Tazkia Nafs

  • Work-from-home

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718
تزکیہ کے ذرائع:
اوپر ذکر اآچکا کہ تزکیہ کی دو شرائط ہیں،پہلی شرط یہ کہ اپنی اصلاح کا احساس ہو اور دوسری شرط ذریعے کا حصول ہے جس سے تزکیہ ہو سکے۔یاد رکھیں تزکیہ کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کا کلام
،نبی اکرم صلیّ اللہ علیہ وسلم کے طور طریقے اور پاکیزہ لوگوں کے پاکیزہ کام اور باتیں ہیں،پاکیزہ
صحبت بھی اس میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اس سے بھی انسان کا تزکیہ اور اصلاح ہوتی ہے۔ان
ذرائع سے انسان کی برائیاں دور ہوجاتی ہیں اور اچھائیاں پروان چڑھتی ہیں،پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔
دیکھا جائے تو کسی شے میں حسن اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کے عیب دور ہوجائیں اور خوبیاں
نکھر جائیں۔ اگر کسی شے میں عیب موجود ہوں ،گندگی ہو اور دوسری طرف کوئی خوبی بھی موجود ہو
تو ہم اس شے کو خوبصورت نہیں کہتے۔مثال کے طور پر کسی انسان سے بو آرہی ہے،جسم پر مٹی کی
تہہ جمی ہوئی ہو ،بال بکھرے ہوں،ناخنوں میں میل ہو،دانت پیلے ہوں ،لباس میلا ہو،اور وہ
بہت خوبصورت لباس پہن لے،بہت قیمتی خوشبو لگا لے،انتہائی فیشن ایبل جوتے پہن لے تو ہم اس کو
خوبصورت انسان نہیں کہیں گے،اسی طرح اگر گھر گندہ ہو بو آرہی ہو،کیڑے مکوڑے پھر رہے ہوں
دیواروں پر جالے لگے ہوں لیکن مہنگی مہنگی آرائشی چیزیں رکھی ہوں اور ان پر بھی ڈھیر مٹی پڑی ہو
تو ہم ایسے گھر کو خوبصورت نہیں کہتے،یہ زینت تو ہے مگر خوبصورتی نہیں ہے۔اس کے برعکس آپ کسی
کے گھر جائیں جو بلکل سادہ ہو،قیمتی اشیاء سے آرائش نہ کی گئی ہو لیکن وہاں اچھی طرح صفائی ہوئی ہو،
سجاوٹ کی چیزیں سلیقے سے رکھی ہوں ،تو ہم کہیں گے کہ یہ گھر خوبصورت ہے۔تو خوبصورتی کے لئے
برائیوں کا اور گندگی کا دور ہونا اور ساتھ ساتھ خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔اس دوہرے عمل کا نام "تزکیہ"
ہے۔اس کے لئے اصطلاح مستعمل ہے:تخلیِ عن الرزائل وحلی بلفضائل"۔برائیاں دور کی جائیں اور اچھائیوں
کو اختیار کیا جائے اور ان کو پروان چڑھایا جائے،ان کی حفاظت کی جائے تو انسان کے تزکئی کا عمل پورا ہوتا
ہے۔اور اس کے لئے اللہ کی مددورحمت بہرحال ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
" وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "

" اے مسلمانوں اگر اللہ کا فضل اوراس کی رحمت تم پر نہ ہوتی ،تو تم میں سے کوئی ایک بھی،کبھی بھی پاک نہ
ہوسکتا۔لیکن اللہ پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے"۔

معلوم یہ ہوا کہ اللہ کے فضل و رحمت اور اس کے کلام کے بغیر کوئی بھی پاکیزگی اور تزکیہ حاصل نہیں کرسکتا۔
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718
مقاصد بعثتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلّم:
اللہ کے رسول کی بعثت کے جو مقاصد قرآن میں بیان ہوئے ہیں وہ چار ہیں جو کہ یہ
ہیں،تلاوت،تزکیہ،تعلیمِ کتاب اور حکمت۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ ال عمران میں فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ#

