مختلف غزوات حضرت زبیر بن العوامؓ

  • Work-from-home

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
غزوات
غزوات میں ممتاز حیثیت سے شریک رہے،سب سے پہلے غزوۂ ٔبدر پیش آیا،حضرت زبیر ؓ نے اس معرکہ میں نہایت جانبازی ودلیری کے ساتھ حصہ لیا، جس طرف نکل جاتے تھے غنیم کی صفیں تہ وبالا کردیتے،ایک مشرک نے ایک بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر مبارزت چاہی، حضرت زبیر ؓ بڑھ کر اس سے لپٹ گئے،اور دونوں قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے آئے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں میں جو سب سے پہلے زمین پر رکے گا وہ مقتول ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ مشرک پہلے زمین پر گرکر حضرت زبیر ؓ کے ہاتھ سے واصلِ جہنم ہوا،(کنزالعمال:۶/۴۱۶) اسی طرح عبیدہ بن سعید سے مقابلہ پیش آیا جو سر سے پاؤں تک زرہ پہنےہوئے تھا،صرف دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حضرت زبیر ؓ نے تاک کر اس زور سے آنکھ میں نیزہ مارا کہ اس پارنکل گیا،اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل نیزہ نکالا،پھل ٹیڑھا ہوگیا تھا، آنحضرت ﷺ نے بطوریادگار حضرت زبیر ؓ سے اس نیزہ کو لے لیا،اس کے بعد پھر خلفاء میں تبرکا ًمنتقل ہوتا رہا،یہاں تک خلیفہ ثالث ؓ کے بعد حضرت زبیر ؓ کے وارث حضرت عبداللہ ؓ کے پاس پہنچا اوران کی شہادت تک ان کے پاس موجودتھا۔
وہ جس بے جگری کے ساتھ بدرمیں لڑے اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی تلوار میں دندانے پڑگئے تھے،تمام جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا، خصوصاً ایک زخم اس قدر کاری تھا کہ وہاں پر ہمیشہ کے لیے گڑھا پڑگیا تھا، حضرت عروہ بن زبیر ؓ کا بیان ہے کہ ہم ان میں انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔
(بخاری باب غزوۂ بدر)
معرکہ بدر میں حضرت زبیر ؓ زرد عمامہ باندھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج ملائکہ بھی اسی وضع میں آئے ہیں،(کنز العمال :۶/۴۱۶) غرض مسلمانوں کی شجاعت وثابت قدمی نے میدان مارلیا حق غالب رہا اورباطل کو شکست ہوئی۔
 
  • Like
Reactions: intelligent086

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
غزوۂ احد

؁ ۳ھ میں معرکہ احد کا واقعہ ہوا، اثنائے جنگ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی تلوار کھینچ کر فرمایا کون اس کا حق ادا کرے گا؟ تمام جان نثاروں نے بیتابی کے ساتھ اپنے ہاتھ پھیلائے، حضرت زبیر ؓ نے تین دفعہ اپنے آپ کو پیش کیا،لیکن یہ فخر حضرت ابودجانہ ؓ انصاری کے لیے مقدر ہوچکا تھا۔
(زرقانی :۲/۱۳۲)
جنگ احد میں جب تیراندازوں کی بے احتیاطی سے فتح شکست سے مبدل ہوگئی اور مشرکین کے اچانک حملے سے غازیان دین کے پاؤں متزلزل ہوگئے،یہاں تک کہ شمع نبوت کے گرد صرف چودہ صحابہ ؓ پروانہ وار ثابت قدم رہ گئے تھے تو اس وقت بھی یہ جان نثارحواری جان نثاری کا فرض اداکررہا تھا۔
( ایضاً)
 
  • Like
Reactions: Shikra-e-Ab'bar

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
غزوۂ خندق


؁ ۵ھ میں یہودیوں کی مفسدہ پردازی سے تمام عرب مسلمانوں کے خلاف امنڈ آیا،سرورِ کائنات ﷺ نے مدینہ کے قریب خندق کھود کر اس طوفان کا مقابلہ کیا، حضرت زبیر ؓ اس حصہ پر معمور تھے جہاں عورتیں تھیں۔
(مسند:۱/۱۶۴)


بنوقریظ اورمسلمانوں میں باہم معاہدہ تھا،لیکن عام سیلاب میں وہ بھی اپنے عہد پر قائم نہ رہے، رسول اللہ ﷺ نے دریافت کے لیے کسی کو بھیجنا چاہا اورتین بارفرمایا"کون اس قوم کی خبر لائے گا؟" حضرت زبیر ؓ نے ہر مرتبہ بڑھ کر عرض کیا کہ "میں" آنحضرت ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا"ہر نبی کے لیے حواری ہوتے ہیں،میرا حواری زبیر ؓ ہے،(بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ خندق) اس نازک وقت میں حضرت زبیر ؓ کی اس طرح بے خطر تنہا آمدورفت سے آنحضرت ﷺ ان کی اس جانبازی سے اس قدر متاثر تھے کہ فرمایا: فداک ابی وامی، یعنی میرے ماں باپ تم پر فداہوں۔
(مسند : ا/۱۶۴)


کفار بہت دنوں تک خندق کا محاصرہ کیے رہے، لیکن پھر کچھ تو ارضی وسماوی مصائب اورکچھ مسلمانوں کے غیر معمولی ثبات واستقلال سے پریشان ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔

غزوۂ ٔخیبر


غزوۂ خندق کے بعد غزوۂ ٔبنو قریظہ اوربیعت رضوان میں شریک ہوئے پھر خیبر کی مہم میں غیر معمولی شجاعت دکھائی،مرحب یہودی خیبر کا رئیس تھا وہ مقتول ہوا تو اس کا بھائی یاسر غضبناک ہوکر"ھل من مبارز’’ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں آیا، حضرت زبیر ؓ نے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا وہ اس قدر تنومند اور قوی ہیکل تھا کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ! میرا لخت جگر آج شہید ہوگا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں!زبیر ؓ اس کو مارے گا،چنانچہ درحقیقت تھوڑی دیر رد وبدل کے بعد وہ واصل جہنم ہوا۔
(سیرت ابن ہشام :۲/۱۸۲)


غرض خیبر فتح ہوا اوراس کے بعد فتح مکہ کی تیاریاں شروع ہوئیں،مشہور صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے تمام کیفیت لکھ کر ایک عورت کے ہاتھ قریش مکہ کے پاس روانہ کی،لیکن آنحضرت ﷺ کو خبر ہوگئی اورایک جماعت اس عورت کو گرفتاری پر مامور ہوئی،حضرت زبیر ؓ بھی اس میں شریک تھے، وہ گرفتار ہوکر آئی اورخط پڑھاگیا،توابن ابی بلتغہ ؓ کاسرندامت سے جھک گیا،رحمۃللعالمین نے ان کی عفوخواہی پر جب معاف فرمادیا، اوریہ آیت نازل ہوئی۔" یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَاءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ"
(الممتحنۃ:۱)


فتح مکہ


رمضان؁ ۸ھ میں دس ہزار مجاہدین کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کا قصد کیا اورشاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ اس سرزمین میں داخل ہوئے جہاں سے آٹھ سال قبل طرح طرح کے مصائب وشدائد برداشت کرنے کے بعد بے بسی کی حالت میں نکلنے پر مجبور ہوئے تھے، اس عظیم الشان فوج کے متعدد دستے بنائے گئے تھے، سب سے چھوٹا اورآخری دستہ وہ تھا جس میں خود آنحضرت ﷺ موجود تھے،حضرت زبیر ؓ اس کے علمبردار تھے۔
(بخاری باب غزوۃ الفتح )


آنحضرت ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے اورہر طرف سکون واطمینان ہوگیا تو حضرت زبیر ؓ اورحضرت مقداد بن اسود ؓ اپنے گھوڑوں پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے،آنحضرت ﷺ نے کھڑے ہوکر ان کے چہروں سے گرد غبار صاف کیا اورفرمایا میں نے گھوڑے کے لیے دو حصے اورسوار کے لیے ایک حصہ مقرر کیا ہے،جوان حصوں میں کمی کریگا خدا اس کو نقصان پہنچائےگا۔
(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ ۷۳)


مختلف غزوات


فتح مکہ کے بعد واپسی کے وقت غزوۂ حنین پیش آیا کفار کمین گاہوں میں چھپے ہوئے مسلمانوں کی نقل و حرکت دیکھ رہے تھے، حضرت زبیر ؓ اس گھاٹی کے قریب پہنچے تو ایک شخص نے اپنے ساتھیوں سے پکار کر کہا"لات وعزیٰ کی قسم یہ طویل القامت سوار یقینا زبیر ؓ ہے،تیار ہوجاؤ ،اس کا حملہ نہایت خطرناک ہوتا ہے" یہ حملہ ختم ہی ہوا تھا کہ ایک زبردست جمیعت نے اچانک حملہ کردیا، حضرت زبیر ؓ نہایت پھرتی اورتیزدستی کے ساتھ اس آفتِ ناگہانی کو روکا اوراس قدر شجاعت وجانبازی سے لڑے کہ یہ گھاٹی کفارسے بالکل صاف ہوگئی۔

اس کے بعد جنگ طائف اورتبوک کی فوج کشی میں شریک ہوئے،پھر ؁ ۵ھ ، میں رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کا قصد کیا، حضرت زبیر ؓ اس میں بھی ہمرکاب تھے۔

حج سے واپس آنے کے بعد سرورکائنات ﷺ نے وفات پائی،حضرت ابوبکر صدیق ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے،بعض روایات کے مطابق حضرت زبیر ؓ کو بھی خلیفہ اول کی بیعت میں پس وپیش تھا،تاہم وہ زیادہ دنوں تک اس پر قائم نہیں رہے۔
 
  • Like
Reactions: Shikra-e-Ab'bar

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
جنگ یرموک کا حیرت انگیز کارنامہ

سوادوبرس کی خلافت کے بعد خلیفہ اول کا وصال ہوگیا اورفاروق اعظم ؓ نے مسند حکومت پر قدم رکھا، خلیفہ اول کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، حضرت عمر ؓ نے تمام عرب میں جوش پھیلاکر اس کو اوربھی زیادہ وسیع کردیا، حضرت زبیر ؓ کا دل گورسول اللہ ﷺ کی وفات سے افسردہ ہوچکا تھا،تاہم ایک مرد میدان وجانباز بہادر کے لیے اس جوش و ولولہ کے وقت عزلت نشین رہنا سخت ننگ تھا، خلیفہ وقت سے اجازت لے کر شامی رزم گاہ میں شریک ہوئے ،اس وقت یرموک کے میدان میں ملک شام کی قسمت کا آخری فیصلہ ہورہا تھا، اثنائے جنگ میں لوگوں نے کہا اگر آپ حملہ کرکے غنیم کے قلب میں گھس جائیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں ،حضرت زبیر ؓ نے کہا تم لوگ میرا ساتھ نہیں دے سکتے،لوگوں نے عہد کیا تو اس زور سے حملہ آور ہوئے کہ رومی فوج کا قلب چیرتے ہوئے تنہا اِس پار سے اُس پار نکل گئےاور کوئی رفاقت نہ کرسکا،پھر واپس لوٹے تو رومیوں نے گھوڑے کی باگ پکڑلی اورنرغہ کرکے سخت زخمی کیا گردن پر دوزخم اس قدر کاری تھے کہ اچھے ہونے کے بعد بھی گڑھے باقی رہ گئے، عروہ بن زبیر ؓ کا بیان ہے کہ بدر کے زخم کے بعد یہ دوسرا زخم کا گڈھا تھا جس میں بچپن میں ہم انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔
(بخاری کتاب الغازی)

فسطاط کی فتح


فتح شام کے بعد حضرت عمروبن عاص ؓ کی سرکردگی میں مصر پر حملہ ہوا انہوں نے چھوٹے چھوٹے مقامات کو فتح کرتے ہوئے فسطاط کا محاصرہ کرلیا اورقلعہ کی مضبوطی نیز فوج کی قلت دیکھ کر دربارِ خلافت سے اعانت طلب کی ،امیر المومنین حضرت عمر ؓ نے دس ہزار فوج اورچار افسر بھیجے اورخط میں لکھا کہ ان افسروں میں ایک ایک، ہزار ہزار سوار کے برابر ہے، افسروں میں حضرت زبیر ؓ بھی تھے،ان کا جو رتبہ تھا اس کے لحاظ سے عمرو ؓ نے ان کو افسر بنایا اورمحاصرہ وغیرہ کے انتظامات ان کے ہاتھ میں دیئے،انہوں نے گھوڑے پر سوارہوکر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا اورجہاں جہاں مناسب تھا مناسب تعداد کے ساتھ سوار اور پیادے متعین کیے، اس کے ساتھ منجنیقوں سے پتھر برسانے شروع کردیئے، اس پر پورے سات مہینے گذر گئے،اورفتح وشکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا، حضرت زبیر ؓ نے ایک دن تنگ آکر کہا کہ آج میں مسلمانوں پر فدا ہوتا ہوں، یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لی اورسیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے،چند اورصحابہ ؓ نے ان کا ساتھ دیا، فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کئے، ساتھ ہی تمام فوج نے نعرہ مارا کہ قلعہ کی زمین دہل اٹھی، عیسائی یہ سمجھ کر کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آئے،بد حواس ہوکر بھاگے ادھر حضرت زبیر ؓ نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اورتمام فوج اندر گھس آئی ،مقوقس حاکمِ مصرنے یہ دیکھ کر صلح کی درخواست کی اوراسی وقت سب کو امان دے دی گئی۔
(فتوح البلدان: ۲۲۰)

