حدیث قدسی نمبر ۴
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
’’قَالَ اﷲُ : یَسُبُّ بَنُوا آدَمَ الدَّھْرَ، وَاَنَا الدَّھْرُ، بِیَدِی اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ‘‘۔
رواہ البخاری ( وکذلک مسلم)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : بنی آدم زمانہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اور دن رات میرے ہی قبضہ قدرت میں ہیں۔ ‘‘ (بخاری۔ مسلم)
تشریح : ’’ میں ہی زمانہ ہوں ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ میرے حکم اور ارادوں سے زمانہ میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ لہٰذا زمانہ کو برا بھلا کہنا دراصل اﷲ تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات میں یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’ صاحب ! زمانہ بڑا خراب آگیا ہے‘‘۔ ’’کیا کریں ؟ زمانہ ہی ایساہے ‘‘۔ یہ دراصل اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کی واضح مثال ہے کہ ’’فعل بد تو خود کرے اور لعنت شیطان پر ‘‘یعنی غلطی کا ارتکاب کر لینے کے بعد اس کے اثرات کی ذمہ داری خود قبول کرنے کے بجائے زمانہ پر ڈال دی۔ حالانکہ زمانہ کا تغیر و تبدل ارادۂ الٰہی کے تابع ہے اور حالات کا بناؤ اور بگاڑ اعمال کے ساتھ مربوط ہے۔ لہٰذا اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بگاڑ اور فساد کی ذمہ داری خود قبول کر کے اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔
حدیث قدسی نمبر۵
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
’’قَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ : انَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ : مَنْ عَمِلَ عَمَلاً اَشْرَکَ فَیْہِ غَیْرِیْ (۱)، تَرَکْتُہٗ وَشِرْکَہٗ۔
رواہ مسلم ( وکذلک ابن ماجۃ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) اشرک فی قصدہ اذ عمل العمل ﷲ ولغیرہ
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا :
’’اﷲ تبارک و تعالیٰ فر ما تے ہیں :میں تمام شرکاء میں سب سے زیادہ مستغنی ہوں۔ جس شخص نے کوئی عمل کیا اور اس میں میرے غیر کو شریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے حوا لے کر دیتا ہوں۔ ‘‘ (مسلم۔ ابن ماجہ)
تشریح : اس حدیث شریف میں یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ ریاکاری اور دکھا وے کے لئے انجام دیا جا نے والا عمل در با ر خداوندی میں کوئی اہمیت یا وزن نہیں رکھتا۔کیونکہ اﷲ تعا لیٰ کو عمل کی حاجت نہیں ہے اور جسے دکھا وے کے لئے اس نے عمل کیا ہے وہ محتاج ہے۔ لہٰذا اﷲ تعا لیٰ اس عمل میں اپنے حصہ سے دستبر دار ہو کر پورا عمل ہی اپنے غیر کے لئے چھو ڑ دیتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں آ تا ہے کہ تم نے جس کے لئے عمل کیا تھا جاؤ ثواب اسی سے لے لو۔
ایک حدیث شریف میں ریا کا ری کو شرک خفی قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایسا چھپا ہوا شرک ہے جو آسانی سے محسوس نہیں ہوتا اس لئے اس میں زیادہ لوگ مبتلا ہو جا تے ہیں اور اپنے اعمال کو ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ شیخ سعد ی فرماتے ہیں ؎
کلید در دوزخ است آن نماز
کہ در چشم مردم گزاری دراز
(وہ نماز جہنم کے دروازے کی چابی ہے جو لوگوں کو دکھا نے کے لئے لمبی پڑھی گئی ہو)۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی بھی نیک عمل کر لینے کے بعد اگر یہ دعا پڑھ لی جائے تو ریا ء کا ری کے گناہ سے حفاظت ہو جاتی ہے :
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئاً اَعْلَمُہٗ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَالا اَعْلَمُہٗ۔
ترجمہ : اے اﷲ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ جانتے بوجھتے ہوئے کسی چیز کو تیرے ساتھ شریک کروں اور اس سے بھی استغفار کرتا ہوں کہ لاعلمی میں کسی چیز کو تیرے ساتھ شریک کروں۔
حدیث قدسی نمبر۶
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ :سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ:
’’اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ یُقْضیٰ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْہِ رَجُلٌ اسْتُشْہِدِ، فَاُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَہَا قَالَ : فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا ؟ قَالَ : قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتّیٰ اسْتَشْہَدْتُ، قَالَ : کَذِبْتَ، وَلٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِاَنْ یُقَالَ: جَرِیٌٔ، فَقَدْ قِیْلَ۔ ثُمَّ اُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلیٰ وَجْہِہِ حَتَّی اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَہٗ وَقَرَاَ الْقُرْآنَ، فَاُتِیَ بِہِ، فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَھَا۔ قَالَ: فَمَاعَمِلْتَ فِیْھَا ؟ قَالَ : تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُہٗ، وَقَرَاْتُ فِیْکَ الْقُرْآنَ، قَالَ : کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَاْتَ الْقُرْآنَ، لِیُقَالَ: ھُوَ قَارِیٌٔ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ اُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلیٰ وَجْہِہِ، حَتَّی اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اﷲُ عَلَیْہِ، وَاَعْطَاہُ مِنْ اَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّہِ، فَاُتِیَبِہِ، فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَھَا۔ قَالَ: فَمَاعَمِلْتَ فِیْھَا ؟ قَالَ :مَا تَرَکْتُ مِنْ سَبِیْلٍ تُحِبُّ اَنْ یُنْفَقَ فِیْھَا اِلاَّ اَنْفَقْتُ فِیْھَا لَکَ، قَالَ : کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ فَعَلْتَ لِیُقَالَ : ھُوَ جَوَّادٌ، ثُمَّ اُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلیٰ وَجْہِہِ، ثُمَّ اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔
(رواہ مسلم وکذلک الترمذی والنسائی)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا :
(۱) وہ شخص ہو گا جو دنیا میں شہید ہوا ہو گا۔ اسے اﷲ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے۔ وہ ان کا اعتراف کرے گا۔اﷲ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے میری نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ اے اﷲ ! میں تیرے راستہ میں جہاد کرتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ تم نے تو جہاد اس لئے کیا تھا کہ لوگ تمہیں جراتمند و بہادر کہیں۔ سووہ دنیا میں کہا جا چکا پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
(۲) وہ شخص ہو گا جس نے علم دین اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ہو گی اور دوسروں کو اس کی تعلیم دی ہو گی۔ اسے اﷲ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنے انعامات یاد دلائیں گے وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔اﷲ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے میرے انعامات کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ اے اﷲ! میں نے علم دین اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی اور آپ کی خوشنودی کے حصول کے لئے دوسروں کو تعلیم دی۔اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے تم جھوٹ کہتے ہو، تم نے تو اس لئے علم حاصل کیا تھا کہ لوگ تمہیں بڑا عالم کہیں اور قرآن کریم اس لئے پڑھا تھا کہ لوگ تمہیں بڑا قاری کہیں۔ سووہ دنیا میں کہا جا چکا پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
(۳) وہ شخص ہو گا جس پر اﷲ نے وسعت کی ہو گی اور ہر قسم کا مال و دولت اسے عطا کیا ہو گا۔ اسے اﷲ تعالیٰ کے سامنے لایا جائے گا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنے انعامات کی یاددہانی کرائیں گے۔ وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو نے ان انعامات کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ جواب دے گا کہ ا ے اﷲ ! میں نے کوئی راستہ ایسانہیں چھوڑا جہاں تجھے خرچ کرنا پسند ہو اور میں نے خرچ نہ کیا ہو۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے ’’ تم جھوٹ کہتے ہو،تم نے تو اس لئے خرچ کیا تھا کہ لوگ تمہیں سخی کہیں۔ سووہ کہا جا چکا۔‘‘پھر اس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا اوراسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
(مسلم۔ ترمذی۔نسائی)
تشریح: انتہائی عظیم اور با برکت حدیث شریف ہے جسے بیان کرتے ہوئے راوی حدیث حضرت ابوہریرہ اکثر بے ہوش ہو کر گر جایا کرتے تھے۔ آپ کے گلے کی رگیں پھول جاتیں اور چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا۔
ریاکاری اور دکھاوے کی ’’نحوست‘‘ دیکھئے کہ شہید فی سبیل اﷲ، عالم دین، قاری اورسخی جیسے عظیم انسان بھی اپنے عظیم عمل کے ثمرات سے نہ صرف محروم رہے بلکہ ذلت ورسوائی کے ساتھ اوندھے منہ جہنم میں پھینک دیئے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ’’عمل صالح ‘‘ میں اﷲ تعالیٰ اپنے ساتھ کسی دوسرے کی شرکت کو کسی قیمت پربھی گوارا نہیں کرتے۔ ’’شہرت کے حصول کی نیت ‘‘ یا ’’ اپنی تعریف و توصیف کی امیدیں ‘‘ ایسے خطرناک عوامل ہیں کہ جس عمل میں شامل ہو جائیں اسے نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق بنا دیتے ہیں۔
غضب خداوندی اور ناراضگی کی انتہاء ہے کہ حساب و کتاب کی ابتداء ہی ان ریاکاروں سے کی جائے گی اور انہیں جہنم رسید کرنے کے بعد ہی کسی دوسرے مسئلہ کو چھیڑا جائے گا اور ان کا منصب ’’شہادت‘‘، ’’علم دین و قرات قرآن‘‘اور’’سخاوت‘‘ ان کے کسی کام نہ آسکے گا۔
ماخذ: