سمندری لہروں سے چاندنی ناممکن کیوں؟

  • Work-from-home

goodfrndz

"A faithful friend is the medicine of life."
VIP
Aug 16, 2008
12,849
4,072
1,113
محبت والا
جبران نے کہا تھا سمندری لہروں سے برقی رو تو پیدا کی جاسکتی ہے مگر چاندنی نہیں۔ ایران اپنے جوہری ہتھیاروں کو قومی سلامتی کے لئے ناگزیر سمجھتا ہے۔ ایرانی قیادت امریکہ و مغرب اور مشرق وسطی کے ڈکٹیٹ اسرائیل کی جارہانہ دھمکیوں کے باوجود اپنے حق سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ امریکہ کے سفید محل میں تخت افروز ہونے والے صدر اوبامہ مشرق وسطی میں بھڑکے ہوئے آتش فشاں کو گلستان امن بنانے کے لئے ایران سے بات چیت کے ذریعے تمام قضیوں کو حل کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں مگر اسرائیل کی غزہ پر بائیس روزہ چڑھائی کے دوران اوبامہ کا کردار سوالیہ نشان بن گیا، کیونکہ انہوں نے اسرائیلی درندگی کے خاتمے یا جنگ بندی کی نہ تو کوئی مخلصانہ کوشش کی اور نہ ہی وہ یہودیوں کے جبر و استبداد تلے آ ہ و فغاں کرنے والے سیاہ بخت فلسطینی بچوں کی آہوں بے آسرا ماؤں کی دل اندوہ چیخوں پر ہمدردی و شفقت کے دو بول سکے۔ مڈل ایسٹ کے پراشوب حالات، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے استعماریت کے سامنے سینہ سپر ہوکر ڈٹ جانے والے ملکوں ایران و شام کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کا انعقاد انتہائی ضروری ہے۔ ایران خطے کا اہم ترین ملک ہے جو نہ صرف حماس و حزب اللہ پر گہرا اثر و نفوز رکھتا ہے بلکہ عراق میں امن و امان کے احیا کے لئے تہران کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

مغرب کے معروف کالم نویس جوناتھن پاور نے اپنے ایک فکر انگیز مضمون لیبیا کا مفاہمتی کلیہ ایران کے لئے سبق) میں تنازعہ ایران کو لیبیا کے ساتھ جوڑتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر مغرب ایران کی حثیت کو سمجھ لے تو دوسرے فریقوں کی پوزیشن آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے۔ ایران کی بحث میں ہمیں تریپولی کے ماضی و حال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ کچھ سال پہلے لیبیا بھی انہی مسائل و الزامات کے گرداب میں دھنسا ہوا تھا جو آجکل ایران کو درپیش ہیں۔ لیبیا پر ایک طرف ایران کی طرح جوہری ہتھیاروں کی افزائش کا دشنام تھا تو دوسری طرف وائٹ ہاوس نے کرنل قذافی پر دہشتگردانہ سرگرمیوں کی چھاپ لگا دی تھی۔ امریکہ نے اپنے جہاز کو سکاٹ لینڈ کے علاقے لاکربی میں لاکر تباہ کرنے کی زمہ داری لیبیا پر عائد کی تھی۔ امریکہ نے قذافی کے دانت کھٹے کرنے کے لئے جہاں لیبیا پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو وہاں امریکی جہازوں نے تریپولی پر بم و میزائل بھی داغے۔ وائٹ ہاؤس کے بنارسی ٹھگوں نے پابندیوں و طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ لیبیا کو ڈھیر کرنے کے لئے کئی اور نسخے بھی دریافت کر رکھے تھے۔ محتاط و ذود اثر سازشوں کے ذریعے لیبیا کے دانت نکالے گئے۔ سابق امریکن وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے پچھلے سال طرابلس کا دورہ کیا اور قذافی کے ساتھ شروع کی جانیوالی دوستی کو تاریخ ساز مفاہمت کا پاجامہ پہنایا۔

