میں طارق جمیل سے مولانا طارق جمیل کیسے بنا ؟ مولانا طارق جمیل کی انتہائی جذباتی کہانی

  • Work-from-home

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
مولانا طارق جمیل کی کہانی بہت دلچسپ ہے‘ ان کے آباؤ اجداد خانیوال کے قریب آباد تھے‘ یہ لوگ دریائے راوی کے کناروں پر رہتے تھے‘ جانگلی کہلاتے تھے‘ قتل وغارت گری اور لڑئی جھگڑاان کا پیشہ تھا۔ طارق جمیل کسی نہ کسی طرح پڑھتے پڑھاتے گورنمنٹ کالج تک پہنچ گئے‘ کالج میں وہ عام سے دنیادار قسم کے طالب علم تھے‘ مذہبی تقریبات اور نماز و عبادت سے دورر ہتے تھے۔ ان دنوں اقبال ہال میں ایک بنگالی طالب علم نے انہیں دعوت دی لیکن طارق جمیل نے اسے ڈانٹ کر کمرے سے نکال دیا‘ اس طالب علم کا نام نعیم تھا۔ وہ آج کل بنگلہ دیش کا مشہور معیشت دان ہے‘ چند دنوں بعد وہ کسی دوست کے کمرے میں گئے وہاں اور بھی لڑکے بیٹھے تھے وہ سب مسجد جارہے تھے‘ انہوں نے طارق جمیل کو بھی دعوت دی لیکن انہوں نے انکار کر دیا‘ دوست بضدہو گئے اور انہیں زبردستی لے گئے وہاں طارق جمیل نے اسی نعیم کو نماز پڑھتے دیکھا‘ مولانا اب اس منظر کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آواز میں ایک عجیب تھرتھراہٹ آجاتی ہے ‘ وہ کہتے ہیں ’’ میں نے آج تک کسی کو اتنے خوف سے نماز پڑھتے نہیں دیکھا‘‘ نعیم کی اس نماز نے طارق جمیل کے اندر ایک نیا دروازہ کھول دیا ‘ اس رات بھی وہ مسجد سے نماز پڑھے بغیر واپس آگئے‘ لیکن اندر ہی اندر کوئی احساس ضرور کروٹ لینے لگا۔ دوسری بار وہ چند دوستوں کے ساتھ نیوہاسٹل کی کینٹین پر بیٹھے تھے‘ آذان ہوئی تو وہی نعیم سیڑھیوں سے گھسیٹ گھیسٹ کر اترنے لگا اس کی ٹانگوں میں کوئی مسئلہ تھا جس کے باعث اسے چلنے میں دشواری ہورہی تھی‘ وہ ساری سیڑھیاں اترا اس کے بعد برآمدے میں گھسیٹتا ہو امسجد پہنچا۔ طارق جمیل نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ دیکھو! یہ شخص اس حالت میں بھی اپنے رب کے سامنے پیش ہو گیا لیکن ہم ٹھیک ٹھاک حالت میں نماز نہیں پڑھتے ‘‘بس یہ فقرہ کہنے کی دیر تھی طارق جمیل کی ذات کے سارے دروازے کھل گئے‘ وہ مسجد میں داخل ہوئے اور آج 35برس ہو چکے ہیں وہ پھر وہاں سے واپس نہیں آئے۔ یہ الگ کہانی ہے جب جانگلیوں کے اس بیٹے نے داڑھی رکھی جب اس نے میڈیکل کی بجائے قرآن اور سنت کی تعلیم حاصل کرنا چاہی اور جب اس نے ڈاکٹر کی بجائے مولوی بننے کا فیصلہ کیا تو اس کی کتنی اپوزیشن ہوئی ‘ ان کی والدہ نے کتنی منتیں کیں‘ ان کے والد ان سے کتنے ناراض ہوئے‘ ان کے یار دوستوں ‘عزیز رشتے داروں نے انہیں کتنا سمجھایا لیکن وہ ’’ضد ‘‘کے پکے نکلے۔ یہاں تک کہ ان کا بستر گورنمنٹ کالج جیسے ماڈرن ادارے سے گول ہوا اور رائے ونڈ کے دیہاتی مدرسے میں جا نکلا۔ یہ طارق جمیل اس وقت دنیائے اسلام کے مولانا طارق جمیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دین کی روشنی اور عمل کی طاقت سے نواز رکھا ہے ‘ ہم سنا کرتے تھے پڑھا کرتے تھے فلاں شخص کی باتیں سیدھی دل پر اثر کرتی ہیں‘ میں نے یہ صفت طارق جمیل کی ذات میں دیکھی ‘ واقعی ان کی بات انسان کے اندر دستک دیتی ہے۔