ترجمہ:"یقیناََ اللہ نے بڑا احسان کیا مومنوں پر جب اُس نے اُنہی میں سے ایک رسول
بھیجا جو اُن پر اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور انکا تزکیہ کرتے ہیں اور ان کو تعلیم
دیتے ہیں کتاب اور حکمت کی"

یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم لوگوں کو اللہ کی آیات پڑھ کر سُناتے تھے تاکہ
اُن کا تزکیہ ہو اور کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے۔اس سے پہلے تو یہ لوگ سراسر گمراہی میں تھے۔انکو پتہ ہی نہ تھا کہ پاکیزگی کیسے حاصل کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ طحہ میں فرمایا ہے:

"وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ#

جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّىٰ#
ترجمہ:
" اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا ،جس نے نیک عمل کئے
ہوں گے،ایسے سب لوگوں کے لئے بلند درجے ہیں۔سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے
نہریں بہ رہی ہوں گی ۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔یہ جزا ہے اس شخص کی جو پاکیزگی
اختیار کرے۔
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718
جنت میں جانے کے راستے:
جنت میں جانے کے دو راستے ہیں۔ایک بہت آسان ،پُر تعیش اور
لذتوں بھرااور دوسرا مشقت والا جس میں قدم قدم پر آزمائشیں
اور تکالیف ہیں۔بعض لوگ پہلا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں،
وہ بڑا خطرناک ہے،وہ دوزخ سے ہو کر جاتا ہے تو ایسا راستہ
کیوں اختیار کریں جس مین اتنی مصیبت لاحق ہونے کا خطرہ ہو۔
دوسرا راستہ ذرا لمبا ،طویل اور کٹھن تو ہے مگر سیدھا جنت
کو جاتا ہے۔اس راستے میں بھٹکنے کی گنجائش نہیں ہے۔تو کیوں
نہ تھوڑی محنت ومشقت کر لیں اور براہِ راست جنت میں جانے
کی کوشش کریں۔اللہ بڑا مہربان ہےاُس سے امید رکھنی چاہیئے
کہ وہ ہمیں ضرور جنت میں پہنچائے گا۔لیکن جنت نری تمنائوں
اور خواہشوں سے تو ملنے والی شے ہے نہیں۔صرف خواہشات
سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کے لئے مومن ہونا شرط ہے
ایمان لاؤ،پھر عملِ صالح کرو ،صحیح عمل اور سلامت عمل۔
اردو میں ہم صحیح سلامت مکمل چیز کو کہتے ہیں۔تو عملِ صالح کی ایک
علامت یہ ہے کہ انسان جو نیکی کرے اُسے مکمل کرے،ادھورے
کام نہ کرے۔اچھے اخلاق اختیار کرے،گھر والوں اور باہر والوں
کے ساتھ،چھوٹے بڑوں کے ساتھ،سب کے ساتھ اچھے اخلاق سے
پیش آئے،اندر کچھ باہر کچھ یہ دورُخا پن نہ ہو۔دوسری چیز جو عملِ صالح میں
آتی ہے وہ یہ ہے کہ اُس عمل کی حفاظت بھی کی جائے۔
 

Moiz_

Active Member
Nov 10, 2015
281
132
343
buhut achi batain likhi hain
TAZKIA ke meaning kiya hain?
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718
تزکیہ
مفہوم اور مقصد:
تزکیے کے معنی ہیں کہ انسان برائیوں سے نجات حاصل کر لے اور اپنی اچھائیوں کو پروان چڑھائے-بنیادی طور پر تزکیے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو گناہوں سے نجات مل جائے اور نیک کام زیادہ سے زیادہ کرنے لگ جا ئیں ۔اس ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے الفاظ کا ترجمہ درج زیل ہے:


اے اللہ تو میرے نفس کو اُسکا تقویٰ عطا کردےاور تو اسکو پاک کر دے،تو بہترین اس نفس کو پاک کرنے والا ہے،تو ہی اسکا ولی ہے اور تو ہی اسکا مولیٰ ہے۔“


