کوئی مجھے میری ماں سے جُدا نہ کرے۔

  • Work-from-home

Dark

Darknes will Fall
VIP
Jun 21, 2007
28,885
12,579
1,313
کوئی مجھے میری ماں سے جُدا نہ کرے۔

آج کتنے عرصے بعد میں میری کائنات سے ملا۔اُس ہستی سے کہ جس سے میرے وجود کو زندگی ملی۔اُس ہستی سے جس سے میں نے خدا کے بعد سب سے زیادہ محبت کی۔مگر کبھی کبھی میں اپنی سوچ میں الجھ جاتا تھا کہ میں خدا کو زیادہ چاہتا ہوں کہ اپنی ماں کو۔



اپنے وجود کی ،اپنے دل کی ،اپنے ارادوں کی ساری ہمتیں متجمع کر کے میں نے اس کٹھن سفر کا آغاز کیا۔میرا دل اس ملن کی خوشی سے مخمور تھا۔بہت سے جذبات آپس میں گھُل مل رہے تھے۔میں خوشی اور غم میں کوئی تمیز نہ کر پایا۔اپنی محبوب ہستی سے اتنے دنوں بعد ملنے کا یہ خیال مجھے مسرور کیے دے رہا تھا۔



دوران سفر کئی باتیں میرے دل و دماغ میں آئیں کہ جب میں ماں جی سے ملوں گا تو یہ کہوں گا۔ یہ بتاؤں گا۔بہت سی خوشیاں جو میں نے ان کے بن دیکھیں ۔بہت سے غم کے لمحے جن کو میں نے تنہا سہا۔بہت سے اپنے دوستوں کے قصے سناؤں گا ۔بہت سے دل کے زخم دکھاؤں گا۔انہیں بتاؤں گا کہ پردیس کی زندگی نے مجھے ان کے بغیر کتنا ادھورا کر دیا۔انہیں بتاؤں گا کہ ہر لمحہ ان سے دوری اور انہیں نہ دیکھ سکنے کی اذیت نے مجھے کیسے توڑا ہے۔انہیں بتاؤں گا کہ کس کس موقع پر دل نے ان کی آغوش کی طلب کی۔انہی سب سوچوں کے ساتھ میرا سفر تمام ہوا۔



میری منزل میرے سامنے تھی۔میں دھیرے دھیرے چلتا اپنی ماں کے نزدیک آ رہا تھا۔میرے قدم بہت بھاری ہو گئے ۔نظریں دور ہی سے بس اس شفیق چہرے پر ٹک گئیں۔لمحوں کا سفر میں نے صدیوں میں طے کیا۔اپنی ماں کے قریب آیا۔ کتنی ہی دیر میں خاموش نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھتا رہا۔ وہ سارے لفظ کہیں کھو گئے جن کو سارے سفر میں ،میں نے سینچا تھا۔وہ سارے خیال کہیں ہوا میں محلول ہو گئے جو ماں جی سے ملنے کے حوالے سے میرے دل کےگوشے میں بسے تھے۔



میں نے چاہا کہ میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ سکوں۔مگر میں نے میرے جسم کو بے جان پایا۔مجھ میں مزید کوئی سکت باقی نہ تھی۔ پھر میں بیٹھا نہیں ۔کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح ، جڑ سے کاٹے کسی درخت کی مانند زمین بوس ہوا۔ مجھے میرے بیٹھ جانے کا احساس تب ہوا جب میر ےگھٹنے سخت زمین سے ٹکرائے۔ اور میرے ارد گرد دھول اُڑی۔ مجھے منظر کچھ صاف دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس کی وجہ وہ دھول نہ تھی جو میرے بیٹھ جانے سے میرے گرد حصاّر بنائے کھڑی تھی۔بلکہ اس دھندلاہٹ کی وجہ میری آنکھوں میں دُر آنے والی نمی تھی۔



میں نے کتنی ہی بار اپنے ہاتھوں کی پُشت سے اپنی آنکھوں کو صاف کیا تا کہ میں اپنی ماں کے پُر نور چہرے کو جی بھر کر دیکھ سکوں ۔مگر آنکھوں کے سمندروں میں گویا طوفان برپا تھا۔میری آنکھیں بہت تشنہ تھیں ماں کے دیدار کے لیے،میری پلکوں نے ہر طرح کی حرکت چھوڑ دی۔میں یک ٹُک اپنی ماں کو دیکھے گیا۔میرے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ تھی۔جو میرے آنکھوں کا ساتھ نہ دیتی تھی۔ ہاں مگر میری آنکھوں نے میرے دل کا میرے لبوں کا ساتھ دیا۔ دل کی خوشی کو،ہونٹوں کی مسکراہٹ کو لفظوں میں بیان کر دیا۔میں بہت خوش تھا کہ میں میری ماں کے پاس ہوں۔اور اس خوشی کا اظہار میری آنکھیں مسلسل کر رہی تھیں۔



