حصار۔۔سید عبداللہ شاہد

  • Work-from-home

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
حصار۔۔سید عبداللہ شاہد
کبیر احمد گزشتہ پانچ برس سے شہر کی ایک طبی لیبارٹری میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت کرتاتھا۔ اسے اسپیشلسٹ کی سرکردگی میں کام کرنے کی وجہ سے ہر نوع اور مختلف عناصر کی حامل چیزوں کو پرکھنے‘ جانچنے اور ان سے حتمی نتائج اخذ کرنے کا کماحقہ تجربہ حاصل ہوچکاتھا۔ لیبارٹری سے متعلقہ ڈاکٹرز اور کنسلٹینٹس کی نگاہوں میں وہ ایک بہترین ایگزامنر تھا۔ اسٹاف میں شامل سبھی لوگ اس کی صلاحیتوں کے معترف تھے اور اس کے کسی بھی معاملے میں اخذ کیے گئے نتائج کو بلاتردد تسلیم کرتے تھے۔
دوسال پہلے کبیر احمد کی شادی اپنی چچازاد تسکین سے ہوئی تھی۔ یہ ارینج میرج تھی۔ خاندانی پس منظر کے لحاظ سے وہ دوبہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ ایک اس سے بڑی سلیمہ باجی جبکہ دوسری اس سے تین سال چھوٹی زینت تھی۔ اس کی والدہ کا اس وقت انتقال ہواتھا جب وہ ایف اے میں تھا۔ سلیمہ باجی کی شادی ہوچکی تھی اور وہ اپنے شوہر کے ہمراہ جہلم رخصت ہوگئی تھیں۔ پھر تعلیمی مدارج مکمل کرنے کے بعد کبیر احمدمیڈیکل فیلڈ سے وابستہ ہوگیا۔ ادھر اس کے والد ظہیر احمد جو ساٹھ کے پیٹے میں تھے اس کی چھوٹی بہن زینت کے لیے رشتہ دیکھ رہے تھے۔ جلد ہی انہیں اپنی برادری میں ایک مناسب لڑکانظر آگیا اورزینت میٹرک کرتے ہی‘ شادی کے بعد اپنے پیا دیس سدھار گئی۔ زینت کی سسرال ٹنڈو آدم میں تھی۔ اب کبیر احمد محسوس کررہاتھا کہ اس کے والد بڑھاپے کی ناتوانی کے باعث بیمار رہنے لگے تھے۔ انہیں بلڈشوگر کی بیماری عرصہ دراز سے لاحق تھی جو اب ضعیف العمری کے سبب کافی بڑھ گئی تھی۔ کبیر احمد میڈیکل ٹیکنیشن کا ڈپلومہ کرنے کے ساتھ ایک نجی لیبارٹری میں عملی تجربہ بھی حاصل کررہاتھا۔ اس کی وجہ سے اسے اپنے والد کی دیکھ بھال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس صورت حال میں اس کے چچااور چچی دیکھ بھال کی غرض سے ان کے گھر پہنچ گئے۔ اس کی منگیتر تسکین بھی ان کے ہمراہ تھی۔ باپ کی تیمارداری کے بارے میں اب کبیر احمد کو قدرے اطمینان کا احساس ہوا‘ لیکن رضائے الٰہی کے سامنے ہر لحاظ وتدبیر اکارت ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا ظہیر احمد چند روز علالت کے بعد دار فانی سے کوچ کرگئے اور کبیر احمد چچا‘ چچی اور تسکین کے درمیان آنسو بہاتا رہ گیا۔ والد کے انتقال کے بعد کبیر احمد کے لیے روشن مستقبل کا حصول ایک کھلا چیلنج تھا۔ معمول کے اخراجات کے لیے مرحوم باپ کی پینشن کا سہاراتھا‘ دوم وہ جس لیبارٹری میں پریکٹس کررہاتھا وہاں سے بھی گزارے کے مطابق معقول خرچہ مل جاتاتھا۔ اس لیے وہ پوری توجہ اور محنت سے کام کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اور ٹھیک دو برس بعد جب کہ وہ ڈپلومہ مکمل کرچکا تھا اور قابل قدر تجربہ بھی حاصل کرچکاتھا۔ لیبارٹری کے چیف ایگزیکٹو نے اس کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے اسے مستقل طو رپر اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری کے لیے کنفرم کردیا اور یوں وہ پرکشش تنخواہ کے ساتھ ایگزامنر کی حیثیت سے ایسوسی ایٹ آف لیب کاباقاعدہ رکن بن گیا۔
پھر تقریباً چھ سات برس زندگی کی خوشیوں سے بھرپور یوں گزرے کہ کبیر احمد کو وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ اس عرصے میں بعض قابل رشک تبدیلیاں بھی وقوع پزیر ہوئیں۔ وہ پیشہ ورانہ لحاظ سے کنسلٹنٹ پروفیسرز اور ڈاکٹرز کی نگاہوں میں ایک ماہر ومشاق اور ذہین وفطین ایگزامنر تھا۔ اس کی رپورٹس پر آنکھ بند کرکے ڈاکٹرز اپنے ریمارکس دیتے تھے اور کلائنٹ کی جانب سے شاذو نادر ہی کسی سقم یا غلطی کی شکایت موصول ہوتی تھی۔اس لحاظ سے وہ ممبرز آف ایسوسی ایٹ میں ایک معتبر اور نمایاں حیثیت اختیار کر گیاتھا۔ ان گزشتہ برسوں میں کبیر احمد نے اپنے والد ظہیر احمد کی دلی خواہش کو بھی پوراکیاتھااور ان کی طے کی گئی منگنی پر چچا اور چچی کے سامنے بخوشی سر تسلیم خم کردیاتھا۔ تسکین جسے وہ دل سے پسند بھی کرتا تھا‘ دلہن کے زرق برق لباس میں اس کے ہمراہ اس کے گھر کو آباد کرنے چلی آئی تھی۔ باپ کی موت کے بعد سال بھی پورا نہ ہوپایاتھا کہ اللہ نے اسے اولاد کی نعمت سے سرفراز کردیا۔ تسکین نے ایک صحت مند گول مٹول بچے کو جنم دیا ۔ تسکین نے اپنی پسند سے بیٹے کا نام فرحان رکھا۔ اولاد نرینہ کی پیدائش سے وہ پہلے سے قدرے مغرور نظر آنے لگی تھی اور حیل وحجت سے کبیر احمد سے اپنی ہر بات منوانے کی کوشش کرتی تھی۔ پھر اگلے سال ان کے یہاں رحمت خداوندی کا نزول ہوا تو دونوں نے باہمی مشورے سے اس کا نام مہرین رکھا ۔دو بچوں کی پیدائش کے بعد سے دونوں میاں بیوی اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ اب ان کا خاندان مکمل ہوچکاتھا۔ لہٰذا اب بچوں کی مزید خواہش تک وہ ننھے فرحان اورمعصوم مہرین کی بہترین تعلیم وتربیت کی جانب توجہ دیں گے۔ یوں دونوں بچوں کی آمد سے زندگی ایک نئی اور مختلف ڈگر پر سفر کرنے لگی تھی۔
بچوں کی پیدائش کے باوجود کبیر احمد کا تسکین سے جذباتی لگائو کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا۔ ادھر تسکین خود بھی اس کی پرخلوص محبت کی دل سے احسان مند تھی۔ وہ اس کی پسند ناپسند کا بے حد خیال رکھتی تھی۔ اور اسے ناراض ہونے کا موقع نہیں دیتی تھی۔ اس دوران کبھی جہلم سے سلیمہ باجی اپنے بچوں کے ہمراہ بھائی کے گھر آتی تو تسکین کے اصرار پر اس کی چھوٹی نند زینت بھی اپنے بچوں سمیت ٹنڈوآدم سے کراچی کے لیے روانہ ہوجاتی۔ پھر تسکین دونوں نندوں اور ان کے بچوں کی ناز برداری میں مصروف ہوجاتی۔ محض اس خیال سے کہ کبیر احمد ان کااکلوتا بھائی تھااوراس کے مان سمان کی روایتوں کو بھابی ہونے کے ناتے اسے ہی نبھانا تھا۔ محض اسی سے کبیر احمد کی خوشی اور عزت ووقار ہے‘ یہ تسکین کا مطمح نظر تھا۔
یوں ایک اچھی بیوی کی رفاقت میں کبیر احمد اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہاتھا‘ لیکن مہرین ابھی سال بھر کی بھی نہ ہوئی تھی کہ خلافِ معمول تسکین کی بے جا ضد اور خود سری کی وجہ سے اس کا سکون غارت ہوگیا۔ کبیر احمد کا محنت وجدوجہد سے بنایا وہ چھوٹا سا گھر تسکین کے اختلافی رویہ سے کچے گھروندوں کی مانند لرزنے لگا اور لاکھ صبر وضبط کے وہ بیوی کی عاقبت نااندیشی سے ذہنی طور پر اذیت میں مبتلا ہوگیا۔ کوئی دو ہفتے قبل گھر سے ڈیوٹی کے لیے روانہ ہونے سے پہلے وہ تسکین اور ننھے فرحان کے ساتھ ناشتے کی میز پر موجود تھا۔ مہرین

اس وقت کمرے میں سو رہی تھی۔
’’سنیے‘ ایک بات بتانی ہے آپ کو۔‘‘ تسکین نے ملائمت بھرے لہجے میں کبیر احمد سے کہا۔
’’ہاں کہو‘ کیا بات ہے؟‘‘ کبیر احمد نے اخبار ایک جانب رکھتے ہوئے جواباً استفسار کیا۔ پھراس نے مگ میںچائے ڈالی۔
’’آج ڈیوٹی سے واپسی پر آپ فاسٹ فوڈ میں کچھ لے آئیے گا۔میں گھر میں نہیں ہوں گی۔ مجھے دوپہر میں اپنی سہیلی کے گھر دعوت پر جانا ہے۔‘‘ تسکین نے پُرکار لہجے میں اسے جتاتے ہوئے کہا۔ ڈھائی تین برس کا فرحان قریب موجود معصومیت سے دونوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔ بیوی کی بات سے زچ ہو کر کبیر احمد قدرے ناراضی سے بولا۔
’’بیوقوفی کی باتیں نہ کرو۔ دعوت کے شوق میں چھوٹے بچوں کو بھی بیمار کروگی۔‘‘
’’آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں! یہ مسئلہ میرا ہے۔ میں بچوں کو سنبھال لوں گی۔‘‘ جواباً تسکین نے مدافعانہ لہجے میں محبت سے کہا۔
’’فضول ضد نہ کیا کرو۔ میں نے کہا ہے ناکہ ابھی بچے چھوٹے ہیں اس لیے سہلیوںکی پارٹیوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے ان پر توجہ دو۔ میرے جانے کے بعد تم بچوں کا خیال نہیں رکھوگی تو کون رکھے گا؟‘‘ کبیر احمد نے قدرے تیز لہجے میں تسکین کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ اس کے تیورو دیکھ کر تسکین تلملاتے ہوئے جھنجھلاہٹ بھرے لہجے میں بولی۔
’’کبیر‘ آپ یوں دل مت جلایا کریں۔ آپ نے گورنس تو نہیں رکھ چھوڑی ہے بچوں کے لیے‘ صبح سے رات گئے تک میں ہی بچوں کی دیکھ بھال میں وخوار ہوتی ہوں۔ اس کے باوجود آپ کے طعنے تشنے ختم نہیں ہوتے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے تسکین نے غصیلے انداز میں تام چینی کی خوب صورت اور قیمتی کیتلی کومیز پر یوں دھڑ سے رکھا کہ باقی دوسرے چمکتے دمکتے برتن بھی لرز گئے۔ اس برہمی سے تین برس کا فرحان جو تسکین کے قدرے پہلو میں کرسی پر بیٹھا تھا بے اختیار رونے لگا۔ کبیر احمد کے انکار سے تسکین پہلے ہی تپ رہی تھی ۔ ننھے فرحان کو روتا دیکھ کر وہ متوحش لہجے میں چیخ کر بچے سے بولی۔
’’تمہیں کیا بیٹھے بیٹھے ہوگیا‘ کیوں چلا رہے ہو نالائق۔‘‘ قدرے بپھرتی اور اونچی آواز میں چلاتی تسکین یکسر شوہر کی موجودگی سے بے پروا ہوگئی تھی۔ لیکن کبیر احمد جو بہ ظاہر پرسکون انداز میں ناشتا کررہاتھا‘ بیوی کو نامرادی سے دل کے پھپھولے پھوڑتے دیکھ رہا تھا۔ پھرتسکین ننھے فرحان کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ناشتہ کروانے لگی۔ اس کا جذباتی اور غیر سنجیدہ ردعمل دیکھ کر کبیر احمد کو خاصی تکلیف ہوئی تھی۔ پھروہ زیادہ دیر تک ضبط نہ کرسکااور ناشتا ادھورا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے بریف کیس اٹھاتے ہوئے خاصی ناراضی سے تسکین سے کہا۔ ’’تم انتہائی بے وقوف عورت ہو تسکین‘ معصوم بچے پر اپنی جھنجلاہٹ اتار کر تم مجھ سے اپنی ضد ہرگز نہیں منواسکتیں۔ یہ بات کان کھول کراچھی طرح سن لو۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ لیبارٹری جانے کی غرض سے باہر نکل گیاتھا۔
اس ناخوشگوار واقعے کو دو ہفتے گزر گئے تھے تاہم کبیر احمد اور تسکین کے درمیان پیدا ہونے والی چپقلش روز بروز بڑھتی چلی گئی اور وہ تسکین کے باغیانہ طرز عمل سے ایک ایسی گنجلک اور پرپیچ صورت حال میں مبتلا ہوگیاتھا‘ جس سے نکلنا اسے خاصا دشوار نظر آرہا تھا۔ حسین وجمیل تسکین کے شاکی ونالاں تیوروں کو دیکھ کر وہ شدید بے زاری سے بغلیں جھانکنے لگتاتھا‘ محض دو ہفتے میں اس کے تندوتیز جملوں اور لن ترانیوں نے اس کے دماغ کی چولیں ہلا ڈالی تھیں۔ بیوی کی اصلاح کا کوئی راستہ نہ پاتے دیکھ کر آخر ایک شام وہ یوں دل برداشتہ ہوا کہ اپنی حمایت میں ترکی بہ ترکی جواب دیتی اور بچوں کی آڑ لے کر اس کے جذباتی تلاطم کو بڑھاوا دیتی تسکین پر اس کا ہاتھ اٹھ گیا۔ شادی کے بعد سے اب تک دونوں میاں بیوی میں کبھی دست درازی کی نوبت نہ آئی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کبیر احمد نے شدت جذبات سے بے اختیار ہو کر تسکین کے چہرے پر ایک زور کاتھپڑ رسید کیا تھا۔ اگلے لمحے تسکین اپنے تمتماتے چہرے کو ہتھیلیوں میں رکھ کر بلک بلک کر رونے لگی تھی اور کبیر احمد پائوں پٹختے ہوئے گھر سے باہر نکل گیاتھا۔
اگلے روز کبیر احمد لیبارٹری میں اپنی کرسی پر کافی دیر تک تسکین کی بڑھتی ہوئی خود سری اور باغیانہ روش کے بارے میں سوچتا رہا۔ بیوی سے بڑھتے ہوئے اختلافات نے اس کی امن پسند طبیعت میں یو ں ہلچل اور بے سکونی مچائی تھی کہ وہ کوئی بھی کام توجہ اور دلچسپی سے نہیں کرپارہاتھا۔ لیب کے ایئرکنڈیشنڈ گلاس روم میں وہ تین چار گھنٹوں سے منتشر سوچوں میں گھرا ہوا تھا۔ میز پر کچھ ٹیسٹ کی گئیں شیشے کی سلائیڈیں موجود تھیں جنہیں حتمی نتائج مرتب کرنے کی غرض سے ترتیب وار مکمل کرکے رپورٹس تیار کرنا تھیں۔ روم میں اس سے کچھ فاصلے پر سامنے کی جانب لیب کے کنسلٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر متین الرحمن بیٹھے مختلف فائلوں کاجائزہ لے رہے تھے۔ اس وقت شیشے کی دیوار پر وال کلاک میں سوئیاں دن کے گیارہ بجارہی تھیں۔ ادھرکبیراحمد کام کے دوران اپنی توجہ کومجتمع کرنے کی تگ ودو میں باربار منتشر خیالوں میں ڈوب جاتاتھا۔ تسکین کے زہر خند جملے اس کی سماعتوں میں یکبارگی گونجتے تو اس کے دل ودماغ میں نفرت کے تندوتیز بگولے اڑنے لگتے۔ پھر وہ جذباتی تلاطم سے بے قرار ہوجاتاتو میز چھوڑ کر خود کونارمل کرنے کی کوشش میں آہستہ آہستہ سانس کے ہلکورے لینے لگتا۔ ذہنی دبائو سے اس کے بردبار چہرے کی تازگی اور حلاوت پھیکی پڑجاتی اور پیشانی پرپسینہ چمکنے لگتا‘ پھر اپنے پروفیسر سے پردہ پوشی کی وجہ سے وہ رومال سے وقفے وقفے سے چہرہ پونچھنے لگتا۔ کبیر احمد گزشتہ شام کے واقعے کے بعد سے مزید بے سکون ہوگیاتھا۔ اورتسکین کے معاملے میںخود کو خاصا بے بس محسوس کررہاتھا۔ اس دوران کبیر احمد کی قدرے خوشامد کے باوجود بھی تسکین نے دوبارہ اس سے بات چیت نہیں کی