تزکیے کے لئے کسی بھی زبان میں کوئی لفظ ڈھونڈنا آسان نہیں ہے،لفظ پاکی بھی ایک محدود تصور دماغ میں لاتا ہے-اس طرح لفظ صفائی سے بھی ایک محدود تصور اُبھرتا ہے-لفظ تزکیہ ان الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ جن کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں -چنانچہ ہم اس بحث میں کسی دوسری زبان کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے تزکیے کے لئے تزکیہ کا ہی لفظ استعمال کریں گے-اسی قبیل کا ایک اور لفظ تقویٰ ہے-اس لفظ کے لئے بھی ہم دنیا کی کسی اور زبان میں متبادل لفظ نہیں ڈھونڈ سکتے
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718
نیکیوں کی حفاظت
نیک عمل کرنا نسبتاََ آسان ہے لیکن اس کو سنبھال کر رکھنا بڑا
مشکل کام ہے۔نیکیون کی اس طرح حفاظت کرنی ہےکہ وہ ضائع
نہ ہوں،اُن پر گناہ کی گرد نہ پڑے۔نفاق یا تکبر کا کیڑا نہ لگےجو
ہماری ساری نیکیاں چٹ کر جائے۔کہیں دکھاوے کا شکار
نہ ہو جائیں لہذا انسان ایسے بڑے بڑے گناہوں سے بچے۔
اور کوشش کرے کہ دوسروں کی برائی نہ کرے۔خدانخوانستہ
ہماری نیکیاں کسی اور کے کھاتے میں نہ چلی جائیں اور ہمیں
خبر ہی نہ ہو۔نیکیاں ہم نے کیں،شب بیداریاں ہم نے کیں،نوافل
ہم نے پڑھے،صدقات ہم نے دیےمگر قیامت کے دن یہ نیکیاں
اپنے نامہ اعمال میں ڈھونڈ رہے ہیں،لیکن نہیں مل رہیں۔پتہ چلا
کسی نوکر کی دل آزاری کی تھی،ہمسائے کی ٹوہ لگائی تھی،
رشتہ داروں کی غیبت کی تھی چنانچہ تمام نیکیاں ان کے پاس چلی
گئیں۔چغلی ،طنز یا غیبت ایسے اعمال ہیں جو ہماری محنت
دوسروں کے نام کروادیتے ہیں۔
اسی طرح انسان کی نفسیات یہ ہے کہ کسی نیک عمل کا اس کو
پتہ چلتا ہے تو بہت جوش و خروش سے وہ کام کرنا شروع کرتا ہے۔
دل جمعی کے ساتھ اس نیک کام کو کرتا رہتا ہے مگر آہستہ آہستہ
اس نیک کام سے اس کا دل بھر جاتا ہے اور پھر اس کو ایک اور
نیکی پتہ چلتی ہے تو اب وہ پہلی والی کو چھوڑ کر دوسری
کرنا شروع کردیتا ہے۔پھر کچھ دن اس کا جوش وجنون چڑھا رہتا
ہے۔یہان تک کہ ایک اورنیکی پتہ چلتی ہے۔اب وہ دوسری
چھوڑ کر تیسری شروع کر دیتا ہے۔تو یہ طرزِعمل تو نیکیوں کو
پروان چڑھانا نہ ہوا۔اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک باغ ہے اس
میں آپ نے ایک پودا لگایا اُس کی خوب حفاظت کی جب وہ ہرا بھرا
ہو گیا تو آپ نے ایک اور پودا لگایا،اب دوسرے پودے پر اتنی
توجہ ہو گئی کہ پہلے والے سے بالکل لاپرواہ ہوگئے اور اس کو
نظر انداز کر دیا۔اب نہ پانی اور کھاد دیتے ہیں،نہ دیکھ بھال
کرتے ہیں،تو وہ مرجھا جائے گا۔اور اگر آپکی یہی روش رہی تو
کبھی بھی مکمل باغ نہیں بن سکے گا۔اسی طرح اگر پچھلی نیکیوں
کو نظر انداز کیے جائیں۔اور نئی نیکیاں کرتے چلے جائیں تو
نیکیوں کا باغ نہیں لگ سکتا۔آپ کی زندگیوں میں نیکیوں کی بہار
نہیں آسکتی،تو اس کے لئے پچھلی نیکیوں کی بھی حفاظت کرنی
ہے اور مزید نیکیوں کا بھی اہتمام کرنا ہے۔
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718
  • جنت کے اعلیٰ درجات کا حصول
  • جو انسان اپنا تزکیہ کرنا چاہے اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنا چاہے،تو اس کے لئے
  • اہلیت ،درست طریقہ،اور شوق ہونا چاہئیے۔اگر شوق کے ساتھ اہلیت بھی ہو تو اس سے اچھا امتزاج کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ آج کل کہتے ہیں نہ کہ بہترین کام وہ ہے جو آپکا مشغلہ بھی ہو ،تو اللہ کرے ہمیں اس بہترین کام کا شوق پیدا ہو جائے۔ سستی اور
  • غفلت کو چھوڑ دیں۔مصلحتوں کو نظر انداز کر دیں،بہت مفاد پرست بن کر رہنا،سب کو راضی
  • کرنے کی کوشش کرنا،یہ چیز بھی تزکیہ نفس کے راستے میں رُکاوٹ بن جاتی ہے۔بہرحال فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جنت تیار کی ہے ،
  • جو خود کو پاک رکھیں اور اپنا تزکیہ کریں۔
  • اپنا تزکیہ کرنا دراصل خود کو جنت کا شہری بنانے کی کوشش ہے۔یہ جنت کا شہری بننے کی مشق ہے
  • جو ہمیں کرائی جاتی ہے ۔
  • سورۃ الشمس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
  • "قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا "
  • " فلاح پالی اُس نے جس نے نفس کا تزکیہ کیا ،اور ناکام اور نامراد ہوا جس نے اُسے آلودہ کیا۔
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718

