حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے فجر کی نماز کے بعد اپنا خواب لوگوں سے بیان فرمایاکہ آج رات میں نے یہ خواب دیکھا کہ دو آدمی (فرشتے) میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارضِ مقدس کی طرف لے گئے تو وہاں دو آدمیوں کو دیکھا، ایک بیٹھا ہے اور دوسرا کھڑا ہوا ہے، کھڑا ہوا شخص بیٹھے ہوئے آدمی کے کلّے کو لوہے کی زنبور سے گدّی تک چیرتا ہے، پھر دوسرے کلّے کو اسی طرح کاٹتا ہے۔ اتنے میں پہلا کلاّ ٹھیک ہوجاتا ہے اور برابر اس کے ساتھ یہ عمل جاری ہے۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ:
اَمَّا الَّذِیْ رَأَیْتَہ یُشَقُّ شِدْقُہ فَکَذَّابٌ یُحَدِّثُ بِالْکَذِبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْہُ حَتّٰی تَبْلُغَ الْاٰفَاقَ فَیُصْنَعُ بِہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ․ (بخاری شریف ۱/۱۸۵-۲/۹۰۰-۲/۱۰۴۳)
ترجمہ: بہرحال وہ شخص جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کے کلّے چیرے جارہے ہیں، وہ ایسا بڑا جھوٹا ہے جس نے ایسا جھوٹ بولا کہ وہ اس سے نقل ہوکر دنیا جہاں میں پہنچ گیا؛ لہٰذا اس کے ساتھ قیامت تک یہی معاملہ کیا جاتا رہے گا۔
---------------------
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اذا کَذَبَ العبدُ تَبَاعَدَ عنہ المَلَکُ مِیلاً من نَتَنٍ ما جاء بہ (ترمذی شریف۲/۱۹)
ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے جو اس نے بولا ہے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
--------------------
ایک حدیث شریف میں آپ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا، حضرت صفوان بن سُلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا کہ
أیکون الموٴمن جَبانا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن بخیلا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن کذّابا؟ قال: لا․ (موطا امام مالک ص۳۸۸)
ترجمہ:کیا موٴمن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں، (مسلمان میں یہ کمزوری ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کہ کیامسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں (مسلمان میں یہ کمزوری بھی ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب عنایت فرمایا کہ نہیں، (یعنی ایمان کے ساتھ بے باکانہ جھوٹ کی عادت جمع نہیں ہوسکتی اور ایمان جھوٹ کو برداشت نہیں کرسکتا)۔
--------------------
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان ابن اسید حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَبُرَتْ خِیَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ اَخَاکَ حَدِیْثًا ہُوَ لَکَ بِہ مُصَدِّقٌ وَاَنْتَ بِہ کَاذِبٌ․ (مشکوٰة شریف ۲/۴۱۳)
ترجمہ: یہ بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی گفتگو کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو حالانکہ تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔
------------------
اسی طرح ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولنے سے بچنے پر (اگرچہ مذاق سے ہی ہو) جنت کی ضمانت لی ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الجَنَّةِ لِمَنْ تَرَکَ الکِذْبَ وَاِنْ کَانَ مَازِحًا․ (الترغیب والترہیب ۳/۵۸۹)
ترجمہ: میں اس شخص کے لیے جنت کے بیچ میں گھر کی کفالت لیتاہوں جو جھوٹ کو چھوڑدے، اگرچہ مذاق ہی میں کیوں نہ ہو۔
-------------------
حضرت بہز بن حکیم اپنے والد معاویہ کے واسطہ سے اپنے دادا حیدہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَیْلٌ لِّلَّذِیْ یُحَدِّث بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہ الْقَومَ فَیَکْذِبُ ویل لہ ویل لہ․ (ترمذی شریف ۲/۵۵، ابوداؤد ۲/۶۸۱)
ترجمہ: جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے اس کے لیے بربادی ہو، بربادی ہو، بربادی ہو۔
------------------
مطلب یہ ہے کہ صرف لطف صحبت اور ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی ممنوع ہے۔ آج کل لوگ نت نئے چٹکلے تیار کرتے ہیں اور محض اس لیے جھوٹ بولتے ہیں تاکہ لوگ ہنسیں، انھیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد رکھنا چاہیے اور اس برے فعل سے باز آنا چاہیے۔
اپریل فول کی رسم بد میں چوتھا گناہ، مکروفریب ہے؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گناہ پر سخت الفاظ سے وعید بیان فرمائی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا․(مسلم شریف ۱/۷۰)
جو شخص ہم کو (مسلمانوں کو) دھوکا دے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
---------------------------
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الموٴمنون بَعضُہم لِبَعْضٍ نَصَحَةٌ وَادُّون، وَانْ بَعُدَتْ منازلہم وَاَبْدَانُہُمْ وَالفَجَرَةُ بعضہم لبعضٍ غَشَشَةٌ مُتَخَاوِنُوْنَ وَاِنْ اقْتَرَبَتْ مَنَازِلُہُمْ وَاَبْدَالُہُمْ․ (الترغیب والترہیب ۲/۵۷۵)
ترجمہ: موٴمنین آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے مکانات اور جسم ایک دوسرے سے دور ہوں اور نافرمان لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دھوکے باز اور خائن ہوتے ہیں، اگر ان کے گھر اور جسم قریب قریب ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ بازی اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرنے والوں اور نافرمانوں کا عمل ہے، موٴمنین کا عمل تو ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کرنا ہے۔ لہٰذا کسی بھی ایمان والے کو دوسروں کے ساتھ دھوکے کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔
اَمَّا الَّذِیْ رَأَیْتَہ یُشَقُّ شِدْقُہ فَکَذَّابٌ یُحَدِّثُ بِالْکَذِبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْہُ حَتّٰی تَبْلُغَ الْاٰفَاقَ فَیُصْنَعُ بِہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ․ (بخاری شریف ۱/۱۸۵-۲/۹۰۰-۲/۱۰۴۳)
ترجمہ: بہرحال وہ شخص جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کے کلّے چیرے جارہے ہیں، وہ ایسا بڑا جھوٹا ہے جس نے ایسا جھوٹ بولا کہ وہ اس سے نقل ہوکر دنیا جہاں میں پہنچ گیا؛ لہٰذا اس کے ساتھ قیامت تک یہی معاملہ کیا جاتا رہے گا۔
---------------------
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اذا کَذَبَ العبدُ تَبَاعَدَ عنہ المَلَکُ مِیلاً من نَتَنٍ ما جاء بہ (ترمذی شریف۲/۱۹)
ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے جو اس نے بولا ہے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
--------------------
ایک حدیث شریف میں آپ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا، حضرت صفوان بن سُلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا کہ
أیکون الموٴمن جَبانا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن بخیلا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن کذّابا؟ قال: لا․ (موطا امام مالک ص۳۸۸)
ترجمہ:کیا موٴمن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں، (مسلمان میں یہ کمزوری ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کہ کیامسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں (مسلمان میں یہ کمزوری بھی ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب عنایت فرمایا کہ نہیں، (یعنی ایمان کے ساتھ بے باکانہ جھوٹ کی عادت جمع نہیں ہوسکتی اور ایمان جھوٹ کو برداشت نہیں کرسکتا)۔
--------------------
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان ابن اسید حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَبُرَتْ خِیَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ اَخَاکَ حَدِیْثًا ہُوَ لَکَ بِہ مُصَدِّقٌ وَاَنْتَ بِہ کَاذِبٌ․ (مشکوٰة شریف ۲/۴۱۳)
ترجمہ: یہ بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی گفتگو کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو حالانکہ تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔
------------------
اسی طرح ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولنے سے بچنے پر (اگرچہ مذاق سے ہی ہو) جنت کی ضمانت لی ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الجَنَّةِ لِمَنْ تَرَکَ الکِذْبَ وَاِنْ کَانَ مَازِحًا․ (الترغیب والترہیب ۳/۵۸۹)
ترجمہ: میں اس شخص کے لیے جنت کے بیچ میں گھر کی کفالت لیتاہوں جو جھوٹ کو چھوڑدے، اگرچہ مذاق ہی میں کیوں نہ ہو۔
-------------------
حضرت بہز بن حکیم اپنے والد معاویہ کے واسطہ سے اپنے دادا حیدہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَیْلٌ لِّلَّذِیْ یُحَدِّث بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہ الْقَومَ فَیَکْذِبُ ویل لہ ویل لہ․ (ترمذی شریف ۲/۵۵، ابوداؤد ۲/۶۸۱)
ترجمہ: جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے اس کے لیے بربادی ہو، بربادی ہو، بربادی ہو۔
------------------
مطلب یہ ہے کہ صرف لطف صحبت اور ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی ممنوع ہے۔ آج کل لوگ نت نئے چٹکلے تیار کرتے ہیں اور محض اس لیے جھوٹ بولتے ہیں تاکہ لوگ ہنسیں، انھیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد رکھنا چاہیے اور اس برے فعل سے باز آنا چاہیے۔
اپریل فول کی رسم بد میں چوتھا گناہ، مکروفریب ہے؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گناہ پر سخت الفاظ سے وعید بیان فرمائی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا․(مسلم شریف ۱/۷۰)
جو شخص ہم کو (مسلمانوں کو) دھوکا دے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
---------------------------
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الموٴمنون بَعضُہم لِبَعْضٍ نَصَحَةٌ وَادُّون، وَانْ بَعُدَتْ منازلہم وَاَبْدَانُہُمْ وَالفَجَرَةُ بعضہم لبعضٍ غَشَشَةٌ مُتَخَاوِنُوْنَ وَاِنْ اقْتَرَبَتْ مَنَازِلُہُمْ وَاَبْدَالُہُمْ․ (الترغیب والترہیب ۲/۵۷۵)
ترجمہ: موٴمنین آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے مکانات اور جسم ایک دوسرے سے دور ہوں اور نافرمان لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دھوکے باز اور خائن ہوتے ہیں، اگر ان کے گھر اور جسم قریب قریب ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ بازی اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرنے والوں اور نافرمانوں کا عمل ہے، موٴمنین کا عمل تو ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کرنا ہے۔ لہٰذا کسی بھی ایمان والے کو دوسروں کے ساتھ دھوکے کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