ھی۔کبیر احمد کے تمانچے سے اس کی انا مجروح ہوئی تھی۔ پھر دونوں جانب کے تناؤ اور کشیدہ ماحول میں رات گزر گئی۔ صبح میں تسکین غصے کی وجہ سے ناشتے کے لیے نہیں اٹھی۔ فرحان اور مہرین بھوک سے رونے اور منہ بسورنے لگے تو کبیر احمد کوبادل نخواستہ اپنے اور بچوں کے لیے ناشتا بنانا پڑا۔ وہ بیڈ میں دبکی‘ نخرے سے منہ پھلائے تسکین کے لیے شدید بدظنی محسوس کررہاتھا۔ اسے سمجھ دار بیوی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے رات کے ناخوش گوار واقعے سے درگزر کرنا چاہیے تھا مگر تسکین نے اسے اپنی اناکامسئلہ بنالیاتھا۔ اس کی خودغرضی سے چھوٹے بچے بھی تکلیف میں آگئے تھے لیکن اسے قطعی پروا نہ تھی۔ کبیر احمد نے بمشکل بچوں کو بہلاتے ہوئے ناشتا کرایاتھا۔ اندرون خانہ وہ تسکین کو سخت برابھلا کہہ رہاتھا۔ اوراس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس بے وقوف عورت کو اپنی زندگی سے بے دخل کرتے ہوئے اس کے گھر بھجوادے۔ بہرغرض وہ تسکین کی ہٹ دھرمی کوصبروضبط سے برداشت کرتے ہوئے کچھ دیر تک اس کے سد باب کے بارے میں سوچتا رہا ۔ اس کے بعد وہ لیبارٹری روانہ ہوگیا۔
’’خیریت تو ہے کبیر احمد بہت خاموش دکھائی دے رہے ہو۔‘‘ ڈاکٹر متین الرحمن کے مخاطب کرنے پرکبیر احمد بے اختیار اپنے پریشان کن خیالوں سے چونکا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کر کب اس کے قریب آئے تھے‘ اسے پتا ہی نہ چلا۔
’’لگتا ہے پچھلی رات کوئی رنگین وسنگین خواب دیکھا ہے جس کے سحر میں مبتلا نظر آرہے ہو۔‘‘ پروفیسر صاحب نے اپنے اسسٹنٹ پر ازراہِ تعفن دوبارہ چوٹ کی ۔ جواباً کبیر احمد خجالت آمیزی سے مسکرایااور خوش گفتاری سے بولا۔
’’جی متین صاحب‘ آپ نے خوب کہا‘ خوب صورت بیویاں ہم مردوں کے لیے سنگین خواب ہی تو ہوتی ہیں۔ جو بھانت بھانت کی فرمائشوں سے ساری عمر درد سر بنی رہتی ہیں۔‘‘ اس کے جواب پر ڈاکٹر متین الرحمن بے اختیار مسکرادیئے۔
’’یار محض دو بچوں کے باپ ہو ابھی تم اور درد سرمیں مبتلا ہوگئے ہو۔ کیا اقبال نے نہیں کہا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں…!‘‘
’’سوری ڈاکٹر صاحب‘ ایسے عشق ناہنجار سے میں تو کان پکڑتا ہوں اور آپ کی جواں مردی اور حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ چھ بچوں کے دشت زیست کو آپ نے کامیابی سے طے کیا۔ آپ واقعی قابل رشک انسان ہیں متین صاحب۔ ‘‘کبیر احمد کی بذلہ سنجی پرڈاکٹر متین پر لطف انداز میں ہنسنے لگے۔ پھر چند لمحے توقف سے بولے۔
’’یہ اچھا کرتے ہو کہ خوش مزاجی سے دل وذہن کو ہلکا رکھتے ہو۔ پریشان کن سوچوں کا اس سے بہتر علاج کوئی نہیں ہے۔‘‘ اپنے پروفیسر کی دم سازی پر کبیر احمد پروقار انداز میں مسکرایا۔ پھرڈاکٹر متین الرحمن میز پر موجود اخذ شدہ سلائیڈوں کو ایک نظر دیکھتے ہوئے مربیانہ لہجے میں بولے۔
’’میں کچھ دیر کے لیے باہر جارہا ہوں۔ کوئی نصف گھنٹے بعد آئوں گا تب تک تم ان کی رپورٹس تیار کرلوگے کبیر۔‘‘
’’اوکے پروفیسر صاحب‘ میں یہ کام جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کروں گا۔‘‘ کبیر احمد نے تابعداری سے سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔ اس کے بعد متین الرحمن گلاس روم سے باہر چلے گئے اور کبیر احمد پوری توجہ اور یکسوئی سے اپنے کام میں منہمک ہوگیا۔
شام کے چار بجنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا ‘کبیر احمد کاشفٹ ٹائم پورا ہو رہاتھا۔ پروفیسر متین الرحمن بھی آف کرکے جاچکے تھے۔ کبیر احمد نے اپنے کام کو وائنڈاپ کرتے ہوئے ضروری فائلوں اور کاغذات کو درازمیں رکھنے کے بعد لاک میں چابی گھمائی۔قریبی سوئچ پر لگا چارجنگ ہوتا موبائل فون بٹن آف کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر گلاس روم سے باہر نکل آیا۔ موبائل فون کے بٹنوں سے کھیلتے ہوئے وہ تسکین کے بارے میں سوچ رہاتھا۔ پہلے جب زندگی دونوں کے باہمی سمجھوتوں سے پرسکون گزر رہی تھی۔ دونوں کے درمیان لحاظ ومروت کااحساس توانا تھا۔ محبت وخلوص سے ایک دوسرے کی فکر رہتی تھی توڈیوٹی کے دوران تسکین کی مس کالیں اسے تواتر کے ساتھ اپنائیت کااحساس دلاتی رہتی تھیں۔ وہ دو تین مرتبہ اس سے بات چیت کرتااور اس سے روز مرہ کے کاموں اور بچوں کی شرارتوں پرمبنی رپورٹیں سنتااور اس کی خوشگوار پوچھ پاچھ کا جواب دیتاتھا۔ بیوی کے دلچسپ خاطر طبع اور پرلطف جملوں سے خود کبیر احمد کی طبیعت بھی ہلکی پھلکی ہوجاتی تھی اور کام کی زیادتی کا بھی پتا نہیں چلتاتھا لیکن گزشتہ چھ ہفتوں سے یہ چاہت واپنائیت کی باتیں غیر مانوس ہوگئی تھیں‘ تسکین نے اختلافی رویوں سے محبت کے ہرجذبے اور ازدواجی زندگی کے سکون سے متعلق ہر سمجھوتے کو یوں بالائے طاق رکھا تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے شاکی ونالاں رہنے لگے تھے۔ کبیر احمد نے مایوس نگاہوں سے موبائل فون کی اسکرین کو دیکھا جہاں تسکین کی کوئی مس کال نہیں تھی۔ پھر وہ یوں لیبارٹری کے خود کار مین ڈور سے باہر نکل گیا۔جیسے اسے بھی خودسر اور ضدی بیوی کی پروا نہ ہو۔ کوئی پانچ منٹ بعد وہ موٹر سائیکل پر اپنی منزل کی جانب برق رفتاری سے رواں دواں تھا۔ آج اس کامقصود نظر ہرگز اپنا گھر نہ تھا۔ تسکین کی خودغرضی کاسوچ کر وہ متنفر اور بے زاری محسوس کررہاتھا۔ اس لیے اس نے موٹر سائیکل کا رخ اپنے ایک دوست سرمدنیازی کے آفس کی جانب موڑ دیاتھا۔ سرمد ایک کاروباری شخص تھا۔ وہ ایک گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک تھا۔ اور کبیراحمد کا پرخلوص دوست اور کلاس فیلو رہ چکاتھا۔
کبیر احمد نے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے تسکین کے خیال کو سرسے جھٹکا اور اسپیڈ بڑھاتے ہوئے سرمد کے بارے میں سوچنے لگا۔ ابھی وہ اس کے آفس سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اچانک
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
اس کا موبائل فون کا بزر بجنے لگا۔ اس کی آواز سے کبیر احمد کو دوبارہ تسکین کا خیال آیا اور ناپسندیدگی سے اس کے چہرے کے تیور کھنچ گئے۔ اس نے سرمد کے آفس کے نزدیک موٹر سائیکل کھڑ ی کی۔ موبائل فون کی ٹون مسلسل شور مچا رہی تھی۔ اس نے دیکھااسکرین پر تسکین کے موبائل فون نمبر کے بجائے ایک دوسرا نمبر جگمگا رہا تھا۔ یہ تسکین کے والد اوراس کے چچا کانمبر تھا۔ اس نے صبر وضبط سے کام لیتے ہوئے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا اور موبائل فون پر آنے والی کال ریسیو کرنے کی غرض سے بٹن آن کرتے ہوئے بولا۔
’’ہیلو! کبیر اسپیکنگ!‘‘
’’میں ذکااللہ بول رہا ہوں۔ کیا تم ڈیوٹی سے فارغ ہوگئے ہو؟‘‘ تسکین کے والد کی آواز سن کر کبیر احمد نے چونکتے ہوئے چند لمحے سوچا‘ پھراس نے صبر وضبط سے کام لیتے ہوئے معمول کے لب ولہجے میں جواباً کہا۔
’’ہاں چچا کچھ دیر پہلے فارغ ہوا ہوں لیکن آپ نے کیسے اچانک فون کیا ہے؟ خیریت تو ہے؟‘‘
’’خیریت نہیں ہے کبیر احمد تب ہی فون کیا ہے۔‘‘ اس بار سسر کی تیز آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تو اس کے ماتھے پرشکنیں ابھر آئیں۔ گزشتہ شام تسکن سے ہونے والی تلخ کلامی کا واقعہ اپنی تکلیف دہ جزئیات کے ساتھ اس کے دماغ میں سنسنانے لگا۔ تاہم اپنی پر امن طبیعت کوبرقرار رکھتے ہوئے متانت آمیز لہجے میں بولا۔’’کیا بات ہوگئی ہے چچا جو آپ یو ں جذباتی ہو رہے ہیں۔‘‘
’’تم سے ایسی ناسمجھی کی امید نہیں تھی مجھے۔ نجانے کب سے تم تسکین سے ظلم وجبر کا سلوک روا رکھے ہوئے ہو اور یوں بے شرمی سے انجان بن رہے ہو۔‘‘ ذکااللہ برہم ہوتے ہوئے چراغ پا لہجے میں بولتے چلے گئے۔
’’آپ صرف مجھے قصور وار ٹھہرا کر ذیادتی کررہے ہیں چچا اور اگر تسکین نے یہ کہا ہے کہ میں اس پرظلم وجبر کررہا ہوں تو یہ کھلا جھوٹ ہے۔‘‘ سسر کے الزامات کی بوچھاڑ سن کر کبیر احمد نے غصے کو قابو رکھتے ہوئے دفاعی لہجے میں جواباً کہا۔ دوسری جانب ذکا اللہ داماد کے مدافعانہ جواب کو شوہر کا روایتی حاکمانہ رویہ گردانتے ہوئے سخت لہجے میں سرزنش کرتے ہوئے بولے۔
’’تمہارے حیلے بہانوں سے ہمارے دل ٹھنڈے نہیں ہوسکتے۔ تسکین سے مارپیٹ کر کے تم نے مجھے اور اپنی چچی کو خاصا دکھ پہنچایا ہے۔ لیکن آئندہ اس پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے اس کے نتائج کے بارے میں ضرور سوچ لینا کبیر۔ کیونکہ دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود تسکین کو ہم زندگی بھر کے لیے بھی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں سمجھے میاں! اور ہاں اب اپنی چچی سے بات کرو۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد انہوں نے کبیر احمد کا جوابی موقف سنے بغیر قریب موجود تسکین کی والدہ جن کانام نویدہ بیگم تھا سے بات کرنے کا عندیہ سنایا۔ اگلے لمحے کبیر احمد کے کانوں سے چچی کی تند وتیز اور پاٹ دار آواز ٹکرائی۔
تسکین نے چچا‘ چچی سے اس کی جس انداز میں شکایت کی تھی اور محض ایک تھپڑ کے ساتھ جو اضافی تشدد اورظالمانہ بدسلوکی کے الزامات اس پر تھوپے تھے وہ اس کے لیے ناقابل برداشت تھے۔ چچی کی دھواں دھار ہرزہ سرائی اور غم وغصے سے گرجتی آواز سن کر کبیر احمد کو اپنے ناپسندیدہ جذبات کو ضبط کرنا خاصا دشوار ہو رہاتھا۔ چچی کے دھمکی آمیز لب ولہجے سے کبیر احمد کے دل ودماغ بری طرح چٹخ رہے تھے۔ شدت ضبط سے اس کی پیشانی پر پسینہ چمکنے لگا۔ اس نے کمال بردباری سے جیب سے رومال نکالااور پسینہ پونچھتے ہوئے احتجاجاً تیز لہجے میں بولا۔
’’آپ میری بڑی ہیں۔محض اس وجہ سے میں آپ کو بہتان لگانے سے نہیں روک سکتا۔‘‘
یہ جملہ کہہ کر کبیر احمد نے لمحاتی توقف کیا پھر قدرے دل جلے لہجے میں واضح کرتے ہوئے چچی سے بولا۔
’’اور رہ گئی منہ توڑنے والی بات‘ تو تسکین میری بیوی ہے‘ میں نے اس کی غلطی پر چانٹا مارا ہے تو اسی حق کو استعمال کیا ہے۔ اگر آپ اسے بدمعاشی کہہ کر ظفر اور مظفر کی دھمکی دے رہی ہیں تو ٹھیک ہے۔ آپ ان دونوں کومیرے تعاقب میں بھیجنے کی تکلیف نہ کریں بلکہ میں خود ہی تسکین کو آپ کے پاس چھوڑ جاتا ہوں۔‘‘ داماد کا دوٹوک جواب فون کی دوسری جانب ساس کے لیے نہلا پہ دہلا کے مصداق تھا۔ کبیر احمد کی وضاحت سے نویدہ بیگم مرچیں چبا رہی تھیں۔ وہ بات سمجھنے اور مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے نفرت آمیز انا پرستی سے تند وتیز لہجے میں بولیں۔
’’اتنی چرب زبانی کہاں سے آگئی تم میں! ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ میری بیٹی پر ظلم کے پہاڑ بھی توڑتے ہو اوراسے چھوڑنے کی دھمکی بھی دیتے ہو۔ کیا بھول گئے ہو تمہاری بھی دو بہنیں ہیں اگر سلیمہ اور زینت کے ساتھ ایسا ظلم وجبر ہو تب تمہیں پتا چلے۔‘‘ ساس کی لن ترانیوں کو سن کرکبیر احمد قدرے تحمل سے بولا۔
’’بہنوں اور بیٹیوں کے گھروں کو شادوآباد رکھنے کی غرض سے ماں باپ دخل اندازی نہیں کرتے۔ سلیمہ باجی اور زینت اپنے گھروں میں خوش اور آباد ہیں محض اس لیے کہ میں ان کے معاملات میں آپ کی طرح انٹرفیئر نہیں کرتا۔‘‘
’’لیکن میں اور تمہارے چچا تسکین پر ہونے والے ظلم پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہم اپنی بیٹی کو تمہارے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ میں جہلم میں سلیمہ سے تمہاری بدمعاشی کے بارے


[DOUBLEPOST=1346483499][/DOUBLEPOST]
میں پوچھ گچھ کروں گی۔ تمہارے ابااور سلیمہ کے اصرار اور پسند سے ہم نے تسکین کی شادی کی تھی۔ اب وہی تمہاری زبان درازی کا جواب دیں گی۔ سمجھے کبیر احمد۔‘‘ نویدہ بیگم نے فہمائشی لہجے میں داماد کو کھلے لفظوں میں جتایا۔ اس کے بعد دوسری جانب سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ کبیر احمد کے چہرے پر چچا چچی کے شکایت آمیز جملوں سے خاصی برہمی اور بے زاری کے تاثرات تھے۔ اس نے سر جھٹکتے ہوئے موبائل فون آف کیا پھر رومال سے چہرے کو نارمل کرتے ہوئے تسکین کی اپنے ماں باپ سے اس کی چغل خوری کے بارے میں چند لمحے تک سوچتا رہا۔ یہ میاں بیوی کے معاملے میں دخل درنامعقولات جیسی حرکت ضرور تسکین نے کی تھی جو کبیر احمد کے نزدیک بے ایمانی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کے درمیان اور چچا چچی کے دلوں میں بدگمانی پید اہوگئی تھی۔ اس نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کرتے وقت کچھ فاصلے پر موجود اپنے دوست سرمد کی گڈز کمپنی کے آفس کو الجھن آمیز نظروں سے دیکھا۔ ساس وسسر کے تند وتیز جملوں نے اسے ذہنی دبائو میں مبتلا کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں انتشار واضمحلال پید اہوگیا تھا۔ اور اب سرمد سے ملاقات کرنے اور گپ شپ کرنے کی سوچ میں تضاد پیدا ہوگیا تھا۔ بدمزگی کے احساس سے اس کا جوش وخروش مفقود ہوچکا تھا۔ اس نے دل جلے انداز میں ہونٹ کاٹتے ہوئے تسکین کے بارے میں سوچااور موٹر سائیکل سرمد کے آفس سے موڑتے ہوئے تفکرات کے انجانے راستوں پر ڈال دی۔ اسے احساس ہوچلا تھا کہ ذکا اللہ اور نویدہ بیگم کی اکلوتی چہیتی بیٹی کے جی کا جنجال بنتے مسئلے کو دور کیے بغیر اسے سکون کا سانس لینا نصیب نہیں ہوگا۔
…٭٭٭…
کبیر احمد اندازاً پندرہ منٹ تک خالی الذہنی سے مختلف سڑکوں پر موٹر سائیکل دوڑاتا رہا جب اس کی طبیعت کاانتشار قدرے کم ہوا تو اس نے ایک کیفے کے سامنے گاڑی کو اسٹینڈ کیا۔ وہ تسکین کے بارے میں آئندہ زندگی کے لیے حتمی فیصلہ کرنا چاہتاتھا۔ اس وقت پونے چھ بج رہے تھے۔ کبیر احمد نے رسٹ واچ پر ایک نگاہ ڈالی پھر وہ پرسوچ قدموں سے چلتا ہوا کیفے میں داخل ہوا۔ شام کے دھندلکے کی وجہ سے کیفے میں لوگوں کی گھما گھمی فزوں تر دکھائی دے رہی تھی۔ اندرونی ہال کی آرائشی روشنیوں سے کیفے کا ماحول جگمگا رہا تھا۔ کبیر احمد نے گوشہ عافیت کی تلاش میں آخری بنچوں پرنظریں دوڑائیں۔ ابھی وہ ایک خالی کرسی کو دیکھ کر آگے بڑھنا چاہتاتھا کہ کسی کھنکتے لہجے نے اسے مخاطب کرتے ہوئے چونکا دیا۔
’’ہائے کبیر…‘‘ وہ نوخیز دوشیزہ نزدیکی کرسی سے اٹھ کر اس کے سامنے آگئی تھی۔ ادھر کبیر احمد نے بھی اسے پہچان لیا تھا وہ نازش تھی۔ اس کی کالج کے زمانے کی شوخ وچنچل اورالہڑ دوشیزہ جو اپنی پرمذاق باتوں سے اسے ہنسنے مسکرانے پرمجبور کردیا کرتی تھی۔ اپنی بذلہ سنجی کے باوجود نازش ایک قابل اور تیز فہم لڑکی تھی۔ وہ میڈیکل کالج کے فائنل ایئر کی اسٹوڈینٹ تھی۔ اس سے قبل بھی کبیر احمد کی نازش سے چند مرتبہ ملاقات ہوچکی تھی۔ آخری دفعہ نازش اپنی کولیگ کے ہمراہ کسی کام سے لیبارٹری آئی تھی تب کبیر احمد اس سے ملا تھا۔ لیکن اس وقت کیفے میں نازش اکیلی نظر آرہی تھی۔ وہ ہلکے آسمانی رنگ کے شلوار قمیص میں ملبوس تھی اوراس سے میچنگ کرتا رنگین گلابی دوپٹہ اس کے شانے پر جھلملا رہا تھا۔ کبیر نے اندازہ کیا کہ نازش کیفے میں غالباً کسی کاانتظار کررہی تھی۔ اسے اچانک سامنے دیکھ کر کبیر احمد نے خوشگوار حیرت سے اسے دیکھا۔
’’اسپیڈی تم یہاں کیسے؟‘‘ کبیر احمد نٹ کھٹ مزاج اور باتونی ہونے کی وجہ سے نازش کو اسپیڈی کے نام سے پکارتاتھا۔
’’یار اپنے فرینڈ کا انتظار کررہی ہوں۔ سالا خاصا lazy بندہ ہے۔ کوئی گھنٹے بھر سے بھانت بھانت کے لوگوں کی شکلیں دیکھ دیکھ کر سخت بورنگ ہو رہی تھی۔ اچھا ہوا تم آگئے۔‘‘ نازش نے عادتاً نان اسٹاپ بولتے ہوئے جواباً کہا۔
’’بائی دا وے یہ lazyبندہ وہ شریف النفس تو نہیں ہے جس کے آئندہ چند برسوں میں تم گلے کا طوق بننے والی ہو؟‘‘کبیر احمد نے ذومعنی لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا تو نازش کے سیبوں جیسے گال شرم وحیا سے تمتما اٹھے۔ اگلے لمحے وہ خوشگوار لہجے میں متانت سے بولی۔
’’ہاں یار! ارمغان کے ساتھ ایک میوزیکل کنسرٹ میں جانے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس lazy نے پانچ بجے کی ٹائمنگ دی تھی لیکن اب سوا چھ ہو رہے ہیں۔ نجانے موصوف کہاں اٹک کررہ گئے ہیں۔‘‘ نازش نے مصنوعی خفگی سے برہم ہو کر کبیر احمد کی جانب دیکھا۔ اس لمحے وہ بے حد حسین ودلکش لگ رہی تھی۔ کبیر جانتاتھا کہ ارمغان جس کے ساتھ پچھلے برس نازش کی منگنی ہوئی تھی اس کا پھوپھی زاد تھا۔ دونوں گھر والوں کی مصلحت آمیز روک ٹوک کی وجہ سے چھپ چھپا کر باہر ملتے تھے اور سیروتفریح کے پروگرامز سے انجوائے کرتے تھے۔ کبیر نے اس کاہاتھ پکڑتے ہوئے بردباری سے کہا۔
’’ڈونٹ وری یار! ارمغان کے آنے تک میں تمہیں اپنی کمپنی میں بور نہیں ہونے دوں گا۔ اوکے اسپیڈی!‘‘
’’دیٹس گڈ‘‘ نازش نے شوخ لہجے میں چہک کر کہا۔ پھر کبیر احمد اسے ساتھ لیتے ہوئے ایک پرسکون گوشے میں موجود خالی میز کی جانب بڑھ گیا۔
سردوگرم چشیدہ لوگوں سے سنتے آرہے ہیں کہ آدمی باہر کی دنیا میں خوشی و اطمینان کی تلاش وجستجو محض اسی وقت کرتا ہے کہ جب وہ اپنی اندر کی دنیا میں برپا قیامت خیزی سے مضطرب اور بے سکون ہوجاتا ہے۔ کبیر احمد بیوی کی وجہ سے مسلسل ذہنی دبائو میں مبتلا تھا۔ اسے طبیعت میں یکسوئی اور ٹھہرائو کی غرض سے ایک سچے دوست کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ جس سے گفت وشنید کرکے وہ ذہنی دبائو سے فی الوقت خلاصی پاسکتاتھا۔ اس لیے اسے کیفے میں نازش کا ملنا غنیمت لگا۔ دلکش شخصیت کی مالک نازش اس کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ جس کی دل موہ لیتی
اتوں نے اسے یوں ہشاش بشاش کردیاتھا کہ وہ تسکین کے مسئلے ہی کو بھول گیا۔
کبیر احمد اور نازش کولڈڈرنک سے شغل کرتے ہوئے کالج لائف سے وابستہ پرمذاق یادوں کو تازہ کرتے ہوئے شگوفے چھوڑتے رہے۔ نازش کا قہقہوں سے براحال ہونے کوتھا لیکن کبیر ماضی کی پرلطف حماقتوں کو بیان کرتے ہوئے رکنے کانام ہی نہ لے رہاتھا۔ تقریباً نصف گھنٹے میں اس کامنگیتر ارمغان کیفے میں داخل ہوا اور کھوجتا ہوا ان کے قریب آن پہنچا۔
’’ہیلو ارمغان اچھا ہوا کہ تم بروقت آپہنچے ورنہ تمہارے سولیٹ ہونے کی وجہ سے اسپیڈی اپنی بوریت کا بدلہ لینے کا سوچ چکی تھی۔ تھینکس گاڈ۔‘‘ کبیر احمد نے اداکاری کرتے ہوں دوستانہ لہجے میں ارمغان کو باور کرایا گویا منگیتر کے ناراض ہونے سے ارمغان کے ساتھ انہونی ہوجاتی۔ اس کے انداز پر نازش اور ارمغان دونوں خوشگواری سے ہنس پڑے۔ پھر ارمغان نے احسان مندی سے کبیر سے جواباً کہا۔
’’دیٹس امیزنگ کبیر! تم نے اس کی ریزرو چیئر کو اتنی دیر کیسے برداشت کیا؟ میرے کزنز تو محض چند منٹوں میں اس کی طرح داری سے کان پکڑتے ہوئے رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ کیوں نازش میں غلط تو نہیں کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’اب ایسا بھی نہیں ہے جناب! کیونکہ تم نے اچھے‘ مہذب اور معقول لوگوں سے مجھے ٹاکنگ کرتے نہیں دیکھا۔ میں کبیر جیسے اسمارٹ مردوں کو امپورٹنس بھی دیتی ہوں۔‘‘نازش نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو ارمغان بے اختیار قہقہہ لگاتے ہوئے ہنس دیا۔
’’سنبھالو کبیر! اے پری شش بے ٹر!‘‘ ارمغان نے توجہ دلاتے ہوئے کبیر سے کہا۔
میز کی دوسری جانب کبیر احمد کے چہرے پرخوشگوار مسکراہٹ زندگی کی خوشیوں سے لبریز ہوگئی تھی۔ اس نے رشک آمیز نگاہوں سے نازش سے کہا۔
’’تھینک یو اسپیڈی! تمہاری چہکتی مہکتی شخصیت ارمغان کی نوک جھونک کے ساتھ بہت سوٹ کرتی ہے۔‘‘ اس کے تحسین آمیز جملے سے دونوں کے چہرے پرپسندیدگی کے تاثرات ابھر آئے تھے۔ کبیر احمد اس وقت خود کو بھی ہلکاپھلکا اور طمانیت خیز محسوس کررہاتھا۔ حالانکہ نازش اور ارمغان جیسی اسمارٹ جوڑی دیکھ کر وہ دل ہی دل میں تسکین کے لیے دکھ و تاسف میں مبتلا ہوگیا تھا۔ پھر کوئی پانچ دس منٹ بعد نازش اور ارمغان کو رخصت کرتے ہوئے جذبہ خیر سگالی سے مسکرا رہا تھا۔ جیسے دل جلے لوگ اپنی پریشانیوں سے قطع نظر ہو کر دوسروں کو نیک تمنائوں کے ساتھ الوداع کہتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد کبیر احمد ساس‘ سسر کی تندوتیز ہرزہ سرائی پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غوروخوض کرنے لگا۔ محض تسکین کی شکایت پر چچا چچی نے اسے سو باتیں سناڈالی تھیں۔ موصوفہ نے گھر کا بھیدی ہوتے ہوئے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تھی۔ اب اس بے اعتباری کے ماحول میں کبیر احمد کو تسکین کاعلاج سوچناتھا۔ اسے فرحان اور مہرین دونوں بچے فکرمندی سے دوچار کررہے تھے۔ جس کے باعث وہ کوئی نتیجہ خیز تدبیر سوچنے سے معذوری محسوس کررہاتھا۔ کم وبیش گھنٹے بھر وہ سرکھپاتا رہا اور سگریٹ پھونکتے ہوئے دل وذہن کو خود سے زیروزبر کرتا رہا۔ اس دوران اس نے درد سری سے زچ ہوتے ہوئے دو دفعہ چائے بھی پی ۔ آخر میں جب وہ کرسی سے اٹھ رہاتھا تو کیفے کے وال کلاک میں ساڑھے آٹھ بج رہے تھے اس نے چھوٹے بچوں کی موجودگی کے سبب تسکین کے سامنے مزید ایک بار پھر سرنڈر ہونے اور سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسے معصوم بچوں کا بھی تسکین کو احساس دلانا تھا کہ ان کے لڑائی جھگڑوں سے کہیں فرحان اور مہرین احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوجائیں‘ بیمار نہ ہوجائیں اتنا سوچ کر کبیر احمد کیفے سے باہر نکل آیا اور قدرے اطمینان سے موٹر سائیکل اسٹارٹ کرتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔
…٭٭٭…​
کبیر احمد گھر پہنچا تو دروازے پر لاک دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑگئے۔ گزشتہ شام تلخ کلامی کے دوران اس نے تسکین کو جو تھپڑ لگایا تھا اس سے تسکین کی انا بری طرح زچ ہوئی تھی۔ اس نے رات بھر کبیر احمد سے کوئی بات نہیں کی تھی اور صبح اس کے لیبارٹری روانہ ہونے کے بعد وہ سخت برہم ہو کر دونوں بچوں کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی تھی۔ چچا چچی نے موبائل فون پر جس ناراضی اور غصے کا اظہار کیا تھا وہ اس بات کا بین ثبوت تھا۔ بیٹی کا رونا دھونا سن کر ذکا اللہ اور نویدہ بیگم نے اسے بچوں کے ساتھ گھر بلالیاتھا۔ کبیر احمد نے تلملاتے ہوئے بیوی کی جذباتی حماقت کے بارے میں سوچا۔ تسکین نے اسے اطلاع دینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اس نے موبائل فون پر نہ تو کال کی تھی اور نہ ہی کوئی میسج بھیجا تھا۔ اس کی خود سری کو محسوس کرتے ہوئے کبیر احمد نے دل جلے انداز میں ہونٹ کاٹے پھر اس نے ڈپلی کیٹ چابی سے دروازہ کھولااور اندر داخل ہوگیا۔ ابھی چھ سات منٹ ہی گزرے تھے کہ موبائل فون کی ٹون بجنے لگی۔ کبیر احمد نے اسکرین پر نمبر دیکھا تو اس کا منہ کرکرا ہوگیا۔ تسکین کی کال تھی۔ اسے آخر کار کبیر سے بات کرنے کا خیال آگیا تھا۔ اس نے کال کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور بے پروائی سے کھانا کھاتا رہا‘ فون ٹون کچھ دیر تک متواتر بجتی رہی پھر بند ہوگئی۔ ڈنر کرنے تک تسکین نے چار پانچ دفعہ مس کال کی تھیں لیکن کبیر نے ریسیو کرنے کے بجائے اسے نظرانداز کردیاتھا۔
کھانے سے فارغ ہو کر وہ سوفے سے اٹھا اور پرسوچ قدموں سے گھر میں ٹہلنے لگا‘ اس نے اگرچہ تسکین سے بات نہیں کی تھی لیکن وہ اس کی بیوی ہونے کی وجہ سے گھر کے طول وعرض پر چھائی ہوئی تھی۔ وہ اس سے کیونکر بے پروا ہوسکتا تھا۔ اس لیے تسکین لاشعوری طور پر دوبارہ اس پرسوار ہوگئی تھی۔ کبیر احمد ٹہلتے ہوئے ذہنی دبائو محسوس کررہاتھا۔ اندازاً پندرہ منٹ ٹہلنے کے
