Mirza Ghalib Ke Char Ashaar

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan

شعر غالب اور میری خیال آرائ


کسی معاملے یا مسلے کے واضح نہ ہونے کی صورت میں تذبذب کی کیفیت تکلیف دہ ہوتی ہے اور کسی غلط اقدام کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسی حالت میں ردعمل‘ جوابی کاروائ‘ بچاؤ یا تدبیر کے حوالہ سے غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ قطعی اور ضروری نہیں۔ جب معاملہ واضح ہو تو تذبذب کی حالت یا کیفیت پیدا ہونا مجبوری اور جبر کے کھاتے میں آ جاتا ہے۔ جبر اور مجبوری کے کام درست نہیں ہوتے۔ اس میں خلوص رجحان لگاؤ کمٹمنٹ اور ذہنی تعلق داری نہیں ہوتی۔ بلکہ باطنی سطع پر نفرت پنہاں ہوتی ہے۔ پریشر یا مجبوری ختم ہونے پر ردعمل سخت نوعیت کا ہوتا ہے اور نفرت صدیوں تک چلتی ہے۔ پہلی نسل کا باطن سابقہ پر برقرار رہتا ہے پہلی نسل کے ختم ہو جانے کی صورت میں دوسری نسل پکی پکی اختیاری کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہندوستان میں اس کی سیکڑوں مثالیں مل جاءیں گی۔ انگریز جب ہندوستان میں وارد ہوا جان کی سلامتی کے لیے بہت سے لوگوں نے عیسائ مذہب اختار کر لیا۔ چرچ نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ اختیاری معاملہ کئ نسلوں تک چلا۔ آج ان کی نسلیں دل و جان سے اختیاری کی ہو گئ ہیں۔ کسی مذہب نظریہ طور یا کلچر کے غلط یا سہی ہونے سے میرے موضوع کا سرے سے کوئ لینا دینا نہیں کیونکہ یہ معاملہ انگریز تک محدود نہیں یہ معاملہ تو پہلے سے بلکہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ میں یہاں تذبذب کی کارفرمائ کو واضح کرنا چاہتا ہوں۔

تذبذب کے سبب بے چینی اور پیدا ہوتی ہے۔ گھٹن ذہانت اور گزاری کی دشمن ہے۔ غالب کا یہ شعر اسی بات کو واضع کرتا ہے:
ایماں مجھے روکے ہے‘جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے‘ کلیسا‘ مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے دل اور ضمیر کی آواز۔
جو کھینچے ہے مجھے کفر چبر اور عصری صوت حال‘ عصری صورت کو دل دماغ اور ضمیر کفر سمجھ رہ ییں۔
کعبہ: ماضی اور نظریاتی ورثہ۔
کلیسا‘ مرے آگے عصری جبر کے حوالہ سے موجودہ پوزیشن
موجودہ پوزیشن
گویا
نہ جاءے ماندن نہ پاءے رفتن
آخر کریں تو کیا کریں۔ انگریز کے تسلط کے بعد یہی صورت حال تھی۔
آج بھی برصغیر میں نہ ہنس نہ بٹیر کثرت سے دستیاب ہیں۔ یہ میری خیال آرائ ہے ہو سکتا ہے غالب کے کہنے کا مطب اور مقصد کوئ اور رہا ہو۔

غالب کا عصری طاقت کے بارے اظہار خیال


طاقت اپنی ذات میں اٹل اور حرف آخر ہوتی ہے۔ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتی۔ اس کے کہے اور کیے کو آءین کا درجہ حاصل ہوتا۔ اس کی علمداری میں آنے والی ہر شے اور ہر ذی نفس اس کا تابع اور اس کے حضور جواب دہ ہوتا ہے۔ کسی کو اس کے کہے اور کیے پر لب کشائ کی اجازت نہیں
ہوتی۔ اس کے ظلم وستم پر جءے جءے کار کرنے والی زبانیں ہی سلامت رہتی ہیں۔ تنی گردنیں کٹ کراس کے جوتوں کی ٹھوکر میں ہوتی ہیں۔ معافی درگزر صبر کی دولت سے وہ محروم ہوتی ہے۔

الله کی غیرتابع طاقت کے متعلق خوش کن کلمے اس عہد کی جی حضؤری کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہیں محض افسانوی ادب سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بے بے مہاری اور غیرتابع طاقت کا سوچ اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتا۔ وہ اوروں کے لیے نہیں سوچتی اور دوسرے اس کے اہداف اور ترجیعحات میں نہیں ہوتے۔ ان کی حیثیت لیبربیز سے زیادہ نہیں ہوتی. ان کی زندگی اور موت اسی کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الله کی غیر تابع طاقت قاءم بلذات نہیں ہوتی۔ نسلوں کے بعد سہی زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔

شاعر کے پاس علامتیں استعارے اشارے اور کناءیے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے سہارے اپنے عہد کے معاملات کا اظہار کر دیتا ہے۔ غزل کا شاعر محبوب کا نام لے کر طاقت کے رویے طور اور وتیرے کا کھل کر اظہار کر دیتا ہے۔ اس کے پاس یہ بڑا کارگر اور زبردست ہھتیار ہے۔ اگر کسی عہد کی اصلی اور حقیقی صورت دیکھنا ہو تو شاعری کا پوری توجہ سے مطالعہ کیا جاءے۔ دودھ کا دودھ پانی سامنے آ جاءے گا۔ شاعر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مبالغہ کرتا ہے لیکن اس کا مبالغہ مورخ سے ٹن ٹءم کم ہوتا ہے۔
غالب دنیاءے شعر وادب میں اپنا الگ سے مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزل میں سو سے زیادہ شعر اس عہد کی تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ظفر کی شاعری گذشتہ کی شاعری ہے لیکن غالب کی شاعری بال سے باریک اور تلوار سے تیز دھار کی شاعری ہے۔ یہ بھی کہ اسے بات کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آتا ہے۔
طاقت کے بارے میں نے جو عرض کیا اس کی سند میں غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
بات پر واں زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سنا کرے کوئ

واں وہ اور کوئ قابل توجہ ہیں۔ اس سے اگلا شعر دیکھیں کس طرح پلنترا بدلا ہے:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئ

غالب دانستہ سب کچھ کہہ گیے ہیں اور اب لیپا پوچی کرنے کے ساتھ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ یہی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس ذیل میں جنوں کی قبا اوڑھ رہے ہیں۔ وہ پورے ہوش میں ہیں اورجو لکھ رہے ہیں پوری ذمہ داری سے لکھ رہے ہیں۔ پوری غزل کو دیکھ لیں اس عہد کی سچی تصویر ہے۔ لوگوں کی حالت زار کے تحت کئ رنگ اختیار کرتے ہیں۔ کبھی ناصح بنتے' ہیں کبھی مولوی تو کہیں مورخ۔ ترغیب اور بغاوت جوابی کاروائ کی تلقین بھی ملتی ہے۔ حضور کریم کی حدیث کو کوڈ کرتے ہیں۔
پہلا شعر اور آخری شعر قاری کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ شک و شبہ کی کسی سطع پر گنجاءش ہی نہیں رہتی۔

ابن مریم ہوا کرے کوئ میرے دکھ کی دوا کرے کوئ
مرض نہیں‘ دکھ۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب آخری شعر ملاحظہ ہو:
جب توقع‘ اٹھ گئ غالب کیوں کسی کا گلہ کرے کوئ
دیسی طاقت کی موت کا کھلا اعلان ہے۔ اس میں مجموعی آپسی حالات اور تعلقات کا تذکرہ بھی ہے۔ اس عہد کے مجموعی رویے اور طور وانداز کی بھی نشاندہی ملتی ہے۔ غیر متوازن منتشر اور ذات تک محدود شخصی چلن کو اس سے بڑھ کر کھلے انداز میں واضع نہیں کیا جا سکتا۔ غزل کا ہر شعر عدم آسودگی اور بےسکونی کی تصویر ہے ورنہ غالب کوئ مصلح اور عملی پیر یا صوفی نہ تھے۔ تصوف کے اشعار مل جانے کی وجہ سے انہیں خواجہ درد کی طرح کا صوفی قرار نہیں دیا سکتا۔
میرے خیال میں اس غزل کے چوتھے شعر اورمجموعی تشریح یہی بنتی ہے تاہم میرا خیال حرف آخر کا درجہ نہیں رکھتا۔

غالب کا ایک شعر

غالب کیا‘ کسی بھی شاعر کے کسی بھی شعر کی تشریع کرنا آسان کام نہیں۔ اس کی بنیادی کچھ وجوہ ہیں:
شعر تشریع کی چیز نہیں اس کا تعلق محسوس سے ہے۔

شاعر کا مجموعی مزاج ماحول اور طرز حیات جانتے ہوءے بھی لمحہ تخلیق کا اندازہ کرنا ممکن نہیں۔

شارح شاعر کے حالات وغیرہ کا پابند نہیں۔ دانستہ یا نادانستہ اپنے حالات کی نماءندگی کر جاتا ہے۔

ایک ہی عہد کی زبان تفہییمی حوالہ سے ایک نہیں ہوتی۔

لفظ جامد شے نہیں ہیں اس لیے ان کے سکے بند مفاہیم کا تعین ممکن ہی نہیں۔

امرجہ کے حوالہ سے لفظوں کا کلچر بدلتا رہتا۔

ہر کلچر بےشمار منی کلچرز سے استوار ہوتا ہے۔

لفظ استعمال کرنے والے کی انگلی پکڑتا ہے۔

جذبہ پازنجیر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے شاعری میں علاامتوں استعاروں اشاروں کناءوں کا بکثرت استعمال ملتا ہے۔

ہر کلچر کی مخصوصیات اس کلچر کے تناظر میں تبدیل ہوتی ہیں۔ مہاجر روایت کو وہاں کی مخصوصیات کی پیروی کرنا پڑتی ہے بصورت دیگر اسے رخصت ہونا پڑتا ہے۔

غرض ایسی بہت سی چیزیں جن کے حوالہ سے کسی شعر کی پکی پیڈی تشریع کوئ آسان اور سادہ کام نہیں۔ میں یہاں ظفر کے دو سادہ سے شعر پیش کرتا ہوں:

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہو گئ تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئ قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

لفظ ادھر ادھر ہو گیے ہوں تو بوڑھا سمجھ کر معاف فرما دیں۔ بڑے ہی رومان پرور شعر ہیں۔ جس عاشق کا محبوب منہ پھیر گیا ہو بلاشبہ اس کے دل ودماغ کی نماءندگی کرتے ہیں۔

1854 کے سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھیں تو مفاہیم کچھ کے کچھ ہو جاءیں گے۔ معتمد خاص اور رابطہءکار کے رویے کے حوالہ سے دیکھیں' مفاہیم یکسر بدل جاءیں گے۔

مرزا غالب کا وجود تو اس عہد میں نظر آتا ہے لیکن فکری حوالہ سے فردا کے شخص تھے۔ ایٹم بم تو کل پرسوں ایجاد ہوا غالب نے اس کا نظریہ غالبا 1835 میں دے دیا تھا۔ علامہ حالی ناصرف صاحب علم ودانش ہیں‘ غالب کے قریی بھی تھے۔ غالب فہمی کی باقاءدہ روایت بھی ان ہی سے شروع ہوئ۔ اس حقیقت کے باوجود یادگار غالب کو تفہیمی حوالہ سے حرف آخر نہیں قرار دیا سکتا۔ ان حالات کے تناظر میں مجھ بےچارے سے غالب فہمی کی توقع نادانی اور محض نادانی ہو گی۔ تاہم اپنا خیال عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

سادہ بیانی کے حوالہ سے لاجواب شعر ہے۔ ایسا کوئ لفظ موجود نہیں جس کے لیے لغت کا سہارا لازم ٹھہرتا ہو۔ لیکن اس شعر کی تفہیم اتنی سادہ اور آسان نہیں۔
سادہ بیانی رہی ہو یا مشکل پسندی‘ بنیادی چیز خیال ہے تاہم سادہ اورعام فیہم اسلوب ہر کسی کو خوش آتا ہے۔ غالب جیسا بلند فکر ہر دو صورتوں میں معمولی بات کر ہی نہیں سکتا۔ وہ جب بھی اورجو بھی کہے گا اوروں سے ہٹ کر کہے گا۔ یہ اس کی فکری مجبوری ہوتی ہے۔

اس شعر کا کی ورڈ معین ہے۔ جب تک اس لفظ کی تفہیم واضح نہیں ہو جاتی شعر کی شرح ممکن نہیں۔ یہ بھی کہ اس لفظ کے فکری کلچر تک رسائ ایک ازلی حقیقت سے وابستہ ہے۔ نیند نہ آنے کی کئ وجہ ہو سکتی ہیں مثلا ڈر خوف خدشہ تذبذب غم غصہ ناگہانی صورت پیش آنے کا احتمال وغیرہ۔ بلا شبہ موت کا ایک دن مقرر ہے لیکن اس تعین سے انسان آگاہی نہیں رکھتا اس عدم آگہی کی بکل میں ڈر خوف خدشہ تذبذب غم غصہ ناگہانی صورت پوشیدہ ہیں۔ اہل فکر کے لیے عدم آگہی سے بڑھ کر کوئ عذاب نہیں۔
حضرت علی سے ایک واقعہ منسوب ہے کہ وہ اس دن سکون کی نیند سوءے جس دن آپ کریم نے انہیں اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور فرمایا صبح کو امانتیں لوگوں کو واپس کر دینا۔ یہ تعین‘ حتمی اور یقینی بات تھی کہ وہ زندہ اور سلامت اٹھیں گے۔