اسکندریہ کی تسخیر


فسطاط فتح کرکے اسلامی فوج نے اسکندریہ کا رخ کیا اورمدتوں قلعہ کا محاصرہ کیے پڑی رہی، لیکن جس قدر زیادہ دن گذرتے جاتے تھے، اسی قدر دربار خلافت سے اس کے جلد فتح کرنے کا تقاضا بڑھتا جاتا تھا،غرض ایک روز عمروبن العاص ؓ نے آخری اورقطعی حملہ کا ارادہ کرلیا اورحضرت زبیر ؓ اورمسلمہ بن مخلدؓ کو فوج کا ہراول بنا کر اس زور سے یورش کی کہ ایک ہی حملہ میں شہر فتح ہوگیا۔

مفتوحہ ممالک کی تقسیم کا مطالبہ


مصر کامل طورپر مسخر ہوگیا تو حضرت زبیر ؓ نے عمروبن العاص ؓ سپہ سالار فوج سے اراضی مفتوحہ کی تقسیم کا مطالبہ کیا اورفرمایا کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو مجاہدین پر تقسیم فرمادیا تھا، اسی طرح تمام ممالک مفتوحہ کو تقسیم کردینا چاہئے،عمروبن العاص ؓ نے کہا خدا کی قسم میں امیرالمومنین ؓ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا ،حضرت عمر ؓ کو لکھا گیا تو انہوں نے لکھا کہ اس کو اسی طرح رہنے دینا چاہئے تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس سے مستفید ہوتی رہیں، حضرت زبیر ؓ کے ذہن میں بھی اس کی مصلحت آگئی اور خاموش ہورہے۔
(مسند ابن حنبل:۱/۱۶۶)

؁ ۲۳ھ میں خلیفہ وقت حضرت عمر ؓ نے ایک مجوسی کے ہاتھ ناگہانی طورپر زخمی ہوکر سفرِ آخرت کی تیاری کی تو عہدہ خلافت کے لیے چھ آدمیوں کے نام پیش کئے اورفرمایا کہ حضرت سرورکائنات ﷺ آخر وقت تک ان سے راضی رہے تھے، ان چھ بزرگوں میں ایک حضرت زبیر ؓ بھی تھے، لیکن تین دن کی مسلسل گفت وشنید اوربحث ومباحثہ کے بعد مجلس شوریٰ نے حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کو مسند گرامی پر بٹھادیا، حضرت زبیر ؓ بھی بے چون وچرا اس انتخاب کو تسلیم کرکے بیعت کرلی۔
(بخاری کتاب المناقب قصۃ البیعۃ)

خلیفۂ ثالث ؓ کے عہد میں زبیر ؓ نے نہایت سکون وخاموشی کی زندگی بسر کی اورکسی قسم کی ملکی مہم میں شریک نہیں ہوئے، درحقیقت عمر بھی اس حد سے متجاوز ہوچکی تھی،لیکن ؁ ۳۵ھ میں مصری مفسدوں نے بارگاہِ خلافت کا محاصرہ کیا، توانہوں نے اپنے بڑے صاحبزادہ عبداللہ بن زبیر ؓ کو امیر المومنین کی مساعدت وحفاظت پر مامور کردیا۔

غرض اٹھارہویں ذی الحجہ جمعہ کے روز حضرت عثمان ؓ مفسدین کے ہاتھ سے شہید ہوئے،حضرت زبیر ؓ نے حسب وصیت پوشیدہ طریقہ پر رات کے وقت نمازہ جنازہ ادا کی اورمضافاتِ مدینہ میں حش کوکب نامی ایک مقام پر سپرد خاک کیا۔

خلیفہ وقت کے قتل سے تمام مدینہ میں مفسدین کا رعب طاری ہوگیا، ہر شخص دم بخود تھا، حضرت عثمان ؓ کے طرفداراورتمام بنوامیہ مکہ اوردوسرے مقامات کی طرف بھاگ گئے،چونکہ مصری حضرت علی ؓ کے طرفدار تھے اس لیے انہوں نے اس کو خلافت کا بارگراں اٹھانے پر مجبور کیا،اورمسجد نبوی مین لوگوں کو بیعت کے لیے جمع کیا،حضرت طلحہ ؓ وزبیر ؓ گو برابر کے دعویدار تھے،تاہم مصریوں کے خوف سے زبان نہ ہلاسکے اورکسی طرح بیعت کرلی۔
(تاریخ طبری : ۳۰۷۷)

حضرت علی ؓ کی مسند نشینی کے بعد بھی مدینہ میں امن وامان قائم نہ ہوسکا ،سبائی فرقہ جو اس انقلاب کا بانی تھا، اورفتنہ و فساد کے نئے نئے کرشمے دکھاتا رہتا تھا،جاہل بدوی جو ہمیشہ ایسے لوٹ مارکے موقعوں پر شریک ہوجاتے ،سبائیوں کے ساتھ ہوگئے، حضرت علی ؓ نے کوشش کی کہ یہ لوگ اپنے اپنے وطن کی طرف لوٹ جائیں اوربدویوں کو بھی شہر سے نکال دیا جائے ؛لیکن سبائیوں کے ضد اورانکار سے کامیابی نہ ہوئی۔

(تاریخ طبری: ۳۰۸۱)

