NaaYa SaAl Soochein ZaRa...

  • Work-from-home

mohtarum

Newbie
Mar 31, 2007
334
126
0
48
نوروز اورمہرجان عربوں کے دوتہوار تھے جن کا وہ پورا سال شدت سے انتظارکرتے ۔جب ان تہواروں کی آمد آمد ہوتی تواس دورکے حالات کے مطابق ان کو منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتیں۔ان مواقع پر شراب وشباب کے دورچلتے۔ عرب کے مشہور شعراء کی محفلیں سجتیں جواپنے محبوب کی اداؤں کو اپنے اشعارکے پیکرمیں ڈھال کرخراج تحسین پیش کرتے۔ مختلف کھیل تماشوں کے میدان بھی لگتے۔ نوروز اور مہرجان کے تہوار عربوں میں ایران سے آئے تھے۔ ایران اس وقت قیصر کے بالمقابل کسریٰ کے نام سے دنیاکی سپرپاورتھی ۔ کسریٰ کی قلمرومیں عرب علاقے بھی تھے۔اس لئے یہاں نوروز اورمہرجان کے تہواروں کو منایاجاتاتھا۔ کسریٰ کی تہذیب اورتمدن کواختیار کرناباعث فخر سمجھاجاتاتھا۔ظاہرہے مغلوب کامذہب وہی ہوتا ہے جو اس پہ حکمرانی کرنے والے کاہو۔ غلام اسی کلچر کااسیرہوتاہے جس کے سحر میں زمام کارسنبھالنے والے نے اسے رنگ دیاہو۔ آپ ہندوستان کوہی دیکھیں۔ جب مسلمان یہاں کے حاکم تھے تو یہاں کی اقوام لباس'تراش'خراش ' طرز تعمیر 'بول چال اور دیگر معاملات میں مسلمانوں کی پیروی کرتی تھیں لیکن جب انگریز نے ہندوستان کو ڈیڑھ صدی تک اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھاتو ہمیں اپنی تہذیب دقیانوس اور انگریزی کلچر پرکشش لگنے لگا۔

فرنگی تہذیب کے سحر سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔ آج کی نسل کاطرز معاشرت' زندگی گزارنے کاسٹائل' مغرب کی اندھی تقلید کاہی نتیجہ ہے ۔کسی بھی نوجوان سے آپ اسلامی مہینوں کے یاکم ازکم حرمت والے مہینوں کے بارے میں پوچھیں توبتانہیں پائے گا بلکہ اسے تویہ علم بھی نہیں کہ اسلامی سال کاآغاز کس مہینے سے ہوتاہے۔ اس کے برعکس دسمبرکے آغاز سے ہی ہیپی نیوائیرکی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔بازارحسن کی تتلیوں کوبھاگ لگ جاتے ہیں۔ جیسے ہی رات بارہ بجے یکم جنوری کااعلان ہوتا ہے'ہرطرف طوفانِ بدتمیزی مچ جاتاہے۔ہم چونکہ مغرب سے مرعوب ہیں' ڈیڑھ سوسالہ غلامی کے جراثیم ابھی تک موجودہیں' اس لئے آقاؤں کی پیروی میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنی عزت وتوقیرسمجھتے ہیں۔کسی تہذیب کے تہوار کومنانے کامطلب یہ ہوتاہے کہ ہمیں اس تہذیب اوراس کے بانی سے محبت ہے۔غلامی نے ہماری قوم کی ذہنی اورفکری صلاحیتیں اتنی پست کردی ہیں کہ ہم کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ہیپی نیوائیر 'کرسمس اورویلنٹائن ڈے ان لوگوں کے تہوار ہیں جنہوں نے رسول اللہۖکے خاکے اورکارٹون چھاپ کرآپ ۖکی توہین کاارتکاب کیا۔

