مصر میں موجودہ بغاوت میں شرکت کا شرعی حکم ک&#1

  • Work-from-home

mytruecall

Newbie
Oct 25, 2010
135
16
0
44
سوال نمبر: ۴١۹۵
موضوع: جہاد اور اسکے احکام
جواب منجانب: منبر ﴿التوحید والجہاد﴾ کی شرعی کمیٹی


سوال: مصر میں ہونے والی موجودہ بغاوت ﴿۲۵ جنوری والی بغاوت﴾ میں شرکت کا شرعی حکم کیا ہے؟ اس موضوع سے متعلق تمام معاملات کے بارے میں تفصیلی جواب درکار ہے۔
سائل: مسلم


جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔ الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبیہ الکریم وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ۔۔۔ وبعد:


میں نے ایک مقالے (حسني مبارک کے خلاف انقلاب) میں اس مسئلے کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ میں نے اس میں کہا کہ:


آج اسلامی ممالک میں جو ظلم وستم، سرکشی اور فسق وفجور ہو رہا ہے، یہ اس ظلم کے دائرے میں آتا ہے کہ جسے روکنے کی اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اجازت دی ہے۔ لہذا اللہ تعالی نے ایمان والوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:


ترجمہ: اور جب ان پر ظلم ﴿وزیادتی﴾ ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں۔ ﴿الشوری ۳۹﴾


اور مظلوم کے ظلم کو روکنے اور ہٹانے کو جائز قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:


ترجمہ: اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد ﴿برابر کا﴾ بدلہ لے لے، تو ایسے لوگوں پر ﴿الزام کا﴾ کوئی راستہ نہیں۔ ﴿الشوری ۴١﴾




اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


اپنے مال کی خاطر لڑو، حتی کہ آپکو اپنا مال مل جائے یا تو قتل کردیا جائے اور آخرت کے شہیدوں میں سے ہوجائے۔ ﴿صحیح میں اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے﴾


اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


جو اپنے حق کی وجہ سے قتل ہوا، وہ شہید ہے۔ ﴿اسے احمد نے ابن عباس سے روایت کیا ہے﴾


اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


جو اپنے مال کی وجہ سے قتل کیا گیا، وہ شہید ہے۔ ﴿اسے مسلم نے بیان کیا ہے﴾


اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، آپ لوگ ضرور بضرور نیکی کا حکم کروگے اور ضرور بضرور برائی سے روکو گے اور ضرور بضرور ظالم کا ہاتھ پکڑو گے اور ضرور بضرور اسے حق پر مجبور کروگے، ورنہ اللہ تعالی ضرور بضرور تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت ڈال دے گا اور ضرور بضرور تم پر ایسے ہی لعنت کرے گا، جیسے لعنت کی۔ ﴿اسے طبرانی نے المعجم الکبیر میں اور بیہقی نے السنن میں بیان کیا ہے﴾


اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


ایسی امت کیسے مقدس ﴿عزت پاسکتی﴾ ہوسکتی ہے کہ جن کے طاقت ور سے ﴿جبر سے لیا ہوا حق﴾ انکے کمزور کو واپس نہ دلادیا جائے۔“ ﴿اسے ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے﴾


اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


جب تم دیکھو کہ میری امت ظالم سے اس حد تک ڈرے کہ اس سے یہ بھی نہ کہ سکے کہ تو ظالم ہے، تو ان سے مایوسی ہوجائے گی۔ ﴿اسے احمد اور البیہقی نے بیان کیا﴾۔


اور بیہقی نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امام احمد نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ:


اگر وہ ﴿امت مسلمہ﴾ ﴿ظالم کو ظالم﴾ کہنے سے بھی ڈر گئے اور اسے ﴿ظلم کرتے ہوئے﴾ چھوڑ دیا تو وہ اس شخص سے اس سے بھی زیادہ خوف زدہ ہوں گے کہ جو اس سے بڑھ کر قول وعمل میں ظالم ہے۔ اور وہ تو اپنی جانوں اور مال کے خوف سے مشرکوں سے جہاد نہ کرنے کے زیادہ قریب ہوں گے اور ایسا ہوا تو پھر ان سے مایوسی ہی ہوگی اور ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہوا۔ ﴿شعب الایمان ۔۔ البیھقی ۔ٲ۔ھ﴾