حضرت زبیر ؓ جو اساطین امت میں تھے، کب تک خاموشی کے ساتھ اس شورش وہنگامہ آرائی کا تماشا دیکھتے،اصلاحِ حال اور رفع فساد کا انتظار کرتے کرتے کامل چار ماہ گذر گئے،لیکن امن وسکون کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی، آخر تھک کر حضرت طلحہ ؓ کے ساتھ حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور اصلاح واقامت حدود کا مطالبہ کیا، انہوں نے جواب دیا،بھائی! میں اس سے غافل نہیں ؛لیکن ایک ایسی قوم کے ساتھ کیا کرسکتا ہوں جس پر میرا کچھ اختیار نہیں،بلکہ وہ خود مجھ پر حکمران ہے،(تاریخ طبری:۳۰۸۰) غرض جب اس طرح سے بھی مایوسی ہوئی تو یہ دونوں خود عملاً اس شورش کو رفع کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ حج کے خیال سے مکہ آئی تھیں، اوراب تک مدینہ کی شورشوں کا حال سن کر یہیں مقیم تھیں، حضرت طلحہ ؓ وزبیر ؓ سب سے پہلے ام المومنین ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران لفظوں میں مدینہ کی بدامنی کا نقشہ کھینچا۔

اناتحملنا بقتینا ھرابامن المدینۃ من غبو غااعراب وفارقنا قوما حیاری لایعرفون حقار لاینکرون باطلاولایمنعون النفسھم

ہم اعراب کے شوروشرکے خوف سے مدینہ سے بھاگ آئے ہیں اور اہم نے وہاں ایسی حیران قوم کو چھوڑا ہے جو نہ حق کو پہنچانتی ہے اورنہ باطل سے احتراز کرتی ہے اورنہ اپنی جانوں کی حفاظت کرتی ہے۔

ام المومنین ؓ نے فرمایا"توپھر کوئی رائے قائم کرکے اس شورش کو فرو کرنا چاہئے" غرض تھوڑی دیر کی بحث ومباحثہ کے بعد علم اصلاح بلند کرنے پر سب کا اتفاق ہوا،بنوامیہ بھی جو مدینہ سے بھاگ کر یہاں مجتمع ہوگئے تھے،جوشِ انتقام میں ساتھ ہوگئے اوراس طرح داعیانِ اصلاح کی ایک ہزار جماعت بصرہ کی طرف روانہ ہوئی؛ تاکہ وہاں سے اپنی قوت مضبوط کرکے مدینہ کا رخ کرے راہ میں امویوں نے خلافت وامامت کی بحث چھیڑکر حضرت طلحہ ؓ اورحضرت زبیر ؓ کو لڑانا چاہا، لیکن ام المومنین ؓ کی مداخلت سے معاملہ ختم ہوگیا، بصرہ کے قریب پہنچے تو عثمان بن حنیف والی بصرہ نے مزاحمت کی؛ لیکن وہاں داعیان اصلاح کے حامیوں کی ایک بڑی جماعت بھی موجود تھی وہ خود عثمان ؓ کے ساتھیوں سے دست وگریبان ہوگئی، یہاں تک کشت وہ خون کی نوبت پہنچ گئی عثمان بن حنیف کا بیان تھا کہ جب طلحہ و زبیر حضرت علی ؓ سے بیعت کرچکے تو پھر انہیں علم مخالفت بلند کرنے کا کیا استحقاق ہے؟ ان دونوں کا یہ جواب تھا کہ ہم قہراً وجبراً شریک بیعت ہوئے اوراگر فرض کرلو کہ یہ بیعت صحیح تھی تب بھی اس سے مطالبہ اصلاح کی نفی نہیں ہوتی ،غرض معاملہ زیادہ طول کھینچا تو مصالحت کی یہ صورت قرار پائی کہ ایک شخص تحقیقات کے لیے مدینہ روانہ کیا جائے، اگر ثابت ہو کہ طلحہ وزبیر بیعت پر مجبور کئےگئے تھے تو عثمان بن حنیف مزاحمت سے باز آئیں گے، ورنہ ان دونوں کو اس جماعت سے کناہ کش ہونا پڑے گا، چنانچہ کعب ؓ اس تحقیقات پر مامور ہوئے ،انہوں نے جمعہ کے روز مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوکر حاضرین سے ببانگ بلند سوال کیا۔

یا اھل المدینۃ انی رسول اھل البصرۃ الیکم اکرہ ھؤلاء القوم ھذین الرجلین علی بیعۃ علی ام اتیاھا طالعین

اے اہل مدینہ میں اہل بصرہ کا قاصد بن کر آیا ہوں کیا واقعی اس قوم نے ان دونوں کو علی ؓ کی بیعت پر مجبورکیا تھا یا وہ خوشی سے اس پر تیار ہوئے تھے؟

مجمع میں تھوڑی دیر تک سناٹا رہا؛ لیکن اسامہ بن زید ؓ سے نہ رہا گیا، بول اُٹھے خدا کی قسم ان دونوں نے سخت ناپسندید گی کے ساتھ بیعت کی تھی، اس سے ایک ہلچل پڑ گئی تمام اور سہل بن حنیف اسامہ ؓ سے الجھ پڑے،صہیب بن سنان ؓ، ابو ایوب ؓ اورعمربن مسلمہ ؓ وغیرہ کبار صحابہ نے دیکھا کہ لوگ اسامہ ؓ کو مارڈالیں گے تو سب نے یک زبان ہوکر کہا،ہاں خدا کی قسم اسامہ ؓ نے سچ کہا، غرض اسی طرح اسامہ ؓ کی جان بچ گئی اورکعب ؓ بصرہ واپس آئے دوسری طرف حضرت علی ؓ کو ان واقعات کی اطلاع مل چکی تھی، انہوں نے عثمان بن حنیف کو لکھا کہ اولاً تویہ صحیح نہیں کہ وہ مجبور کئے گئے اور اگر مان بھی لو تو قوم وملک کی بہتری کے لیے ایسا ہونا ضروری تھااوراگر وہ مجھے معزول کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس کوئی معقول عذر نہیں اوراگر کچھ اورمقصد ہے تو اس پر غور ہوسکتا ہے،اس خط کے بعد عثمان ؓ نے اپنی رائے بدل دی اورکعب ؓ کی تحقیقات کے باوجود اعیانِ اصلاح کی مزاحمت پر اڑے رہے۔

حضرت طلحہ وزبیر ؓ نے دیکھا کہ اب سہولت کے ساتھ یہ معاملہ طے نہ ہوگا تو ایک روز عشاء کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسجد پہنچے اورعبدالرحمن بن عتاب ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کردیا ،عثمان بن حنیف نے اس کو اپنے حق میں مداخلت تصور کرکے ایرانی،زط، اور،سبا بچہ، کو حملہ کا حکم دےدیا، لیکن حضرت طلحہ ؓ وزبیر ؓ نے پامردی کے ساتھ مقابلہ کرکے ان کو بھگادیا،دوسری طرف چند آدمی دارالامارت میں گھس گئے اورعثمان بن حنیف کو پکڑ کر سامنے لائے، ان لوگوں نے اس بے رحمی کے ساتھ ان کو مارا تھا اورڈاڑھی نوچی تھی کہ چہرہ پر ایک بال بھی باقی نہ تھا، حضرت طلحہ وزبیر کو یہ سخت ناگوار گذرااورحضرت عائشہ ؓ سے اس کے متعلق دریافت کیا، انہوں نے حکم دیا کہ عثمان کو چھوڑدو، جہاں جی چاہے جائے، غرض اس طرح بصرہ پر قبضہ ہوگیا، اورایک بڑی جماعت اس مہم کاساتھ دینے پر تیار ہوگئی۔