وہ جب بھی اسلام آباد تشریف لاتے ہیں مجھے ضرور دعوت دیتے ہیں اگر میں شہر میں ہوں تو ان سے ملاقات ہو جاتی ہے ‘ جس میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کر جاتے ہیں جو مدتوں سوچ کے تار ہلاتی رہتی ہے۔ اس بار بھی وہ گلگت سے واپسی پر اسلام آباد رکے تو ملاقات کا شرف حاصل ہوا‘ دوران گفتگومولانا ترمذی جلد ثانی ایک حدیث سنائی ‘ انہوں نے فرمایا حضرت علیؓ سے روایت ہے رسولؐ اللہ نے فرمایا’’جب میری امت میں پیسہ چند ہاتھوں میں جمع ہو جائے گا‘امانتیں ہڑپ کر لی جائیں گی ‘زکوۃ کو ٹیکس قرار دے کر ادائیگی سے انکار ہونے لگے گا‘ دین کا علم دنیاوی اغراض کے لیے حاصل کیا جائے گا‘ لوگ بیویوں کے فرمانبردار ہو جائیں گے ‘ لوگ ماؤں کی نافرمانی کریں گے ‘ دوستوں سے اچھا سلوک ہو گاباپ سے برا‘فاسق لوگ قبیلے کے سردار ہونگے‘ حکومت نااہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی ‘ ایک دوسرے کے شر سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کا احترام کیا جائے گا‘ مسجدوں میں لڑائی جھگڑے ہونگے‘گانے والیاں معزز اور محترم ہو جائیں گی‘آلات موسیقی عام ہو جائیں گے‘ شراب کھلے عام پی جائے گی اور لوگ جب پرانے زمانے کے لوگوں کو نادان سمجھیں گے انہیں برا بھلا کہیں گے تو اس زمانے میں میری امت پر عذاب اتریں گے‘ میری امت اس وقت سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار رکرے‘ وہ خود کو زمین میں دھنسا ئے جانے ‘آسمان سے پتھر برسائے جانے اور شکلیں بگاڑ ے جانے کا انتظار کرے ‘ وہ انتظار کرے اس وقت کا جب اس پر طرح مصیبتیں اتریں گی جیسے دھاگہ ٹوٹنے سے مالا کے دانے گرتے ہیں ‘ ایک ایک کر کے ‘پے درپے‘‘۔
مولانا خاموش ہوئے تو سننے والوں کی کمر پر پسینے کے قطرے رینگنے لگے‘ باہر بارش ہو رہی تھی اور اندر اے سی لگا تھا لیکن اس کے باوجود مجھے ماتھے پر پسینے کی لکیر محسوس ہوئی ‘ میں نے اجازت چاہی ‘ باہر آیا اور گھر پہنچنے تک سوچتا رہا ’’کیا رسولؐ اللہ کی امت پر ابھی وہ وقت نہیں آیا؟‘‘ محسوس ہوا وہ وقت ہمارے دروازے پر کھڑا ہے کہ عالم اسلام گناہ کی وہ ساری حدیں عبور کر چکا ہے جس کے نتیجے میں اللہ کے رسولؐنے سرخ آندھیوں ‘زلزلوں اور دلدلوں کی پیشن گوئی کی تھی ‘ اب وہ وقت دور نہیں جب ہمارے پاؤں کی مٹی اچانک بھربھری ہو جائے گی اور ہم اس میں دھنس جائیں گے ‘ جب کوئی دو تین میل لمبا شہاب ثاقب ٹوٹے گا‘ کائنات میں غوطے کھاتی کوئی چٹان اپنے مدارسے نکلے گی‘ زمین کے قریب پہنچ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گی اور یہ ٹکڑے دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہمارے اوپر اس طرح کریں گے جس طرح دھاگہ ٹوٹنے سے مالا کے دانے فرش پر گرتے ہیں اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے نیچے سے زمین دھنسنا شروع ہو جائے اور اوپر اس طرح گریں گے جس طرح دھاگہ ٹوٹنے سے مالا کے دانے فرش پر گرتے ہیں اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے نیچے سے زمین دھنسنا شروع ہو جائے اور اوپر سے پتھر برسنے لگیں اور ہم آدھے زمین میں ہوں اور آدھے گرم پتھروں میں۔
ہم لوگ جی ہاں ہم لوگ پیسہ جمع کرنے ‘ امانیتں ہڑپ کرنے اور زکوۃ کو ٹیکس کہنے والے فاسق‘ شرابی ‘ نافرمان ‘ نااہل ‘جھگڑالو اور پرانے زمانے کے لوگوں کو برا بھلا کہنے والے اور کس سلوک کے حق دار ہیں ؟ہم لوگ اسی سلوک کے اہل ہیں‘لہٰذا 61اسلامی ممالک کے ایک ارب 50کروڑ مجرم اب قدرت کے نظام عدل کا انتظار کر رہے ہیں ‘ جرم ثابت ہو چکا ہے ‘ بس ایک پیشی کی بات ہے اور پھر اس دنیا میں ہماری جگہ عبرت کی چند کہانیاں اور تاسف کے چند قصے ہونگے‘ آخر کانٹے کاشت کرنے والے لوگ کب تک گندم کاٹتے رہیں گے‘ کیکروں کے مالک انگور کب تک اتارتے رہیں گے‘ کبھی نہ کبھی ‘ کسی نہ کسی دن تو ان کے کپڑے تار تار ہونگے‘ کبھی نہ کبھی تو کانٹے ان کے وجود میں اتریں گے اور جس دن وجود اور کانٹوں کا یہ فاصلہ ختم ہوا وہ انتظار کا آخری لمحہ ہو گا۔


10-2.jpg
 
  • Like
Reactions: intelligent086
Top