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
بعد وہ کچن میں داخل ہوا۔ دو کپ چائے بنائی اور مگ لیتے ہوئے واپس لائونج میں آگیا۔ اس نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے موبائل فون کی اسکرین کو دیکھا۔ تسکین کا تھرکتا جھلملاتا نمبر ماند پڑا تھا۔ یقینا اس نادان عورت نے شوہر کی ناراضی کو جان لیاتھا‘ اس لیے اس نے دوبارہ مس کالز کی تکرار نہیں کی تھی لیکن کبیر احمد نے چائے ختم کرکے ابھی مگ ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ خلاف توقع موبائل فون کی ٹون بجنے لگی۔ اسکرین پر اس کی بیوی کے بجائے کوئی دوسرا نمبر جھلملا رہاتھا۔ کبیر احمد نے قدرے تجسس سے سوچااور موبائل فون کی میوزک ٹون بند کرتے ہوئے کان سے لگایا اور باوقار لہجے میں بولا۔
’’ہیلو…کبیر اسپیکنگ۔ آپ کون؟‘‘
’’بھیا‘ میں زینت بول رہی ہوں ٹنڈو آدم سے۔‘‘ دوسری جانب سے چھوٹی بہن کی آواز سن کر کبیراحمد قدرے چونکا۔
’’خیریت تو ہے زینو! اس وقت کیسے فون کیا؟‘‘ اس نے مشفقانہ سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ہاں خیریت سے ہوں بھیا لیکن نویدہ چچی نے وسیم سے تمہارے بارے میں بہت گھٹیا اور غلط سلط باتیں کی ہیں اس لیے فون کیا ہے۔‘‘ زینت کے استفسار میں بھائی کی حمایت کا پرجوش احساس چھلک رہاتھا۔ وہ کافی دیر سے کبیر احمد کا نمبر ٹرائی کررہی تھی لیکن اسے جوابی سگنل نہیں مل رہاتھا۔ چھوٹی بہن کی بات سن کر کبیر احمد جواباً قدرے نخوت سے بولا۔
’’نویدہ چچی اور ان کی چہیتی بیٹی کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ انہوں نے وسیم سے اپنے گلے شکوے کرکے اچھا نہیں کیا! ایسی بددماغی میں برداشت نہیں کروں گا۔‘‘ ساس کی بہتان طرازی پر وہ ناپسندیدگی کے جذبات سے تلملا گیا تھا۔ وسیم اس کا چھوٹا بہنوئی تھا۔ نویدہ چچی نے اس سے کبیر احمد پر جو جھوٹے الزامات لگائے تھے اس سے ظاہر ہے کبیر احمد کا شخصی وقار مجروح ہوا تھا۔ دوسری جانب سے زینت کی پرتجسس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’کبیر بھیا‘ آپ نے تسکین کے ساتھ مار پیٹ نہیں کی ہے تووہ بچوں کو لے کر چچی چچا کے گھر کیوں چلی گئی ہے؟‘‘
’’زینو‘ کیا تم اپنے بھائی کی طبیعت سے واقف نہیں ہو۔‘‘ کبیر احمد نے قدرے تحمل اور بردباری سے کہا پھر لمحاتی وقفے کے بعد سرزنش آمیز لہجے میں بولا۔
’’محض ایک تھپڑ کو وجہ بنا کر تسکین مجھے ظالم اور جانور کہہ کر بدنام نہیں کرسکتی۔ اور کیا یہ اچھی بیویوں کے طور طریقے ہیں زینو؟‘‘
’’واقعی بھابی نے یہ اچھی حرکت نہیں کی بھیا! میاں بیوی کو بات چیت کرکے خود سے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔‘‘ زینت نے چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق متانت آمیز لہجے میں کہا۔
’’یہی تو بات ہے زینو جو تسکین نہیں سمجھنا چاہتی۔ تین چار ہفتوں سے اس کے دماغ میں نجانے کیا خناس سمایا ہے کہ بات بے بات اختلاف کرنے لگتی ہے اور کسی بھی معاملے میں میر ے مشوروں کے بغیر اپنی مرضی چلاتی ہے۔ محض اسی ضدی پن کی وجہ سے میں نے مجبوراً اسے تھپڑ رسید کیا تھا کہ شاید اسے عقل آجائے۔‘‘ کبیر احمد نے تسکین کے ساتھ کئی روز سے جاری چپقلش کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے کہا۔
’’بھیا آپ کو اس بارے میں چچی چچا کو پہلے سے آگاہ کرنا تھا۔ دیکھئے نا تسکین نے جو جھوٹی سچی باتیں چچا چچی کو بتائیں انہوں نے اس پریقین کرلیااور گھریلو اختلاف کا سارا الزام آپ کے سرڈال دیا۔‘‘
’’ابھی تم نے کہا تھا نا کہ گھر کامسئلہ گھر کے اندر ہی رفع دفع ہوجائے تو بہتر ہے‘ میں نے بھی اس خیال سے چچی چچا کو قبل از وقت نہیں بتایا تھا کہ خود ٹھنڈے دل وذہن سے تسکین کو سمجھا دیتا ہوں لیکن وہ عقل کی دشمن اپنے ماں باپ کے ساتھ مل کرمیرے لیے ذلت ورسوائی کا سبب بن گئی۔‘‘ جواباً کبیر احمد نے قدرے غصے اور افسوس سے کہا۔ پھرایک لمحے کے توقف سے پریشان کن لہجے میں دوبارہ بولا۔
’’ایسی کم عقل عورتیں خود اپنے ماں باپ اور گھر والوں کے لیے وبال جان ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیے مجھے تو فرحان اورمہرین کی فکر لاحق ہے۔ کہیں تسکین کی نادانیوں کے باعث ان معصوموں کو کچھ نہ ہوجائے۔‘‘
’’بہرحال بھیا‘ بات جو بھی ہے تسکین کو چچا چچی نے اپنے پاس روک لیا ہے‘ وسیم بتارہے تھے کہ نویدہ چچی آپ دونوں کے لڑائی جھگڑے کے بارے میں جہلم سلیمہ باجی سے شکایت کرنے کاپیغام دے رہی تھیں۔ وہ کافی غصے میں بات کررہی تھیں۔ اس لیے سلیمہ باجی کا فون آئے تو احتیاط اور صبر وضبط سے بات کیجیے گا۔ میں نے یہ اطلاع دینے کی غرض سے آپ کو فون کیا تھا۔‘‘ اتنا کہہ کر زینت نے چند لمحے توقف کرکے کبیر احمد سے کہا۔
’’اور ہاں بھیا‘ وسیم واش روم سے آرہے ہیں۔ وہ بھی آپ سے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ آپ دو منٹ رکیے گا۔‘‘
کچھ دیر بعد کبیر احمد نے تسکین کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اپنے چھوٹے بہنوئی وسیم کے ناصحانہ مشوروں کو خندہ پیشانی سے سنااور اس کے مطابق اس معاملے میں ٹھنڈے دل ودماغ سے کام لینے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد رابطہ منقطع ہوگیا۔ موبائل فون آف کرتے ہوئے کبیر احمد کے چہرے پر قدرے غصے اور بے زاری کے تاثرات تھے۔ چچی نویدہ نے اس کے خلاف
چھوٹی بہن اور بہنوئی سے جو جھوٹی سچی باتیں مرچ مسالا لگا کر بیان کی تھیں اس سے کبیر احمد کا وقار مجروح ہواتھااور اسے توہین محسوس ہوری تھی۔ وہ طبعاً راست باز اور سکون پسند مزاج کاحامل شخص تھا۔ اس کی شخصیت کو خراب کرتی‘ یہ اختلافی باتیں اور مسلسل اضطراب وانتشار میں مبتلا کرتی دروغ گوئی اب اس کے لیے ناقابل برداست ہورہی تھی۔ کچھ دیر کوشش کے باوجود بھی جب وہ ذہنی دبائو سے جان نہ چھڑاپایا تواس نے سینٹر ٹیبل پررکھے گلدان کو غصے میں اٹھا کر دیوار پر کھینچ مارا۔ پکی مٹی سے بنے خوب صورت گلدان کے ٹوٹنے سے ماحول ہلکے سے دھماکے سے گونج اٹھا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر فرش پر بکھر گیا۔ برہم جذبوں کے کتھارس سے کبیر احمد کی طبیعت کاسکون قدرے بحال ہوااور وہ سنجیدگی سے چچا چچی اور ان کی چہیتی بیٹی کی اختلافی روش کے بارے میں سوچ بچار کرنے لگا۔
…٭٭٭…​
تسکین بچوں سمیت تین دن تک اپنے ماں باپ کے گھررکی رہی‘ اس دوران کبیر احمد کی دو مرتبہ جہلم میں سلیمہ باجی سے بات چیت ہوئی۔ بڑی بہن ہونے کی حیثیت سے انہوں نے کبیر سے بیوی کے ساتھ نااتفاقی کے بارے میں باز پرس کی ۔ جواباً کبیر احمد نے گزشتہ چند ہفتوں سے تسکین کی خود سری اور من مانیوں کا سارا ماجرا سلیمہ باجی کے گوش گزار کردیا۔ سلیمہ باجی چچی چچا سے تسکین کی ساری شکایتوں کا احوال لے چکی تھیں۔ نرم لہجے میں اسے سمجھانے لگیں۔ ان کے بقول خانگی زندگی میں عورت مرد کی سربراہی میں اس کی ماتحت اور خدمت گار ہوتی ہے۔ اس لیے معاملات میں اونچ نیچ اور کسی طرح کی کوتاہی کربیٹھتی ہے۔ لیکن مرد کو مرتبت اور تمام ذمہ داریوں کا حامل ہونے کی وجہ سے صورت حال کو سنبھالناپڑتا ہے اور قدرے سختی کے ساتھ ساتھ درگزر اور مصلحت آمیزی سے کام لینا پڑتا ہے۔ ٹیڑھی پسلی کی جذباتی غلطیوں کووہ فہم وفراست سے صحیح خطوط پر استوار کرتا ہے۔ اگر مرد بھی معاملات میں عورت کی مانند جذباتی اور غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرلے تو گھر کی خوشیاں اور امن وسکون تباہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا کبیر احمد کو جذباتی انداز میں کوئی قدم اٹھانے کے بجائے پیار اور نرمی سے کام لینا ہوگا۔ سلیمہ باجی کی باتوں کے جواب میں کبیر احمد نے اپنے دفاع کے طور پر قدے مزاحمت کامظاہرہ کیا تاہم بڑی بہن کے مقام کی پاسداری کے خیال سے اسے چچا چچی کے تحفظات کو تسلیم کرنا پڑا اور سلیمہ باجی کی عزت کی خاطر یہ وعدہ کرنا پڑا کہ وہ آئندہ تسکین پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا اوراس کے ساتھ محبت‘ نرمی اور رواداری کا برتائو کرے گا۔ وہ سلیمہ باجی سے کھل کر یہ نہ کہہ سکا تھا کہ مرد بھی گوشت پوست کاانسان ہوتا ہے۔ اس کی قوت برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ ایک جھگڑالو عورت کو محض اپنی حدوں تک ہی چھوٹ دے سکتا ہے اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ کبیر احمد کی خاموشی سے سلیمہ باجی خوش اور مطمئن ہوگئیں ۔ یوں اگلے روز تسکین اور بچے اس کے چھوٹے سالے مظفر کے ہمراہ کبیر احمد کے گھر میں داخل ہورہے تھے۔ مظفر انہیں چھوڑنے آیاتھا۔اس طرح سلیمہ باجی کی ثالثی کی وجہ سے کبیر احمد اور تسکین کی خانگی زندگی کی گاڑی دوبارہ اپنی ڈگر پر رواں دواں ہوگئی۔
اگرچہ دونوں میاں بیوی پھر سے خاطر طبع اور باہمی معاونت کے احساس سے بندھ گئے تھے ۔ تاہم اب کبیر احمد کے رویِے میں ایک خاص تبدیلی عود کر آئی تھی۔ وہ تسکین کو کسی کام میں مشورے دینے سے گریز کرنے لگا تھااوراس کی حیل وحجت آمیز باتوں کے سامنے چپ سادھ لیتاتھا۔ اکثر تسکین شیرخوار مہرین اور فرحان کے کاموں میں وہ کبیر احمد کے کھانے پینے اور دیگر ضروری کاموں کونظرانداز کردیتی تو کبیر اس کی بے پروائی کوخندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے خود سے اپنے کاموں کو نمٹالیتا۔ اس لحاظ سے تسکین کو قدرے آزادی اور سہولت میسر آگئی تھی کہ سلیمہ باجی کے بیچ میں پڑنے سے کبیر احمد نے بحث وتکرار اور اپنے تحکمانہ رویوں کو کسی قدر قابو میںکیاتھا جس سے تسکین کی انا بہت مطمئن نظر آنے لگی تھی۔ حالانکہ کبیر احمد کی سوچ وفکر کے مطابق تسکین کی یہ آزادی محض بچوں کی مرہون منت تھی۔ وہ محض مہرین اور فرحان کی دیکھ بھال اور ان کے آرام کے خیال سے تسکین کی کوتاہیوں کو درگزر کرتاتھا لیکن ایک روز تسکین نے اپنی حماقت اور کم عقلی سے کبیر احمد کے اس احساس ولحاظ کو بھی غارت کردیا۔
ایک شام کبیر احمد لیبارٹری سے ڈیوٹی آف کرکے لوٹا‘ لائونج میں داخل ہوتے وقت اس نے ننھے فرحان کو منہ بسورتے ابتر حالت میں دیکھا یوں جیسے تسکین اسے میلے وگندے کپڑوں میں کھیلتاچھوڑ کر بے پروا ہوگئی ہو۔ کبیر احمد نے محبت اور مشفقانہ لہجے میں فرحان کو چمکارا تووہ تتلاہٹ اور معصومیت سے بولا۔
’’ابوابو… منی تو بتا رہو رہا ہے۔‘‘ کبیر نے غور کیا تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔ بچہ کہہ رہاتھا کہ منی(مہرین) کوبخار ہوگیا ہے۔ اگلے لمحے تسکین کی غفلت اور عدم توجہی کا سوچ کر اسے غصہ آگیا۔ تسکین نے مہرین کی طبیعت کی خرابی کے بارے میں اسے موبائل فون پر بھی کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ یہ سوچتا ہوا وہ اندرونی کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ تسکین کمرے میں پنگھوڑے میں روتی مہرین کو بہلا رہی تھی لیکن بچی متواتر روئے جارہی تھی۔ کبیر احمد کے استفسار پر تسکین نے جھلاتے ہوئے بتایا کہ دست واسہال سے مہرین کی طبیعت سنبھلنے میں نہیں آرہی ہے اور وہ مسلسل روئے چلی جارہی ہے۔ کبیر احمد نے شیرخوار بچی کی پیشانی کو چھوا تو وہ تیز بخار سے تپ رہی تھی۔ موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اس نے مہرین کوجھولے سے گود میں لیااور غصے سے برہم ہو کر تسکین سے بولا۔
تم کتنی سست عورت ہو تسکین اس کاآج مجھے اندازہ ہوگیا ہے۔ نجانے کب سے بچی کی حالت خراب ہے مگر تم نے مجھے اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھا۔ سہل پسندی نے تمہیں نکما بنادیا ہے۔ حتیٰ کہ تمہیں اس ننھی جان کا بھی احساس نہیں رہا۔ تف ہے تسکین تم پر۔‘‘ اتنا کہہ کر کبیر احمد مہرین کو آغوش میں اٹھائے کمرے سے باہر نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ بچی کو سنبھالے تیز تیز


[DOUBLEPOST=1346483554][/DOUBLEPOST]
قدموں سے قریبی پرائیویٹ کلینک کی جانب بڑھ رہا تھا۔ بیوی کی کم عقلی نے آج اس کے دل پر مزید ایک اور چرکا لگایاتھا۔
…٭٭٭…
’’تم نے کیسے مجھے آرام پسند کہہ دیا‘ میں سارا سارا دن تمہارے بچوں کو سنبھالتی ہوں اور حال سے بے حال ہوجاتی ہوں لیکن تم مجھے ہی مورد الزام ٹھہراتے ہو۔ کیوں بھئی؟‘‘ تسکین نے زچ ہو کر نخوت سے کہا۔ اس وقت کبیر احمد لائونج میں اس کی لن ترانیوں کو سنتے ہوئے بمشکل جذبات پر ضبط کیے ہوئے تھا۔ اس کے پہلو کے قریب تین برس کا فرحان ہچکیاں بھرتے ہوئے رو رہا تھا۔ کبیر احمد کاہاتھ اس کے سر پر تھا۔اور وہ بیوی کی منہ زوری کو برداشت کرتے ہوئے بچے کے سر کو محبت وشفقت سے سہلا رہا تھا۔ دراصل کچھ دیر پہلے فرحان گھرکی دہلیز کے باہر کھیلتے کھیلتے کچھ آگے سڑک کی جانب نکل گیا تھا۔ اس دوران کبیر احمد ڈیوٹی کرکے گھر پہنچا ہی تھا کہ وہ فرحان کو سڑک کی ایک جانب کھیل میں مگن دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ پھراس نے پرتشویش نظروں سے دیکھا تھا کہ ناگہانی حادثے سے بچاتے ہوئے ایک راہ گیر نے اسے گود میں اٹھالیا تھا۔ کبیر احمد نے تسکین کو اسی غفلت پر سرزنش کی تھی جس پر احتجاجاً اس نے دن بھر کی بچوں کے لیے اپنی ساری روداد سناڈالی تھی۔
’’میں الزام نہیں دے رہا بلکہ تمہیں اس بات کا احساس دلا رہا ہوں کہ اگر بچے کو کوئی حادثہ پیش آجاتا تو تمہارا سارا آرام غارت ہوجاتا سمجھیں۔‘‘
’’بچے صرف میرے نہیں تمہارے بھی ہیں۔ میرے سکون کوبرباد کرکے تم بھی چین سے نہیں رہ سکتے۔‘‘ تسکین نے ترش روی سے جواباً کہا۔ اس کے زہر خند تیور پرکبیر احمد برہمی سے بولا۔
’’اپنے لب ولہجے کو ٹھیک کرو تسکین‘ ورنہ میں بھی ایک حد تک ہی تمہارے نخروں کو برداشت کروں گا۔‘‘
’’جانتی ہوں تمہاری حدوں کو اس لیے تو یاد دلارہی ہوں۔‘‘ تسکین کے تنفر آمیز لفظوں میں سلیمہ باجی کے لیے اشارہ تھا۔ کبیر احمد بخوبی سمجھ رہاتھا کہ تسکین اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے مسلسل بحث وتکرار کررہی تھی جس کا سبب محض سلیمہ باجی کی جانب سے حاصل ہونے والی وکالت اور حمایت تھی۔ اس وقت کبیر احمد نے خود کو بے بسی میں مبتلا محسوس کیا تاہم وہ مردانہ وقار سے تسکین کو باور کراتے ہوئے بولا۔
’’سلیمہ باجی نے گھر کے سکون کے خیال سے تمہاری طرف داری کی تھی لیکن تم نے اسے اب تک نہیں سمجھا ہے۔ یاد رکھنا اگر تم نے مسلسل اسی ناسمجھی کا رویہ رکھا تو میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں کسی طرح کا فروگزاشت نہیں رکھوں گا۔ یہ بات خوب سمجھ لو تسکین۔‘‘
’’میں کیوں سمجھوں کبیر! بلکہ تمہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر تمہیں بچوں کی اچھی دیکھ بھال اوران کے آرام وصحت کی فکر ہے تو ان کے لیے گھر میں ملازمہ رکھ لیں۔ اب مجھ سے تمہارے روز روز کے گلے شکوے سننے کی تاب نہیں ہے۔ اس طرح ملازمہ کے آنے سے تمہاری خواہش کے مطابق دونوں بچوں کو گڈ گورننس مل جائے گی۔ کیا میں غلط کہہ رہی ہوں کبیر۔‘‘ تسکین نے طمطراق انداز میں کہتے ہوئے یوں کبیر احمد کی جانب دیکھا گویا اس نے شوہر کو لاجواب کردیا ہو۔ اور یہ کہ اب کسی بحث وتکرار کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔ کبیر احمد نے اس کی تندوتیکھی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے چند لمحے سوچااور پھر سرد مہری سے کہا۔
’’تم یہ نہیں مانوگی کہ گھر اور بچوں کے سکون کے لیے خود تمہاراسنجیدہ اور بردبار ہونا ضروری ہے۔ لیکن میں اس کے باوجود ملازمہ رکھ کر دیکھ لیتا ہوں‘ کہ شاید تمہاری موجودگی میں گھر اور بچوں کاسکون مجھے میسر آجائے۔‘‘ اتنا کہہ کر کبیر احمد نے فرحان کو پچکارتے ہوئے مشفقانہ نگاہوں سے دیکھااور صوفے سے اٹھ کر اندرونی کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ اس کے عقب میں کھڑی تسکین کے ہونٹوں پرطنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔ وہ سلیمہ باجی کے کندھے پر بندوق رکھ کر کبیراحمد کو ڈرانے یادھمکانے سے خوب آشنا ہوچکی تھی اوراس کے رعب ودبدبے میں آئے بغیر اپنی باتوں سے اسے تگنی کا ناچ ناچنے پرمجبور کرسکتی تھی‘ وہ کوئی بیوی نہیں‘ ماں نہیں بلکہ محض عورت تھی‘ جسے اپنی انااور رعب ودبدبہ عزیز تھا۔
…٭٭٭…
کبیر احمد نے ناعاقبت اندیش بیوی کی خواہش پر بچوں کی دیکھ بھال کی غرض سے ایک ملازمہ رکھ لی تھی۔ یہ ایک غریب جوان عورت تھی۔ جو تین چار گھروں میں جز وقتی کام کرکے روزانہ کی اجرت سے گزر بسر کرتی تھی۔ کبیر احمد نے اسے آٹھ سے دس گھنٹوں کے لیے ملازمہ رکھ لیا تھا۔ او ردووقت کے کھانے اور کپڑے لتے کی سہولت کے ساتھ اچھی تنخواہ مقرر کی تھی۔ ملازمہ جس کانام نصیبو تھا کبیر احمد کے بچوں کی رکھوالی پرفوراً راضی ہوگئی تھی اور اگلے دن سے وہ اپنے کام پر لگ گئی تھی۔ ادھر تسکین کو بھی حکمرانی کاشوق پورا کرنے کے لیے ایک نوکرانی مل گئی تھی۔ چند دنوں تک نصیبوگھر میں بچوں کی دیکھ بھال کا کام کرتی رہی تاہم کبیر احمد کی توقع کے مطابق وہ تسکین کے نخروں اور چرب زبانی سے تنگ آکر نوکری چھوڑ کر چلی گئی۔ اس نے کوئی ہفتے بھر کام کیا تھا لیکن محض تسکین کے طعنوں تشنوں سے دل برداشتہ ہو کر اس کام کے پیسے بھی نہیں لے کرگئی تھی۔ اس کے جانے کے بعد کبیر احمد نے دوسری ملازمہ بھی رکھی تھی لیکن وہ بھی تسکین کی بدزبانی سے کان پکڑتی کام چھوڑ گئی۔ اب گھر کے حالات اور بچے تسکین کے رحم وکرم پر آگئے تھے۔جس کی وجہ سے کبیراحمد دوبارہ بے سکون ہوگیاتھا۔تسکین کی اختلافی روش کے بارے
میں وہ دن بھر پریشان رہتا اوراس کا کوئی مناسب حل نہ پاکر بے بسی سے سر پکڑے بیٹھا رہ جاتا۔ دوسری جانب تسکین شوہر کی عاجزی اور کم مائیگی سے لطف اندوز ہوتی دکھائی دیتی تھی۔ اس نے فتح مندی کے غرور سے کبیر احمد کی مردانہ فہم وفراست اور دانش مندانہ چالوں کوناکام بنا دیا تھا اور اس کی مدبرانہ سوچوں کو بری طرح زچ کردیاتھا۔
ایک دن کبیر احمد لیبارٹری کے ٹرانسپیرنٹ چیمبر میں اپنی کرسی پر بیٹھا تھا ۔ تسکین کا قضیہ اس کے لیے یوں جنجال بن گیاتھا کہ وہ کام کرتے ہوئے ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوجاتاتھا اور پریشان کن کیفیت میں سوچ بچار کرنے لگتاتھا۔ اس وقت بھی کبیر احمد بیوی کی موشگافیوں کو سلجھانے کی دردسری میں مبتلا نظر آتاتھا۔ اضطراب سے اس کے چہرے پر قنوطیت کے تاثرات ابھر آئے تھے۔ اس وقت شعبے کے کنسلٹ پروفیسر ڈاکٹر متین الرحمن اپنی ریوالونگ چیئر پرموجود نہیں تھے۔ ورنہ ان کے استفسار پر کبیر احمد کو خجالت آمیز شرمندگی کا سامنا کرناپڑتا۔ اس کی میز پر کچھ نشان زدہ سلائیڈیں اپنے حتمی نتائج کی وجہ سے ادھوری پڑی تھیں لیکن کبیر احمد ان کی جانب بھی توجہ نہیں دے رہاتھا۔ سوچتے سوچتے اس نے بوجھل ذہن سے ایک گہری سانس کاہلکورہ لیا۔ پھر میز کی دراز سے ایک چھوٹا ساباکس نکالا۔ اس میں کنفیکشنری کی متفرق چیزیں جن میں ٹافیاں‘ کینڈیز‘ سونف سپاری‘ وغیرہ شغل کے لیے موجود تھیں۔ کبیر احمد نے باکس میں سے تین چار چیونگم نکالے‘ ڈبا واپس دراز میں رکھا‘ پھر چیونگم چباتے ہوئے نامکمل سلائیڈوں کی جانب متوجہ ہوگیا۔ اس وقت گلاس رو م میں آویزاں وال کلاک میں تین بج رہے تھے۔ ایئرکنڈیشنڈ ہونے کی وجہ سے گلاس روم کا ٹھنڈا ماحول یکسوئی اورذہن کو جلا بخشتا محسوس ہو رہاتھا۔ کبیر احمد کو اپنے کام میں منہمک ہوئے کوئی دس ایک منٹ گزرے تھے کہ اسی اثناء میں گلاس روم کا دروازہ کھلا اور پختہ عمر اور سوٹڈ بوٹڈ شخص اندر داخل ہوا۔ یہ محکمہ ریلوے کے لوگیج ڈپارٹمنٹ کے انچارج ابو ریحان صاحب تھے۔ دودن پہلے انہوں نے اپنی بیگم کا شوگر ٹیسٹ کروایا تھااوراس کی رپورٹ لینے کی غرض سے آئے تھے۔ کبیرا حمد نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ ابو ریحان کو خوش آمدید کہا۔ ابوریحان نے عینک درست کرتے ہوئے اس کی گرم جوشی کا جواب دیااور کرسی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے حسب ذوق منہ میں پان دبایا ہوا تھا۔ پھر وہ نہایت خوش گلوئی سے پان چباتے ہوئے اپنی بیگم کی رپورٹس کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ میز کی دوسری جانب کبیر احمد نے توجہ سے ابو ریحان صاحب کامدعا سنا‘ اسے ابوریحان کے انداز تکلم سے پان کی مخصوص تیز خوشبو کا بھپکا سانسوں میں اترتا محسوس ہو رہاتھا۔ اس کے دل وذہن ناگواری سے کلبلا رہے تھے اور وہ اپنے فرائض منصبی کی وجہ سے ابوریحان کی خوشبودار پوچھ پاچھ کو برداشت کرتے ہوئے موصوف کی جانب دیکھ رہا تھا۔ ریلوے ڈپارٹمنٹ کے افسر مجاز کی بات مکمل ہوئی تو جواباً کبیر احمد نے خوش اخلاقی سے رپورٹس کی بابت مطلع کیا کہ مطلوبہ رپورٹس ابھی تیار نہیں ہیں‘تاہم اگلے روز لنچ ٹائم سے پہلے انہیں یہ رپورٹس دستیاب ہوجائیں گی۔ اس کی وضاحت سن کر ابوریحان نے ہونکاری بھرتے ہوئے سرہلایااور کہا کہ وہ بیگم کی رپورٹس کے لیے کل دوبارہ لیبارٹری آجائیں گے پھرانہوں نے رخصت ہوتے ہوئے کبیر احمد سے مصافحہ کیا۔ اور گلاس روم سے باہر نکل گئے۔
کچھ دیر تک ابوریحان کے پان کی مہک کبیر احمد کے حواس پر چھانے لگی تواس نے ایئرفریش سے میز کے آس پاس اسپرے کرکے سانسوں کو بحال کیا۔ اور دوبارہ سے اپنے کام کی جانب متوجہ ہوگیا‘ لیکن ابھی دو منٹ گزرے تھے کہ اس کے موبائل فون کی ٹون بجنے لگی۔ اس نے ذرا توقف سے اسکرین کو د یکھا۔ تسکین نے اسے گھر سے میسج بھیجا تھا۔ اس نے ناپسندیدگی کے جذبات سے بیگم صاحبہ کا میسج پڑھا‘ لکھا تھا۔’کبیر‘ صبح روانہ ہوتے وقت آپ سے نئی ملازمہ رکھنے کی بات یاد دلائی تھی‘ اس کا کیابنا؟‘‘ بلائے جان بیوی کا یہ تحکمانہ جملہ پڑھ کر کبیر احمد نے غصہ ضبط کرتے ہوئے بے زاری سے سر تھام لیا۔ پھر چند لمحوں تک دل جلے جذبوں سے سوچتا رہا تسکین کی خود سری اس کے لیے عذاب بنتی جارہی تھی۔ پھر کبیر احمد نے جوابی میسج لکھ کر بھیج دیا۔ اس نے بیوی کو سرزنش کرتے ہوئے لکھا تھا۔
’’بھاڑ میں گئی نئی ملازمہ‘ پہلے اپنا دماغ درست کرو۔ کیونکہ تمہاری بدزبانی کی وجہ سے وہ بھی کام چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔‘‘ بیوی کی بے وقت کی راگنی سے کبیر احمد کا موڈ آف ہوگیا تھا۔ اس نے ذہن کو ہلکا پھلکا کرنے کے خیال سے دوسرا نیا چیونگم منہ میں رکھ لیا اور چباتے ہوئے سوچنے لگا۔ بیوی کو میسج ڈائون لوڈ کرتے وقت ایک پرخیال سوچ اس کے دماغ میں جھماکے سے آئی تھی۔ اس نے پہلی بار محسوس کیا تھا کہ تسکین کی اختلافی روش کے پیچھے شاید کوئی دوسرا شخص کارفرماتھا۔ جو محض کبیر احمد کے گھر کے سکون کو برباد کرنے کی غرض سے تسکین کو ورغلا رہا تھا اوراس کے خلاف بھر رہاتھا۔ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے تسکین نے اپنے اختلافی طرز عمل سے اور خودسرانہ من مانیوں سے کبیر احمد کی طبیعت کو برانگیختہ کرکے رکھ دیا تھا اور اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ذہنی تنائو اور اضطراب میں رہنے لگا تھا۔ چیونگم چباتے ہوئے وہ پرسکوت ماحول میں غوروخوض کرنے لگا کہ وہ مہیب اور رذیل دشمن کون ہوسکتا تھا؟ اس کی چچی اور ساس نویدہ بیگم کا رویہ بیٹی پر ہاتھ اٹھانے کے واقعے کے بعد سے کبیر احمد کے ساتھ قدرے تلخ اور شاکی ہوگیاتھا ممکن تھا کہ تسکین ان کی سکھائی باتوں اور طور طریقوں پر عمل کررہی ہو اور ماںبیٹی کامقصد اسے اپنے سحر میں مبتلا کرکے اس پر غلبہ پانا ہو‘ اور اپنی مرضی سے کسی جانور کی مانند ہانکنا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ دوسرا شخص کوئی اور ہو جسے محض تسکین جانتی ہو اور جو اس کی عدم موجودگی میں گھر میں آتا جاتا رہا ہو یا پھر وہ سوچنے لگا کہ کسی طریقے سے اسے یہ ادراک ہوجائے کہ اس کی غیر موجودگی میں تسکین کی کیا سرگرمیاں رہتی ہیں اور گھر میں کون کون آتا جاتا ہے؟ تاہم وہ کچھ دیر سوچ کرحسرت ومایوسی سے گہرا سانس لے کررہ گیا۔ اندازاً پندرہ بیس منٹ بعد کبیر احمد کے باقی ماندہ کام نمٹانے کے دوران پروفیسر متین الرحمن گلاس روم میں داخل ہوئے۔ وال کلاک میں ساڑھے تین بج رہے تھے۔ کبیرا حمد نے مرتب کردہ آج کی رپورٹس پرمتین الرحمن سے دستخط کروائے۔ پروفیسر اور اس کے درمیان کچھ پرلطف جملوں کا تبادلہ ہوا۔ حسب عادت کبیر احمد