تزکیہ اور اخلاق

جس کا تزکیہ ہوگیا،وہ پاک ہوگیا،اُس کے اخلاق سنور گئے،وہ حسین ہوگیا۔اللہ کو پاک صاف رہنے والے بہت پسند
ہیںـــ

وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ۔۔ سورہ التوبۃ ایت نمبر (108)

"اللہ پاک رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

احادیث میں اعلیٰ اخلاق حاصل کرنے کی بھی بڑی ترغیب آئی ہے۔یعنی تزکیہ دراصل اعلیٰ اخلاق ہے۔

ٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖ"تم میں سے بہترین وہ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہیں"

ابوداؤد اور ترمذی میں حدیث ہے۔۔حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"قیامت کےدن مومن کی میزان ِعمل میں سب سے بھاری جو چیز رکھی جائیگی وہ اُس کے اچھے اخلاق
ہوں گے"

موطاامام مالک کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"میں اس واسطے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقی خوبیوں کو کمال تک پہنچا دوں
تزکیہ
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718
قرآن و سنّت کے علم کی ضرورت :
خود کو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرنے کے لئے انسان کو قرآن و سنّت کے علم کی
ضرورت پڑتی ہے۔یہ علم انسان کے روحانی وجود کی پاکی کے لئے ایسا ہی ضروری
ہےجیسا کہ مادّی جسم کے لیے پانی۔جب ہم پانی پیتے ہیں تو وہ جسم میں گردش (circulate) کرتا ہے۔جس سے جسم نرم رہتا ہے اور زہریلے مادّے جسم سے دھل کر نکل
جاتے ہیں،زندگی قائم رہتی ہے اور صفائی کا عمل ہوتا رہتا ہے۔اسی طرح علم باطنی تزکیے اور صفائی کا
سبب بنتا رہتا ہے۔اللہ کی آیات پڑھتے ہی تمام برائیوں سے نجات نہیں مل جاتی،بلکہ
برائیاں دور کرنے کی طلب پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح قرآن پڑھتے ہی انسان میں ساری
اچھائیاں پیدا نہیں ہو جاتیں،بلکہ اچھائیاں حاصل کرنے کی طلب جنم لیتی ہے۔ اور یہ
طلب (urge)کہ مجھے اچھا بننا ہے یعنی اچھائیاں اچھی لگنے لگیں،برائیاں بُری لگنے
لگیں اور یہ تڑپ پیدا ہوجائے کہ مجھے خود کو درست کرنا ہے،یہ طلب تزکیے کا
نقطہ آغاز ہے۔اور یہ طلب ہمارے اندر کلامِ الٰہی پیدا کرتا ہےکہ ہم اپنے آپ کو پاک
کریں،اپنی اصلاح کریں،ٹیڑھ سیدھی کرلیں اور قبلہ درست کرلیں۔جس طرح ہم
دیکھتے ہیں کہ منہ تو کھا کر فارغ ہوجاتا ہے لیکن نظامِ ہاضمہ(digestive system)
گھنٹوں غذا پر کام کرتا ہے۔ ہمارا نظامِ ہاضمہ(digestive system) کتنی دیر تک
غذا کو مختلف قسم کے مادّوں ( juices) کی مدد سے ہضم کرتا رہتا ہے تاکہ اِسے ہمارے جسم کا حصہ بنائے۔ اسی طرح گو کہ قرآن کو محدود مدّت میں پڑھا جاتا ہے مگر اُس کو جذب کرتے
رہنا،اور اللہ کی آیات کو تزکیے کا ذریعہ بنانا مسلسل کرتے رہنے کا کام ہے۔قرآن
حکیم کو ہم اپنے حافظے (memory) میں محفوظ تو کرلیتے ہیں لیکن اس کو عملی
زندگی کا حصہبنانے کے لئے سالوں درکار ہیں،بلکہ یوں سمجھیں کہ پوری زندگی
چاہئے۔ہم سب اس راستے کے نئے نئے مسافر ہیں۔
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718
تزکیے کی راہ میں احتیاط:
اگر ہم تزکیہ کا عمل شروع کرنا چاہ رہے ہیں تو اس بارے میں محتاط روش اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
انسان کے اخلاقی عیوب یا برائیاں اُس کی روح پر زخم کی مانند ہوتی ہیں۔جیسے انسان کے جسم پر چوٹ
لگ جائے تو اسے صفائی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کے زخموں کو بھی صفائی کی
ضرورت ہوتی ہے۔
ایک اور بات یہ ہے کہ ہر صفائی کا طریقہ مختلف ہوتا ہے ۔کوئی برتن گندہ ہو جائےتو اسے سختی کے ساتھ
مانجھا جاتا ہے۔اب اگر اتنی ہی سختی کے ساتھ زخم کو صاف کیا جائے ،اسے رگڑا جائے تو کتنی اذیت اور تکلیف ہوگی اور زخم ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہو جائے گا۔اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی
چاہئیےکہ:" اے اللہ جہاں سختی کی ضرورت ہو وہاں ہمیں سختی کرنے کی ہمّت دے اور جہاں نرمی کی ضرورت ہووہاں نرمی برتنا سکھا دے"
شیخ حمزہ یوسف کہتے ہین جو اس راستہ کا نیا نیا مسافر بنے اسے ہوشیار رہنا چاہئیے ،خبردار رہنا چاہئیے
کہ وہ اپنے اوپر بہت زیادہ سختی نہ کرے۔اور دوسری طرف اُسے یہ بھی احتیاط کرنی چاہئیے کہ وہ فرائض
میں کوتاہی کرنا شروع نہ کر دے۔
Beaware of being extremely hard on yourself before you obtain mastery over your self & beaware of being too lax in any thing that concern sacred rulings."
انسان جب تزکیےکا عمل شروع کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے خیال آئے کہ
ابھی تو ہمارے اندر ،ہماری نیت میں،خیالات میں اتنا بگاڑ موجود ہے تو پہلے ہم خود کو اندر سے ٹھیک کرتے
ہیں،اُس کے بعد ہم شریعت کی ظاہری شکل پر عمل شروع کریں گے۔یہ احکامات تو بعد کی باتیں ہیں ہمارے
تو اپنے اندر بڑی گندگی ہے،پہلے اس کو صاف کر لیں ۔یہ شیطان کی طرف سے ایک بہلاوہ ہے۔دراصل تزکیہ
کوئی محدود مدّت (time bound)کی چیز نہیں ہے،یہ پہلے یا بعد کا عمل نہیں ہےکہ ہم پہلے یہ کر لیں اور پھر بعد میںشریعت
پر عمل کریں گے۔دراصل کہاں شریعت کا حکم آئے گا اُس پرعمل ہوتا رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ غلطیاں
بھی سرزد ہونگی۔اس لئے تزکیہ نفس بھی ساتھ ساتھ ہی جاری رہے گا ۔ ان غلطیوں کی اصلاح کرتے جائیں گے
اور شریعت پرعمل کرتے جائیں گے۔یعنی یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ ہیں۔
 