اور یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مصر میں حکمران نظام کو گرانا شاید بڑی سے بڑی جہادی تنظیموں کے لیئے مشکل ہوتا۔ لہذا اگر یہ مظاہرین اس نظام کو گرانے میں کامیاب ہوگئے، تو یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیئے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔


اور مغربی ممالک کا اس نظام کے لیئے شدید ترین اہتمام اور اسکے گرنے کا خوف ظاہر ہوچکا ہے۔ اور امریکی حکومت موجودہ صورتحال کو بڑے اہتمام سے ملاحظہ کر رہی ہے۔ اور اس پر تبصرہ کرنے سے نہیں رکی، کیوںکہ یہ معاملہ اسکے داخلی معاملات سے تعلق رکھتا تھا۔ اس سے انکے اس پر اعتماد کی شدت کا پتہ چلتا ہے۔ اس لیئے وہ ”البرادعی“ کو چمکا رہے ﴿تیار کررہے﴾ ہیں۔ تاکہ وہ ان کا آئندہ کا آلہ کار ﴿ایجنٹ﴾ بنے۔ اسی طرح وہ ”مبارک“ کے عنقریب گرنے کا احساس کرتے ہوئے اس کے حاشیہ برداروں کو اقتدار پر جمانے کی کوشش میں ہیں۔ اور اگر اللہ کے حکم سے مصری نظام حکومت گر گیا، تو مغرب اپنے ایک اہم ایسے آلہ کار سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کہ جس پر اسے بھروسہ تھا۔ اور اگر مصری نظام حکومت اللہ کے حکم سے گرگیا، تو امریکہ کو بہت سے ﴿سیاسی﴾ پتوں میں الجھن پیش آئے گی اور وہ اس علاقے کے عوام سے کسی نئے طریقے سے معاملات طے کرنے پر مجبور ہوگا اور اگر اللہ کے حکم سے مصری نظام حکومت گرگیا، تو عنقریب اسلامی دنیا کے حالات وظروف تبدیل ہوجائینگے۔ اور اگر مصری نظام اللہ کے حکم سے گرتا ہے، تو اس کے گرنے سے دوسرے کئی ﴿ملکوں کے﴾ نظام ﴿حکومتیں﴾ بھی گریں گیں۔ اور اگر مصری نطام ﴿حکومت﴾ اللہ کے حکم سے گرتا ہے، تو ہو سکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس علاقے میں (٩/١١) جیسا کوئی بڑا زلزلہ آجائے۔ اگر مصری نظام اللہ کے حکم سے گرتا ہے, تو اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل اپنے چوکیداروں میں سے ایک اہم پہرے دار کو کھو بیٹھے گا۔


لہذا یہ مسئلہ بڑا اہم اور جوہری اور بڑا حساس مسئلہ ہے، صرف مصر تک ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کے لیئے تو ہم اس وقت اسلامی تاریخ کے تاریخی لمحے اور فیصلہ کن مرحلے کے سامنے کھڑے ہیں۔ آج مصریوں کے لیئے یہ مسئلہ عزت وعظمت اور آزادی کو مغرب کے خادموں سے چھیننے کے مترادف ہے۔ اور آنے والے وقت میں مصر اپنے رب کی شریعت اور دین کے ساتھ اور امت مسلمہ کے ساتھ اپنے تعلق اور ارادے کو ثابت کرتا ہے اور یہی چیز مغرب کی خطرناک شکست ہے اور انکے آلہ کار نظام کا فقدان اور جو اس علاقے کے اہم ایجنٹ کا ہاتھ سے نکل جانے کا مطلب علاقے کے ملکوں کا ان کے ہاتھوں سے نکلنا ہے۔ اور ”مبارک“ کے حکومت میں قائم رہنے کی ان کی شدید خواہش اسی چیز کو ظاہر کرتی ہے اور اگر انکی طرف سے ملنے والی حمایت ومدد نہ ہوتی، تو وہ اب تک ان بڑے جم غفیر کے سامنے نہ ٹھہر سکتا کہ جو اس کے جانے پر اصرار کررہے ہیں اور اس کے وجود کو برداشت کرنے سے انکاری ہیں۔


