حدیث قدسی

  • Work-from-home

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے بیان فرمایا، اللہ نے فرمایا کہ اے میرے بندو ! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا اور تم پر بھی حرام کیا، پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔ اے میرے بندو ! تم سب گمراہ ہو مگر جس کو میں راہ بتلاؤں پس تم مجھ سے راہنمائی طلب کرو میں تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اے میرے بندو ! تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو ! تم سب ننگے ہو مگر جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے کپڑا مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو ! تم میرا نقصان نہیں کر سکتے اور نہ مجھے فائدہ پہنچا سکتے ہو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات، سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں بڑا پرہیزگار شخص ہو تو میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہو گا اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں سے سب سے بڑا بدکار شخص ہو تو میری سلطنت میں سے کچھ کم نہ ہو گا۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات، سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو جو وہ مانگے دے دوں، تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے دریا میں سوئی ڈبو کر نکال لو ( تو دریا کا پانی جتنا کم ہو جاتا ہے اتنا بھی میرا خزانہ کم نہ ہو گا، اس لئے کہ دریا کتنا ہی بڑا ہو آخر محدود ہے اور میرا خزانہ بے انتہا ہے۔ پس یہ صرف مثال ہے )۔ اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو تمہارے لئے شمار کرتا رہتا ہوں، پھر تمہیں ان اعمال کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو شخص بہتر بدلہ پائے تو چاہئے کہ اللہ کا شکر ادا کرے ( کہ اس کی کمائی بیکار نہ گئی ) اور جو برا بدلہ پائے تو اپنے تئیں برا سمجھے ( کہ اس نے جیسا کیا ویسا پایا )۔ سعید نے کہا کہ ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑتے۔
مختصر صحیح مسلم
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
کچھ احادیث قدسی

حدیثِ قدسی نمبر 1



بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ



عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲَ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّم لَمَّاقَضَی اﷲُ الْخَلْقَ،کَتَبَ فِیْ کِتَابِہ عَلیٰ نَفْسِہ،فَھُوَ مَوْضُوْعٌعِنْدَہٗ:اِنَّ رَحْمَتِیْ تَغْلِبُ غَضَبِیْ

رواہ مسلم (و کذلک البخاری والنسائی وابن ماجۃ)۔

ترجمہ : حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا۔

جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق مکمل کر لی تو اپنی کتاب میں اپنے متعلق لکھ د یا جو کہ اس کے پا س موجو د ہے۔

تحقیق میر ی رحمت میر ے غضب پر غا لب رہے گی

(مسلم، بخاری،نسا ئی، ابن ما جہ)



تشریح: رحمت خداوندی کی وسعت کے مطابق قرآن کریم میں آتا ہے۔ورحمتی وسعت کل شیٔ۔(اور میر ی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے )۔اور اس حدیث مبارک میں فرمان ہے :’’میری رحمت میرے غضب پر غالب رہتی ہے‘‘۔یعنی جب ایک طرف غضب کے تقاضے ہوں اور دوسری طرف رحمت کے تقاضے ہوں تو رحمت الٰہیہ کا پلڑا بھاری رہے گا۔لہٰذا اگر کوئی ایسا عمل سرزد ہو جائے جو غضب خداوندی کو دعوت دیتا ہو تو فوراً ہی ایسا عمل انجام دے لینا چاہیے جو رحمت خداوندی کو کھینچنے والا ہو چنانچہ ا ﷲ کی رحمت کا پہلو اﷲ کے غضب و غصہ پر غالب آ جائے گا اوراس کی مغفرت کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ آپ الفاظِ حدیث میں غور کریں ! کس طرح مایوسیوں کے بادل چھٹتے ہوئے اور امیدوں کی گھٹا چھاتی ہوئی نظر آتی ہے کہ اﷲ کی رحمت،غصہ پر غالب ہی رہتی ہے اور یہ بات لکھ کر اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ گویا اس کی خلاف ورزی ہوہی نہیں سکتی۔ ان اﷲ لایخلف المیعاد (اﷲ تعالیٰ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے)۔

ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے رحمت کے سو(۱۰۰) حصے کئے ہیں جن میں سے ننانوے(۹۹) حصے اپنے پاس رکھے کہ ان سے اپنی مخلوق پر رحم کریں گے اور ایک حصہ مخلوقات میں تقسیم کر دیا۔ یہ اسی سوویں (۱۰۰) حصے کی برکت ہے کہ مخلوقات باہمی طور پر محبت و مودت سے پیش آتی ہیں۔ ماں باپ اپنی اولاد کے لئے شفقت و پیار کے جذبات رکھتے ہیں۔ جب ایک حصہ کا یہ کرشمہ ہے تو جس ذات کے پاس ننانوے (۹۹) حصے ہیں اس کے رحم و کرم اور عفو و درگزر کا کیا عالم ہو گا!!۔

تاریخی روایت ہے کہ حجاج بن یوسف کے انتقال کے وقت اس کی ماں بہت غمگین اور پریشان تھی۔ حجاج کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ بیٹا تمہارے لئے پریشان ہوں کہ تمہارا کیا بنے گا؟اس نے کہا :’’ اماں !اگر تمہیں جنت یا دوزخ کا اختیار مل جائے تو تم مجھے کہاں ڈالو گی؟‘‘اس نے کہا :’’جنت میں !‘‘۔حجاج کہنے لگا کہ جس اﷲ کے پاس میں جا رہا ہوں وہ تم سے بھی ننانوے (۹۹) درجے زیادہ رحیم ہے۔

اﷲ اپنی رحمتوں کے دامن میں جگہ نصیب فرمائے۔(آمین)۔





حدیثِ قدسی نمبر 2



بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ


عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

’’ قَالَ اﷲُ تَعَالیٰ : کَذَّبَنی ابْنُ آدَمَ، وَلَمْ یَکُنْ لہٗ ذٰلِکَ، وَشَتَمَنِی وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ۔ فَاَمَّا تَکْذِیْبُہٗ اِیَّایَ، فَقَوْلُہٗ : لَنْ یُّعِیْدُنِیْ کَمَابَدَاَنِی، وَلَیْسَ اَوَّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہِ۔ وَاَمَّاشَتْمُہٗ اِیَّایَ، فَقَوْلُہٗ : اتَّخَذَاﷲُ وَلَداً، وَاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لِی کُفُواً اَحَدٌ ‘‘۔

رواہ البخاری (وکذلک النسائی)

ترجمہ: حضر ت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے رو ایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرما یا :

’’اﷲ تعالیٰ ارشاد فر ما تے ہیں : ابن آدم نے مجھے جھٹلا یا حالانکہ اسے اس با ت کا حق نہیں پہنچتا تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ اسے اس بات کا بھی حق نہیں پہنچتا تھا۔ اس کا مجھے جھٹلا نا تو یہ ہے کہ یہ کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکیں گے !جیساکہ مجھے پہلے پیدا کیا! حالانکہ پہلی مر تبہ پیدا کر لینا دوسر ی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں تھا! اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ یہ کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ حالانکہ میں اکیلا اور بے نیا ز ہوں۔ نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی میں کسی سے جنا گیا ہوں اور نہ ہی میرا کوئی ہمسر ہے!‘‘۔

(بخاری۔ نسائی)



