محبت، ”جانُو“ اور پیر و مرشد

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
بہت عرصے سے کچھ لفظ بہت عام ہوگئے ہیں اسے آپ لفظوں کی ارزانی بھی کہہ سکتے ہیں مثلاً ایک جذبہ محبت ہے جسے ہر ایک کے سامنے سرنڈر نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم اس کا استعمال ”پہلے آؤ ، پہلے پاؤ“ کی بنیاد پر کرتے ہیں، پرانے زمانے میں تو اس کا جواز بھی موجود تھا کہ جس کی محبت میں گرفتارہوا جاتا تھا اس کا چہرہ سات پردوں میں چھپا ہوتا تھا چنانچہ اس قحط کے دوران جس چہرے کی ایک ہلکی سی جھلک بھی نظر آجاتی یار لوگ اس پر سو جان سے فدا ہو جاتے اور پھر اس کے قصیدوں سے دیوان کے دیوان بھر دیتے۔ پرانے زمانے میں صرف طوائف کا دیدار آسان تھا یا مردانِ خوبرو پر نظر پڑ سکتی تھی چنانچہ ہماری کلاسیکی شاعری کامحبوب ان دونوں طبقوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن آج کل تو یہ صورتحال نہیں ہے، یہ تو بے حجابی کا زمانہ ہے چنانچہ دیدار ِ عام کی سہولت موجود ہے۔ اس کے باوجود محبت کا دعویٰ ”پہلے آؤ ، پہلے پاؤ“ ہی کی بنیاد پر کیاجاتا ہے۔ یار لوگ دل ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں اورگلیوں میں آوازیں لگاتے ہیں ”دل لے لو دل“ چنانچہ جو بدقسمت اس آواز پر کان دھرے، دل عارضی بنیادوں پر اسی کا ہوجاتا ہے، بقول ادریس قریشی:
میرا یہ دل تہاری ہی محبت کے لئے ہے
مگر یہ پیشکش محدود مدت کے لئے ہے
یہ تو شاعر کی سادگی ہے کہ اس نے بول بچن سے کام لینے کی بجائے سیدھی بات کردی اوربتا دیا کہ دل فی الحال حاضر ہے پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی کیونکہ معاملہ ”تو نہیں اورسہی اور نہیں اورسہی“ والا ہے۔ ایسا کون کرتا ہے؟ یہاں تو کہا جاتا ہے کہ ازل سے تمہارا ہوں اور ابد تک تمہارا رہوں گا اور اس ازل اور ابد کی درمیانی مدت دو چارماہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ محبت کے لفظ کی ارزانی اس تناظر کے علاوہ عام بول چال میں بھی نظر آتی ہے۔ نفرتوں سے بھرے ہوئے دل رکھنے والے لوگوں کا بھی تکیہ کلام یہی ہوتا ہے کہ ”بھئی! میں تو محبتوں کا آدمی ہوں“ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ خطوں میں بھی السلام علیکم کی بجائے ”محبتی“ کے لفظ سے آغاز ِ کلام کرتے ہیں! لفظ ”محبت“ ہی کا ایک ”آف شُوٹ“ لفظ ”جانُو“ بھی ہے۔ یہ لفظ کبھی سرگوشیوں میں ادا ہوتا تھا، بقول ولی دکنی#:
عجب کچھ لطف دیتا ”تھا“ شب ِ خلوت میں دلبر سوں
سوال آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ
مگر اب تو یہ سرگوشیاں دور تک سنائی دیتی ہیں۔ لبرٹیڈ قسم کے خواتین وحضرات بر سر محفل ایک دوسرے کو ”جانُو“، ”جانُو“ کہہ رہے ہوتے ہیں اور اس وقت تک کہتے رہتے ہیں جب تک کوئی ان کی جان نکال کر لے نہیں جاتا۔ میں ایک سادہ سا مضافاتی شخص ہوں۔ میں کیاجانوں یہ ”جانُو“ کیا ہوتاہے چنانچہ میں نے یہ لفظ بار بار سنا تو ایک اسی طرح کے ”جانُو“ سے پوچھ ہی لیا کہ یہ ”جانُو“ ہوتا کیاہے؟ اس نے کہا ”جانوں تو مانوں“ مگر میں نے نہیں جانا کہ کہیں مان ہی نہ جائے!
لگتاتو بہت عجیب ہے کہ ”محبت“ اور ”جانُو“ پر گفتگو کے دوران ”پیرومرشد“ کا ذکر آ ئے لیکن چونکہ معاملہ لفظوں کی ارزانی کاہے، لہٰذا یہ حوالہ بھی ضرور آئے گا کیونکہ ان دنوں یار دوست بھی ایک دوسرے کو ”پیرومرشد“ کہنے لگے ہیں۔ ادبی حلقوں میں شروع شروع میں یہ لفظ سید ضمیر جعفری کے ”مریدوں“ نے ان کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد اس لفظ کی درگت بنتی چلی گئی چنانچہ اب مجھ ایسوں کو بھی پیرومرشد کہنے والے وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ان دنوں مجھ سے بھی کہیں زیادہ غیرمستحق لوگوں کو پیرومرشد کہا جارہا ہے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ کساد بازاری ہے۔مارکیٹ میں جو کچھ میسرہے، اس سے کام چلانا پڑ رہا ہے۔ انور مسعود کہا کرتا ہے”اس دفعہ خربوزے اور شاعر ہوئے ہی بہت ہیں“ آپ اس میں پیروں اور مرشدوں کو بھی شامل کرلیں۔ ایک تو مجھ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے دوست ازراہ ِبندہ پروری یا ازراہ ِ مذاق ”پیرومرشد “ کہتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے تمام تر کوششوں کے باجود ڈھنگ کا روزگار نہ ملا تو بیرون ملک بیٹھے انہوں نے پیری مریدی کو بطور پیشہ اپنایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے حصے کے بے وقوف پیدا کئے ہوئے ہیں چنانچہ انہیں بھی حصہ بقدر ِ جثہ مل جاتاہے۔ یہ دکانداریاں اب اتنے کھلے عام ہیں کہ میں نے گزشتہ روز باقاعدہ ایک دکان پر ”دربار ِ عالیہ“ کا بورڈ لگا دیکھا۔ جن صاحب کے حوالے سے یہ بورڈ لگایا گیا تھا مجھے تو ان میں ”عالیہ“ والی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ بہرحال ایک فارسی محاورے کے مطابق بچوں کے ساتھ مذاق کرتے کرتے ہم نے بزرگوں کے ساتھ بھی مذاق کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پیر و مرشد روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے، نہ محبتیں روز روز ہوتی ہیں اور نہ ہر کسی کو ”جانُو“ کہا جاسکتا ہے، سو دیکھنا یہ ہے کہ لفظوں کی بے حرمتی کا یہ سلسلہ کب، کیسے اور کہاں رکتا ہے؟​
 
Top