تفسیر ضیاء القرآن کے چند تعارفی اقتسابات

  • Work-from-home

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
یہ وہ چند اقتسابات ہیں جو تفسیرضیآء القرآن میں تفسیرسے قبل تحریر ہیں
اے اپنی قسمت برگشتہ پر آہ فغاں کرنے والے نوجوانو !دنیا کی امامت تمھاری متاع گم گشتہ ہے ،تمھیں یہ واپس مل سکتی ہے اگر تم میں اس کی واپسی کی تڑپ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن تمھیں واپس دلاسکتا ہے اگر تم اس کا حکم ماننے کے لئے تیّار ہو۔
زندگی کی یہ ساری چہل پہل تقسیم کار کے باعث ہے ،ایک ہی ملت کے مختلف افراد مختلف کام سرانجام دیتے ہیں ،کسی کے ہاتھ میں حکمرانی کی باگ دوڑ ہے ،کوئی مجالس مشاورت کا رُکن رکین ہے ،کوئی تجارت و صنعت کو چار چاند لگا رہا ہے ،کوئی شکم زمین سے رزق کے سر مُہر خزانے نکال کر اُن کے ڈھیر لگا رہا ہے ۔ کوئی وعظ و نصیحت کے منبر پر جلوہ نما ہے ،کوئی تعلیم و تدریس کی مسند کو رونق بخشے ہے اور کوئی سجّادہ فقر و درویشی پر تشریف فرما ہے، قوم کو مجموعی طور پر اصلاح یافتہ اُسی وقت کہا جا سکتا ہے جب کہ اس کے عناصر حق کا دامن مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوں اور اپنے اپنے دائرہ عمل میں قرآن مجید کی ہدایت پر کاربند ہوں اور اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں پوری دیانت داری سے مصروف کار ہوں ، ان عناصر کا باہمی تعلق اتنا گہرا ہوتا ہے کہ اگر ایک عنصر بھی جادہ حق سے برگشتہ ہو جائے تو دوسرے عناصر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اس لئے قرآن حکیم نے ہر ایک کو اپنی خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا ہے اور ہر گروہ میں راہ پانے والی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے اور انھیں اس کے عبرتناک انجام سے آگاہ کیا ہے ۔
ہم اکثر بگڑی ہوئی قوموں کے حالات اور ان کے حسرت ناک انجام کے متعلق قرآن میں پڑھتے ہیں اور ایک لمحہ توقّف کیے بغیر آگے نکل جاتے ہیں ہم یہ زحمت بہت کم گوارا کرتے ہیں کہ اپنے اعمال کا موازنہ ان برباد شدہ قوموں کے اعمال سے کریں اور یہ سوچیں کہ کہیں ہم بھی انھیں نافرمانیوں کا شکار تو نہیں اور اگر خدانخواستہ ہیں تو اپنے انجام کی ہولناکیوں سے غافل کیوں ہیں ؟ کیا مکافات عمل کا قانون قدرت کا اٹل قانون نہیں ؟*کیا ہم نے یہ نہیں پڑھا کہ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ۔
میں نے ہر ایسے موقع پر کوشش کی ہے کہ مطالعہ کرنے والے کے وجدان کو جھنجھوڑوں اور اُسے اپنا محاسبہ کرنے کی رغبت دلاؤں تاکہ وہ اپنی جنس عمل کو اسلام اور قرآن کے مقرر کیے ہوئے ترازو میں تولے اور اسی کسوٹی پر رکھے تاکہ اسے اپنے متعلق کوئی غلط فہمی یا اشتباہ نہ رہے ، اور اگر اس کا قدم جادہ حق سے پھسل گیا ہے تو وہ سنبھلنے کی بروقت کوشش کرے ۔
قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو ایک واضح اور مکمل ضابطہ حیات (شریعت ) بھی عطا کیا ہے اور یہ ضابطہ اتنا ہی وسیع ہے جتنی زندگی اپنی بُو قلموں تنوّع کے ساتھ وسیع ہے بلکہ مبالغہ اس سے بھی وسیع تر ہے ،انسان کیا ہے ؟ اس کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ اور اس کی مخلوق کے ساتھ کیسا ہونا چاہئے ؟ اگر وہ حاکم ہے تو اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ اگر وہ رعایا ہے تو اس کے فرائض کی نوعیّت کیاہے ؟ اگر وہ دولت مند ہے تو اس کا طرز عمل کیسا ہو ؟ اور اگر وہ فقیرو محتاج ہو تو کس طرح باوقار زندگی بسر کر سکتا ہے ؟ قرآن نے جو شریعت کاملہ ہمیں دی ہے اس میں ان سوالات کا مکمل جواب موجود ہے اسی لئے عبادات ، سیاسیات ، معاشیات ، نظام اخلاق ، وغیرہ تمام امور کو شریعت نے اپنے دامن میں سمیٹا ہوا ہے ۔