جنگ جمل اورحضرت زبیرؓ کی حق پسندی

حضرت طلحہ وزبیر ؓ نے اہل کوفہ کو بھی خطو ط لکھ کر شرکت کی ترغیب دی ؛لیکن وہاں حضرت حسن ؓ نے پہنچ کر پہلے ہی ان کو اپنا طرفدار بنالیا اور تقریبا ًنوہزار کی عظیم الشان جمعیت مقام ذی قار میں حضرت علی ؓ کی فوج سے مل کر بصرہ کی طرف بڑھی، حضرت طلحہ وزبیر کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی اپنی فوج کو مرتب ومنظم کرکے آگے بڑھادیا، دسویں جمادی الآخر ۳۶ھ جمعرات کے دن دونوں فوجوں میں مڈ بھیڑ ہوئی، کیسا عبرت انگیز نظارہ تھا،چند دن بیشتر جو لوگ بھائی بھائی تھے، آج باہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوکر نگاہِ غیظ وغضب سے اپنے مقابل کو گھوررہے ہیں ؛لیکن ذاتی مخاصمت وعداوت سے نہیں بلکہ حق وصداقت کے جوش میں ،یہی وجہ ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے کچھ آدمی اس طرح ہیں تو کچھ اس طرف ،چونکہ دونوں جماعتوں کے سربراہ کاروں کو اصلاح مدنظر تھی، اس لیے پہلے مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی،حضرت علی ؓ تنہاگھوڑا آگے بڑھا کر بیچ میدان میں آئے اورحضرت زبیر ؓ کو بلا کر کہا"ابوعبداللہ! تمہیں وہ دن یاد ہے جب کہ ہم اورتم دونوں ہاتھ میں ہاتھ دیئے رسالت مآب ﷺ کے سامنے گذرے تھے،اوررسول اللہ ﷺ نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم اس کو دوست رکھتے ہو؟ تم نے عرض کیا تھی ہاں یا رسول اللہ ﷺ یاد کرو اس وقت تم سے حضور انور ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک دن تم اسی سے ناحق لڑوگے،(مستدرک حاکم:۳/۳۶۶)حضرت زبیر ؓ نے جواب دیا ہاں!اب مجھے بھی یاد آیا۔

حضرت علی ؓ تو صرف ایک بات یاد دلاکر پھر اپنی جگہ چلے گئے،لیکن حضرت زبیر ؓ کے قلب حق پرست میں ایک خاص سخت تلاطم برپا ہوگیا تمام عزائم اور ارادے فسخ ہو گئے، ام المومنین ؓ کے پاس آکر کہنے لگے میں برسرِ غلط تھا، علی ؓ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کا مقولہ یاد دلادیا ،حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا پھر اب کیا ارادہ ہے؟ بولے"اب میں اس جھگڑے سے کنارہ کش ہوتا ہوں" حضرت زبیر ؓ کے صاحب حضرت عبداللہ ؓ نے کہا آپ لوگوں کو دوگروہوں کے درمیان پھنسا کر خود علی ؓ کے خوف سے بھاگنا چاہتے ہیں، حضرت زبیر ؓ نے کہا میں قسم کھاتا ہوں کہ علی ؓ سے نہیں لڑوں گا" عبداللہ ؓ نے کہا قسم کا کفارہ ممکن ہے اوراپنے غلام مکحول کو بلاکر آزاد کردیا،لیکن حوارِی رسول ﷺ کا دل اچاٹ ہوچکا تھا، کہنے لگے جان پدرعلی ؓ نے ایسی بات یاد دلائی کہ تمام جوش فرو ہوگیا ،بے شک ہم حق پر نہیں ہیں آؤ تم بھی میرا ساتھ دو ،حضرت عبداللہ نے انکار کردیا تو تنہا بصرہ کی طرف چل کھڑے ہوئے؛ تاکہ وہاں سے اپنا اسباب وسامان لے کر حجاز کی طرف نکل جائیں، احنف بن قیس نے حضرت زبیر ؓ کو جاتے دیکھا تو کہا دیکھو یہ کسی وجہ سے واپس جارہے ہیں، کوئی جاکر خبر لائے،عمروبن جرموز نے کہا میں جاتا ہوں اورہتھیار سج کر گھوڑا دوڑاتے ہوئے حضرت زبیرؓ کے پاس پہنچا وہ اس وقت اپنے غلاموں کو اسباب وسامان کے ساتھ روانگی کا حکم دے کر بصرہ کی آبادی سے دور نکل آئے تھے، ابن جرموز نے قریب پہنچ کر پوچھا:

ابن جرموز:ابوعبداللہ آپ نے قوم کو کس حال میں چھوڑا؟

حضرت زبیر ؓ: سب باہم ایک دوسرے کا گلاکاٹ رہے تھے۔

ابن جرموز: آپ کہاں جارہے ہیں۔

حضرت زبیر ؓ: میں اپنی غلطی پر متنبہ ہوگیا، اس لیے اس جھگڑے سے کنارہ کش ہوکر کسی طرف نکل جانے کا قصد ہے۔

ابن جرموز نے کہا چلئے مجھے بھی اسی طرف کچھ دور تک جانا ہے، غرض دونوں ساتھ چلے،ظہر کی نماز کا وقت آیاتو زبیر ؓ نماز پڑھنے کے لیے ٹھہرے ،ابن جرموز نے کہا میں بھی شریک ہوں گا،حضرت زبیر ؓ نے کہا میں تمہیں امان دیتا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھو گے،اس نے کہاں ہاں اس عہد و پیمان کے بعد دونوں اپنے گھوڑے سے اترے اورمعبود حقیقی کے سامنے سرنیاز جھکانے کو کھڑے ہوگئے۔