تشریح: شکایت کا کیسا پیار بھرا انداز ہے۔آقا اپنے بند ے سے، خالق اپنی مخلو ق سے اور مالک اپنے مملوک سے محبوبانہ شکوہ کر رہا ہے۔ جس میں دلائل سے مطمئن کرنے کا انداز بھی ہے اور جذبات کو ابھار کر عار دلانے اور شرم کا احساس پیدا کرنے کا اسلوب بھی !۔ابن آد م کے لفظ سے انسان کو اس کی اصلیت یا د دلا ئی گئی ہے کہ تمہارے جد امجد کو میں نے مٹی سے پیدا کر کے شرف انسا نیت سے نوازا۔ عدم سے وجود بخشا۔ حسن و خوبصورتی کا اعلیٰ نمو نہ بنا یا اور مسجو دِ ملائکہ بنا کر رفعت و بلندی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ گو یا یہ کچھ بھی نہیں تھا، میں نے اسے سب کچھ بنا د یا۔ تذکرہ کے قابل بھی نہیں تھا،میں نے صدر نشین محفل بنا دیا۔ میرے اسی نمک خوار کا بیٹا میر ے بارے میں اس قسم کی گفتگو کر رہا ہے!؟ اپنے اختیارات اور اپنی حیثیت سے تجاوز کر رہا ہے۔ حالانکہ اگر یہ اپنے اوپر اور اپنے جدا مجد پر میرے احسانا ت ہی کو سوچ لے تو اسے ایسی حرکت سے باز رکھنے کے لئے یہی کافی ہے !۔ ’’جھٹلانے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں اسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کروں گا اور یہ حیات بعد الموت کا انکار کرتا ہے گویا میرے دعوے کو جھٹلا رہا ہے۔انسان اپنی حیثیت میں غور کرے تواسے اس قسم کی بات کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ پھر یہ سوچے کہ جس اﷲ نے اسے پہلے بغیر کسی سابقہ نقشہ یا نمونے کے پیدا کر لیا بھلا اس کے لئے بنائی ہوئی چیز کو دوبارہ بنا لینا کون سا مشکل ہے ؟ اگراسے یہ مشکل نظر آتا ہے تو یہ غور کرے کہ پہلے پیدا کرنا کون سا آسان کام تھا؟ اور یہ مشکل اورآسان تو انسانی نکتہ نگاہ سے ہے، اﷲ تعالیٰ کے لئے تو سب برابر ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے : ماخلقکم ولابعثکم الا کنفس واحدۃ۔

’’گالی دینے ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ صمد اور بے نیاز ہے، بے مثل اور بے مثال ہے۔نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کا باپ ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔ مگر انسان کی ناسمجھی دیکھئے کہ کوئی کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے بیٹے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ عزیر علیہ السلام اﷲ کے بیٹے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : وقالت الیہود عزیر ابن اﷲ وقالت النصاری المسیح ابن اﷲ ( یہودیوں نے کہا کہ عزیر اﷲ کے بیٹے اور نصرانیوں نے کہا کہ مسیح ا ﷲ کے بیٹے )۔ عزیر علیہ السلام بھی انسان تھے اورمسیح علیہ السلام بھی انسان تھے اور اﷲ تعالیٰ غیر انسان ہیں۔ بھلا غیر انسان کے ہاں انسان کا پیدا ہونا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ واجب الوجود ہیں، ان کی جنس کا کوئی دوسرافرد ہوہی نہیں سکتالیکن اگر بالفرض والتقدیر ان کی اولاد ہو بھی تو وہ انہی کی جنس سے ہونی چاہیے تھی۔ ا ﷲ کے گھر میں انسان یعنی غیر جنس کا پیدا ہونا بہت بڑا عیب ہے۔ جس طرح انسان کے گھر میں غیر انسان یعنی ’’بھیڑ ‘‘یا ’’بکری ‘‘کا پیدا ہو جانا بہت بڑا عیب ہے بلکہ اگر کہیں اس قسم کا واقعہ پیش آ جائے تو وہ منہ چھپاتا پھرے گا اور اگر کسی انسان کو اس کے گھر میں کسی دوسرے جانور کا بچہ پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو وہ اسے انتہائی معیوب اور اپنے لئے باعث ہتک اور باعث ننگ و عار سمجھے گا۔تو انسان نے اﷲ تعالیٰ کے ہاں انسان کی پیدائش کو کیسے ممکن سمجھ کر باور کر لیا؟؟یہ تو بہت بڑا عیب اور بہت بڑی گالی ہے۔قرآن کریم میں ہے : تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھداo ان دعواللرحمن ولدا o وماینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا o (آسمان اس سے پھٹنے لگا۔زمین میں شگاف پڑنے لگے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گرنے لگے ان کے رحمن کے لئے اولاد کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے۔ رحمن کی شان کے لائق ہی نہیں کہ وہ اولاد کو اپنے لئے بنائے )۔لہٰذا اﷲ تعالیٰ کے لئے اولاد کو ثابت کرنے کی کوشش دراصل اﷲ تعالیٰ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ اور کائنات کی ہر چیز اس کی ملکیت ہے اور اولاد ملکیت نہیں بن سکتی۔ اس طرح اس کی ملکیت میں بھی نقص لازم آئے گا بلکہ اگر اولاد ہو گی تو اس کی شریک کار بھی سمجھی جائے گی جبکہ اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں، وہ صمد اور بے نیاز ہے،اس کا کوئی ہمسر نہیں۔