خلیفۂ راشدفاتح بیت المقدس سیدناعمرفاروق کے دیگرکارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے سن ہجری کا احیاء کیا۔ محرم الحرام اسلامی سال کاپہلامہینہ قرارپایا۔اس میں جنگ وجدل کوحرام قرار دیاگیاہے۔ لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ جیسے ہی محرم کاچاند نظرآتاہے 'عالم اسلام کی فضاسوگوار ہوجاتی ہے۔ اس ماہ مبارک کاحق توتبھی اداہوتاہے کہ ہم رونے دھونے' نوحہ اور گریباں چاک کرنے کی بجائے رکوع وسجود اور صیام وقیام سے اس کاشانداراستقبال کریں۔جس طرح محرم سے سنہ ہجری کاآغاز ہوتاہے' ایسے ہی ذوالحجہ پراختتام ہوتاہے۔ اس ماہ میں بھی جنگ وجدل کو اسلام نے حرام قراردیاہے۔ گویااسلامی سال کاآغاز واختتام امن ہے۔ یہ بات دنیاکے ان خونخوار فتنہ گروں کے لئے آئینہ ہے جنہوں نے عالمی جنگوں میں خون کی ندیاں بہائیں اور آج عراق وافغانستان سمیت عالم اسلام کوتاراج کررہے ہیں۔ان کے کیلنڈر میں توامن نام کی چیز ہی نہیں لیکن پھربھی یہ اسلام پر دہشت گردی کالیبل لگاکراسے موردالزام ٹھہراتے ہیں۔

اسلام نے امت مسلمہ کوکسریٰ کے جاہلی تہواروں اورویلنٹائن ڈے 'کرسمس کی بجائے دوتہوار عیدالفطر اور عیدالاضحی دئیے ہیں۔ ان ایام کی مناسبت سے مسلمان اپنی خوشی اور مسرت وشادمانی کااظہار کرتے ہیں۔ دوستوں اور رشتہ داروں کی دعوتیں کی جاتی ہیں ۔ نوجوان اس دن مختلف کھیل کھیلتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ عیدکے روزمسجدنبویۖ میں حبشی جہادی کھیل کھیل رہے تھے 'میںنے اپنی ٹھوڑی نبیۖکے کندھے پررکھی اور آپۖکے پیچھے کھڑے ہوکر ان کے کھیل کودیکھتی رہی۔ اس سے ثابت ہواکہ صحابہ عیدکے روز مختلف کھیل کھیلا کرتے تھے بالخصوص شمشیرزنی ۔اس تربیت کااثرتھا کہ دو نوعمرصحابہنے بدر کے میدان میں وقت کے فرعون کی رعونت کوخاک میں ملایاتھا۔ اسلام ایسادین ہے کہ اس میں داخل ہونے والے انسان کاہرعمل اگراس کی تعلیمات کے مطابق ہو تووہ نیکی ہے اور سارعواالی مغفرة کے اصول کے مطابق ہے۔ ایسانہیں کہ آپ کھاناکھاتے ہیں تواس کامقصد صرف قوت وتوانائی اورزندہ رہنے کی تگ ودوہے۔ اگربسم اللہ سے کھانے کاآغاز ہوتویہ عمل عبادت ہے۔ اسی طرح کھیل کامقصد جسمانی فٹنس کے ساتھ جہاد کی تیاری ہوتویہ کھیل کھیلنا بھی عبادت ہے۔ لیکن اس وقت تونوعیت ہی تبدیل ہوچکی ہے۔ آج ہمارے نوجوان جب بھی کوئی تہوار آتاہے توموٹرسائیکلوں کے سیلنسر نکلوا کر ٹولیوں کی صورت میں سڑکوں پراودھم مچاتے ہیں۔کئی نوجوان ون ویلنگ کرتے ہوئے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ان کی موت کاسانحہ والدین پربجلی بن کر گرتاہے اوروہ اپنے بڑھاپے کاسہارا چھن جانے کے بعدباقی عمراپنے لخت جگرکی جدائی کے غم میں روکر گزارتے ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ قوم کی ناؤکے پتوار تھامنے والے سالارانِ وقائدین مستقبل میں پیش آنے والے خطرات کی بومحسوس کرتے ہوئے کشتی کویہودونصاریٰ اور مجوس وہنود کی تہذیبی چکاچوندکے بھنور میں تباہ نہ کریں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ نسل نوکو قرآن وسنت کی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ روشناس کرایا جائے۔ان کی فکرکواسلامی اقدارکی سان پرپختہ کیاجائے تاکہ وہ مستقبل میں بہترین مسلمان بن سکیں۔

 
Top