دور کہیں تارا ٹوٹا تھا '' ثمینہ راجہ

  • Work-from-home

zainy

Newbie
Feb 9, 2009
33
22
0

غزل

دور کہیں تارا ٹوٹا تھا
سویا رستا جاگ گیا تھا

سر پر تاج نہ دل میں نخوت
وہ کس دیس کا شہزادہ تھا

لہریں لیتے اس پانی پر
شیشے کا اک فرش بچھا تھا

ایک کنارے پر میں ششدر
دوسری جانب تو بیٹھا تھا

بیچ میں پھیلی ساری دنیا
تیرا میرا ملنا کیا تھا

تیری آنکھیں کیوں بھیگی تھیں
ہجر تو میرے گھر اترا تھا

دھوپ ہوئی تھی شہر سے رخصت
اندھیارا امڈا آتا تھا

سرد ہوا کا بازو تھامے
چاند بہت خاموش کھڑا تھا

خواب کے اندر نیند بھری تھی
نیند کے دل میں خواب چھپا تھا

آخر کو اک پھول سنہرا
ان ہونٹوں پر مرجھایا تھا

٭٭٭
 
  • Like
Reactions: nrbhayo

zainy

Newbie
Feb 9, 2009
33
22
0
دروازے پر قفل پڑا ہے ''ثمینہ راجہ


غزل

دروازے پر قفل پڑا ہے
کون اس پر دستک دیتا ہے

تنہائی ہے تیز ہوا ہے
میرا غم سوکھا پتا ہے

دور تلک پھیلا یہ صحرا
کس کا رستہ دیکھ رہا ہے

رستے سے کچھ دور بسی اک
تنہائی کی محل سرا ہے

تیری یاد وہاں بکھری تھی
میرا درد یہاں پھیلا ہے

پیچھے زخموں کا جنگل تھا
آگے خون کا اک دریا ہے

پھول خزاں میں مرجھاتے ہیں
میرے دل کا پات ہرا ہے

چونک گئی ہوں جیسے سچ مچ
میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے

لمس تیرا نہ کہیں کھو جائے
مٹھی کھولتے ڈر لگتا ہے

اب تو کسی کا آنا مشکل
آدھی رات ہے،سرد ہوا ہے

٭٭٭
 
Top