تاریخ ٹسوے بہائے گی
تم سر بام آ کر اٹھایا ہوا ہاتھ اپنا ہلا کر
چمک دار آنکھوں سے اپنی مجھے
رخصتی کا اگر اذن دیتیں تو میں
دشمنوں کے لیے موت بن کر نکلتا
تمہارے فقط اک اشارےسے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا
تم دیکھتیں
کس طرح میں زمانے کی سرحد ذرا دیر میں پار کرتا
ہر اک سمت سے وار کرتا
محبت کی تاریخ تبدیل کرتا
نئی رزم بوطیقا تشکیل دیتا
میں لشکر کا سب سے بہادر سپاہی تھا
میرے لیےایک آنسو بہت تھا
مگر تم نے اشکوں کی برسات کر کے
مجھے اس قدر غم زدہ کر دیا ہے
کہ لگتاہے یدھ ہار جاؤں گا میں
لوٹ کر اب نہ آؤں گا میں
٭٭٭