السلام علیکم
بھارتی فوج کا لاہور پر حملہ پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی رات شروع ہو چکا تھا۔ حملے کی ابتدا پیدل فوج نے کی تھی اور جنرل چوہدری کی خوش فہمی تھی کہ ان کی پیدل فوج تعداد میں پاکستانی فوج سے تین گنا ہونے کی وجہ سے ٹینکوں اور توپخانے کی مدد کے بغیر ہی پاکستانی فوج کو کچل کر رکھ دے گی لیکن پورے لاہور فرنٹ پر پاکستانی فوج ڈٹ گئی تھی۔ برکی کے محاذ پر راجہ عزیز بھٹی شہید کی کمپنی بھارتیوں کو ناکوں چنے چبوا رہی تھی جبکہ لاہور کے سامنے سولہ پنجاب رجمنٹ کی ایلفا اور براوو کمپنی اور بلوچ رجمنٹ کی ایک کمپنی دیوار بنی کھڑی تھی۔
صبح تک بھارتی جنرلز یہ جان چکے تھے کہ پاکستانی فوج کو ہرا پانا پیدل فوج کے بس کی بات نہیں رہی تو انہوں نے توپخانے سے انتہائی تیز گولہ باری شروع کر دی اور اسی گولہ باری کی آڑ میں ٹینکوں کو آگے بڑھایا۔ اس وقت پاکستان کی جانب سے محاذ جنگ پر نہ تو کوئی ٹینک موجود تھا نہ ہی کوئی ٹینک شکن گن۔ فوری طور پر پچھلی سپلائی لائنز سے ایک ٹینک شکن گن جسے آر آر گن کہا جاتا ہے اگلے مورچوں کی جانب بھیجی گئی۔
آر آر گن یا تو جیپ پر لگی ہوتی ہے یا اسے زمین میں کسی مورچہ میں لگایا جاتا ہے لیکن یہ گن بالکل اوپن ہوتی ہے اور جوابی حملہ اسے آسانی سے تباہ کر سکتا ہے اس لیے جیپ ہو یا زمینی مورچہ اسے کسی جگہ چھپا کر اور اوٹ سے ہی فائر کیا جاتا ہے۔
جب پہلی آر آر گن میدان جنگ پر پہنچی تو جیپ کو کسی اوٹ میں چھپانے کا وقت نہیں تھا کیونکہ بھارتی ٹینک سر پر چڑھے آ رہے تھے جیپ کے کمانڈر آس پاس کوئی آڑ دیکھ ہی رہے تھے کہ سامنے سے ایک دیہاتی جنگ سے بالکل بے خبر اور بے نیاز اپنی بیل گاڑی پر بھوسہ لادے آتا دکھائی دیا۔
گن کمانڈر نے فوری طور پر اس دیہاتی کو کسی محفوظ جگہ لے جانے کا حکم دیا اور گاڑی سے بیل الگ کر کے عین میدان میں بھوسے کا چھکڑا کھڑا کیا اور اسی بھوسے کی اوٹ میں گھسا کر جیپ کھڑی کر دی۔
پہلا فائر ہوا ایک بھارتی ٹینک اڑ گیا۔ بھارتی فوجی آس پاس آر آر گن کو تلاشنے لگے۔ لیکن بے سود اس آر آر گن نے کسی کی بھی نگاہوں میں آئے بنا کئی بھارتی ٹینک تباہ کر دئیے۔ دیہاتی بہت خوش تھا کہ اس کا چھکڑا ٹینک بن گیا۔
یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا کہ آج جنگ ستمبر پر لکھی گئی ہر بڑی کتاب میں اس چھکڑا ٹینک کا ذکر ملتا ہے۔
بھارتی فوج کا لاہور پر حملہ پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی رات شروع ہو چکا تھا۔ حملے کی ابتدا پیدل فوج نے کی تھی اور جنرل چوہدری کی خوش فہمی تھی کہ ان کی پیدل فوج تعداد میں پاکستانی فوج سے تین گنا ہونے کی وجہ سے ٹینکوں اور توپخانے کی مدد کے بغیر ہی پاکستانی فوج کو کچل کر رکھ دے گی لیکن پورے لاہور فرنٹ پر پاکستانی فوج ڈٹ گئی تھی۔ برکی کے محاذ پر راجہ عزیز بھٹی شہید کی کمپنی بھارتیوں کو ناکوں چنے چبوا رہی تھی جبکہ لاہور کے سامنے سولہ پنجاب رجمنٹ کی ایلفا اور براوو کمپنی اور بلوچ رجمنٹ کی ایک کمپنی دیوار بنی کھڑی تھی۔
صبح تک بھارتی جنرلز یہ جان چکے تھے کہ پاکستانی فوج کو ہرا پانا پیدل فوج کے بس کی بات نہیں رہی تو انہوں نے توپخانے سے انتہائی تیز گولہ باری شروع کر دی اور اسی گولہ باری کی آڑ میں ٹینکوں کو آگے بڑھایا۔ اس وقت پاکستان کی جانب سے محاذ جنگ پر نہ تو کوئی ٹینک موجود تھا نہ ہی کوئی ٹینک شکن گن۔ فوری طور پر پچھلی سپلائی لائنز سے ایک ٹینک شکن گن جسے آر آر گن کہا جاتا ہے اگلے مورچوں کی جانب بھیجی گئی۔
آر آر گن یا تو جیپ پر لگی ہوتی ہے یا اسے زمین میں کسی مورچہ میں لگایا جاتا ہے لیکن یہ گن بالکل اوپن ہوتی ہے اور جوابی حملہ اسے آسانی سے تباہ کر سکتا ہے اس لیے جیپ ہو یا زمینی مورچہ اسے کسی جگہ چھپا کر اور اوٹ سے ہی فائر کیا جاتا ہے۔
جب پہلی آر آر گن میدان جنگ پر پہنچی تو جیپ کو کسی اوٹ میں چھپانے کا وقت نہیں تھا کیونکہ بھارتی ٹینک سر پر چڑھے آ رہے تھے جیپ کے کمانڈر آس پاس کوئی آڑ دیکھ ہی رہے تھے کہ سامنے سے ایک دیہاتی جنگ سے بالکل بے خبر اور بے نیاز اپنی بیل گاڑی پر بھوسہ لادے آتا دکھائی دیا۔
گن کمانڈر نے فوری طور پر اس دیہاتی کو کسی محفوظ جگہ لے جانے کا حکم دیا اور گاڑی سے بیل الگ کر کے عین میدان میں بھوسے کا چھکڑا کھڑا کیا اور اسی بھوسے کی اوٹ میں گھسا کر جیپ کھڑی کر دی۔
پہلا فائر ہوا ایک بھارتی ٹینک اڑ گیا۔ بھارتی فوجی آس پاس آر آر گن کو تلاشنے لگے۔ لیکن بے سود اس آر آر گن نے کسی کی بھی نگاہوں میں آئے بنا کئی بھارتی ٹینک تباہ کر دئیے۔ دیہاتی بہت خوش تھا کہ اس کا چھکڑا ٹینک بن گیا۔
یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا کہ آج جنگ ستمبر پر لکھی گئی ہر بڑی کتاب میں اس چھکڑا ٹینک کا ذکر ملتا ہے۔