میں ایبولا کے مریضوں کی امداد میں مصروف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس مہلک مرض کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی، جس کا کریڈٹ ان
ڈاکٹروں کو بھی جاتا ہے جنھوں نے میرا علاج کیا۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ایبولا کے مریضوں
سے زیادہ سے زیادہ ملاقاتیں کروں گی، کیوںکہ میں جتنا زیادہ لوگوں سے ملوں گی، ان سے باتیں کروں گی، ان کے دکھ درد سنوں گی تو میری اپنی تکالیف اور پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔
ایبولا ہے کیا؟
ناظرین کی معلومات میں اضافے کے لیے بتاتے چلیں کہ آخر ایبولا ہے کیا؟، یہ ہلکے سے بخار، گلے، پٹھوں اور سر میں درد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر مریض کو قے آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے مرض کی شدت بڑھتی ہے، ایبولا تیزی سے مریض کے جگر اور گردوں کو متاثر کرنا شروع کردیتا ہے۔
 
Top