قرآن حکیم میں جہاں بھی یہ مباحث آئے ہیں میں نے کوشش کی ہے کہ اُن کو اس واضح اسلوب میں پیش کیا جائے جیسے عصر حاضر کا انسان سمجھ بھی سکے اور قبول بھی کر سکے ۔
یہ ایک بڑی دلخراش اور روح فرسا حقیقت ہے کہ مُرور زمانہ سے اس اُمّت میں بھی افتراق و انتشار کا دروازہ کھُل گیا جسے واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا کا حکم دیا گیا تھا ، یہ امّت بھی بعض خود عرض اور بد خواہ لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے متنازع گروہوں میں بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور جذبات میں آئے دن کشیدگی اور تلخی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ، اس پراگندہ شیرازہ کو یکجا کرنے کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ انھیں قران حکیم کی طرف بُلایا جائے اور اس کی تعلیمات کو نہایت شائستہ اور دلنشین پیرایہ میں پیش کیا جائے ،پھر ان کی عقل سلیم کو اس میں غور فکر کی دعوت دی جائے ،ہمارا اتنا ہی فرض ہے ،اور ہمیں یہ فرض بڑی دل سوزی سے ادا کرنا چاہئے ۔ اس کے بعد معاملہ خدائے برتر کے سپُرد کردیں ، وہ حی و قیّوم چاہے تو انھیں ان شبہات اور غلط فہمیوں کی دلدل سے نکال کر راہ ہدایت پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے ، وما ذالک علی اللہ بعزیز ۔
اس باہمی اور داخلی انتشار کا سب سے المناک پہلو اہل السنۃ والجماعت کا آپس میں اختلاف ہے جس نے انھیں دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے دین کے اصولی مسائل میں دونوں متفّق ہیں ، اللہ تعالٰی کی توحید ذاتی اور صفاتی حضور نبی کریم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور ختم نبوّت، قرآن کریم ، قیامت اور دیگر ضروریات دین میں کُلّی موافقت ہے لیکن بسا اوقات طرز تحریر میں بے احتیاطی اور انداز تقریر میں اعتدالی کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور باہمی سُوء ظن ان غلط فہمیوں کو ایک بھیانک شکل دے دیتا ہے ، اگر تقریر و تحریر میں احتیاط و اعتدال کا مسلک اختیار کیا جائے اور اس بد ظنّی کا قلع قمع کردیا جائے تو اکثر بیشتر مسائل میں اختلاف ختم ہوجائے اور اگر چند اُمور میں اختلاف باقی رہ بھی جائے تو اس کی نوعیّت ایسی نہیں ہوگی کہ دونوں فریق عصر حاضر کے سارے تقاضوں سے چشم پوشی کیے آستینیں چڑھائے ، لٹھ لیے ایک دوسرے کی تکفیر میں عمریں برباد کرتے رہیں ۔
ملّت اسلامیہ کا جسم پہلے ہی اغیار کے چرکوں سے چھلنی ہوچکا ہے ہمارا کام تو ان خونچکاں زخموں پر مرہم رکھنا ہے اس رستے ہوئے ناسوروں کو مندمل کرنا ہے ، اس کی ضائع شدہ توانائیوں کو واپس لانا ہے ، یہ کہاں کی دانش مندی اور عقیدت مندی ہے کہ ان زخموں پر نمک پاشی کرتے رہیں ، ان ناسُوروں کو اور اذیّت ناک اور تکلیف دہ بناتے رہیں ۔