میں نے میرا لرزتا ہوا ہاتھ میری ماں کے قدموں کی طرف بڑھایا۔ماں کے قدموں پر دونوں ہاتھ رکھے تو میرے پورے جسم میں ایک ارتعاش پیدا ہوا۔یوں لگا جیسے میری روح تک میں کوئی ٹھنڈک اُتر گئی ہو۔ مجھے سکون جنت کا احساس ہوا۔پھر دل نے بے اختیار کہا۔یہی وہ قدم ہیں جن سے میری ماں مجھ تک چل کر آتی تھی۔ کڑی دھوپ میں ،برستی بارش میں ، ہر کام چھوڑ کر،مجھے لینے آیا کرتی تھی۔میں کتنی خوشی سے ماں کا انتظار کرتا تھا۔اور پھر ماں کے قدم سے قدم ملا کر چلتا تھا۔اور کہتا تھا "دیکھو ماں ،میرا پاؤں آپ سے بس تھوڑا سا چھوٹا ہے“ اور ماں ہنس دیتیں تھیں۔ ان کی ہنسی کے خیال سے میرے ہونٹ ایک بار پھر مسکرا اٹھے۔



پھر میں نے اپنا ہاتھ ان کی ٹانگوں پر رکھا۔مجھے یاد ہے جب بھی میں ماں جی کی ٹانگیں دبایا کرتا تھا وہ کس طرح مجھے روکتی تھیں۔کہتی تھیں "میں کہاں تھکی ہوں“۔اور میں کہتا تھا "آپ تھکیں ہوں یا نہیں مگر مجھے تو جنت پانے دیں“ پھر وہ کتنی ہی دعائیں میرے نام کیا کرتیں تھیں۔ جتنی دیر تک میں دباتا رہتا ان کے لبوں پر بس دعائیں ہی دعائیں ہوا کرتی تھیں۔اس وقت بھی مجھے ان تمام دعاؤں کی باز گشت اپنے ارد گرد محسوس ہوئی۔



میں نے ہاتھ بڑھا کر اپنی ماں کے ہاتھ کو چھُوا۔کتنا خوبصورت احساس میرے اندر تک سرائیت کر گیا۔مجھے وہ بیتے لمحے یاد آنے لگے جب سردیوں کی دھوپ میں ،میں اپنی ماں کے پاس چارپائی پر بیٹھا تھا اور ان کے ہاتھ کی جھریوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔الٹ پلٹ کر ماں کا ہاتھ دیکھتا۔ماں جی نے ہنس کر کہا " شہزادے کیا دیکھ رہے ہو؟“ میں نے کہا۔"آپ کے ہاتھ کتنے بوڑھے ہو گئے ہیں مجھے بڑا کرتے کرتے“وہ کھلکھلا کر ہنس دی تھیں۔ اور مجھے ان کے ہاتھ دیکھ کر ہر اُس تکلیف کا احساس ہو رہا تھا جو انہیں نے میری پرورش میں ان ہاتھوں پر جھیلی تھی۔میں نے ان کے ہاتھوں کو چُوم لیا تھا۔اور ہر اس تکلیف کو چُننا چاہا جو ان ہاتھوں نے میرے لیے سہی تھیں۔انہیں ہاتھوں سے اکثر میں کھانا کھاتا تھا۔یونہی جان بوجھ کر ضد کرنا،چھوٹی چھوٹی سی بات پر خفا ہو کر کھانا کھانے سے انکار کر دینا۔صرف اس غرض سے کہ وہ کہیں گی کہ آؤ میں اپنے ہاتھ سے کھلاتی ہوں۔اور پھر میں اس ہاتھ سے جنت کے کھانوں کا لطف پایا کرتا تھا۔
یہی ہاتھ کبھی میرے سر پر دعا دینے کے لیے موجود ہوتا تھا۔ کبھی میرے گال سہلانے کے لیے،اور کبھی اپنی آغوش میں سُلاتے ہوئے تھپکی دیتا تھا۔اور ہر لمحہ میرے لئے دعا کرنے کو خدا کے حضور اٹھا رہتا تھا۔



