ڈی ڈی کی سالگرہ

  • Work-from-home

Haider_Mk

Active Member
Oct 14, 2013
282
124
193
DD ki birthday k muqa par me nay ek choti si sharart ki socha ap logo say b share kr lo................
baqi umeed hai hum ek dafa phir mil kr activities kry gay....

مجھے پتا چلا کہ ڈی ڈی کی سالگرہ ہے میں حیران تھا کہ مجھے ابھی تک کارڈ نہیں ملا پھر سوچا کہ 2014میں اتنے "چن" چڑھے ہیں جیسے جہانگیر بھائی؛زیڈجے؛نائس پری اور سویٹ گل کی شادی ہو سکتا ہے کہ اتنے سارے چن چڑھنےکےبعداور بھابھی کے آنے کی خوشی میں بھول گئے ہوں گئے۔ خیر میں نے سوچا کہ کارڈ تو غیروں کے لیے ہوتے ہیں اپنوں کے لیے تھوڑی ہوتے ہیں۔ پلاو کھائے کافی عرصہ ہو گیا ہے سوچا دعوت پر جا رہا ہوں بریانی بنی ہو گئی مزہ آجائے گا
اسی خوشی میں میں ڈی ڈی مین آفس جا پہنچا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ چوکیداری کے فرائض سلمان بھائی ادا کر رہے ہیں۔مجھے دیکھتے ہی سلمان بھائی بولے"ہاں کوچہ کدھر جاتی ہے؟" میں بولا اندر جاتا ہے تو بھائی بولے"کوچہ کارڈ دیکھائے گی تو ہی اندر جانے دے گئی" میں بولا بھائی میں ڈی ڈی نیوز کا چیف ایگزیٹو ہوں اور ٹیم ممبر بھی ہوں۔کوچہ ہم کو پتہ ہے تم کون ہوں پر خانہ خراب ایڈمن بولتی ہے کہ بغیر کارڈ کہ کسی کو اندر نا آنے دوں۔ خیر بڑی مشکل سےاندر داخل ہوا اندر داخل ہوتے ہی امید آپو مل گئی ۔محترمہ نے دیکھتے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا پھر کہتی چلو کچن میں ۔ میں سمجھا کہ اب اتنی ڈانٹ کھلائی ہے شائد اب کچھ کھانے کو مل جائے اسی خوش فہمی میں کچن آگیا ۔ کچن میں ایمان اور بھابھی کام کر رہی تھی ۔ میں سمجھ گیا کہ نئی نویلی دلہن کو کام پر لگا دیا ہے حیدر بیٹا نکل لے ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایمان بولی کہ حیدر پیاز کاٹ دوں اور سنا ہے تم بریانی بہت اچھی بنا لیتے ہوں اس سے پہلے کچھ کہتا کہ بھابھی نے پیاز بھی پکڑا دیے۔ پیاز چیلے ہی تھے کہ چارمنگ پرنس آگیا آتے ہی بولا جوس پیو گئے میں خوش ہوگیا کہ چلو کسی کو تو میرا خیال آیا ۔پرنس نے گلاس میں جوس ڈالا اور باہر لے گیااور میں دیکھتا ہی رہ گیا بس دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے. آنسو صاف کر ہی رہ تھا کہ ایڈمن صاحب آگئے مجھے دیکھتے ہی بولے تم ادھر ہوں چلوں لائبریری آو اور بولے کہ تقریر لکھو میں بولا مجھےتقریر نہیں کرنی جواب ملا تم کو کرنے کا کون کہہ رہا ہے لکھنے کا بولا ہے تقریر تو میں خود کروں گا۔ مرتا نا تو کیا کرتا تقریر لکھ کر دی جیسے ہی باہر نکلا آگے سے تنہا مسافر مل گیا میں نظر بچا کر نکلنے والا ہی تھا کہ تنہا صاحب کی آواز آئی کہ یار پارکنگ چلتے ہیں میں تنہا ہو سوچا کسی کا ساتھ ہی ہوجائے اتنے میں جیا کومل آ گئی مجھے دیکھتےہی بولی حیدر کے بچے تم ادھر ہوں اس ٹائم میرے دل پر جو گزری میں ہی جانتا ہوں کہ اک کنوارے کے بچے بھی ہو جائے اور اس کو خود کو بھی خبر نہ ہو۔"دل دیاں لگیاں نوں کون جاندا میں جاندا یا میرا رب جاندا" بات سن کر باہر نکل کر ہال میں آیا تو ہال میں رنگ و نور کی بارش تھی.
