اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی، آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دکھلا خواب ہمیں
آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بیتاب ہمیں
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی ، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں
چھوڑ ایسی خوشی کویادنہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا ، ہر جذب نہاں پر رو دینا
آہنگ طرب پر جھک جانا، آواز فغاں پر رو دینا
بربط کی صدا پر رو دینا، مطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ہر دم ابدی راحت کا سماں دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
للہ حباب آب رواں پر نقش بقا تحریر نہ کر
مایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کر
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر
دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے
امید یہا ں اک وہم سی ہے‘ تسکین یہاں اک خواب سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں‘ دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی، آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دکھلا خواب ہمیں
آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بیتاب ہمیں
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی ، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں
چھوڑ ایسی خوشی کویادنہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا ، ہر جذب نہاں پر رو دینا
آہنگ طرب پر جھک جانا، آواز فغاں پر رو دینا
بربط کی صدا پر رو دینا، مطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ہر دم ابدی راحت کا سماں دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
للہ حباب آب رواں پر نقش بقا تحریر نہ کر
مایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کر
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر
دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے
امید یہا ں اک وہم سی ہے‘ تسکین یہاں اک خواب سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں‘ دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر