مقدر سخت تر نکلا
سنبھالا ہوش ہے جب سے مقدر سخت تر نکلا
پڑا ہے واسطہ جس سے وہ ہی زیر و زبر نکلا
سبق دیتا رہا مجھ کو سدا روشن خیالی کا
اسے جب پاس سے دیکھا تو خود بھی تنگ نظر نکلا
سمجھ کر زندگی جس سے محبت کر رہے تھے ہم
اسے جب چھو کے دیکھا فقط خاکی بشر نکلا
محبت کا نشہ اتر ا تو تب ثابت ہوا مجھ پر
جسے منزل سمجھتے تھے وہ بے مقصد سفر نکلا