کئی دن سے آنکھوں میں آنسو نہیں تھے
یہاںکوئی نم دار آنکھوں سے چھن بھر بھی دیکھے
تولگتا ہے بارش سی ہونے لگی ہے
گھنےبادلوں میں سمندر ہمکنے لگا ہے
مجھےتم بتاؤ
کہ چپچاپ جیون کی ہر سمت بہتے ہوئے پانیوں کو
کہاںتک چھپاؤں گا میں
ان کہی داستانیں کہاں تک سناؤں گا میں
زندگ یکے زمیں دوز رستوں پہ کب تک چلوں گا
ابدخیز خوابوں کو دیکھوں گا کب تک
تمھارےگھنے سبز نادیدہ باغوں کی چھاؤں میں کب تک جلوں گا
تمھاری محبت کے چہرے پہ آنکھیں نہیں ہیں
یہ صدیوں پرانے اندھیرے کے خستہ مکانوں کےپیچھے، درختوں کے نیچے
جہاںہم ذرا دیر باتوں کے چھینٹے اڑاتے ہوئے آگئے ہیں
یہاںچند سائے ہمارے لئے روشنی لا ر ہے ہیں
پرندےہمارے لئے گا ر ہے ہیں
یہ لمحے جو بوڑھے زمانوں کے بچے ہیں
چھپ کر ہمیں دیکھنے آ گئے ہیں
مگرتم بتاؤ
کہ عمریں کہاں تک ہمارے لئے سانس لیتی رہیں گی
کسی دن کہیں گی
چلواب بہت جی لیا ہے
ڈرائیوراٹھاؤ یہ سامان سارا
چلوپورٹیکو میں گاڑی کھڑی ہے
مجھےتم بتاؤ میں لفظوں کے کیپسول کھا کھا کےکب تک جیوں گا
یہنظموں کا سیرپ بھی کب تک پیوں گا
یہملبوس انفاس کامل ہی اب پھٹ چکا ہے
اسےاور کتنا سیوں گا۔۔
٭٭٭