ارشد ملک کا شعری سفر

  • Work-from-home

Dark

Darknes will Fall
VIP
Jun 21, 2007
28,885
12,579
1,313
ارشد ملک کا شعری سفر

لفظوں کی پیکر تراشی کا عمل بے حد کٹھن اور دل کو جلانے کا ایک نہ ختم ہونے والا عمل ہے۔ جس میں صدق دل کے بغیر نہ آواز نغمے کی صورت میں ڈھلتی ہے نہ حرف میں دل دھڑکتا ہے۔ جہاں دل کی دولت بے انت ہواور محنت مسلسل ہو وہاں ریاضتِ فن کے نتیجے میں پیکرِ شعر میں زندگی کے خدوخال سپیدہ سحر کی طرح نمایاں اور سورج کی طرح درخشاں ہوتے ہیں۔ مگر طلب سچی، ہر لمحہ تندہی، لگن اور انہماک کی اہمیت ہوتی ہے جو فی زمانہ مشکل بھی ہے اور دقت طلب بھی۔ پھر بھی کچھ لوگ گردشِ ایام کی کشاکش اور نفع نقصان کی تلخیوں سے دامنِ طلب چھڑا کر چند لمحات عروس شعر سے ہمکناری اور مکمل سپردگی کے لیے نکال ہی لیتے ہیں۔ ارشد ملک کا شمار بھی ان چند بہت مخصوص شعرا میں ہوتا ہے جو فن اور زندگی کے درمیان توازن اور اعتدال کا رشتہ قائم رکھتے ہوئے ہنر سے وابستگی کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔

ارشد ملک کی غزل ہو یا نظم ،ِ جدید تر، ہر جگہ لہجے اور تجربے کا نیا پن جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً

مسافر تو بچھڑتے ہیں، رفاقت کب بدلتی ہے

محبت زندہ رہتی ہے، محبت کب بدلتی ہے

تمہی کو چاہتے ہیں ہم، تمہی سے پیار کرتے ہیں

یہی برسوں سے عادت ہے اور عادت کب بدلتی ہے

کلی کا پھول بننا اور بکھر جانا مقدر ہے

یہی قانونِ فطرت ہے تو فطرت کب بدلتی ہے

غزل ایسی صنفِ سخن ہے جہاں پذیرائی پامال اور فرسودہ مضامین کو نہیں ملتی۔ یہاں فرد کا ذاتی تجربہ زیادہ بار پاتا ہے۔

یہ دُکھ میں ساتھ ساتھ تھے غمخوار راستے

کیوں آج ہم سے ہو گئے بیزار راستے

رُک کر اُسے پیام یہ دینا ذرا ہوا

رہتے ہیں اس کی چاہ میں بیدار راستے

ارشد ملک کے بعض کیا بیشتر اشعار سہل متمناع کی مثال ہیں۔ مگر اس مہارت کے ساتھ یہ خوبی ان کے اشعار میں در آئی ہے کہ پیکرِ شعر میں ایک نئی روشنی سی پیدا ہوئی ہے ساتھ ہی پڑھنے اور سوچنے والوں کے لیے کسک، کرب اور فکر کا پہلو بھی لائی ہے۔ مثلاً

دَور وہ بھی گزر گیا ارشد

دل سلگتا تو گھر جلا کرتا

مکالماتی غزل کی ایجاد، اختراع اور تنوع ایک تفصیل طلب موضوع ہے یہاں اس رویے کا اظہار مقصود ہے جس کے تحت دیگر شعرا کی طرح ارشد ملک نے بھی اپنا شعری اظہار کیا ہے۔

کہا اس نے محبت میں یہ غم کیوں ساتھ ملتے ہیں

کہا میں نے یہ کانٹے پھول بھی تو ساتھ پلتے ہیں

’’دل درد کا ٹکڑا ہے‘‘ ارشد ملک کی پہلی شعری تخلیق ہے لیکن پہلا تعارف ہر گز نہیں۔ اس سے پہلے ان کے شعری اظہاریے، اربابِ فن سے متعدد بار داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ خطۂ پوٹھوہار کے ایک ہونہار، نستعلیق، وضعدار اور خوش فکر نوجوان شاعر و پبلشر کی حیثیت سے انہوں نے اپنا ایک مخصوص مقام وضع کر لیا ہے اور وہ تیزی سے شاہراہِ فکر و فن پر کامیابی کی جانب گامزن ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ اگر انہوں نے ریاضت فن کو مزید وقت ، توجہ اور وابستگی سے حرزِ جاں بنایا تو یقینا انہیں حریمِ فن میں وہ تقدیم اور احترام حاصل ہو جائے گا جو اس عمر میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے!


پروفیسر اعتبار ساجد
 
Top