قذافی کے سرنڈر پر بش انتظامیہ کے خوشہ چینوں نے مختلف نقطہ ہائے نظر پر مبنی ارشادات الاپے۔ ڈک چینی نے اکڑاہٹ سے کہا کہ تلواروں کی کھڑکھڑاہٹ نے قذافی کو منہ کے بل گرادیا۔ صدام حسین کی گرفتاری کے پانچ دنوں بعد قذافی نے تمام جوہری اثاثے امریکہ کے سپرد کردئیے۔ رچرڈ ارمیٹیج نے یکسر متصادم تجزیہ کیا کہ لیبیا کو دی جانے والی رعایت کا صدام کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں۔ صدر ریگن نے اپنی سکھا شاہی کے دوران لیبیا کے خلاف جارہانہ و آمرانہ رویہ اپنایا مگر کامیابی کا نشان نہ مل سکا۔ جوناتھن پاور لکھتے ہیں کہ ریگن کے بعد تھنک ٹینکس نے چھڑی وگاجر کا طریقہ اپنایا جو فائدہ مند ثابت ہوا۔ ریگن انتظامیہ کی تشدد آمیز پالیسیوں نے ناکامی کا در کھولا۔ امریکی بمباری میں قذافی زخمی جبکہ اسکی بیٹی فنا ہوگئی۔ امریکی حملوں نے لیبیا میں مزاحمت کی بنیادوں کو مضبو ط بنایا کیونکہ قذافی کو مسلم امہ میں مذید شہرت نصیب ہوئی۔

لاکر بی کے سانحے کو مغرب میں اسی حملے کا بدلہ سمجھا گیا۔ امریکہ و برطانیہ نے لیبیا میں قذافی کے تخت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کئی سازشوں کے تانے بانے بنے مگر دوسری طرف مغرب کا دباؤ قذافی کو سیاسی بنیادوں کو مستحکم کرتا رہا۔ 1993ء میں واشنگٹن نے لیبیا پر سیکیورٹی کونسل کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا کلہاڑا چلادیا جس نے لیبیا کی معیشت کو لرزا کر رکھ دیا۔ جوناتھن لکھتے ہیں کہ اتفاقی طور پر اسلام پسند تنظیموں نے قذافی کی حمایت سے ہاتھ چھین لیا۔ قذافی کو لیبیا کے اندر سے اسلام پسندوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کے کارن اسکا لیبیا پر کنٹرول دھیما پڑ گیا۔ امریکہ و برطانیہ نے مشرق وسطی و یورپ میں رہنے والے لیبیا کے اعتدال پسندوں اور لبرل گروپوں پر دست حنائی رکھا تو قذافی کی حمایت میں اور کمی ہوگئی۔ 1999ء میں لیبیا کو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے دستبرداری اور لاکر بی کے ملزمان کو امریکہ کے حوالے کرنے کی پیشکش کی گئی۔ مارچ 2003ء میں لاکربی کے متاثرین کو لیبیا نے2.7بلین ڈالر کا معاوضہ دیا اور صرف ایک سال بعد لیبیا نے لاکر بی کے دو مشتبہ افراد کو عالمی عدالت انصاف کے سپرد کردیا جہاں انکے خلاف ٹرائل شروع ہوا۔ 2003ء میں ہی قذافی نے ایٹمی توانائی کمیشن کے عہدیداروں کو ایٹمی پروگرام کے مکمل معائنے کی اجازت دے دی۔ 19 اکتوبر2003ء میں لیبیا نے صدام حسین کی گرفتاری کے پانچ دن بعد جوہری و جراثیمی ہتھیاروں کی فیکٹریوں و تجربہ گاہوں کو بند کرکے تمام سازوسامان کو امریکہ کے سپرد کردیا۔

جوناتھن ڈک چینی پر تنقید کے تازیانے برساتے ہیں کہ اس دوران ڈک چینی نے بہت کچھ کھو دیا جسے مارچ2003ء میں امریکہ کے بغداد پر کئے جانیوالے امریکی حملے کے اثرات کا پیش بینی سے جائزہ لینے کے بعد قذافی نے سمجھ لیا کہ امریکہ عراق و افغانستان سے بہت جلد نکل جائے گا۔ لیبیاکو معاشی پابندیوں نے کئی معاشی جھٹکے دینے کے بعد پریشان کردیا۔ لیبیا کی ہائی ٹیکنالوجی جو تیل کی قیمتوں کو اعتدال کی لائن پر رکھنے کے لئے ضروری تھیں وہ لاغر ڈھانچوں کی شکل اختیار کرنے لگیں۔ اس مفاہمانہ راہ پر امریکی طاقت کا خطرہ ایک عامل تھا مگر یہ حتمی عامل بھی نہ تھا۔ امریکہ کے جارہانہ پن کے برعکس دیگر اقدامات و گفت و شنید نے قذافی کو باور کرایا کہ وہ اپنے معاشی جہاز کو اس وقت تک ڈوبنے و ڈولنے سے بچانے میں کامیاب نہ ہوگا جب تک وہ مغرب کے مطالبات تسلیم نہ کرلے۔ قذافی یہ بھی جان گیا کہ امریکہ کے خلاف مزاحمت لیبیا کے لئے تنومند نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ طاقت کے استعمال کے آپشن کو چھوڑ کر دیگر حکمت عملیوں کے خاطر خواہ نتائج نکلے جس کے بعد قذافی اپنی بادشاہت بچانے کی کوششوں میں غرقاب ہوگئے۔ جوناتھن امریکن پالیسی میکرز کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایران پر جنگ کا خوف مسلط کرنے کی بجائے وہی انداز و اطوار اپنائے جائیں جنکے دانشمندانہ استعمال نے لیبیا کے دانت کھٹے کر دئیے۔

ایران کے معاملے پر لیبیا کے سبق کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک جنگی بارود اپنا کام دکھائے گا اس وقت تک معتدل پالیسیاں و اقتصادی پابندیاں اپنا کام دکھا چکی ہونگی۔ ایرانی مسئلے کے حل کے لئے مغرب کو ایرانیوں کے ماحول کو سازگار بنانا ضروری ہے جسکے لئے اسرائیل کے مظالم کو روکنا ہوگا اور اسے بہادری سے دو ریاستوں کی تشکیل کی طرف بڑھانے کے لئے آمادہ خاطر بنایا جائے۔ مغرب کے باضمیر دانشوروں نے رائے دی ہے کہ مشرق وسطی کے گھمبیر مسائل کی سلجھن کے لئے وائٹ ہاؤس کو ایک طرف شام اور اسرائیل کے مذاکراتی عمل کی حوصلہ افزائی اور دوسری طرف عراقی و ایرانی شعیوں کے درمیان صدیوں سے قائم مذہبی، ثقافتی و تہذیبی مراسم کی راہ میں کسی بھی صورت میں روڑے اٹکانے کا کام نہ کیا جائے۔

جوناتھن پاور کے ایران و لیبیا کو ایک ہی تیر سے شکار کرنے کے جو دو نقاط صفحہ قرطاس پر نمودار ہوئے ہیں یعنی چھڑی کی بجائے گاجر کے استعمال کا ریاکارانہ فلسفہ ایرانی قائدین کو ایسی شاطرانہ چالوں سے بچنا چاہیے کیونکہ اسرائیل و امریکہ تہران کے جوہری پروگرام پر حملے کا خونیں طریقہ اپنائیں یا پھر گاجر کے چمتکار دکھائے جائیں دونوں میں یہود و ہنود کی یہی خواہش کار فرما ہے کہ امریکی مفادات و گریٹر اسرائیل کی راہ میں ایران جو چٹان بنکر کھڑا ہے کو لیبیا کی طرح فنا کردیا جائے اور تہران کے جوہری ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی اسرائیلی خواہش کو عملی شکل دی جائے۔ جہاں تک جوناتھن نے مڈل ایسٹ میں خون ریز طوائف الملوکی کو ختم کرنے کے لئے اسرائیل کو ایک حد تک محدود کرنے و آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو ناگزیر کہا ہے تو ایسی کاوشوں کی بحرحال تعریف کی جانی چاہیے۔ جوناتھن نے درست ہی کہا ہے کہ جب تک فلسطینیوں کو انکی امنگوں و ترنگوں کے مطابق خود مختار ریاست کا حق نہیں دیا جاتا تب تک یہ خطہ دہشتگردی، افراتفری و خون ریزی کے دل گداز مناظر پیش کرتا رہے گا۔ وائٹ ہاؤس کے نئے ہدایت کاروں کو جبران کا یہ چشم کشا جملہ یاد رکھنا چاہیے کہ سمندر کی لہروں سے برقی رو تو پیدا کی جاسکتی ہے مگر چاندنی نہیں۔ اسرائیل و امریکہ کے مہلک و ہولناک میزائلوں گن شپ ہیلی کاپٹروں جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال سے بےگناہ مسلمانوں و فلسطینیوں کے خون کے سمندر تو بہائے جاسکتے ہیں، کھوپڑیوں کے مینار تو تعمیر ہوجائیں گے مگر مڈل ایسٹ میں اسرائیلی وحشت کو ختم کئے بغیر مسلمانوں کے دلوں میں امریکی و اسرائیلی نفرت کے جلنے والے آتش فشاں کو بجھانا ناممکنات کا کھیل ہوگا۔

 
  • Like
Reactions: nrbhayo and BanjarA
Top