شہادت


حضرت زبیر ؓ جیسے ہی سجدہ میں گئے کہ عمروبن جرموز نے غداری کرکے تلوار کا وار کیا اورحواری رسول ﷺ کا سرتن سے جدا ہوکر خاک و خون میں تڑپنے لگا، افسوس !جس نے اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں کبھی اپنی جان کی پروانہ کی اورجس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے بارہا مصائب وشدائدکے پہاڑ ہٹائے تھے وہ آج خود ایک کلمہ خوان اورپیروِ رسول ﷺ کی شقاوت اوربے رحمی کا شکار ہوگیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

ابن جرموزحضرت زبیر ؓ کی تلوار اورزرہ وغیرہ لے کر بارگاہِ مرتضوی ؓ میں حاضر ہوا اورفخر کے ساتھ اپنا کارنامہ بیان کیا، جناب مرتضیٰ ؓ نے تلوار پر ایک حسرت کی نظر ڈال کر فرمایا اس نے بارہا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے مصائب کے بادل ہٹائے ہیں اے ابن صفیہ کے قاتل تجھے بشارت ہو کہ جہنم تیری منتظر ہے۔
(مسند جلد۱ صفحہ ۸۹)

حضرت زبیر ؓ نے چونسٹھ برس کی عمرپائی اور ۳۶ھ میں شہید ہوکر وادی السباع میں سپرد خاک ہوئے، فنور اللہ مرقدہ وحسن مثواہ-

اخلاق وعادات

حضرت زبیر ؓ کا دامن اخلاقی زروجواہر سے مالا مال تھا، تقوی،پارسائی،حق پسندی،بے نیازی،سخاوت اورایثار آپ کا خاص شیوہ تھا،رقت قلب اورعبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے معمولی واقعہ پر دل کانپ اٹھتا تھا۔

خشیتِ الہی

جب یہ آیت نازل ہوئی"إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ،ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ "
(الزمر:۳۰،۳۱)

توسرورِکائنات ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ کیا قیامت کے روز ہمارے جھگڑے پھر دہرائے جائیں گے؟ ارشاد ہوا ہاں ایک ایک ذرہ کا حساب ہوکر حقدار کو اس کا حق دلایا جائے گا، یہ سن کر ان کا دل کانپ اُٹھا کہنے لگے،اللہ اکبر!کیسا سخت موقع ہوگا۔
(ایضا:۱/۱۶۷)

تقویٰ وپرہیز گاری حضرت زبیر ؓ کی کتاب اخلاق کا سب سے روشن باب ہے،وہ خود اس کا خیال رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرتے تھے، ایک دفعہ وہ اپنے غلام ابراہیم کی دادی ام عطاء کے پاس گئے دیکھا کہ یہاں ایام تشریق کے بعد بھی قربانی کا گوشت موجود ہے،کہنے لگے،ام عطاء رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایاہے، انہوں نے عرض کیا کہ میں کیا کروں لوگوں نے اس قدر ہدئیے بھیج دیئے کہ ختم ہی نہیں ہوتے ۔
(ایضاً جلد ۱ صفحہ ۱۶۶)

حضرت زبیر ؓ نے جب دعوتِ اصلاح کا علم بلند کیا تو ایک شخص نے آکر کہا اگر حکم دیجئے تو علی ؓ کی گردن اڑادوں"بولے تم تنہا اس عظیم الشان فوج کا کیسے مقابلہ کرو گے؟ اس نے کہا میں علی ؓ کی فوج میں جاکر مل جاؤں گا اور کسی وقت موقع پاکر دھوکے سے قتل کرڈالوں گا،فرمایا نہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ایمان قتل ناگہانی کی زنجیر ہے، اس لیے کوئی مومن کسی کو اچانک نہ مارے۔
(مسند:۱ / ۱۶۶)

قلتِ روایت کا سبب


حضرت زبیر ؓ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے حواری اورہر وقت کے حاضر رہنے والوں میں تھے،لیکن کمال اتقاء کے باعث بہت کم حدیثیں روایت کرتے تھے ،ایک دفعہ آپ کے صاحبزادہ حضرت عبداللہ ؓ نے کہا،پدر بزرگوار کیا سبب ہے کہ آپ حضور ﷺ کی اتنی باتیں بیان نہیں کرتے جتنی اورلوگ بیان کرتے ہیں، فرمایا جان پدر! حضور ﷺ کی رفاقت اورمعیت میں دوسروں سے میرا حصہ کم نہیں ہے، میں جب سے اسلام لایا، رسول اللہ ﷺ سے جدا نہیں ہوا،لیکن حضور ﷺ کی صرف اس تنبیہ نے مجھے محتاط بنادیا ہے:

من کذب علی متعمدا فلیبتوا مقعدہ من النار

یعنی جس نے قصدا ًمیری طرف غلط بات منسوب کی اسے چاہئے کہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے۔
(ابوداؤد کتاب العلم باب فی التشدید فی الکذب علی رسول اللہ ﷺ ومسند :۱/۱۶۵،وصحیح بخاری : ۱/۲۱)

مساوات پسندی

مساواتِ اسلامی کا اس قدر خیال تھا کہ دومسلمان لاشوں میں بھی کسی تفریق یا امتیاز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جنگ احد میں آپ کےماموں حضرت حمزہ ؓ شہید ہوئے تو حضرت صفیہ ؓ نے بھائی کی تجہیز و تکفین کے لیے دو کپڑے لاکر دیئے ،لیکن ماموں کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گوروکفن پڑی تھی، دل نے گوارا نہ کیا کہ ایک کے لیے دودو کپڑے ہوں اوردوسرا بے کفن رہے،غرض تقسیم کرنے کے لیے دونوں ٹکڑوں کو ناپا،اتفاق سے چھوٹا بڑا نکلا قرعہ ڈال کر تقسیم کیا کہ اس میں بھی کسی طرح کی ترجیح نہ پائی جائے۔
(مسند:۱/۱۶۵)
 
  • Like
Reactions: Shikra-e-Ab'bar

Aks_

~ ʍɑno BɨLii ~
Hot Shot
Aug 2, 2012
44,916
17,651
1,113
استقلال


حضرت زبیر ؓ خطرات کی مطلق پروانہ کرتے اورموت کا خوف کبھی ان کے عزم وارادہ میں حائل نہ ہوتا، اسکندریہ کے محاصرہ نے طول کھینچا تو چاہا کہ سیڑھی لگا کر قلعہ پر چڑھ جائیں،لوگوں نے کہا قلعہ میں سخت طاعون ہے،فرمایا"ہم طعن وطاعون ہی کے لیے آئے ہیں"یعنی موت سے ڈرنا کیا ہے غرض سیڑھیاں لگائی گئیں اورجان بازی کے ساتھ چڑھ گئے۔