raji35

Regular Member
Mar 22, 2013
60
27
718

تزکیے میں اعتدال اور حقیقت بینی کی اہمیت

جب تزکیے کے نام پر احکامَ شریعت کو نظر انداز کیا جاتا ہے توبگاڑ شروع ہوجاتا ہے۔یعنی کوئی اس طرح سوچے کہ ابھی تو ہم غیبت کرتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں اور بھی نجانے کتنے گناہ کرتے ہیں پہلے ہم ان سے نجات پالیں پھر ہم ظاہری احکامات پر عمل شروع کریں گے نماز پڑھیں گے،گھر سے باہر بھی باپردہ ہوکر نکلیں گے،گھر کے اندر کا پردہ بھی کریں گے۔یاد رکھیں کہ یہ تزکیے کے راستے میں ایک بہت بڑا دھوکا ہے۔ان دھوکوں سے بچنا ہے اور اپنے ساتھ نہ بےجا سختی کرنی ہے اور نہ بےجا نرمی۔جہاں تزکیے کا عمل شروع ہوگا،وہاں کئی اخلاقی عیوب سے سامنا ہوگا،ایسا محسوس ہوگا کہ ہر برائی ہمارے اندر موجود ہے۔جیسے وہ طالبعلم جوطب (medical)پڑھتے ہیں اور بیماریوں کی علامات انہیں پتہ چلتی ہیں تو بعض کا کہنا یہ ہے کہ ہر علامت پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیماری میرے اندر موجود ہے۔تزکیہ کا معاملہ بھی یہی ہے لیکن جہاں یہ چیز مفید ہے وہاں یہ چیز بعض دفعہ انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے،جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ مایوس نہ ہوں بلکہ تزکیہ نفس کی طلب پیدا کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کے بعد خود کو تھوڑا وقت دیں۔آج ہی سے یہ سلسلہ شروع کردیں۔
ان خرابیوں کو دور ہوتے ہوتے اور اندر سے نکلتے نکلتے وقت لگے گا۔اور شعوری طور پر جان لیں کہ مکمل طور پر برائیوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ہم سے فرشتہ بننے کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ہم سے کہا گیا ہے کہ تم اپنا تزکیہ کرتے رہو۔براائیوں پر نظر ضرور رکھو،انہیں پہچانو اور دور کرنے کی کوشش کرتے رہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَلَآ تُزَكُّوا أنفُسَكُمْ (النجم 32)
"اپنے آپ کو پاک مت سمجھو"
یعنی اپنی پاکیزگی کے دعوے مت کرو۔انسان تو فطرۃَََ کمزور واقع ہوا ہے اور ایک حد تک ہی پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس میں احساس اور شعور ہونا چاہئیے،شعوری طور پر اپنے آپ کو درست اور ٹھیک کرتا رہے۔جب انسان اپنے لئے اس طرح کا مبنی برحقیقت ہدف بناتا ہے تو اس کے اندر نہ جھنجھلاہٹ (frustration)پیدا ہوتی ہے اور نہ مایوسی اسے گھیرتی ہے
 
Top