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
نے خوش طبعی سے پروفیسر صاحب کو لاجواب کردیاتھا۔ پھرڈاکٹر متین الرحمان ڈیوٹی آف کرکے چلے گئے‘ ابھی چار بجنے میں کچھ وقت تھا۔ کبیراحمد دستخط شدہ رپورٹس کو سرسری انداز میں دیکھ رہا تھا۔ ان میں ابو ریحان کی بیگم کی رپورٹ بھی شامل تھی۔جنہیں اس نے کل لنچ سے پہلے آنے کا کہا تھا۔ وہ شخصیت کے لحاظ سے ایک دلچسپ آدمی تھے۔ کبیر احمد رپورٹ ہاتھ میں لیے چند لمحے سوچتا رہا پھر وہ اپنے سانسوں پر گراں بار ہوتی پان کی تیکھی خوشبو محسوس کرنے لگا۔ وہ چونک کر وال کلاک کی جانب دیکھنے لگا۔ چار بجنے میں محض پانچ منٹ باقی تھے۔ اس نے رپورٹس کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے فائل کیا۔ میز کے اضافی سامان کو سمیٹنے کے دوران اسے نجانے کیوں ابوریحان کا خیال خواہ مخواہ ستا رہا تھا۔ ان سے معمول کی بات چیت ہوئی تھی لیکن پھر بھی کبیر احمد چیونگم چباتے ہوئے ذہنی انتشار محسوس کررہاتھا۔ اسے لگا کہ جیسے دماغ کی سوئی ایک نقطے پر اٹک گئی ہو۔ کبیر احمد کھلی آنکھوں سے اپنے قرب وجوار کو دیکھ رہا تھا۔ مگر اس کے دماغ کے پردہ اسکرین پر ایک منظر آشکار ہو رہا تھا۔ محکمہ ریلوے کے افسرابوریحان اپنی آلٹو اسٹینڈرڈ کار میں گامزن دکھائی دے رہے تھے۔ جسے چشم تصور حیرت وتعجب سے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ یہ صاحب یہاں کیوں نظر آرہے ہیں؟ کبیر احمد نے سر جھٹکتے ہوئے خود کو سرزنش کی۔ کہ یہ کیا پاگل پن ہے! دفعتاً اسے یہ خیال گزرا کہ ابوریحان لیبارٹری میں دوبارہ پہنچے ہیں اور کچھ دیر میں گلاس روم میں داخل ہوں گے۔ یہ خاصااحمقانہ احساس تھا‘ لیکن اگلے لمحے کبیر احمد اپنی جگہ انگشت بدنداں رہ گیا۔ اس کی نظروں کے سامنے گلاس روم کا دروازہ کھلا اور ابوریحان پان چباتے ہوئے اندر داخل ہورہے تھے۔ پھر وہ باوقار قدموں سے چلتے ہوئے میز کے قریب آئے اور خوش گفتاری سے بولے۔ ’’کبیر میاں ایک بھول ہوگئی تھی اس لیے دوبارہ آیاہوں۔‘‘
ادھر کبیر احمد پھٹی پھٹی آنکھوں سے یوں دیکھ رہا تھاجیسے وہ ابوریحان کے بھوت کو دیکھ رہا ہو۔ وہ خلاف توقع ابوریحان کو اپنے سامنے موجود پاکر حیرت زدہ رہ گیاتھا۔ یہ بالکل مافوق الفطرت بات محسوس ہوتی تھی کہ اس کی سوچ کے دھارے کے ساتھ وہ کمرے میں وارد ہوئے تھے۔ ابوریحان کے توجیہہ جملے پر کبیر ہڑبڑا کر چونکتے ہوئے بولا۔ ’’کیا بات ہوگئی ہے جناب؟ فرمائیے‘ میں حاضر ہوں۔‘‘
’’بات یہ ہے کہ کل میں رپورٹ لینے کے لیے لنچ ٹائم سے پہلے تو نہیں آسکوں گا۔ دوم کل ہاف ڈے بھی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ابوریحان نے ذرا توقف کیا پھر بولے۔’’ اس لیے میرا ٹھیک دو دن بعد لیبارٹری آنا ہوگا۔‘‘
’’ٹھیک ہے جناب جیسے آپ کی مرضی۔ میں نے محض آپ کی سہولت کے لیے لنچ ٹائم سے پہلے کاقت بتایاتھا۔‘‘ جواباً کبیر احمد نے چیونگم چباتے ہوئے خوش اخلاقی سے کہا۔ وہ یہ بات بخوبی جانتاتھا کہ ابوریحان صاحب کی بیگم کی رپورٹ تیار ہوچکی ہے اور کیبنٹ کی دراز میں موجود ہے تاہم یہ ایک غیر اصولی بات تھی کہ وہ وقت سے پہلے ابوریحان صاحب کو رپورٹ دیتا۔ دوسری جانب اس کا جواب سن کر عینک ٹھیک کرتے ہوئے ابوریحان نے تھینک یو کہتے ہوئے ہاتھ ملایااور باہر کی جانب پلٹ گئے۔ ان کے عقب میں کبیر احمد چیونگم چباتے ہوئے حیرت وتعجب سے اس ناقابل فہم قضیے میں مبتلا نظر آرہاتھا کہ ابوریحان اس کی چشم تصور کے عین مطابق اس کے سامنے کیونکر آموجود ہوئے تھے۔ وہ لیبارٹری کاایک قابل اور تجربے کار ایگزامنر تھا ‘کسی مادے میں کیمیائی عناصر کے اتصال‘ ردعمل اور اثرات سے بخوبی آگاہی رکھتاتھا۔ اوراسے ادراک حاصل تھا کہ انسانی ظن وتخمین کومتاثر کرنے والیAttractin جسے وہ عناصر اور مرکبات کی کیمیائی زبان میں ’’قوت جاذبہ‘‘ کانام دیتاتھا‘ آدمی کی حسیات میں کس کس نوع کے ذہنی وقلبی سوچ کے غیر منطقی اور پرفریب زاویے بناتی ہے۔ اس کے خیال کے مطابق ایسی قوت جاذبہ کے عناصر انسانی ذہن کے لیے بظاہر سکون آمیز اور لطف انگیز ہوتے ہیں تاہم نفسیات کے لحاظ سے اسے حقیقت سے دور کسی دلفریب اور ماورائی دنیا میں کھینچ کر لے جاتے ہیں اور اسے اپنے گردوپیش کا ہوش باقی نہیں رہتا۔
اب کبیر احمد اول سے آخر تک ابوریحان کی پراسرار نشست وبرخاست کا تجزیہ کرنے لگا۔ پہلی بار آمد کے موقع پر ان سے جو گفتگو ہوئی تھی اس میں ایسی کوئی غیر معمولی بات نہ تھی محض اس کے علاوہ ان کے جانے کے بعد ان کے پان کی تیز خوشبو کچھ دیر تک ناگواریت کا احساس دلاتی رہی تھی۔ ایئرفریش سے اسپرے کرنے کے بعد کبیر احمد نے تسکین کے ایس ایم ایس کا جواب سینٹ کیا تھا۔ پھراس نے رپورٹس تیار کی تھیں۔ ڈاکٹر متین الرحمان سے دستخط کروائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد وہ اپنی میز پر چند منٹ فائلنگ میں مشغول رہا تھا۔ ان تمام کاموں کے دوران اس کے دل وذہن نے اس کی قوت تخیل سے گٹھ جوڑ کرکے ابوریحان کے خاکے کھینچنا شروع کردیئے تھے۔ اچانک کسی خیال سے کبیر احمد یوں ہڑبڑایا گویا اس خیال نے اسے جھنجوڑتے ہوئے کوئی بات یاد دلائی ہو۔ اگلے لمحے اس نے منہ سے چیونگم کی بال نکال کر ہتھیلی پر رکھ لی اور حیرت وتعجب سے اسے ٹکرٹکر دیکھنے لگا۔ ابوریحان کی آمد کے وقت اس کے منہ میں چیونگم تھی پھر تسکین کومیسج بھجوانے کے بعد ذہن کوہلکا پھلکا کرنے کی غرض سے دوسرا چیونگم بھی منہ میں رکھا تھا۔ ہتھیلی پر موجود چیونگم کی بال دونوں کی مخلوط اکائی تھی۔ جسے وہ محض شغل کے طو رپر چوستا رہاتھا۔ پہلے چیونگم میں ابوریحان کی بات چیت کی قوت جاذبہ شامل تھی‘ جس میں پان کی مہک موجود تھی۔ جبکہ دوسرے چیونگم میں اس کی اپنی قوتِ ذائقہ نے سوچ وفکر کو چشم تصور سے یوں مخلوط اورمشغول کیا تھا کہ وہ غیر موجودگی کے باوجود ابوریحان کو ذہن کے پردے پرآشکار کررہاتھا۔ یہ چیونگم کے چوسنے کی خاصیت تھی کہ ابوریحان لیبارٹری سے دور کہیں موجود تھے لیکن کبیر احمد کا دماغ اپنی کرسی پر ان کی موجودگی سے باخبر تھا۔ چیونگم میں پان کی مہک اس کے لاشعور کو پرخفیف سگنل پہنچا رہی تھی اور سو کے زاویوں نے منظر کشی کرکے یہ بات اسے قبل از وقت بتادی تھی کہ ابوریحان دوبارہ گلاس روم میں داخل ہونے والے ہیں۔ کبیر احمد نے چیونگم کی گیند کو پرمعنی نظروں سے چند لمحے دیکھا۔ یہ گیند فروٹ ایپل موبائل سے کم نہیں تھی اور جذب
کرنے کی قوت کی وجہ سے جاسوسی کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے یکبارگی کبیر احمد کے ذہن میں کسی خیال سے کوندا سا لپک گیااور جوش وجذبات سے چہرہ تمتما اٹھا۔ آج تسکین کاایس ایم ایس پڑھتے ہوئے اسے پہلی بار بیوی کی مخبری کی ضرورت کا احساس ہوا تھا۔ اس کی غیر موجودگی میں وہ سارا سارا دن کون سی سرگرمیوں میں مصروف رہتی تھی اور گھر میں اس سے ملنے جلنے کون آتاجاتاتھا۔ اس قسم کے الجھن آمیز سوالات کے جواب کے لیے یہ چیونگم کی گیند عمدگی سے اپنا کام انجام دے سکتی تھی اور تسکین کی اخلاقی روش کے حوالے سے اس کی مشکلات کو ختم کرسکتی تھی۔ اس خوش گوار خیال سے کہ اب وہ ناخلف اور خود پسند بیوی کا دماغ درست کرنے کا طریقہ سوچ چکاتھا۔وفور مسرت سے اس کے رگ وپے میں سنسنی دوڑ گئی اور اس نے خوشی سے مسکراتے ہوئے چیونگم کی گیند کو بے اختیار چوم لیا۔
…٭٭٭…​
اگلے دن ہاف ڈے تھا۔ کبیر احمد نے معمول کے کاموں کو جلد از جلد نمٹایااور کرسی سے اٹھ گیا۔ پھراس نے طے شدہ پروگرام کے تحت مارکیٹ سے بچوں کے لیے کچھ خریداری کی اور گھر کی جانب موٹر سائیکل بڑھادی۔ تقریباً دس پندرہ منٹ بعد وہ گاڑی پرسبک خرامی سے گھر کی جانب بڑھ رہاتھا وہ گلی میں داخل ہواتھا اور چند گز کے فاصلے پر تھا کہ دفعتاً وہ چونک پڑا۔ اس نے بریک لگایا اور موٹر سائیکل جھٹکا کھاتی اپنی جگہ رک گئی۔ اس کی نگاہوں کے مقابل اس کے مکان کا بیرونی دروازہ کھلا تھااور کوئی خاتون سینے پر دوپٹہ درست کرتی‘ ایک نو دس سالہ بچے کو ساتھ لیے باہر آرہی تھی۔ پھر وہ جوان عورت چلتی ہوئی کچھ آگے آئی تو کبیر احمد نے اسے پہچان کر فوراً اپنا رخ دوسری جانب پھیرلیا۔ عورت بچے کے ہمراہ چلتی ہوئی اس کے قریب سے گزری اور چند لمحوں بعد گلی سے نکل گئی۔ ادھر کبیر احمد حیرت وتذبذب سے سوچوں میں مبتلا ہوگیاتھا۔ وہ عورت اس کے چھوٹے بہنوئی وسیم کی تایازاد بہن تہمینہ تھی۔تہمینہ اپنے بھائی بہن کے لحاظ سے سب سے بڑی تھی۔ کبیر احمد کو یہ بات یاد آگئی تھی کہ اس کے والد ظہیر احمد کی زندگی میں تہمینہ کا رشتہ چچا ذکاء اللہ کے سب سے بڑے بیٹے ظفر اللہ کے لیے ان کے والد اورنگ زیب خان نے بھجوایا تھا۔ چچا نے اس کے والد سے تہمینہ کے رشتے پر باہمی مشاورت کی تھی۔ اس وقت اورنگ زیب خان کے غیر موزوں خاندانی حالات کے پیش نظر چچا ذکاء اللہ نے اس رشتے کے لیے منع کروادیاتھا۔ ان کے انکار کا اورنگ زیب نے بہت برامنایا تھا اور کبیر احمد کے خاندان سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرلیے تھے۔ بعد میں نویدہ چچی کی زبانی اسے معلوم ہوا تھا کہ اورنگ زیب نے اپنی بڑی بیٹی تہمینہ کا رشتہ اپنے سسرالی رشتہ داروں میں طے کردیا ہے۔ تہمینہ کاشوہر سفیان علی پیشے کے لحاظ سے بس ڈرائیور تھا۔ شادی کے بعد سفیان علی سے تہمینہ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی پید اہوئے تھے۔ بعد ازاں حالت مدہوشی میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے سفیان علی کی بس کا ٹرالر سے تصادم ہوا تھا اوروہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیاتھا۔یوں تہمینہ جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی۔ اس کے والد اورنگ زیب کامکان وسیم اور زینت کے گھر کے قرب وجوار میں ہی تھا۔ تہمینہ باپ کے اصرار کے باوجود ٹنڈو آدم جانے کے بجائے اپنے مرحوم شوہر کے مکان میں رہی اور دوسری شادی کرنے کے بجائے خود اپنی مدد آپ کی تحت تینوں بچوں کی کفالت کرنے لگی۔ اس بات کو تقریباً دو برس گزرگئے تھے۔ اس لیے کبیر احمد اتنے عرصے بعد تہمینہ کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوگیا تھا۔ دوم وہ سوچ رہاتھا کہ یہ قرین قیاس بات تھی کہ دیرینہ خاندانی مخالفت کی وجہ سے تسکین کو کبیر احمد کے خلاف اکسانے والی تہمینہ ہی ہو اور وہ تسکین کا گھر برباد کرنے کی کوشش کررہی ہو محض اس وجہ سے کہ چچا ذکاء اللہ نے اس کے والد ظہیر احمد سے باہمی مشور کے بعد بیٹے کے لیے اس کارشتہ قبول کرنے کی بجائے واپس بھجوایا تھا۔ چند منٹوں کے تجزیے نے تہمینہ کی آمد کو کبیر احمد کی نظروں میں مشکوک بنادیاتھا۔ اگلے لمحے اس نے نہایت سرعت اور تیزی سے موٹر سائیکل کو ٹرن دیااور تہمینہ کا پیچھا کرنے کے ارادے سے برق رفتاری سے گلی سے باہر نکل آیا۔ پھر مین روڈ پر اس کی کھوجتی نگاہوں نے کچھ فاصلے پر ایک رکشے کے قریب کھڑی تہمینہ کو جالیا۔اس نے دیکھا کہ تہمینہ اپنے بیٹے کے ہمراہ رکشے میں بیٹھی تھی۔ قدرے فاصلے سے تہمینہ کے تعاقب میں چل پڑا تھا۔ اندازاً پندرہ بیس منٹ تک کبیر احمد رکشے کے پیچھے پیچھے موٹر سائیکل سبک روی سے چلاتا رہا ۔ آخر میں رکشہ ایک ذیلی سڑک میں داخل ہوااور ایک رہائشی پلازہ کے قریب رک گیا۔ کبیر احمد نے پلازہ کے کچھ فاصلے پر موٹر سائیکل روک لی او ر اسے یوں سرسری نظروں سے دیکھنے لگا جیسے وہ تہمینہ کے بجائے اس رہائشی کالونی کا جائزہ لے رہا ہو۔ تہمینہ اس کی موجودگی سے بے پروا تھی۔ اس نے کرایہ دینے کے بعد دوپٹے کو درست کیا اور کم سن لڑکے سے کچھ کہتی ہوئی پلازہ کے صدردروازے میں داخل ہوئی اور نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ ادھر کبیر احمد نے موٹر سائیکل کو آگے بڑھایااور پلازہ کے قریب پہنچ گیا۔اب وہ الجھن سے یہ سوچ رہاتھا کہ تہمینہ کا فلیٹ دیکھنے کی غرض سے اوپر جائے اوراس سے کیونکر ملاقات کرے؟ یوں اچانک کبیر احمد کو د یکھ کر وہ عین ممکن ہے کہ اس سے بات چیت پر آمادہ نہ ہو۔ وہ چند منٹ تک سوچتا رہا‘ دفعتاً اس کی نگاہ سڑک پرپڑی۔ اگلے لمحے اس نے قدرے جھک کر اس جھلملاتی شے کو اٹھالیا ۔ وہ ایک وزیٹنگ کارڈ تھا۔ کبیرا حمد نے اس کارڈ پرتحریر نام پڑھا‘ زیب لب ’’تہمینہ بیوٹی ایکسپرٹ‘‘ دہراتے ہوئے اس کے چہرے پراطمینان پھیل گیا تھا۔ وہ کارڈ تہمینہ کے بیوٹی پارلر کا تھا جو رکشے والے کو کرایہ دیتے وقت جلد بازی میں اس کے بٹوے سے گر گیا تھا۔ کبیر احمد نے کارڈ پر درج شاپ اور فلیٹ نمبر کو دیکھا اور اسے جیب میں رکھ لیا پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے موٹر سائیکل کوموڑااور ذیلی سڑک سے واپس گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔
…٭٭٭…​
کبیر احمد سٹنگ روم میں دونوں بچوں کو لیے بیٹھا تھا۔ چھٹی کے دن اس کا یہ معمول تھا کہ وہ سارا دن گھر میں بچوں کے ساتھ گزارتاتھا۔ ایک بج چکاتھا‘ تسکین نے فرحان اور شیر خوار مہرین


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
کو اس کے پاس چھوڑا تھا اور دوپہر کے کھانے کی تیاری کے ارادے سے کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔ اس کے بار بار اصرار کے باوجود کبیر احمد نے ملازمہ کا قضیہ حل نہیں کیا تھا۔ کھانے پکانے اور بچوں کے کام کو کرتے ہوئے اس پرجھلاہٹ سوار ہوجاتی تھی اور وہ خود سری اور نخروں سے چیزوں کو پٹخ پٹخ کر غصے کااظہار کرنے لگتی تھی۔ اس کی منہ زور بے بسی دیکھ کرکبیر احمد خفیف انداز میں دل جلے جذبوں سے زیرلب مسکرادیتا۔ حالانکہ وہ طبعاً گھر گھرہستی میں ساتھ نبھانے والا ایک معاون ومددگار شوہر تھا۔ لیکن تسکن نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس کاناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ بہرغرض اس کے کچن جانے کے بعد کبیر احمد نہایت خوش دلی سے دونوں بچوں کو بہلا رہا تھا اور دل جوئی کرتے ہوئے خود بھی پسرانہ جذبوں سے محظوظ ہو رہا تھا۔ مہرین اس کی گود میں قلقاریاں ماررہی تھی اور فرحان چابی کے گھوڑے کے ہنہنانے سے چہکتے ہوئے بار بار اسے متوجہ کررہاتھا۔ پندرہ بیس منٹ بعد کبیر احمد نے مہرین کو صوفے پر لٹادیا۔ فرحان بھی کھلونے کے ساتھ مشغول ہوتا کارپٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ اسے کچھ فراغت میسر آئی تو اس نے والٹ سے تہمینہ کا وزیٹنگ کارڈ نکالااور اس پر درج موبائل فون نمبر کو دیکھتے ہوئے اپنے طے شدہ منصوبے کے بارے میں غور وخوض کرنے لگا۔ قریب کچن سے تسکین برتنوں سے کھٹ پٹ کرتی اس کی سماعتوں کو برانگیختہ کررہی تھی اوراس کے دل کوجلا رہی تھی۔ کبیر احمد نے تہمینہ کانمبر ملایا۔ دوسری جانب چند لمحے کالنگ ٹون بجتی رہی پھراسے تہمینہ کی آواز سنائی دی۔
’’ہیلو‘ہیلو…کون بول رہا ہے؟‘‘
’’میں ظفر بات کررہا ہوں‘‘ جواباً کبیرا حمد نے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے تسکین کے بھائی کے طور پر اپنا تعارف کروایا۔ لمحاتی توقف کرتے ہوئے تہمینہ کی چونکتی آواز دوسری جانب سے گونجی۔
’’ظف…ظفر کون؟ میں آپ کو نہیں جانتی۔‘‘
’’آپ ذکاء اللہ کے بیٹے کو بھول رہی ہیں تہمینہ جی! ‘‘ کبیر احمد نے معنی خیز لہجے میں کہا۔…
’’اوہ… یعنی آپ تسکین کے بھائی ظفر بول رہے ہیں۔‘‘ تہمینہ کی حیرت دوچند تھی پھر وہ ماضی کی تعلق داری کو یاد کرکے قدرے جھجکتے ہوئے بولی۔
’’مجھے حیرانی ہو رہی ہے ظفر بھائی! خیریت تو ہے آپ نے کیسے فون کیا؟‘‘
’’تہمینہ جی! آپ مجھے ظفر اللہ کہہ کرمخاطب کرسکتی ہیں۔‘‘ کبیر احمد نے زچ ہو کر اسے ٹوکا اور دل آویز لہجے میں بولا۔
’’آپ نے کیا تسکین پرسحر کردیا ہے کہ وہ آپ کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتی ہے۔ یقین نہیں کریں گی لیکن یہ دل کی بات ہے کہ اس کی باتیں سن کر آپ سے ملاقات کا اشتیاق بڑھ گیا ہے۔‘‘ کبیر احمد کی اداکاری لاجواب تھی۔
’’اس تعریف کاشکریہ جی۔ تسکین خود بھی تو اچھے اخلاق والی ہیں۔ بہت سلجھی ہوئی اور رکھ رکھائو کالحاظ رکھتی ہیں۔‘‘تہمینہ کی آواز میں حیاآمیز خوشگواری کا تاثر تھا۔ کبیر احمد دل ہی دل میں اس کی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہاتھا۔ پھر وہ منکسرالمزاجی سے درخواست کرتے ہوئے بولا۔
’’تہمینہ جی‘ میں اس لیے آپ سے ملنے کا خواہش مند ہوں۔ اور آپ کے دولت کدے پر حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ پلیز انکار مت کیجیے گا۔‘‘ کبیر احمد کی لگاوٹ بھری انکساری سے متاثر ہو کر تہمینہ خوشگواری سے مسکراتے لہجے میں بولی۔
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ پانچ بجے کے بعد میرے گھر آجائیں۔ پتا میں بتائے دیتی ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر تہمینہ نے چند لمحے توقف کیا اور پھر گھر کے ایڈریس سے کبیر احمد کو آگاہ کیا۔ آخر میں رابطہ منقطع کرتے وقت کبیر احمد نے لجاجت آمیز عاجزی سے اللہ حافظ کہاتھا۔ دوسری جانب تہمینہ کے تنفر بھرے چہرے پر کسی ناآسودہ جذبے کے احساس سے تمازت ہویدا تھی۔ موبائل فون آف کرکے کبیر احمد نے جہاندیدہ نظروں سے کچن کی جانب دیکھا جہاں تسکین دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگی ہوئی تھی۔ کچن کے برتنوں کو بھی کھٹ پٹ کرتے قدرے قرار آگیاتھا۔ اس نے چند لمحے سوچا‘ یہ ممکن تھا کہ تہمینہ کچھ دیر بعد تسکین کے موبائل فون پر کال کرے اوراسے ظفر کی خواہش سے مطلع کرے۔ اس بات سے تسکین کے ساتھ تہمینہ کی انوال منٹ کا اسے ثبوت مل جاتا۔ اس خیال سے کبیر احمد کچھ دیر انتظار کرتے ہوئے بچوں کی جانب متوجہ ہوگیا۔ اندازاً دس منٹ بعد اسے کچن سے تسکین کی مدھم آواز سنائی دینے لگی۔کبیر احمد کاشک یقین میں بدل چکاتھا۔ اس نے کچن کے قریب جاکر سناتھا‘ اس کی ناخلف بیوی تہمینہ کو مخاطب کرتے ہوئے سرگوشیانہ انداز میں باتیں کررہی تھی اور ظفر کی خواہش پر حیرت کااظہار کررہی تھی۔ پھر کبیر احمد چندمنٹ تک سٹنگ روم میں پرسوچ قدموں سے ٹہلتا رہا‘ تسکین کے ساتھ تہمینہ کے گٹھ جوڑ نے اس کے شب وروز کا سکون غارت کردیاتھا۔ نفرت ورقابت سے اس کے دل وذہن میں تلاطم برپاتھا۔ تسکین کچن سے نکل کر بچوں کے پاس آئی تووہ اسے کچھ کہنے کے بجائے غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا۔
…٭٭٭…
پانچ بجنے میں بیس منٹ باقی تھے کہ جب کبیر احمد نے پلازہ کے مرکزی دروازے کے قریب موٹر سائیکل کو اسٹینڈ کیا۔ وہ پینٹ شرٹ میں ملبوس تھا۔ آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے وہ چند
محے اوپر جاتی سیڑھی کو سوچتی نظروں سے دیکھتا رہا پھر اس نے جیب سے چیونگم نکال کرمنہ میں رکھ لی اور اسے چباتے ہوئے زینے کے قدمچے پھلانگتے ہوئے اوپر چڑھتا چلا گیا۔ چند منٹوں بعد وہ تہمینہ کے فلیٹ کے سامنے کھڑا تھا پھر اس نے کال بیل پر انگلی رکھ دی۔ کچھ دیر میں دروازہ کھلا تو تہمینہ اس کے روبرو کھوجتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں الجھن اور تذبذب تھا پھر وہ اپنی جگہ حیرت کے مارے بھونچکی رہ گئی اور کسی اندیشے سے چونکتے ہوئے بولی۔
’’تت…تم کبیر احمد ہو۔‘ میرے فلیٹ کا پتا تمہیں کس نے دیا؟‘‘
’’ظفر اللہ نے… ‘‘ کبیر احمد نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔ لمحاتی توقف کے بعد وہ چیونگم چباتے ہوئے خوش اخلاقی سے بولا۔
’’ظفر نے آپ کے لیے ایک پیغام بھجوایا ہے تہمینہ جی!‘‘ اس کاجواب سن کر جھینپتی ہوئی تہمینہ قدرے جھجک کر بولی۔
’’آپ اندر آجائیے‘‘اتنا کہہ کر وہ دروازے سے قدرے ہٹ گئی۔ کبیر احمد فلیٹ میں داخل ہوا۔ پھر وہ تہمینہ کے ساتھ چلتا ہوا ڈرائنگ روم میں آگیا۔ فلیٹ کے کمروں کے آگے بنی راہداری میں اس نے تہمینہ کے دونوں بیٹوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھا تھا۔ پانچ چھ برس کی بیٹی جسے وہ صبوحی کہہ کر پکار رہی تھی اس کے ہمراہ تھی۔ کبیر احمد سنگل صوفے پر براجمان ہوگیا۔ ادھر تہمینہ نے کچھ سوچتے ہوئے بچی کوباہر بھیج دیااور سپاٹ لہجے میں کبیر احمد سے مستفسر ہوئی۔
’’جی فرمائیے ظفر اللہ خود کیوں نہیں آئے؟‘‘ اس کا سوال سن کر کبیر احمد نے کالا چشمہ اتارااور تہمینہ کے بے تاثر چہرے کو گھورتے ہوئے بولا۔
’’ظفر بھائی اس لیے نہیں آئے کہ آپ جیسی کمینی عورت سے وہ ملنا ہی نہیں چاہتے۔ انہوں نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ میں آپ کو سمجھائوں اور مزید فتنہ گری سے خبردار کروں۔‘‘
’’یہ کیا بکواس ہے؟‘‘ اپنے لیے کمینی کے لفظ کو سن کرتہمینہ کے تیور بگڑ گئے۔
’’ہوش میں رہ کر بات کریں۔ میں نے آپ کو اس لیے ڈرائنگ روم میں نہیں بٹھایا کہ آپ مجھے گالی دیں۔‘‘ تہمینہ غصے سے بپھرتی تندوتیز لہجے میں بولی۔ کبیر احمد دل جلے انداز میں چیونگم چباتے ہوئے مسکرایا اور زہرخند لہجے میں ناگواری سے بولا۔
’’ہوش کے ناخن آپ کو لینا چاہیے محترمہ‘ آپ چار پانچ مہینوں سے تسکین کو میرے خلاف بھڑکاتی رہی ہیں اور میرے ہنستے بستے گھر کوجہنم بنا رکھا ہے۔ جسے میں نے کیونکر برداشت کیا ہے یہ میں جانتا ہوں۔ ذلیل عورت‘ میرے دن رات کا سکون غارت ہوگیا ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے کبیر احمد نے شدت جذبات سے سینٹر ٹیبل پرگھونسے برساتے ہوئے تہمینہ کو قہرآلود نظروں سے دیکھا۔ دوسری جانب تہمینہ اپنے کرتوتوں کو قبول کرنے کے بجائے غصے سے اٹھ کر کھڑی ہوئی تھی۔ وہ اپنی سازشی سرگرمیوں پرشرمندہ ہوئے بغیر ڈھیٹ بن کرچلاتے ہوئے بولی۔
’’مجھے الزام دینے کے بجائے اپنی بیوی سے باز پرس کرو سمجھے! میں کیوں اسے بھڑکائوں گی؟ کیا میرے علاوہ تمہارے گھر میں اڑوس پڑوس کی عورتیں آتی جاتی نہیں ہیں؟ اور کیا تسکین کوئی چھوٹی بچی ہے کہ اسے اچھے برے کی تمیز نہیں ہے وہ شوہر اور جلاد کے فرق کو خوب سمجھتی ہے۔ مجھ پردہاڑنے کے بجائے اس کی بدگمانی ختم کرو۔ آنٹی نویدہ بھی یہ کہتی ہیں کہ وہ تم سے خوش نہیں ہے۔ ‘‘ تہمینہ منہ بگاڑ کر بول رہی تھی اور چوری اوپر سے سینہ زوری کے مصداق ہرزہ سرائی کرتے ہوئے چپ ہونے کانام نہیں لے ری تھی۔
’’اپنی بکواس بند کرو خبیث عورت میرے گھر کے معاملات میں دخل اندازی کرنے والی تم کون ہوتی ہو؟ ‘‘کبیراحمد کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہوگیاتھا پھر وہ چبھتے ہوئے تیز لہجے میں بولا۔
’’تمہیںظفر سے نسبت ٹوٹ جانے کا قلق ہے تو جاکر سیدھے منہ کالک تھوپو۔ میرے گھر کے سکون کو برباد مت کرو۔ سنا تم نے‘ میں اب یہ ہرگز برداشت نہیں کروں گا کہ تم اپنے منحوس قدموں سے میرے گھر میں داخل ہو۔ سمجھیں!‘‘
’’مجھے دھمکانے سے پہلے تم بھی اچھی طرح سن لو کبیرا حمد!‘‘ تہمینہ نے بے عزتی کے احساس سے گرجتے ہوئے کہا۔
’’میری بے عزتی کرکے تم بھی چین کی بانسری نہیں بجاسکتے۔ تمہارا بہنوئی وسیم ٹنڈو آدم سے یہاں مجھے ملنے آتاجاتا ہے۔ میں جب چاہوں پورے خاندان میں تمہیں بدنام کرسکتی ہوں۔‘‘ تہمینہ کے اس انکشاف پر کبیر احمد اپنی جگہ چونک کر رہ گیا۔ یہ دروغ گوئی تھی یاسچ تھا کہ وسیم اپنی تایازاد بہن کے کرتوتوں سے باخبر تھالیکن زینت نے اس بارے میںکبیر احمد کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ یہ ممکن تھا کہ وسیم نے تہمینہ کی سرگرمیوں کو اس سے بے خبر رکھا ہو۔ یہ نہایت تکلیف دہ بات تھی۔ تاہم اس وقت کبیر احمد کو اپنی ناعاقبت اندیش بیوی کی اختلافی روش کو سدھارنا اوراس کی سرکشی کو لگام دینا مقصود تھا۔ وہ دوٹوک لہجے میں تہمینہ کوخبردار کرتے ہوئے بولا۔
’’تم چاہے کچھ کرلو تہمینہ‘ لیکن یہ کان کھول کر سن لو کہ تمہاری کسی سازش سے میرے گھر کی خوشیاں برباد ہوئیں تو میں تمہیں اس شہر میں چین وآرام سے ہرگز رہنے نہیں دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر کبیر احمد نے کالی عینک آنکھوں پر لگائی اور راہداری سے شور سن کر ڈرائنگ روم میں آنے والے تہمینہ کے بچوں کولمحاتی توقف سے دیکھااور اگلے لمحے وہ چیونگم چباتے ہوئے تیز تیز قدموں سے فلیٹ سے باہر نکل گیا۔