میں نے پُورے خلوص سے کوشش کی ہے کہ ایسے مقامات پر افراط تفریط سے بچتے ہوئے اپنے مسلک کی صحیح ترجمانی کردوں جو قرآن کریم کی آیات بیّنات ، احادیث صحیحہ یا امت کے علماء حق کے ارشادات سے ماخوذ ہے تاکہ نادان دوستوں کی غلط آمیزیوں یا اہل غرض کی بہتان تراشیوں کے باعث حقیقت پر جو پردے پڑ گئے ہیں وہ اٹھ جائیں اور حقیقت آشکارا ہوجائے بفضلہ تعالٰی اس طرح بہت سے الزامات کا خود بخود ازالہ ہو جائے گا ، اور ان لوگوں کے دلوں سے یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی جو پرو پیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ واقعی ملّت کا ایک حصہ شرک سے آلودہ ہے یا ان کے اعمال اور مشرکین کے اعمال میں مماثلت پائی جاتی ہے العیاذ باللہ ۔
خداوند کریم ہمارے حال زار پر رحم فرمائے اور دلوں کو حسد اور نفرت کے جذبات سے پاک کر کے ان میں محبت و الفت پیدا فرماوے ۔ وھو علٰی کل شی قدیر ۔
فرقان حمید عربی زبان میں نازل ہوا ، عربی کا اپنا ادب ہے ، فصاحت و بلاغت کا اپنا معیار ہے اس کے اپنے مجازات ،استعارات اور امثال ہیں ،مفردات کے اشتقاق اور جملوں کی ترتیب کے الگ قواعد ہیں ، اس کا دامن الفاظ کی کثرت سے معمور ہے اور قواعد اشتقاق نے تو اس میں اتنی وُسعت پیدا کر دی ہے کہ دنیا کی کوئی ترقّی یافتہ زبان بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
اس کتاب مقدّس کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم عربی زبان سے ربط پیدا کریں ، اس کے قواعد و ضوابط سے اچھی طرح واقفیّت بہم پہنچائیں ، اس کے ادب اور اسلوب انشاء کی خصوصیات کو سمجھیں تاکہ کلمات کے آبگینوں میں حقیقت جو شراب طہور چھلک رہی ہے ، اس سے لطف اندوز ہوسکیں ۔
جہاں کہیں کوئی نحوی یا صرفی اُلجھن معلوم ہوئی یا لغوی پیچیدگی نظر آئی میں نے کوشش کی ہے کہ ائمّہ فن کے مُستند اقوال سے اس کا حل پیش کروں تاکہ دل میں خلش باقی نہ رہے ۔
ہر سورۃ سے پہلے میں نے اس کا تعارف لکھّا ہے جس میں سورۃ کا زمانہ نزُول ، اس کا ماحول ، اس کے اہم اغراض و مطالب ، اس کے مضامین کا خلاصہ ، اور اگر اس میں کسی سیاسی و تاریخی واقعہ کا ذکر ہے تو اس کا پس منظر بیان کیا ہے ،تاکہ قارئین جب پہلے اس تعارف کو پڑھ لیں گے تو سورۃ کا مطالعہ کرتے وقت وہ ان اُمور خصوصی پر زیادہ توجّہ مبذول کرسکیں گے ۔
قرآن کریم کے اُردو تراجم جو میری نظر سے گزرے ہیں وہ عموماً دو طرح کے ہیں ایک قسم تحت اللفظ تراجم کی ہے لیکن ان میں وہ زور بیان مفقود ہے جو قرآن کریم کا طرّہ امتیاز بلکہ اس کی روح رواں ہے ، دوسری قسم با محاورہ تراجم کی ہے ، ان میں دقّت یہ ہے کہ لفظ کہیں ہوتا ہے اور اس کا ترجمہ دو سطر پہلے یا دو سطر بعد درج ہوتا ہے اور مطالعہ کرنے والا یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ میں جو نیچے لکھا ہوا ترجمہ پڑھ رہا ہوں اس کا تعلق کس کلمہ یا جملہ سے ہے ۔
میں نے سعی کی ہے کہ ان دونوں طرزوں کو ا سطرح یکجا کردوں کہ کلام کا تسلسل اور روانی بھی برقرار رہے ، زور بیان میں بھی (حتی الامکان ) فرق نہ آنے پائے اور ہر کلمہ کا ترجمہ اس کے نیچے بھی مرقوم ہو، اس میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں ،اس کا فیصلہ تو قارئین کرام ہی کریں گے ،بہر حال اگر مجھے اس میں کامیابی ہوئی ہے (پوری نہ سہی ادھوری سہی ) تو یہ میرے مولائے کریم کا اپنے اس ناچیز بندے پر ایک مزید احسان عظیم ہے جس کی شکر گزاری سے یہ ہیچمدان کبھی عُہدہ بر آنہیں ہوسکتا۔
 
Top