قومی راہنما کون بنےگا ؟ نواز شریف یا زردار&#17

  • Work-from-home

imkanaat

Newbie
May 15, 2008
41
37
0
کون بنے گا قومی راہنما نوازشریف یا زرداری?
زبیر احمد ظہیر
کیا بجٹ سے پہلے عدلیہ بحال ہوجائے گی?فی الحال
ملکی سیاست خدشوں اور اندیشوں سے بھر گئی ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سیاست کے حوالے سے کوئی بات یقین سے کہنا ممکن نہیں رہا۔ اس غیر یقینی کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ غیر یقینی کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ ماہ جون سر پر ہے جوہر سال موسمی گرمی کے ساتھ بجٹ کی گرما گرمی بھی لاتا ہے، قومی اور صوبائی بجٹ پیش ہوتے ہیں، اعداد و شمار کاکھیل اپنے عروج پر ہوتاہے اور اندازوں، تخمینوں کی گرم بازاری کے اس ماحول میں عام آدمی کی جان پر بنی رہتی ہے کہ دیکھئے اس بار گردن کند چھری سے ریتی جاتی ہے یا اس پر دھارلگانے کی زحمت اٹھانے کافیصلہ ہوتا ہے۔ گردن تو بہر حال کٹنی ہے ۔جرم غریبی کی سزا تو بالآخر بھگتنی ہے۔اس بار بجٹ کی تیاریاں ایک ایسے ماحول میں ہورہی ہیں جب حکومت میں شامل دو بڑی پارٹیاں ججوں کی بحالی کے مسئلے پر ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں۔یہ موقع پی پی کی قیادت کے فہم وفراست کے امتحان کا ہے،اسے یاد رکھنا چاہیے کہ بجٹ سے پہلے عدلیہ کی بحالی ن لیگ کی ناراضگی کے خاتمے کا سبب بنے گی اس سے ن لیگ کی بجٹ اجلاس میں ذہنی اور جسمانی موجودگی یقینی بن جائے گئی،
اس تناظر میں عدلیہ کی بحالی ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ والی ضرورت بن گئی ہے۔ اعلان مری سے اب تک وعدہ خلافیوں کی داستان رقم کرنے والے آصف علی زرداری اس قابل نہیں رہ گئے کہ عوام ان پر مزید بھروسہ کریں۔ پی پی عوامی جماعت ہونے کی دعویدار ہے، اس کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیکولر حکمراں نے عوامی موڈ دیکھ کر قومی اسمبلی سے قادیانیوں کو کافر قرار دلوادیاتھا، ججوں کی بحالی کا معاملہ بہرحال اس جیسا سنگین ہرگز نہیں ہے۔ کام کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہوتا ،نہ کرنے کے ہزار بہانے ہوتے ہیں۔ آصف علی زرداری جوڑ توڑ کے ماہر کہلاتے ہیں ،آخر کیا وجہ ہے کہ عدلیہ کی بحالی پر ان کے اپنے جوڑ ٹوٹتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں ۔کہتے ہیں آدمی رونا چاہے تو کانی آنکھ سے بھی آنسو چھلک پڑتے ہیں مگر آصف علی زرداری ہیں کہ عدلیہ کی بحالی پر ٹس سے مس نہیں ہوتے، عدلیہ کے ایشو کو سوا سال سے زائد عرصہ ہوگیاہے۔ پوری قوم سراپا احتجاج رہی۔ صدر مشرف اس معاملے پر ”زمین جنبد نہ جنبد گل محمد“ کی مثال بنے رہے۔ آصف علی زرداری بھی ایسے گل محمدنظر آرہے ہیں جو عدلیہ کی بحالی کے معاملے پر ہلنے کو تیار نہیں۔ ہمیں آصف علی زرداری کی مجبوریوں کا بھی ادراک ہے ان پر امریکا کا دباؤ بھی ہوگا۔ نئی حکومت کے بنتے ہی امریکی سفیر نے وفاقی وزراء اور سیاست دانوں سے اتنی تیزی سے رابطے شروع کردیے کہ اس طرح تو علاقے کا کوئی تھانے دار بھی عام آدمی سے نہیں ملتا۔
امریکا کی مداخلت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب تھانے دار “مالدار ”علاقوں میں تبادلے کے لیے امریکا کی سفارش ڈھونڈیں گئے اور وہ دن دور نہیں کہ تھانے داروں کی تقرریا ں بھی امریکی سفیر اور قونصلر جنرل کرنے لگیں
آصف علی زرداری پر یقینا امریکا کا دباؤ ہوگا۔انہیں صدر پرویز مشرف کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا ہوگا۔ صدر پرویز مشرف 3 نومبر کے اقدامات کو آئینی جواز دلانے کے لیے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر گامزن ہیں، ان کی باقیات جوں کی توں موجود ہیں رکاوٹیں ضرور ہوں گی۔ پلیٹ میں رکھی کھیر کھانے پر کریڈٹ نہیں ملا کرتے یہ جان جو کھم میں ڈال دینے کے بعد ملا کرتے ہیں۔
آصف علی زرداری کو کچھ تحفظات عدلیہ سے بھی رہے ہوں گے مگر تحفظات کا مطلب حقائق کا انکار نہیں ہوتا عدلیہ کی بحالی پر بار بار کی تاخیر ان ہی حقائق کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔
اب تک حکومت کو کمزور اپوزیشن کا سامنا رہا ہے مرکز سے لے کر صوبوں تک اپوزیشن موجود نہیں محض نام ہے، پارلیمنٹ کے باہر اس خلاء کو پرکرنے کے لیے جماعت اسلامی نے اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تیاری کرلی ہے۔ اے پی ڈی ایم کی سرگوشیوں اور آصف علی زرداری کی وعدہ خلافیوں نے ن لیگ کو کابینہ سے باہر آنے پر مجبور کردیا، عدلیہ کی بحالی کا معاملہ اتنا مشکل نہ تھا اسے دو جماعتی مفادات نے جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا ۔
ن لیگ کی ابتداء سے مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھنے کی پالیسی تھی اور نواز شریف کو اپوزیشن قیادت بلا شرکت غیرے مل سکتی ہے اے پی ڈی ایم کا ایوان کے باہر اور ن لیگ کا ایوان کے اندر متوقع احتجاج یہ دونوں مل کر مستقبل میں حکومت کے لیے بڑے مسائل پیدا کرسکتے ہیں ن لیگ کو اگلے الیکشن میں واضح اکثریت نظر آرہی ہے، اس لیے پی پی موجودہ مشکلات سے نکل نہیں پائے گی اور عوام کو براہ راست ریلیف 5 برس میں نہیں دلا پائے گی لہٰذا عوام اس سے بدظن ہو نگے۔ یہ وہ بات ہے جس پر ن لیگ کو ایک نہ ایک دن اس اتحاد سے الگ ہونا ہے۔ن لیگ کو اس اتحاد میں شامل رکھنا بے حد ضروری ہے تاکہ اس حکو مت کا قومی حکومت کا تاثر بحال رہے ،یہ تاثر پاکستان کو خارجی سطح پر کئی مسائل سے محفوظ رکھے گا، ن لیگ کی اتحاد سے علیحدگی کی صورت میں پی پی مشرف کی حمایت کرنے کے تاثر کو ختم نہیں کرسکے گی۔ یہ الزام زبان زد عام ہوگیا ہے کہ پی پی نے صدر مشرف کو سہارا دے رکھا ہے صدر پرویز مشرف کی باقیات کی موجود گی اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے۔ ان الزامات سے بچنے کے لیے ن لیگ کا حکومت میں شامل رہنا ضروی ہے تاکہ پاکستان میں ایسی حکومت کاتاثر قائم رہے جہاں ماضی کی دو دشمن جماعتیں ایک ہو گئی ہیں یہ بیرونی دباؤ میں کمی کا سبب بنے گا ۔
ن لیگ اور پی پی کے اتحاد کے نتیجے میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ ق لیگ نے صدر پرویز مشرف کا ساتھ چھوڑنے پر غور شروع کردیا تھا۔انہیں اپنی شکست کا سبب قراردیا مگر حالیہ حکمران اتحادمیں اختلافات نے ق لیگ کو ایک بار پھرمشرف کی ضرورت بنادیا ہے۔ ق لیگ اور صدر مشرف دونوں کے کمزور کند ھے مل کر ایک مضبوط جسم بن گیا ہے۔ ادھر میاں نواز شریف نے آمریت کو بے تحاشا گالیاں دے کر ایوان صدر کو سازشوں کا موقع فراہم کردیا ،میاں نواز شریف نے جمہوریت کے قدم مضبوط ہونے سے قبل ہی آمریت کا جنازہ نکالنے کے دعوے شروع کردیے ان کے دعووں سے کہیں زیادہ صدر مشرف نے کمر کس لی اور نتیجہ یہ نکلا آج ن لیگ اور پی پی ایک دوسرے کا سامنا کرنے کو تیا ر نہیں۔ پی پی حکومت نے جو 62 نکاتی آئینی پیکج تیار کیا ہے اسکی جو تفصیلات تاحال سامنے آئی ہیں ان میں میثاق جمہورت کی 35 شقوں میں سے گنتی کی چندہی منظر عام پر آئی ہیں جس پر ن لیگ نے اتنی خوشی کا اظہار نہیں کیا جتنا منہ ایوان صدر کا بن گیا ہے۔ ایوان صدر نے حکومت سے خفیہ مراسم ختم کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے اس صورت حال کا آصف علی زرداری نے پہلے ہی ادراک کر لیا تھا اس لیے ایک دن قبل ہی انہوں نے بھانڈا پھوڑ دیا اور کہہ دیا ہے کہ قوم مہنگائی سے زیادہ صدرمشرف سے تنگ ہے اور قوم کا ہم پر زیادہ دباوٴ ہے۔ آصف علی زرداری نے یہ کڑوا سچ بولنے میں بڑی دیر کر دی ۔ قوم مہنگائی سمیت ہر مصیبت کا سبب صدر مشرف کو گردان رہی ہے آخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہواکہ انہوں نے نبھانے کی لاکھ کوشش کرلی مگر 58ٹو بی کے خاتمے کی محض بات ایسی تھی کہ ایوان صدر اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکا ۔اس کا ردعمل دونوں جانب سے شدید آیا ۔گویا 58 ٹو بی نہ ہوئی بحرانوں کی اماں بی ہو گئی،پارلیمنٹ پر لٹکی یہ تلوار ہٹنی ہے نہ عوام کی جان چھٹنی ہے ۔پی پی نے آئینی پیکج کی تیاری کی ابتداء سے پیدا ہونے والی اس صورت حال اور مستقبل کی پالیسیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کر لی ۔اور سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس بلالیا جس نے آ ئینی پیکج کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد آصف علی زرداری نے صدر کو مواخذے کی دھمکی دے دی ۔ اس اجلاس کے فیصلوں پر عمل در آمدسے معلوم ہوگا کہ آصف علی زرداری زمینی حقائق کے قریب ہوئے ہیں یا اندیشے اور وسوسے انہیں سمجھوتوں کی اس راہ پر ڈال گئے ہیں جسکے مسافر کے لیے پلٹنا ممکن نہیں رہتا۔ موجودہ بحران پارٹی کا داخلی معاملہ نہیں کہ اسے بلاول بھٹو کو بلواکر حل کروالیا جائے۔
وزیر اعظم کسے بنایا جائے اس پارٹی بحران پرمخدوم امین فہیم نے بلاو ل کی لاج رکھ لی تھی عدلیہ کی عدم بحالی سے ن لیگ کی علیحدگی تک پھیلا یہ بحران بلاول کی آمد سے ٹلنے والا نہیں۔ اس بحران پر اس سے مشورہ لیا جائے جس کی چالیس سالہ قربانی صدر مشرف سے ہونے والی ایک مبینہ ملاقات نے ہڑپ کر لی تھی تاہم پی پی کو اس بحران سے وہ ہی شخص نکالے گا جس کے گھر میں برسوں پہلے پی پی نے بطور جماعت آنکھ کھولی تھی۔ ایوان صدر سے جڑے اس بحران کی الجھی ہوئی گتھیاں وہی سلجھائے گا جس نے ایوان صدر سے رابطے کر کے بے نظیر بھٹو اورآصف علی زرداری کی راہ میں پڑ ے کانٹوں کو ایک ایک کر کے چنا اور راستہ صاف کر دیاتھا،پی پی کا یہ نبض شناس آصف علی زرداری کے فیصلو ں کی وجہ سے ناراض ہے اسے منانے آصف علی زرداری ان کے گھر چل کر جائیں تو مخدوم امین فہیم کی خودداری، خاندانی راوایات کے آگے ہار جائے گی ورنہ زرداری خوشامدیوں کے دام میں آکر کہیں اتنے آگے نہ نکل جائیں کہ ان کا یہ اقتدار آخری ثابت ہو۔
محتر مہ کے قتل سے پاکستان میں قیادت کا خلاء پیدا ہوگیا جسے پُر کرنے کی ایک ایک شرط میاں نواز شریف نے پوری کرنی شروع کر دی ہے اور وہ وقت آ گیا ہے کہ خلاء پر ہوجائے گا۔ آصف علی زرداری کے لیے ایک قومی راہنما بننے یا اس سے محروم ہونے کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا ہے قومیں ضرورت کے وقت قیادت کے فیصلوں کاانتظار نہیں کرتیں۔ دیر ہوتی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے کابینہ سے نکل کر غلطی نہیں کی ،اسے پسپائی نہ سمجھا جائے، انہوں نے بڑی پیشرفت کی تیاری کر لی ہے۔ طویل چھلانگ لگانے کے لیے پہلے چند قدم پیچھے آنا پڑ تا ہے۔ یہ بات جناب زرداری کے پیش نظر رہنی چاہیے۔
 
Top