بلاشبہ آج مصری بھائی اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور اسے گرانے کے عمل سے اپنے ملک، اسلام اور مسلمانوں کے لیئے بہت بڑی کامیابی کی راہ کھول رہے ہیں۔ لہذا آج وہ ایک عظیم کام میں ہیں۔ اور اگر آج بعض مجاہدین مصر میں ہوتے تو ان کا سب سے بہتر جہاد اس مبارک انقلاب میں شمولیت کرنا ہوتا اور اگر ”مبارک“ اور اسکے نظام کو تباہ کرنے کے لیئے ١۰ بلکہ ١۰۰ بہترین مجاہدین کا فدائی حملے میں شہید ہونے کے بارے میں مجھ سے سوال کیا جائے، تو میں اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کروں گا کیونکہ اس میں اسلام، مسلمانوں کی مصلحت اور دین دشمنوں کی شکست ہے۔


اور ہم نے کتنی ہی تمنا کی ہے کہ ہم اپنے مصری بھائیوں کے ساتھ اس نظام کو گرانے میں شرکت کرتے، خواہ کچھ اقوال کے ذریعے ہی سہی۔ ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ اس طاغوت کے نظام کے خلاف مزاحمت میں ہونے والے شہیدوں کو قبول فرمائے اور یہ کہ ان کے خاندانوں کو صبر واستقامت اور اجر عطا فرمائے۔


بلاشبہ آج یہ مظاہرے کرنے والے جو لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں اور یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ ”عوام اس نظام کو گرانا چاہتے ہیں۔“ یہ لوگ حقیقت میں وہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں تک جہادی جماعتیں دو عشروں کی مدت میں پہنچی ہیں اور وہ ہے ان نطاموں ﴿جو کہ مغرب زدہ ہیں سے﴾ نجات کی ضرورت۔


اور آج عوام سڑکوں پر پولیس کے مقابلے کے لیئے نکلے ہیں، جس کا انتخاب مجاہدین نے دو عشروں سے کیا کہ پولیس کا مقابلہ کرنا اور اس کی گاڑیون کو جلانا اور اس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا۔


ماضی کا یہ عرصہ مسلمانوں کی اکثریت کے لیئے یہ ثابت کرنے کے لیئے کافی تھا کہ مجاہدین نے جو ﴿حکام کے خلاف خروج کا﴾ راستہ اپنایا تھا، وہی درست تھا۔


شعر کا ترجمہ: جس چیز سے آپ ناواقف تھے، آنے والے دن اسے آپ کے لیئے ظاہر کردیں گے اور آپ کے لیئے خبریں خود بخود آئیں گیں۔


اس علم کے ساتھ کہ مصر میں موجود مجاہدین کی جماعتوں نے صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ وہ صرف انکے خلاف دائرہ حیات تنگ ہونے کی وجہ سے نظام کے خلاف اٹھے ہیں اور اسی طرح عوام بھی دائرہ حیات تنگ ہونے کی وجہ سے ہی نکلے ہیں۔ اور دیکھیئے آج یہ نظام جب امن وامان میں ناکامی اور معاملات ہاتھ سے نکل جانے کے بعد پوری عوام کو ایسے آوارہ گروپ سے تشبیہ دے رہا ہے کہ جو قانون کے خلاف نکلا ہے بالکل اسی طرح جیسا کہ اس نے اس سے پہلے مجاہدین کے بارے میں کہا تھا کہ وہ تخریب کار دہشت گردوں کا گروپ ہے، جو قانون کے خلاف نکلا ہے۔


اور مجھے ان لوگوں سے سخت تعجب ہے کہ جو ان مظاہروں میں نکلنے سے ہچکچا رہے ہیں، جب یہ نظام اللہ کی شریعت کو بدلنے والے اور فساد بپا کرنے والے اور ایسے طاغوت ہیں کہ جن کے خلاف خروج اور تلوار سے لڑنا جائز ہے، جو ان گروہوں کے لائق ہے، جو اللہ تعالی کی شریعت سے منکر ہیں، تو کیا ان کے خلاف کسی اور طریقے کے ذریعے ﴿مظاہروں وغیرہ﴾ سے خروج شرعا جائز نہیں؟


اور اگر ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم ان ﴿نظاموں﴾ کے خلاف خروج سے عاجز ہونے کی وجہ سے معذور ہیں، تو ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ ہم ان کے خلاف مظاہرے نہ کرنے پر معذور نہیں کیونکہ یہ تو میسر ہیں اور مشکل یا نا ممکن کی وجہ سے میسر تو ساقط نہیں ہوتا۔


اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے لیئے اللہ کے دین کے خلاف لڑنے والے حکمران کے خلاف اسلحے کی طاقت کے ساتھ تو خروج جائز ہو، مگر ہمارے لیئے اس سے حکمرانی سے استعفے کا محض مطالبہ جائز نہ ہو؟


افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بعض سلفی منہج کے دعویدار امت کے ﴿بڑے﴾ مسائل میں اسی طرح کا منفی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں، جو کہ جماعت تبلیغ کا منفی طریقہ ہے کہ جو اپنے کام کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گی، خواہ ”کعبہ شریف“ کو ایٹم بم سے ہدف بنالیا جائے۔ بلکہ اس سے بھی بڑے حادثے ہوچکے، مگر یہ جماعت حرکت میں نہیں آئی۔ مسلمان عورتوں کی عصمتوں پر حملے ہوئے ۔ مسلمان کی عزت کعبے کی عزت سے زیادہ بڑی ہے، لیکن اس جماعت نے پھر بھی حرکت نہ کی۔ اس طرح بعض سلفی منہج کے دعویدار آج امت مسلمہ کے تمام مسائل سے لاتعلق ہو کر رہے ہیں۔ اور انہیں سوائے اپنی کتابوں، وثائق اور مجلسوں کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے غفلت کرتے ہیں کہ:


جو مسلمانوں کے مسائل کے لیئے فکر مند نہیں ہوتا، وہ ان میں سے نہیں۔


حالانکہ میرے تعجب میں بعض دین کے پابند نوجوانوں کی جرٲت اور امت اسلامیہ کے لیئے انکی اور انکے مسائل کے حل میں مددگار بننے سے مزید اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ بعض ایسے نوجوان بھی ہیں کہ جو دین کے بہترین طالب علم ہونے کے دعویدار ہیں، ان معاملات میں سر بھی نہیں اٹھاتے اور اگر کبھی کچھ بولیں یا کہیں تو لوگوں کو فتنے سے ڈرانا ہی ان کا کام ہے، گویا کہ وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ لوگ تو فتنوں میں غرق ہوچکے ہیں۔


اور ان میں سے بعض ان نظاموں کے مخالفانہ مظاہروں کے خلاف یہ شور شرابہ کرتے ہیں کہ اگر آپ نے اس نظام کو گرادیا، تو آپ کو کوئی دوسرا لادین نظام بھی ملے گا کہ جو اللہ کی شریعت نافذ تو نہیں کرے گا۔


اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت ہم اس نظام کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں اور یہ ایسا مقصد ہے کہ جس پر ہم اور پوری عوام متفق ہیں۔ لہزا ہمیں اسے حاصل کرنے کے لیئے ساتھ دینا چاہیئے اور اس نظام کے خاتمے کے بعد نئے ایسے نطام کی کوشش ممکن ہوسکتی ہے کہ جو اللہ کی شریعت کا نفاذ کرے۔ لہذا اس نظام کے خاتمے میں شرکت کرنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ جو اس کے بعد اللہ کی شریعت کے مخالف نظام آئے وہ جائز ہے۔ لہذا مسئلہ شر کو کم کرنے اور جو بھلائی ممکن ہو اسے حاصل کرنے کا ہے۔ لوگ ظلم وجبر میں ہیں اور مظلوم ہیں۔ ہم پر واجب ہے کہ ان سے یہ ظلم دور کرنے میں عملی مدد کریں۔


جیلیں موحدوں سے بھری پڑی ہیں، ہم پر انہیں آزاد کرانے میں عملی حصہ لینا بھی واجب ہے اور تمام مسلمانوں پر دعائے قنوت اور اس طاغوت کے خاتمے کیلئے پیارے مصر سے نکلنے کی دعا کرنا واجب ہے۔


یا اللہ اسے ہلاک کر، اور اسکی نسل ختم کردے، یا اللہ اس کے خلاف مزاحمت کرنے والے غصیلے مسلمان نوجوانوں کے دلوں کو استقامت دے، یا اللہ شہیدوں کو قبول فرما اور انکی ماؤں اور بہنوں کو صبر اور سکون نصیب فرما، یا اللہ اس امت کے لیئے ایسی بھلائی کی راہ کھول کہ جس میں تیری اطاعت کرنے والوں کی عزت کی جائے اور تیری معصیت کرنے والوں کو ذلیل کیا جائے اور جس میں تیری شریعت کا حکم چلے۔


واللہ اعلم ۔۔۔ والحمد للہ رب العالمین ۔


جواب منجانب: الشیخ ابو المنذر الشنقیطی
عضو: شرعی کمیٹی
منبر التوحید والجہاد ویب سائٹ


 
Top