میں نے نظر اٹھا کر ماں جی کے چہرے کی جانب دیکھا۔ان کے ہونٹوں کی جانب دیکھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی میرے لیے دعا گو تھے۔مستقل کوئی دعا ان لبوں پر رقصاں تھی۔ ان لبوں سے ادا ہوتا ہر لفظ میرے ارد گرد ایک ہمیشہ کی طرح ایک حصّار بنا رہا تھا۔جس میں کوئی پریشانی کوئی تکلیف مجھے چھُو نہ سکتی تھی۔



پھر میں نے اپنی ماں کی آنکھوں کی جانب دیکھا۔ وہاں ہمیشہ کی طرح میرا انتظار تھا۔مجھے اس انتظار نے کچھ سال پہلے کے اس انتظار کی یاد دلائی جب میں پڑھ کر گھر آیا کرتا تھا۔میری ماں دروازے پر میری منتظر ہوا کرتی تھی۔مضطرب ،بے چین،مجھے تلاشی آنکھوں کے ساتھ۔میں گھر میں داخل ہو کر سلام کرتا تو کسی چھوٹے بچے کی طرح مجھے خود سے لپٹا لیا کرتی تھیں۔میں اس پریشانی اور بے چینی کا سبب پوچھنے ہی لگتا تو وہ فوراً پوچھتیں۔ "آج آنے میں اتنی دیر کیوں ہو گئی ؟“ میں نے گھڑی کی طرف نظر کی۔صرف پانچ منٹ ہی تو اوپر ہوئے تھے میرے ہر روز کے وقت سے اور ان پانچ منٹوں میں ہی میری ماں گھبرا گئی۔ میں نے کہا ۔"ماں جی بس پانچ منٹ ہی تو دیری ہوئی ہے“ تو وہ یکدم کہتیں۔"تم میری نظر سے لمحہ بھر بھی اوجھل ہو تو میری آنکھوں کا نور ماند پڑنے لگتا ہے۔ تمہیں دیکھ کر دل کو ڈھیروں سکون ملتا ہے“۔
آج مجھ سے ماں جی نے نہیں پوچھا کہ اتنی دیر سے کیوں آئے ہو میں تو کب سے تمہاری منتظر تھی۔میں نے ماں جی کی آنکھوں میں دیکھا تو ان کی بات کو محسوس کیا۔آج مجھے کتنا سکون مل رہا تھا انہیں دیکھ کر۔میری آنکھوں کا نور بھی کتنا چمک اٹھا تھا۔مجھے بھی کتنی شدت سے محسوس ہوا کہ ماں جی میری نگاہوں سے اوجھل ہوں تو دل مضطر کو کسی پل چین نہیں آتا۔



پھر میں نے بڑھ کر ماں کے ماتھے پر بوسہ دیا۔اور میری آنکھیں غم سے بھیگ گئیں۔مجھے وہ لمحات یاد آنے لگے جب آخری مرتبہ میں نے اپنی ماں کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔کتنا رنجور تھا یہ دل اُس وقت اور میں نے ان پر ظاہر بھی نہ ہونے دیا تھا۔ انہوں نے کتنی ہی نصیحتیں کی تھیں مجھے ،میرا دل سب سن رہا تھا میرے کان سب سن رہے تھےمگر اس وقت میں اپنے حواس میں نہ تھا۔میں نے اپنے دل کی کیفیت کو کتنا چھپا کر رکھا اس ہستی سے جس سے میری ذات کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ تھی۔ میں کتنا مسلسل کہہ رہا تھا کہ " ماں جی! باقی نصیحتیں بعد میں کرئیے گا ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ “اور انہوں نے کہا تھا کہ " شہزادے آنے والا وقت شاید میرا نہ ہو،مجھے جو لفظوں کی جائیداد تمہیں دینی ہے وہ مجھے دے لینے دو۔وگرنہ تم سدا خالی ہاتھ رہ جاؤ گے۔“
میں نے انہیں بولنے دیا۔اور میں بھی خالی دل ،خالی ذہن اور خالی آنکھوں سے انہیں دیکھتا،سنتا رہا۔



