مومن کا اپنے گناہ پر پردہ ڈالنا
عن أبا هريرة يقول سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول کل أمتي معافی إلا المجاهرين وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله عليه فيقول يا فلان عملت البارحة کذا وکذا وقد بات يستره ربه ويصبح يکشف ستر الله عنه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری تمام امت کے گناہ معاف ہوں گے مگر وہ شخص جو اعلانیہ گناہ کرتا ہو اور یہ تو جنون کی بات ہے کہ رات کو ایک آدمی کوئی کام کرے اور اللہ اس پر پردہ ڈالے پھر صبح ہونے پر وہ آدمی کہے کہ اے فلاں میں نے گزشتہ رات فلاں فلاں کام کیے رات کو اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا اور یہ کہ صبح کو اس نے اللہ کے ڈالے ہوئے پردہ کو کھول دیا۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1026 ادب کا بیان : مومن کا اپنے گناہ پر پردہ ڈالنا
تشریح :
اللہ کا ایک نام ستیر بھی ہے،یعنی گناہوں کو چھپا لینے والا،دنیا اور آخرت میں وہ بندوں کے بہت سے گناہوں کو چھپا لیتا ہے ۔
بعون اللہ منھم آمین ۔
مثل مشہور ہے ایک تو چوری کرے اور اوپر سے سینہ زوری کرے۔ اگر آدمی سے ایک گناہ سرزد ہوجائے تو اسے چھپا کر رکھے،شرمندہ ہو ،اللہ سے توبہ کرے، نہ یہ کہ ایک ایک سے کہتا پھرے کہ میں نے فلاں گناہ کیا ہے،یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے۔ مولانا داؤد راز رحمہ اللہ
مولانا صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں
اس سے معلوم ہوا کہ بتقضائے بشریت کسی گناہ کا ہوجانا،جس پر انسان کو ندامت بھی ہو اور اس کا وہ اظہار بھی نہ کرے اور بات ہے ، اللہ کے ہاں اس کی معافی کی امید ہے اور بصورت توبہ معافی یقینی ہے۔
لیکن اعلانیہ گناہ کرنا اور بات ہے ،اس کے مرتکب کا دل ایک تو اللہ کے خوف سے، دوسرے اللہ کے احکام کی توقیر اور وقعت سے خالی ہے۔ تیسرے، ایسا شخص بالعموم توبہ کی توفیق سے محروم ہی رہتا ہے۔ چوتھے، اللہ کی نافرمانی کا فخریہ طور پر اظہار،اللہ کے غضب و انتقام کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ایسا شخص پھر اللہ کے ہاں کیونکرقابل معافی ہو سکتا ہے