کبیرا حمد پلازہ کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا اور تہمینہ کی لن ترانیوں کے بارے میں سوچتا موٹر سائیکل کے قریب آیا۔ تہمینہ نے وسیم کے ساتھ اپنے میل جول کاانکشاف کرکے اس کے ذہن کو دھچکہ پہنچایا تھا۔ اس کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ اس کا سگا بہنوئی اس کے گھر کودوزخ بنانے کی سازش میں شامل تھا۔ زینت یقینا اس بات سے بے خبر تھی کبیر احمد نے سوچتے ہوئے تہمینہ کے تندوتیز لفظوں پر غور کیا‘ اس لمحے اسے سانس سے الجھتی خوشبو کاادراک ہوا‘ یہ الائچی کی مہک تھی۔ کبیر احمد نے ایک دوسرا چیونگم نکالااور چند منٹ تک چیونگم چباتے ہوئے ٹہلتا رہا۔ پھر دفعتاً اس نے آنکھیں بند کرکے سوچا‘ اگلے لمحے اس کے ذہن میں جھماکے سے اس سوئٹ ڈش کانام جھلملانے لگا۔ وہ جس وقت تہمینہ سے ملنے آرہا تھا وہ ظفر کی خاطر مدارات کی غرض سے کچن میں سوئٹ ڈش کے طور پر کھیر تیار کررہی تھی۔ اور غالباً چکھنے کے ارادے سے اس نے ایک آدھ پلیٹ کھائی تھی۔ اس کی قوت جازبہ نے الائچی کی مہک سے تہمینہ کی یہ ساری باتیں جان لی تھیں۔ اس نے ذہن کے پردے پر تہمینہ کے خیال کو کھوجنا شروع کیا۔ چند لمحوں کے توقف سے اس کی چشم تصور نے تہمینہ کے فلیٹ کااندرونی منظر آشکار کردیا۔ اس نے دیکھا کہ تہمینہ راہداری میں کھڑی موبائل فون پر کسی سے بات کررہی تھی۔ اس کے چہرے پر غصے اور جھلاہٹ کے تاثرات تھے جیسے وہ کبیرا حمد کے ہاتھوں ذلیل ہونے پر پیچ وتاب کھارہی ہو۔ پھرکبیر احمد نے دل جلے انداز میں مسکراتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اس کے فلیٹ سے نکلنے کے بعد تہمینہ نے اس کی بیوی کو فون کیا تھااور اس کی آمد کے بارے میں تسکین کو سب کچھ بتادیاتھا۔ کبیر احمد نے تہمینہ کے اس کمینے پن کا بھی بندوبست بھی سوچ رکھاتھا۔ موٹر سائیکل پربیٹھتے ہوئے اس نے موبائل فون پر ایک نمبر ملایااور کان سے لگاتے ہوئے بولا۔
’’ہیلو… میں کبیرا حمد بات کررہا ہوں۔‘‘ جواباً اسے دوسری جانب سے حسب توقع متانت آمیز اور باوقار آواز سنائی دی۔
’’ہاں کبیر احمد… خیریت تو ہے نا‘ کیسے فون کیا بھئی؟‘‘ اس کے سسر اور تسکین کے والد ذکااللہ کی آواز میں حیرت واستعجاب تھا۔
’’سب خیریت ہے چچا‘ بس آپ سے ایک ضروری کام تھا۔‘‘ کبیر احمد نے گزارشانہ لب ولہجے میں جواب دیا پھر وہ سسر سے چھ سات منٹ تک بات چیت کرتا رہا۔ بعد میں اس نے موبائل فون آف کرکے جیب میں رکھا چیونگم چباتے ہوئے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور گنگناتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔
کبیراحمد سوا چھ بجے گھر میں داخل ہوا۔ اس کی توقع کے مطابق تسکین نے گھر میں انتشار اور بچوں پر شور مچا رکھا تھا۔ لائونج میں روتا ہوافرحان چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا اس کی جانب بڑھا۔ کبیر احمد نے چیونگم چباتے ہوئے پیار وشفقت سے اسے چمکارا۔ وہ توتلی زبان میں بولا۔
’’امی بوت گندی ہے‘ انہوں نے مودے مارا ابو۔‘‘(امی بہت گندی ہیں‘ انہوں نے مجھے مارا ابو!) کبیر احمد نے معصوم بیٹے کی بات سن کر اس کے بالوں کو سہلایا اور کہا۔ ’’یار تمہاری امی تو پاگل ہوجاتی ہیں لیکن تم تواچھے بچے ہو ناں!‘‘ پھر وہ لمحاتی وقفے سے فرحان کے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے بولا۔
’’اچھا یہ لو بیٹا‘ یہ چیونگم کھائو۔‘‘ کبیر احمد نے جیب سے ایک چیونگم نکال کر فرحان کو دی۔ اسی لمحے تسکین بیڈروم سے نکل کرلائونج میں آئی۔ اس نے مہرین کو گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ وہ تیزی سے چلتی کبیر احمد کے قریب آئی اور ننھی مہرین کو اسے تھماتے ہوئے بولی۔ ’’آپ شیطان بچوں کو خود سنبھالو… اور ہاں سن لو‘ اب مجھ سے اکیلے تمہارے بچے اور گھر کے کام نہیں ہوتے ‘تم ملازمہ نہیں رکھوگے تو میں اپنے میکے چلی جائوں گی۔ پھر تم جانو اور تمہارا یہ گھر سمجھے۔‘‘ تسکین نے غصے سے منہ بگاڑ کر دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کبیر احمد سے کہا تھا جبکہ کبیر احمد ننھی مہرین کو ہاتھوں میں لیے زخمی نظروں سے ناخلف بیوی کی فنکارانہ ادائوں کو دیکھ رہاتھااور تہمینہ کے فون کے اثرات کو بخوبی سمجھ رہاتھا۔
’’تمہارا جواب نہیں ہے تسکین!حیلے بہانوں سے مجھے پریشان کرنا تمہارا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ آخر تم چاہتی کیا ہو یار؟‘‘ کبیرا حمد نے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے بیوی سے مستفسرانہ لہجے میں کہا۔ تہمینہ کے معاملے کو اس نے ابھی طشت ازبام نہیں کیا تھا۔ شوہر کو زچ ہوتا دیکھ کر تسکین کی گردن اکڑ گئی تھی۔ وہ نخرے سے منہ چڑھا کر بولی۔’’میں نے کہا ہے ناکہ تم اپنے بچوں کے لیے ملازمہ رکھ لو بس۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ انگلیاں چٹخانے لگی۔ پھر چند لمحے توقف سے سر پکڑ کر بولی۔
’’میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔ میں چائے بنانے کچن جارہی ہوں۔‘‘ پھر وہ بے زاری سے منہ بگاڑتی ہوئی کچن کی جانب بڑھ گئی اور کبیر احمد دل جلے جذبوں سے تسکین کے ناز نخروں کو پرکھ رہاتھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی بیوی اس پر حاوی ہونے کی خواہش میں تہمینہ کے سکھائے طریقوں پرعمل کررہی تھی۔ اس جنون میں گھر برباد ہونے کااسے مطلق ہوش نہیں تھا۔ کبیر احمد چیونگم چباتے ہوئے ننھی مہرین کو لیے صوفے پربیٹھ گیا وہ آج تسکین کو ہوش دلانے کا فیصلہ کرچکاتھا۔
اندازاً چھ سات منٹ تک کبیر احمد اپنے گھر میں تہمینہ کی دخل درنامعقولات آمدورفت کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس دوران چیونگم سے اٹھتی الائچی کی مہک اس کے نتھنوں سے ٹکرا کر تہمینہ کے جملوں کی بازگشت کااحساس دلاتی رہی۔ دفعتاً تسکین چائے کامگ لیے کچن سے باہر آئی اور پھر سامنے بیٹھے کبیر احمد کو بے پروائی سے نظر انداز کرتی اور بچوں کی جانب دیکھے بغیر بیڈروم میں گھس گئی۔ کبیر احمد متاسف نظروں سے اس کے خودسرانہ نازوانداز کو دیکھ رہا تھا۔ ننھی مہرین روتے روتے کبیر احمد کے بہلانے پر چپ ہوگئی تھی۔ فرحان بھی کھلونوں میں مشغول ہوگیا تھا۔ اپنے مظلوم بچوں کو دیکھتے کبیر احمد کو ابھی چندمنٹ گزرے تھے کہ اس کی ناک سے الائچی کی مہک الجھنے لگی۔ اس نے چونک کر سوچا‘ چیونگم کی بال مائیکرو فون کی مانند اس کی سماعتوں میں
سرگوشی کررہی تھی۔ ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے ذہن میں لپکا تھااورا سے اس بات سے آگاہ کررہاتھا کہ تسکین بیڈروم میں تہمینہ سے موبائل فون پرباتیں کررہی ہے اورچائے کی چسکیاں لیتے ہوئے تہمینہ کو شوہر کے ساتھ ہونے والے اپنے ہنگامے کی ساری روداد سنارہی ہے۔ کبیر احمد چیونگم کے ذریعے انسانی قوت جاذبہ کی حیرت انگیز کارکردگی کا تجربہ اور مشاہدہ کرچکاتھا۔ چیونگم کی بال اسے غلط اطلاع نہیں دے سکتی تھی۔ یہ سوچتا ہوا وہ صوفے سے اٹھااور دبے پائوں چلتا ہوا بیڈروم کے دروازے کے نزدیک آیا۔ چیونگم کاسگنل سوفیصد سچاتھا۔ کھلے دروازے سے تسکین کی پرتفخر اور چہکتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ وہ فون پر دوسری جانب موجود تہمینہ سے کہہ رہی تھی۔
’’یار بچوں کو مارپیٹ نہیں کرتی تو کبیر مجھ پر چڑھ دوڑتا‘اس کے آتے ہی میں نے وہ شور مچایا کہ موصوف کی سٹی گم ہوگئی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے لب ولہجے میں زہرخندی عو د کر آئی۔ پھر وہ نخوت سے منہ پھلا کر بولی۔
’’میری جاسوسی کے شوق میں وہ تمہارے فلیٹ تک پہنچ گیا اور مجھ سے چھپائے رکھا‘ ایسا شکی مزاج شخص میں نے کہیں نہیںدیکھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے تسکین نے چند لمحے توقف کیااور دوسری جانب سے تہمینہ کے کبیر احمد کے بارے میں جھوٹے سچے الزامات سننے لگی۔
’’اکیلی عورت کو محض شک کی بنیاد پر ذلیل کرنا اور گالی دینا کتنے ظلم کی بات ہے۔‘‘ پھر وہ لمحاتی وقفے سے ترش روی سے بولی۔
’’کبیر نے میرے بارے میں تم سے جو پوچھ پاچھ کی ہے‘ اس کاخمیازہ اسے بھگتناپڑے گا۔ تم بے فکر رہو تہمینہ‘ میں ایک دو دن میں امی سے کبیر کی اس بیہودہ حرکت کی شکایت کروں گی۔ اس کا دماغ درست نہ کرایا تو تم میرا نام بدل دینا۔‘‘ اتنا کہہ کر تسکین نے ذراٹھہر کر اپنی ناراض سہیلی کی بات سنی اور تندوتیز لہجے میں جتاتے ہوئے کہا۔
’’میں کہہ رہی ہوں نا کہ تمہارا نام نہیں لوں گی۔ تم بالکل بے فکرہوجائو۔ اب یہ میرا کام ہے کہ تمہاری بے عزتی کابدلہ میں کس طرح لیتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے تسکین نے خالی مگ ٹیبل پررکھا تھا۔ دروازے کے قریب موجود کبیر احمد اپنی بیوی کے رذلیل اور باغیانہ خیالات سن کر غصے اور نفرت سے پیچ وتاب کھارہاتھا۔ تہمینہ کی گھر میں آمد جامد سے تسکین جن گمراہ سوچوں میں رہنے لگی تھی‘ آج اسے پورے طور پر اندازہ ہواتھا۔ تہمینہ کے مسلسل ورغلانے پرگزشتہ پانچ چھ ماہ سے اس عقل کی دشمن عورت نے اس کی پرامن اور سکون پسند طبیعت کو یوں ذہنی وجذباتی لحاظ سے منتشر اور مضطرب کیا تھا کہ وہ گھر اور لیبارٹری کے کاموں میں خود کو بے سکون اور جذباتی طو رپر برانگیختہ محسوس کرنے لگاتھا۔ اس کے علاوہ تہمینہ کی وجہ سے تسکین نے اسے ساس وسسر اور دونوں بہنوں اور بہنوئیوں کی نظروں میں بھی ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب جبکہ تہمینہ کی فتنہ گری کھل کر سامنے آگئی تھی اس لیے اب کبیر احمد کے لیے بیوی کی ریشہ دوانیوں پر چپ سادھ لینا بہت مشکل تھا۔ شدتِ جذبات سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اگلے لمحے وہ بجلی کی سرعت سے کمرے میں گھس گیا اور خداحافظ کہتی تسکین سے موبائل فون چھین لیا۔ دوسری جانب ابھی تہمینہ نے موبائل فون آف نہیں کیا تھا ‘کبیراحمد غصے سے دہاڑتے ہوئے مائوتھ پیس میں چیخا۔
’’حرام زادی‘ میں نے منع کیا تھا تجھے کہ میرے گھر میں آگ نہیں لگائے گی۔ میری بیوی کو میرے خلاف نہیں بھڑکائے گی۔ لیکن تو نہیں مانی۔‘‘ وہ ذرا ٹھہر کر دوبارہ گرجا۔ خبیث عورت‘ اچھی طرح سن لے‘ میں ظفر کے باپ کو تیرے گھر بھیج رہا ہوں‘ وہی تیرا منہ کالا کرکے تجھے اس شہر سے دربدر کریں گے۔ سن لیاتونے گندی عورت۔‘‘ اس کی غم وغصے سے بپھرتی آواز کے جواب میں دوسری جانب خاموشی طاری تھی۔ کبیرا حمد کے اس اچانک چھاپے پر شاید تہمینہ حیرت وخوف سے سناٹے میں کھڑی رہ گئی تھی اور جواباً کچھ نہیں کہا تھا‘ پھر کبیر احمد نے موبائل فون کابٹن آف کردیا۔ اسی لمحے قریب موجود تسکین جو کبیر احمد کی افتاد ٹوٹ پڑنے سے برافروختہ ہوگئی تھی‘ اور اسے تیز نظروں سے گھور رہی تھی‘ پھرتی سے لپکی اور کبیر احمد سے موبائل فون لینے کی کوشش میں چھینا جھپٹی کرنے لگی‘ لیکن کبیر احمد آج ناخلف بیوی کی آنکھیں کھول دینا چاہتاتھا۔ اس نے تسکین کو جھڑکتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ اس کے گال پر جڑ دیااور اسے برہمی سے دوٹوک لہجے میں بولا۔
’’تمہاری خودپسندی اور حماقتوں نے میری زندگی اجیرن کردی ہے تسکین لیکن اب میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا سمجھی۔‘‘ یہ کہہ کرکبیر احمد ذرا ٹھہرا پھرروتی اوردھڑدھڑ آنسو بہاتی تسکین کومطلع کرتے ہوئے بولا۔ ’’تمہیں اپنے میکے جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ چچا اور چچی کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچنے والے ہیں۔ میں نے ذلیل تہمینہ کی حرکتوں کے بارے میں انہیں آگاہ کردیا ہے۔‘‘ یہ کہتا ہوا کبیر احمد لائونج میں موجود بچوں کی جانب بڑھ گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد چچاذکاء اللہ اور چچی نویدہ گھر میں داخل ہو رہے تھے تو کبیر احمد فتح مندی کے احساس سے صوفے پربیٹھا اس وزیٹنگ کارڈ کو دیکھ رہا تھا جس پر’’تہمینہ بیوٹی ایکسپرٹ‘‘ کے جلی حرفوں کے نیچے اس کے بیوٹی پارلر اور فلیٹ کا پتا درج تھا۔


 
Top