حدیث قدسی نمبر ۳



بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ



عَنْ زَیْدِبْنِ خَالِدٍالْجُہْنِی رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ:۔

صَلّیٰ لَنَارَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، صَلاَ ۃَ الصُّبْحِ بِالْحُدَیْبِیَّۃِ، عَلیٰ اِثْرِ سَمَائٍ(۱)کَانَتْ مِنَ اللَّیْلَۃِ۔ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، اَقْبَلَ عَلیَ النَّاسِ، فَقَالَ لَہُمْ : ’’ھَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ، قَالَ : اَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُومِنٌ بِی وَکَافِرٌ، فَاَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَرَحْمَتِہِ، فَذٰلِکَ مُومِنٌ بِی، کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ۔ وَاَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْئٍ (۲) کَذَا وَکَذَا، فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِی، مُومِنٌ بِالْکَوْکَبِ‘‘۔

رواہ البخاری (وکذلک مالک والنسائی)۔

(۱) عصب مطر

(۲) النوء : الکوکب: ربطوا نزول المطر بہ۔ واﷲ خالق الکوکب ومسبر لکل الظواھر الطبعیۃ



ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :۔ ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر فجر کی نماز پڑھا ئی۔ اس رات بارش ہوئی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا !’’تم جانتے بھی ہو کہ ہمارے پروردگار نے کیا فر ما دیا؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا کہ ’’اﷲاوراس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا کہ ’’میرے بعض بندے مجھ پر ایمان لانے والے ہو گئے اور بعض کفر کرنے والے ہو گئے۔ جس نے کہا کہ اﷲ کے فضل اوراس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے اور جس نے کہا کہ فلا ں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرا انکار کر نے والا ہے۔ ‘‘

(بخاری۔ موطا۔ نسا ئی )

تشریح : اس مبارک حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سفروحضر میں اصلاح وتر بیت کے کسی بھی موقع کو ہا تھ سے نہیں جا نے دیتے تھے اور صحابہ کرام کی بر وقت رہنما ئی کر کے اپنے فرض منصبی کو احسن طریقے سے ادا کیا کرتے تھے۔

زمانہ جا ہلیت میں لوگوں میں یہ نظر یہ پایا جا تا تھا کہ ہر نئے پیش آمدہ واقعہ کو آسما نی ستاروں کا کر شمہ سمجھا جا تا اور یہ خیال کیا جا تا کہ فلاں ستارہ مہر با ن ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زمین والوں کو یہ فائدہ پہنچا ہے اور فلاں ستارہ ناراض ہو گیا ہے جس کی وجہ سے یہ نقصان پہنچا ہے۔چنانچہ بارش کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر اسی قسم کا تھا کہ مخصوص قسم کے ستا رے کی مہربانی سے اہل زمین سیراب کئے جاتے ہیں۔

چونکہ اس قسم کے نظریات اور عقائد معاشرہ کے افراد میں سستی، کاہلی اور بے عملی کے خطرناک جراثیم پیدا کر دیتے ہیں جو قوموں کی قوت عمل کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں اور سفر کے موقع پر انسان میں مہم جوئی اور نئے حقائق کو اپنے اندر سمولینے کا ایک فطری جذبہ موجزن ہوتا ہے۔ اس لئے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ﷺ نے وحی الٰہی کی روشنی میں صحابہ کرام کی رہنمائی فرمائی اور رات بھرکی بارش کے بعد فجر کے وقت اس تازہ پیش آمدہ واقعہ کے بارے میں صحیح حقائق اور اسلامی تعلیمات کو بیان کرنے کے لئے گفتگو کا انوکھا انداز اختیار کیا کہ ’’ جانتے بھی ہو! آج رات اﷲ تعالیٰ نے کیا فرما دیا؟‘‘ اس سوال سے نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا کے ان میں تلاش وجستجو کا مادہ ابھارنا چاہتے تھے جو بدرجہ اتم حاصل ہو گیا۔