امانت


حواریِ رسول کی امانت،دیانت اورانتظامی قابلیت کا عام شہرہ تھا،یہاں تک کہ لوگ عموماًاپنی وفات کے وقت ان کو اپنے آل واولاد اورمال ومتاع کے محافظ بنانے کی تمنا ظاہر کرتے تھے،مطیع بن الاسود نے ان کو وصی بنانا چاہا، انہوں نے انکار کیا تو لجاجت کے ساتھ کہنے لگے"میں آپ کو خدا،رسول ﷺ اورقرابت داری کا واسطہ دلاتا ہوں، میں نے فاروق اعظم ؓ کو کہتے سنا ہے کہ زبیر ؓ دین کے ایک رکن ہیں، حضرت عثمان ؓ، مقداد ،عبداللہ بن مسعود ؓ اورعبدالرحمان بن عوف ؓ وغیرہ نے بھی ان کو اپنا وصی بنایا تھا، چنانچہ یہ دیانتداری کے ساتھ ان کے مال ومتاع کی حفاظت کرکے ان کے اہل وعیال پر صرف کرتے تھے۔
(اصابہ :۳/۶)

فیاضی


فیاضی،سخاوت اورخداکی راہ میں خرچ کرنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے، حضرت زبیر ؓ کے پاس ایک ہزار غلام تھے،روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک بیش قرار رقم لاتے تھے، لیکن انہوں نے اس میں سے ایک حبہ بھی کبھی اپنی ذات یا اپنے اہل وعیال پر صرف کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو کچھ آیا اسی وقت صدقہ کردیا،(ایضاً جلد ۲ صفحہ۶)غرض ایک پیغمبر کے حواری میں جو خوبیاں ہوسکتی ہیں،حضرت زبیر ؓ کی ذات والا صفات میں ایک ایک کرکے وہ سب موجود تھیں۔

ذریعہ ٔمعاش اورتمول


معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا، اورعجیب بات ہے کہ انہوں نےجس کام میں ہاتھ لگایا، کبھی گھاٹا نہیں ہوا۔
(استیعاب :۱/۲۰۸)

تجارت کے علاوہ مالِ غنیمت سے بھی گراں قدررقم حاصل کی،حضرت زبیر ؓ کے تمول کا صرف اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑدولاکھ درہم (یادینار)کیا گیا تھا، لیکن یہ سب نقد نہیں؛ بلکہ جائیداد غیر منقولہ کی صورت میں تھا، اطراف مدینہ میں ایک جھاڑی تھی، اس کے علاوہ مختلف مقامات میں مکانات تھے،چنانچہ خاص مدینہ میں گیارہ ،بصرہ میں دو اورمصروکوفہ میں ایک ایک مکان تھا۔
(بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی مالہ)
قرض اوراس کی ادائیگی

حضرت زبیر ؓ اس قدر تمول کے باوجود بائیس لاکھ کے مقروض تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ عموما ًاپنا مال ان کے پاس جمع کرتے تھے،لیکن یہ احتیاط کے خیال سے سب سے کہہ دیتے تھے کہ امانت نہیں ؛بلکہ قرض کی حیثیت سے لیتا ہوں، ہوتے ہوتے اسی طرح بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے۔
(ایضاً)


حضرت زبیر ؓ جب جنگ جمل کے لیے تیارہوئے تو انہوں نے اپنے صاحبزادہ عبداللہ ؓ سے کہا"جان پدر مجھے سب سے زیادہ خیال اپنے قرض کا ہے، اس لیے میرا مال ومتاع بیچ کر سب سے پہلے قرض ادا کرنا اورجو کچھ بچ رہے اس میں سے ایک ثلث خاص تمہارے بچوں کے لیے وصیت کرتا ہوں ،ہاں اگر مال کفایت نہ کرے تو میرے مولیٰ کی طرف رجوع کرنا ،حضرت عبداللہ ؓ نے پوچھا"آپ کا مولیٰ کون ہے؟ میرا مولیٰ خدا ہے جس نے ہر مصیبت کے وقت میری دستگیری کی ہے۔"

عبداللہ بن زبیر ؓ نے حسب وصیت مختلف آدمیوں کے ہاتھ جھاڑی بیچ کر قرض ادا کرنے کا سامان کیا اورچاربرس تک موسم حج میں اعلان کرتے رہے کہ زبیر ؓ پر جس کا قرض ہو آکر لے لے،غرض اس طرح سے قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس قدر رقم بچ رہی کہ صرف حضرت زبیر ؓ کی چاربیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ بارہ لاکھ حصہ ملا، موصی لہ اوردوسرے ورثہ کے علاوہ تھے۔
(بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی فی مالہ)


جاگیروزراعت


فتح خیبر کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کی زمین کو مجاہدین پر تقسیم فرمادیا تھا، چنانچہ حضرت زبیر ؓ کو بھی اس میں سے ایک وسیع اورسرسبز قطعہ ملاتھا، اس کے علاوہ مدینہ کے اطراف میں بھی ان کے کھیت تھے، جن کو وہ خود آباد کرتے تھے، کبھی کبھی آب پاشی وغیرہ کے متعلق دوسرے شرکاء سے جھگڑا بھی ہوجاتا تھا، ایک دفعہ ایک انصاری سے جن کا کھیت حضرت زبیر ؓ کے کھیت سے ملا ہوا نیچے کی طرف تھا، آب پاشی کے متعلق جھگڑا ہوا، انصار ی ؓ نے بارگاہِ نبوت میں شکایت کی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا کہ تم اپنا کھیت سینچ کر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدیا کرو، انصاری اس فیصلہ سے ناراض ہوئے اور کہنے لگے"یارسول اللہ! آپ نے اپنے پھوپھی زادہ کی پاسداری فرمائی،چونکہ انصاری کو اس آب پاشی سے متمتع ہونے کا کوئی حق نہ تھا اوررسول اللہ ﷺ نے محض ان کی رعایت سے یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا،اس لیے چہرہ سرخ ہوگیا، اورحضرت زبیر ؓ کو حکم دیا کہ تم اپنے پورے حق سے فائدہ اٹھاؤ،یعنی خود آب پاشی کرکے پانی کو روک رکھو یہاں تک کہ نالیوں کے ذریعہ سے دوسری طرف بہ جائے۔