تقریب شروع ہونے والی تھی.
سٹیج سیکرٹری کے فرائض محترمہ Silly Princess انجام دے رہی تھیں
جناب چاند بھائی صاحب نے تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز کیا امید ملک نے مبارک سلامت کے شور مے کیک کاٹا
عاطف سعید صاحب اپنے نئے پروفائل پکچر کی طرح بہت ہی خوشگوار موڈ میں لگ رہے تھے.
صدارتی تقریر عاطف سعید صاحب نے پڑھی
آخر میں پوچھا
اس گروپ میں کویی ھے جو ھم سے پیار کرتا ھو
سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے
میں ایک کونے میں بیٹھ گیا اور تقریر سننے لگا. اسی دوران میری نظر وردان صاحب پر پڑی.
وہ کسی کو تلاش کر رہے تھے.
مجھے دیکھا تو پاس آے.
کہنے لگے یار میں نے بھی تقریر کرنی ہے لیکن کچھ ریفرنس کی کتابیں نہیں مل رہی ہیں.
تم لائبریری سے کچھ ریفرنس کی کتابیں لا دو.
میں لائبریری چلا گیا لیکن ریفرنس نام کی کوئی کتاب نظر نہیں آئ.
آخر تین چار اسلامی کتابیں اٹھا ین اور وردان کو دے دی. اب اسٹیج پر ٹیم ممبر حضرات کی باری تھی اور نائس پری صاحبہ تقریر کر رہی تھیں.
پروگرام بڑھتا ہی جا رہا تھا.
اتنے میں سٹیج سے میرا نام پکارا گیا.
خوش ہوا کے میری باری بھی آگئی. کچھ جذبات کا اظہار کر دوں گا.
سٹیج کے قریب گیا تو ایڈمن صاھب نے اشارے سے نزدیک بلایا اور کہا کے میں نے تمہیں بلا یا ہے.
ذرا کچن میں چلے جاؤ اور دیکھو کھانے میں کتنی دیر ہے. کچن میں گیا تو دیکھا کے جگر،ماسٹر مائنڈاور ڈیگر سموسے پیسٹری کھا رہے ہیں
مجھے دیکھا تو سب نے پلیٹ اپنے ہاتھوں میں لےلیا.
خیر میں نے ایمان اور بھابھی سے پوچھا کے کھانے میں کتنی دیر ہے.
بریانی تیار ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ ہے ، بھابھی نے بتایا.
صرف ایک دیگ بریانی کی تھی
پوچھنے پر پتہ چلا کے یہ کھانا تو صرف اڈمن حضرات کے لئے ہے.
میں بہت مایوس ہوا. یہ تو کھلا تضاد تھا ماسٹر مائنڈ نے بتایا کے کارڈ پر کھانے کی تصویر بنی ہوئی ہے
اسکا مطلب ہے کے آپ اپنا کھانا گھر سے کھاکر آئین.
ہال میں واپس آیا تو پتہ چلا کے پورے دن تقریر اور شاعیری ہوگی.
ہال کے بلکل آخر میں بیٹھ گیا. اس دوران آنکھ لگ گئی.
تالیوں کی آواز سے آنکھ کھل گئی.
اعلی حضرت پیر و مرشد شیخ الطریقت علی مرتب مد ضلہ عالی
جناب ایڈمن صاحب کی تقریر ختم ہورہی تھی. یہ آخری آئٹم تھا. لوگ جانا شروع ہو گئے. گھبرا کر باھر نکل آیا.
عاطف سعید صاھب اکیلے اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے
مجھے بتایا کے دو تین فرلانگ کے فاصلے پر رکشہ کا اڈا ہے.
اور وہ چلے گئے.
اڈے پر پہنچا تو پتا چلا کے چنگ چی رکشا کی ہڑتال ہے.
پیدل ہی گھر کی طرف روانہ ہو گیا.

 
Top