چنانچہ وہ ہمہ تن گوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا ’’اﷲ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں ‘‘ صحابہ کرام کے اس جواب سے ان کی خود سپردگی، حصول علم کا جذبہ اور نئی بات جاننے کا شوق و ولولہ صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ اس بارش پر تبصرہ کے نتیجے میں میرے بندے دو گروہوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔ (۱) مومن (۲) کافر۔ جن کا عقیدہ یہ ہے کہ موثر حقیقی ذات خداوندی ہے اور اسی کے فضل و کرم سے باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تویہ میرے حق میں مومن اورستاروں کے حق میں کافر ہیں۔ اور جن کا عقیدہ یہ ہے کہ فلاں آسمانی ستارے کی تاثیر سے بارش برستی ہے۔ تو وہ ستاروں کے حق میں مومن اور میرے حق میں کافر ہیں۔

فاعل اور موثر حقیقی ذات باری تعالیٰ ہے۔ وہی مسبب الاسباب ہے۔ اس کے حکم کے بغیر بارش کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرسکتا۔وہ چاہے تو ’’مون سون ‘‘ یا بادلوں کو بطور اسباب استعمال کر لے اور ان کے ذریعہ بارش برسادے اور چاہے تو ان کے بغیر بارش برسادے۔ایسابھی ہوسکتا ہے کہ ’’مون سون‘‘ کاسارا موسم گزر جائے اور آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی رہیں اور بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے اورایسابھی ہوسکتا ہے کہ نہ ’’مون سون‘‘ ہو اور نہ ہی بادل مگر بارش سے جل تھل ہو جائے۔

اگر فاعل اور موثر حقیقی ذات باری تعالیٰ کو جانتے ہوئے کسی دوسرے سبب کی طرف بارش کو منسوب کرتا ہے تو یہ کفر نہیں کہلائے گا۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213


حدیث قدسی نمبر ۴



بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ



عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :

’’قَالَ اﷲُ : یَسُبُّ بَنُوا آدَمَ الدَّھْرَ، وَاَنَا الدَّھْرُ، بِیَدِی اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ‘‘۔

رواہ البخاری ( وکذلک مسلم)

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

’’اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : بنی آدم زمانہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اور دن رات میرے ہی قبضہ قدرت میں ہیں۔ ‘‘ (بخاری۔ مسلم)

تشریح : ’’ میں ہی زمانہ ہوں ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ میرے حکم اور ارادوں سے زمانہ میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ لہٰذا زمانہ کو برا بھلا کہنا دراصل اﷲ تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات میں یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’ صاحب ! زمانہ بڑا خراب آگیا ہے‘‘۔ ’’کیا کریں ؟ زمانہ ہی ایساہے ‘‘۔ یہ دراصل اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کی واضح مثال ہے کہ ’’فعل بد تو خود کرے اور لعنت شیطان پر ‘‘یعنی غلطی کا ارتکاب کر لینے کے بعد اس کے اثرات کی ذمہ داری خود قبول کرنے کے بجائے زمانہ پر ڈال دی۔ حالانکہ زمانہ کا تغیر و تبدل ارادۂ الٰہی کے تابع ہے اور حالات کا بناؤ اور بگاڑ اعمال کے ساتھ مربوط ہے۔ لہٰذا اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بگاڑ اور فساد کی ذمہ داری خود قبول کر کے اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔





حدیث قدسی نمبر۵



بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ



عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :

’’قَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ : انَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ : مَنْ عَمِلَ عَمَلاً اَشْرَکَ فَیْہِ غَیْرِیْ (۱)، تَرَکْتُہٗ وَشِرْکَہٗ۔

رواہ مسلم ( وکذلک ابن ماجۃ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) اشرک فی قصدہ اذ عمل العمل ﷲ ولغیرہ



ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا :

’’اﷲ تبارک و تعالیٰ فر ما تے ہیں :میں تمام شرکاء میں سب سے زیادہ مستغنی ہوں۔ جس شخص نے کوئی عمل کیا اور اس میں میرے غیر کو شریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے حوا لے کر دیتا ہوں۔ ‘‘ (مسلم۔ ابن ماجہ)

تشریح : اس حدیث شریف میں یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ ریاکاری اور دکھا وے کے لئے انجام دیا جا نے والا عمل در با ر خداوندی میں کوئی اہمیت یا وزن نہیں رکھتا۔کیونکہ اﷲ تعا لیٰ کو عمل کی حاجت نہیں ہے اور جسے دکھا وے کے لئے اس نے عمل کیا ہے وہ محتاج ہے۔ لہٰذا اﷲ تعا لیٰ اس عمل میں اپنے حصہ سے دستبر دار ہو کر پورا عمل ہی اپنے غیر کے لئے چھو ڑ دیتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں آ تا ہے کہ تم نے جس کے لئے عمل کیا تھا جاؤ ثواب اسی سے لے لو۔

ایک حدیث شریف میں ریا کا ری کو شرک خفی قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایسا چھپا ہوا شرک ہے جو آسانی سے محسوس نہیں ہوتا اس لئے اس میں زیادہ لوگ مبتلا ہو جا تے ہیں اور اپنے اعمال کو ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ شیخ سعد ی فرماتے ہیں ؎



کلید در دوزخ است آن نماز

کہ در چشم مردم گزاری دراز



(وہ نماز جہنم کے دروازے کی چابی ہے جو لوگوں کو دکھا نے کے لئے لمبی پڑھی گئی ہو)۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی بھی نیک عمل کر لینے کے بعد اگر یہ دعا پڑھ لی جائے تو ریا ء کا ری کے گناہ سے حفاظت ہو جاتی ہے :

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئاً اَعْلَمُہٗ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَالا اَعْلَمُہٗ۔

ترجمہ : اے اﷲ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ جانتے بوجھتے ہوئے کسی چیز کو تیرے ساتھ شریک کروں اور اس سے بھی استغفار کرتا ہوں کہ لاعلمی میں کسی چیز کو تیرے ساتھ شریک کروں۔





حدیث قدسی نمبر۶



بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ



عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ :سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ:

’’اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ یُقْضیٰ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْہِ رَجُلٌ اسْتُشْہِدِ، فَاُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَہَا قَالَ : فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا ؟ قَالَ : قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتّیٰ اسْتَشْہَدْتُ، قَالَ : کَذِبْتَ، وَلٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِاَنْ یُقَالَ: جَرِیٌٔ، فَقَدْ قِیْلَ۔ ثُمَّ اُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلیٰ وَجْہِہِ حَتَّی اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَہٗ وَقَرَاَ الْقُرْآنَ، فَاُتِیَ بِہِ، فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَھَا۔ قَالَ: فَمَاعَمِلْتَ فِیْھَا ؟ قَالَ : تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُہٗ، وَقَرَاْتُ فِیْکَ الْقُرْآنَ، قَالَ : کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَاْتَ الْقُرْآنَ، لِیُقَالَ: ھُوَ قَارِیٌٔ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ اُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلیٰ وَجْہِہِ، حَتَّی اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اﷲُ عَلَیْہِ، وَاَعْطَاہُ مِنْ اَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّہِ، فَاُتِیَبِہِ، فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَھَا۔ قَالَ: فَمَاعَمِلْتَ فِیْھَا ؟ قَالَ :مَا تَرَکْتُ مِنْ سَبِیْلٍ تُحِبُّ اَنْ یُنْفَقَ فِیْھَا اِلاَّ اَنْفَقْتُ فِیْھَا لَکَ، قَالَ : کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ فَعَلْتَ لِیُقَالَ : ھُوَ جَوَّادٌ، ثُمَّ اُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلیٰ وَجْہِہِ، ثُمَّ اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔

(رواہ مسلم وکذلک الترمذی والنسائی)



ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا :

(۱) وہ شخص ہو گا جو دنیا میں شہید ہوا ہو گا۔ اسے اﷲ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے۔ وہ ان کا اعتراف کرے گا۔اﷲ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے میری نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ اے اﷲ ! میں تیرے راستہ میں جہاد کرتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ تم نے تو جہاد اس لئے کیا تھا کہ لوگ تمہیں جراتمند و بہادر کہیں۔ سووہ دنیا میں کہا جا چکا پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

(۲) وہ شخص ہو گا جس نے علم دین اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ہو گی اور دوسروں کو اس کی تعلیم دی ہو گی۔ اسے اﷲ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنے انعامات یاد دلائیں گے وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔اﷲ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے میرے انعامات کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ اے اﷲ! میں نے علم دین اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی اور آپ کی خوشنودی کے حصول کے لئے دوسروں کو تعلیم دی۔اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے تم جھوٹ کہتے ہو، تم نے تو اس لئے علم حاصل کیا تھا کہ لوگ تمہیں بڑا عالم کہیں اور قرآن کریم اس لئے پڑھا تھا کہ لوگ تمہیں بڑا قاری کہیں۔ سووہ دنیا میں کہا جا چکا پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

(۳) وہ شخص ہو گا جس پر اﷲ نے وسعت کی ہو گی اور ہر قسم کا مال و دولت اسے عطا کیا ہو گا۔ اسے اﷲ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنے انعامات کی یاددہانی کرائیں گے۔ وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو نے ان انعامات کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ ا ے اﷲ ! میں نے کوئی راستہ ایسانہیں چھوڑا جہاں تجھے خرچ کرنا پسند ہو اور میں نے خرچ نہ کیا ہو۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے ’’ تم جھوٹ کہتے ہو،تم نے تو اس لئے خرچ کیا تھا کہ لوگ تمہیں سخی کہیں۔ سووہ کہا جا چکا۔‘‘پھر اس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا اوراسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

(مسلم۔ ترمذی۔نسائی)



تشریح: انتہائی عظیم اور با برکت حدیث شریف ہے جسے بیان کرتے ہوئے راوی حدیث حضرت ابوہریرہ اکثر بے ہوش ہو کر گر جایا کرتے تھے۔ آپ کے گلے کی رگیں پھول جاتیں اور چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا۔

ریاکاری اور دکھاوے کی ’’نحوست‘‘ دیکھئے کہ شہید فی سبیل اﷲ، عالم دین، قاری اورسخی جیسے عظیم انسان بھی اپنے عظیم عمل کے ثمرات سے نہ صرف محروم رہے بلکہ ذلت ورسوائی کے ساتھ اوندھے منہ جہنم میں پھینک دیئے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ’’عمل صالح ‘‘ میں اﷲ تعالیٰ اپنے ساتھ کسی دوسرے کی شرکت کو کسی قیمت پربھی گوارا نہیں کرتے۔ ’’شہرت کے حصول کی نیت ‘‘ یا ’’ اپنی تعریف و توصیف کی امیدیں ‘‘ ایسے خطرناک عوامل ہیں کہ جس عمل میں شامل ہو جائیں اسے نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق بنا دیتے ہیں۔

غضب خداوندی اور ناراضگی کی انتہاء ہے کہ حساب و کتاب کی ابتداء ہی ان ریاکاروں سے کی جائے گی اور انہیں جہنم رسید کرنے کے بعد ہی کسی دوسرے مسئلہ کو چھیڑا جائے گا اور ان کا منصب ’’شہادت‘‘، ’’علم دین و قرات قرآن‘‘اور’’سخاوت‘‘ ان کے کسی کام نہ آسکے گا۔

ماخذ:
 
Top