ap log kis tarah se ahadees ka ghalat matlab nikal kr logon ko gumrah krte hain, taqleed ko sahi sabit krne k lye ap log sahaba karam pr tohmat laga rhe hain,اول ہرسوال تحقیق کے لیے نہیں کیا جاتا جیسے آپ کے سوالات برائے تحقیق نہیں ہیں. بلکہ سوال کا عام مقصد جاننا ہوتا ہے اور جب اک امر کو جان چکے تو پھر دوبارہ سوال کرنے کی دو عام وجوہ ہوتی ہیں1 جانے ہوئے کی تفصیل یا تسہیل دریافت کرنا2 جانے ہوئے کی تصدیق کرنا آیا معلوم کی ہوئی بات ٹھیک ہے یا غلط، اور اسی دوسری قسم سوال کو تحقیق کرنا کہتے ہیںاب آئیے ذرا بقول آپ کے "ظاہر ہے کے وہ حضرت زید کی بات کو تقلید کے طور پر نہیں ماننا چاہتے تھے" آپ کا یہ اختراعی بیان نہ تو حدیث کے کسی جملے یا لفظ کا مدلول ہے جو ظاہر ہو اور نہ ہی حدیث میں اہل مدینہ کے کھلے موقف کے موافق بلکہ خلاف ہے جب نص حدیث میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کے موقف کی صراحت کر دی کہ "انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے" اور وہ بھی حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کے بعد تو ان کے سوال کی وجہ، کلام حدیث سے معلوم ہوگئی یہ کہ اگر سوال برائے تحقیق ہوتا یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کی بات ٹھیک ہے یا غلط تو وہ یہ نہ کہتے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کو نہیں چھوڑیں گے. حدیث میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کو نہ چھوڑنے کی تصریح ہے اور آپ کہتی ہو وہ حضرت زید کی بات کو تقلید کے طور پر نہیں ماننا چاہتے تھے آپ کی بات مانیں یا حدیث کے اس مدلول کو جو ظاہر و واضح ہے? لہذا آپ کے مفروضے میں محظ اشکال ہے اوراہل مدینہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کے بعد (نہ کہ سوال سے پہلے)، حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول، ٹھیک ہو یا غلط ہر دو حال میں نہ چھوڑنے کے قائل بیان ہوئے جس سے نہ صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کرنے کا مقصد تحقیق نہ کرنا ظاہر ہو گیا بلکہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول پر کلی اعتماد کرنا ثابت ہو گیا اس لیے تقلید کی تعریف احناف کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے فقط.
یہ بھی آپ کا اختراعی بیان ہے جو خلاف حدیث ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کونہ چھوڑنے کی تصریح حدیث کر رہی ہے اگر دالیل تلاش کر رہے ہوتے تو قول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ترجیح دینے کا التزام بھی نہ کرتے یقینا حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بلا دالیل شرعی فتوٰی صادر نہیں فرمایا تھا نہ ہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کیونکہ حدیث میں بلا دالیل شرعی محظ اپنی رائے سے فتوٰی دینے کو گمراہی سے تعبیر کیا گیا ہے "ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے" صحیح بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح :۷۰۳۷ جبکہ لہذا صحابی رسول کے فتوی کو بلا دالیل شرعی محظ قول جان کر حدیث کے خلاف سمجھنا غلط ہے بلکہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فتوٰی جس دالیل شرعی پر تھا اس سے قوی دالیل معلوم ہوئی تو آپ نے رجوع فرمایا
یہ بھی آپ کا اختراعی بیان ہے کیونکہ حدیث میں اہل مدینہ کا قول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ترجیح دینا ثابت ہے رہی بات کہ انھوں نے صورت متنازعہ ہونے کے بعد جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مشورہ پہ کہ "جب تم مدینہ جاؤ تو اس مسئلہ کو معلوم کر لینا" سفر مدینہ اختیار کیا تو یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کی تحقیق کے لیے تھا کہ آیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مخالفت بجا ہے کہ نہیں. کیونکہ حدیث مذکورہ میں اہل مدینہ کے اپنے بیان "حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے" سے رجوع کرنے کے بارے میں خاموشی ہے اورحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے رجوع کی تصریح حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ کے قول سے ملتی ہے جس سے قیاسا اہل مدینہ کی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی اتباع میں رجوع کرنا تو ثابت ہوتا ہے مگر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی مخالفت ثابت نہیں ہوتی، پھر ملاحظہ ہوحافظ رحمۃ کی تصریحات حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے سنن ابو داؤد طیالسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور سنن نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت زید بن ثابت کو حضرت صفیہ کی حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیااب ناظرین پہ عیاں ہوگیا ہو گا کہ یہ حدیث تقلید کا رد کسی طرح نہیں کرتی بلکہ تقلید شخصی کو زمانہ اصحاب رسول اللہ میں ثابت کرتی ہے چہ جائے اول معترض نے زمانہ تابعین و تبع بابعین سے دالیل طلب کی تھی
یہ بھی محظ اشکال ہے اوپر دیا گیا جواب اس اعتراض کو بھی رفع کرتا ہے
مذکورہ اعتراضات بالا کو پڑھنے کا سرسری وقت ملا، جواب فارغ ٹائم میں دونگا، آپ کی اطلاعا عرض ہے میں بحث میں تو پڑ گیا ہوں مگر نہ تو نیٹ کا باقاعدہ یوزر ہوں نہ مجھے اتنا وقت ملتا ہے کہ میں بحثیں کروں! لیکن آپ کو تحمل کرنا ہوگا اگر جواب کا انتظار ہو تو!@Tooba Khan
@nasirnoman
@i love sahabah
is hadees se sirf aik bat sabit ho rhi hai jesa k main ne kaha hadees k samne aa jane pr qol ko rad kr dena or yehi cheez taqleed k mukhalif hai,
haj aik rukun hai or hazrat zaid ki bat manne se haj poora hota tha magar ibn e abbas ki bat manne se adhoora rehta tha , unho ne mushtaba cheez ko chhor dia or kaha k hm zaid ki bat manengay magar hadees k samne aa jane pr unho ne qol pr hadees ko tarjeeh di, muqaledeen aisa krte hain???
ap ne kaha k
بلا دالیل شرعی محظ اپنی رائے سے فتوٰی دینے کو گمراہی سے تعبیر کیا گیا ہے "ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے" صحیح بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح :۷۰۳۷
jb k fiqah main sirf raye or qayas waghaira hi hota hai,
ap ne kaha k
لہذا صحابی رسول کے فتوی کو بلا دالیل شرعی محظ قول جان کر حدیث کے خلاف سمجھنا غلط ہے بلکہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فتوٰی جس دالیل شرعی پر تھا اس سے قوی دالیل معلوم ہوئی تو آپ نے رجوع فرمایا
jb k main ne pehle b btaya hai k hadees k samne aa jane pr sahaba karam apne fatwe se rujoo kr lia krte the iski misal ibn e abbas wali hadees main mojood hai or b kai misalen hain,
sabit yehi hota hai is se k hazrat zaid ne ijtehad ki bunyad pr fatwa dia magar nass k samne aa jane pr sirf hadees ko maana,
kia muqaldeen sahi hadees k samne aa jane pr apne imam k qol se rujoo kr sakte hain??
yehi cheez aima arba ne b apnai or kaha k sahi hadees k samne aa jane pr hmari bat ko rad kr dena,
muqaladeen kehte haink k un k pas ilm or aqal ki kami hai magar jb imam sahab k qol ki bat ati hai to use sahi sabit krne k lye pata nhi kahan se itni aqal aa jati hai agr imam sahab ka qol samjhne k bajae itni aqal quran o hadees ko samajhne main lagate to aj muqallid k bajae mutba e Rasool kehlate,
muqaladeen kehte haink fiqah ne deen main asani peda ki hai or aima arba ne hr masle ko khol kr bayan kia hai, to kia woh apne qol ko hi sahi tarah bayan na kr pae k muqaledeen un k qol ka hi ulta matlab le rhe hain or sahi hadees k samne aa jane pr b woh apne imam sahab k qol ko nhi chorte,
aima arba agr taqleed ki tareef se waqif the k jis k pas ilm or aqal na ho woh taqleed krta hai to phir imam sahab ne wazeh tor kyon na kaha meri taqleed kro chahe hadees hi samne kyon na aa jae,
agr ap is hadees se taqleed sabit krna chah rhe hain to is se 2 logon ki taqleed ho rhi hai, aik hazrat zaid ki dosri ibn e Abbas ki, yani k ye taqleed shakhsi ki mukhalifat kr rhi hai taeed nhi,
or dosri bat jo k main ne pehle b poochi thi k
کیا اہل مدینہ اب بھی زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