کھیت کی نگرانی اورفصل کی حفاظت کا فرض بسااوقات خود ہی انجام دیتے تھے،ایک دفعہ عہد فاروقی ؓ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اورحضرت مقداد بن الاسود ؓ کے ساتھ اپنی جاگیر کی دیکھ بھال کے لیے خیبر تشریف لے گئے اور رات کے وقت تک تینوں علیحدہ اپنی اپنی جاگیر کے قریب سوئے رات کی تاریکی میں کسی یہودی نے شرارت سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی کلائی اس زور سے موڑدی کہ بے اختیار ہو کر چلااُٹھے ،حضرت زبیر ؓ وغیرہ مدد کے لیے دوڑے اورواقعہ دریافت کرکے ان کو لیے ہوئے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اوریہودیوں کی شرارت کا حال بیان کیا،چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسی واقعہ کے بعد یہودیوں کو خیبر سے جلاوطن کردیا۔
(ابن ہشام:۲/۲۰۱)


حضرت ابوبکر ؓ نے بھی مقام جرف میں انہیں ایک جاگیر مرحمت فرمائی تھی، اسی طرح حضرت عمر ؓ نے مقام عقیق کی زمین انہیں دے دی تھی،(ابن سعد قسم اول جلد ۳ صفحہ ۱۷۳) جو مدینہ کے اطراف میں ایک خوش فضا میدان ہے۔

آل واولاد سے محبت


حضرت زبیرؓ کو بیوی بچوں سے نہایت محبت تھی،خصوصاً حضرت عبداللہ ؓ اوران کے بچوں کو بہت مانتے تھے،چنانچہ اپنے مال میں سے ایک ثلث کی خاص ان کے بچوں کے لیے وصیت کی تھی،لڑکوں کی تربیت کو بھی خاص طورپر ملحوظ رکھتے تھے، جنگ یرموک میں شریک ہوئے تو اپنے صاحبزادہ عبداللہ بن زبیر ؓ کو بھی ساتھ لے گئے،اس وقت ان کی عمر صرف دس سال کی تھی، لیکن حضرت زبیر ؓ نے ان کو گھوڑے پر سوار کرکے ایک آدمی کے سپرد کردیا کہ جنگ کے ہولناک مناظر دکھا کر جرات و بہادری کا سبق دے۔

غذا ولباس


دولت وثروت کے باوجود طرز معاشرت نہایت سادہ تھا،غذا بھی پرتکلف نہ تھی ،لباس عموماً معمولی اورسادہ زیب بدن فرماتے ،البتہ جنگ میں ریشمی کپڑے استعمال کرتے تھے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پران کو اجازت دی تھی،آلاتِ حرب کا نہایت شوق تھا اوراس میں تکلف جائز سمجھتے تھے،چنانچہ ان کی تلوار کا قبضہ نقرئی تھا۔

حلیہ


بدن چھریرا،قدربلندوبالا،خصوصا ًپاؤں اس قدر لمبے کہ گھوڑے پر چڑہتے تو پاؤں زمین سے چھوجاتا،رنگ گندم گوں اورسرپرکندھوں تک بالوں کی لٹیں۔
اولاد وازواج

حضرت زبیر ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اورکثرت کے ساتھ اولاد پیدا ہوئی،بعض بچے تو ان کی حیات ہی میں قضا کر گئے؛ تاہم پھر بھی بہت سی اولاد یادگار رہ گئی۔

ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:

اسماء بنت ابی بکر ؓ،ان کے بطن سے چھ بچے ہوئے،نام یہ ہیں: عبداللہ، عروہ،منذر، خدیجۃ الکبری،ام الحسن عائشہ۔

ام خالد بنت خالد بن سعید، انہوں نے خالد، عمر، حبیبہ ،سودہ،اورہندیادگار چھوڑی۔

رباب بنت انیف، ان سے مصعب، حمزہ اوررملہ پیدا ہوئیں۔

زینب بنت بشر، ان کے بطن سے عبیدہ،جعفر اورحفصہ پیدا ہوئیں۔
ام کلثوم بنت عقبہ،ان سے صرف ایک لڑکی زینب پیدا ہوئی
 
  • Like
Reactions: Shikra-e-Ab'bar

intelligent086

Active Member
Nov 10, 2010
333
98
1,128
Lahore,Pakistan
غزوات
غزوات میں ممتاز حیثیت سے شریک رہے،سب سے پہلے غزوۂ ٔبدر پیش آیا،حضرت زبیر ؓ نے اس معرکہ میں نہایت جانبازی ودلیری کے ساتھ حصہ لیا، جس طرف نکل جاتے تھے غنیم کی صفیں تہ وبالا کردیتے،ایک مشرک نے ایک بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر مبارزت چاہی، حضرت زبیر ؓ بڑھ کر اس سے لپٹ گئے،اور دونوں قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے آئے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں میں جو سب سے پہلے زمین پر رکے گا وہ مقتول ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ مشرک پہلے زمین پر گرکر حضرت زبیر ؓ کے ہاتھ سے واصلِ جہنم ہوا،(کنزالعمال:۶/۴۱۶) اسی طرح عبیدہ بن سعید سے مقابلہ پیش آیا جو سر سے پاؤں تک زرہ پہنےہوئے تھا،صرف دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حضرت زبیر ؓ نے تاک کر اس زور سے آنکھ میں نیزہ مارا کہ اس پارنکل گیا،اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل نیزہ نکالا،پھل ٹیڑھا ہوگیا تھا، آنحضرت ﷺ نے بطوریادگار حضرت زبیر ؓ سے اس نیزہ کو لے لیا،اس کے بعد پھر خلفاء میں تبرکا ًمنتقل ہوتا رہا،یہاں تک خلیفہ ثالث ؓ کے بعد حضرت زبیر ؓ کے وارث حضرت عبداللہ ؓ کے پاس پہنچا اوران کی شہادت تک ان کے پاس موجودتھا۔

وہ جس بے جگری کے ساتھ بدرمیں لڑے اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی تلوار میں دندانے پڑگئے تھے،تمام جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا، خصوصاً ایک زخم اس قدر کاری تھا کہ وہاں پر ہمیشہ کے لیے گڑھا پڑگیا تھا، حضرت عروہ بن زبیر ؓ کا بیان ہے کہ ہم ان میں انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔

(بخاری باب غزوۂ بدر)
معرکہ بدر میں حضرت زبیر ؓ زرد عمامہ باندھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج ملائکہ بھی اسی وضع میں آئے ہیں،(کنز العمال :۶/۴۱۶) غرض مسلمانوں کی شجاعت وثابت قدمی نے میدان مارلیا حق غالب رہا اورباطل کو شکست ہوئی۔
 
Top