میری ماں نے مجھ سے سب باتوں کے ساتھ ایک بات یہ بھی کہی کہ "بہت سے موقع زندگی میں ایسے آئیں گے بیٹا جب تم میری کمی کو بہت شدت سےمحسوس کرو گے،جب تم چاہو گے کہ میری گود،میرا آنچل تمہیں میسّر ہو۔جب تم چاہو گے کہ بنا بولے اپنا سب غم تم میرے حوالے کر دو۔مگر تم مجھے اس وقت نہیں پاؤ گے تو ٹوٹ مت جانا۔کبھی کبھی کوئی خیال کوئی یاد انسان کی طلب کو مکمل نہیں کرپاتے ، تمہاری زندگی میں جب ایسے لمحے آئیں تو میرے پاس چلے آنا۔مجھ سے ڈھیروں باتیں کرنا اپنا غم میرے حوالے کرنا اور لوٹ جانا۔
جو اگر ایسا بھی نہ کر پاؤ تو یوں کرنا میری قبر کی تھوڑی سی مٹی اپنی مٹھی میں بھرنا اور ہمیشہ کے لیے مجھے اپنے پاس لے جانا۔ پھر جب کبھی تمہیں کوئی تکلیف ہو کوئی رنج ہو کوئی غم ہو تو مجھ سے ڈھیروں باتیں کرنا اپنے سب آنسو اس مٹی کے حوالے کرنا اور دل ہلکا کر لینا۔وہ مٹی تمہارے سب آنسو خود میں جذب کر لے گی اور پھر خشک ہو جائے گی۔“



آج میری زندگی میں یہ لمحہ ایسا ہی تھا جب میں غموں سے چور اپنی ماں کی آغوش میں سکون پانے آیا تھا۔میں نے ماں جی کہ کہی اس آخری بات پر عمل کیا۔ ہاتھ بڑھایا اور ان کے قبر کی تھوڑی سی مٹی اپنی مٹھی میں لی اور اپنے پاس محفوظ کر لی۔ پھر ماں سے ڈھیروں باتیں کی۔اپنے دل کے سب غم بانٹے۔میری روح میرا جسم بہت ہلکا ہو گیا۔اور اس طویل ملاقات کے بعد میں لوٹ آیا۔



ماں کی قبر کی اس مٹی کو میں نے ایک شیشے کی چھوٹی سی بوتل میں ڈال کر اپنے پاس رکھا۔جب کبھی زندگی کے کمزور لمحوں کی لہریں مجھے بہانے آتیں میں اس شیشی کے کنارے بیٹھ جاتا۔اور ان تمام لمحوں کا مقابلہ کرتا۔ میرے دل کو عجب سا سکون رہنے لگا ۔ایک احساس تھا کہ میری ماں ہر لمحہ میرے پاس ہے میرے ساتھ ہے۔میں ہنستا ہوں تو وہ ہنستی ہے میں روتا ہوں تو وہ روتی ہے۔میں جب جب بکھرتا ہوں وہ مجھے اپنی آغوش میں بھر لیتی ہے مجھے سمیٹ کر پھر سے ایک مضبوط انسان بنا دیتی ہے۔



کبھی کبھی میں اس شیشی کو ہاتھ میں تھامے تھامے سو جاتا۔یوں لگتا جیسے میرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ میں ہو ۔جیسے کبھی چھوٹے ہوتے میں ان کی انگلی تھام کر سویا کرتا تھا۔
مجھے اس مٹی کے ساتھ کی عادت ہو گئی جیسے اپنی ماں کے ساتھ عادت تھی۔مگر ایک بات میرے دل کو سکون بخشتی تھی کہ اب میری ماں کو مجھ سے کوئی جُدا نہیں کر سکتا خدا بھی ان کو اب مجھ سے نہیں لے گا۔وہ تا حیات میرے ساتھ رہیں گی۔
میں نے آدھی زندگی ماں کے ساتھ گزاری اور باقی ماندہ ان کے احساس کے ساتھ گزار دی۔آج میں زندگی کے اس موڑ پر ہوں جہاں سے زندگی مجھے بہت دور لگتی ہے اور میری ماں کا ساتھ بہت قریب۔ہر نفس کو بالآخر اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
میں نے آج اپنے پیاروں سے ایک وصیت کی۔میں نے ان سے کہا کہ میرے مرنے کے بعد میری قبر میں اس شیشی کو ضرور رکھ دیں۔مجھے ماں بن جینے کی عادت نہیں ہے۔شاید میں ان کے بن مرنے کے بعد بھی چین نہ پاؤں۔میری ماں کا احساس میرے پاس ہو گا تو مجھے کوئی غم نہ ستا سکے گا۔میں مطمئن رہوں گا۔میں اپنی ماں بن جی نہیں سکتا ۔پھر چاہے زندگی اس فانی دنیا کی ہو یا ابدی دنیا کی ۔۔بس یہی میری آخری وصیّت ہے۔مجھے میری ماں سے کوئی جدا نہ کرے۔



سیّد جرار علی
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
ye sab parhne k baad kuch bhi kehna mushkil hay


kahani mairi zindagi ki bas ik hasti k gird ghumti hay
muhabbat muje is lie hay jannat se k wo mairi maan k qadam chumti hay{(goodluck)}

ALLAH TALA ham sab ki mothers ka saaya hamesha hamare siron pe qaim rakhay AAMEEN
 
Top