یہاں ایسا تعین ہے جس کی انسان آگہی نہیں رکھتا۔ انسان نہیں جانتا کہ وہ صبح کو اٹھے گا کہ نہیں۔ اس طرح پینڈنگ کام ہو بھی سکیں گے کہ رہ جاءیں گے۔ رہ جانے کی صورت وہ کام کوئ کیوں کرے گا۔ بعض خفییہ کام ہوتے ہیں' انہیں صرف متعلقہ ہی انجام دے سکتا ہے۔ سو گیے اورصبح اٹھنا نصیب نہ ہوا تو وہ کام تو لازمی اوریقینی رہ جاءیں گے۔ نیند نہ آنے کی بنیادی وجہ عدم آگہی ہے۔ میرے علم میں یہ بات تھی کہ میں 31 مئ 2011 کو ریٹاءر ہو جاؤں گا اس لیے میں نے جملہ امور کی انجام دہی میں غفلت اور کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔ میں جانتا تھا اس تاریخ کے بعد غیر متعلق ہو جاؤں گا۔

غالب کے اس شعر میں حضرت علی کے کہے کی باذگشت واضح طور پر سنائ دیتی ہے۔ احباب پر واضح رہے یہ تفہیم میں نے اپنی فراست کے مطابق کی ہے عین ممکن ہے اس کے کہے کے پیچھے کوئ اور بات رہی ہو اس لیے اسے آخری تفہیم کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔

عزیز مکرم حسنی صاحب سلام مسنون
کیا خوب لکھا ہے آپ نے!
شعر فہمی بجائے خود ایک فن اور علم ہے۔ جیساکہ آپ نے اس کے مختلف پہلوئوں کا ذکر کرکے اس کی مشکلات کی جانب اشارہ کیا ہے ویسا ہی قاری مرزا غالب کے کلام کو پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے کلام کی جتنی شرحیں اب تک لکھی جا چکی ہیں اور برابر لکھی جا رہی ہیں کسی اور شاعر کی نہیں لکھی گئیں۔ ان کا کلام تہ در تہ زندگی ، کائنات ، فلسفہ، تصوف ، عشق و محبت ، دنیا وغیرہ کی حقیقت کھول کھول کر اور بعض اوقات رمز وکنایہ میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری کو یہ خلش لگ جاتی ہے کہ آخر اس شعر کا مطلب کیا ہے؟ ہمارے شہر کے نزدیک ایک شہر میں غالب کو سمجھنے کی خاطر چند اہل دل ہر ماہ مل بیٹھتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ جیساکہ آپ نے فرمایا ہے کسی کی تشریح حتمی نہیں ہوتی لیکن اس طرح کے تبادلہ خیال سے سوچ کی نئی راہیں تو ضرور کھلتی ہیں اور یہ بہت اہم اور نیک کام ہے۔ آپ کی تحریر بہت دلکشا اور فکر انگیز ہے۔ مجھ کو یقین ہے کہ دوست اس کو پڑھ کر غالب کے کلام سے مستفید ہوں گے اور اس کی ہمہ جہت شخصیت اور کلام سے بہرو ور بھی ہوں گے ۔شکریہ۔ سرورعالم راز

غالب اور جنت کی خوش خیالی


غالب آزاد خیال تھے یہ حقیقیت ہر شک سے بالاتر ہے۔ ہر فرقہ ہر مسلک اور ہر مذہب سے متعلق لوگ ان کے حلقہءاحباب میں داخل تھے۔ کسی قسم کی تفریق وامتیاز کے بغیر پیش آتے تھے۔ یہ سب اپنی جگہ ان کی مسلمانی پرشک کرنا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ گنہگار ہونا اور مذہب یا مذہب کے کسی حصہ سے انحراف‘ دو الگ باتیں ہیں۔

اپنے کہے کی سند میں کچھ باتیں عرض کرتا ہوں:

١۔ غالب نجف اور حرمین جانے کی شدت سے خواہش رکھتے تھے۔ اس امر کا اظہار مختف جگہوں پر ملتا ہے۔ سند میں غالب کا یہ شعر ملاحظہ فرماءیں:
مقطع سلسلہءشوق نہیں ہے یہ شہر
عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو

٢۔ بہادر شاہ ظفر نے جب حج کرنے کا قصد کیا تو غالب نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کی۔ سند میں یہ شعر ملاحظہ ہو:
غالب! اگر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی

٣۔ ان کی پوری زندگی میں ایسا کوئ واقعہ نہیں ملتا جس سے اسلام سے انحراف واضح ہوتا ہو۔ ان کی زبان سے نکلا کوئ لفظ بھی ریکار
ڈ میں نہیں ملتا جس سے اسلام سے پھرنے یا اس ذیل میں انحراف کا پہلو سامنے آتا ہو۔

لفظ جب کسی دوسری زبان میں مہاجرت اختیار کرتے ہیں تو وہ اپنی اصل زبان کا کلچر وغیرہ برقرار نہیں رکھ پاتے۔ لفظ حور عربی ہے‘ یہ عربی میں جمع ہے اور جنت کی عورت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو میں یہ واحد استغمال ہوتا ہے اور اس سے مراد خوبصورت عورت لی جاتی ہے۔ ایک ہی کیا ہزاروں لفظ دوسری زبانوں میں جا کر مفاہیم استعمال تلفظ ہیءت وغیرہ کھو دیتے ہیں۔ وٹران و سپٹران کس انگریزی کے لفظ ہیں۔ لفظ ہند کے عربی فارسی اور اردو مفاہیم قطعی الگ سے ہیں۔ ہونسلو کس عربی کا ہے۔ فرمایے عینک کس زبان کا لفظ ہے۔ یہ عین اور نک سے ترکیب پایا ہے۔ قلفی کوئ لفظ ہی نہیں لیکن مستعمل ہے۔ تابعدار کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ اپنی حقیقت میں غلط نہیں۔ میں اس ذیل میں کئ مثالیں دے سکتا ہوں۔

قرآن مجید کا ہر لفظ‘ اس پر ایمان رکھنے والوں کے لیے ہر شک سے بالا ہے تو پھر غالب کس طرح کہتے ہیں:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

قرآن میں جنت کے حوالہ سے جو بھی کہا گیا ہے‘ واضح کہا گیا ہے۔ کسی سطع پر ابہام پیدا نہیں ہوتا۔ جب ابہام نہیں تو غالب اس طرح کی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ غالب کی مسلمانی مشکوک نہیں۔ آدھی مسلمانی بھی اس طرح کی باتیں نہیں کرتی۔

یہ قرآن مجید والی جنت مراد نہیں۔ یہ شعر غالبا 1821 کا ہے اور یہ دور شاہ عالم ثانی کا ہے۔ شاہ عالم ثانی شاعر تھا اور آفتاب تخلص کرتا تھا۔ اس عہد کے شعرا‘ خود آفتاب کے ہاں لفظ جنت کئ معنوں میں باندھا گیا ہے۔ غالب کے ہاں ان معروضات کے تناظر میں لفظ جنت کے معنوں دریافت کر لیں:

١۔ یہ شدید افراتفری کا دور تھا۔ اندرونی بیرونی قوتیں برسرپیکار تھیں۔ اس کے ساتھ ہی اصلاح احوال کے داعی بھی کوشاں تھے۔
لوگ امید کر رہے تھے کہ یہ خطہ پھر سے امن و سکون کا گہوارہ بن جاءے گا۔ لفظ جنت امن و سکون کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے۔

٢۔ مغربی تہذیب اور مغرب والوں کو بھی سکون اور ترقی کا منبع سمجھا گیا ہے اور یہ خوش فہی آج بھی موجود ہے۔

٣۔برصغیر بلاشبہ جتت نظیر خطہ ارض ہے۔ وساءل قدرت‘ مین پاور‘ ذہانت‘ محنت‘ کوشش‘ موسموں وغیرہ کے حوالہ سے کوئ خطہ اس کے جوڑ کا نہیں۔ پوری دنیا کو غلہ سبزیات یہاں سے فراہم ہوتی تھیں اور آج بھی صورت مختلف نہیں۔ اس دور کے حالات میں اسے جنت نظیر کہنا خوش طبعی سے زیادہ بات نہ تھی۔

٤۔ اہل صوف کے ہاں جنت کے معنی الگ سے ہیں۔ حالات سے تنگ ہو کر لوگ دنیا تیاگنے پر مجبور ہو گءے تھے۔ گویا تصوف کی آغوش ہی باقی رہ گئ تھی۔

درج بالا معروضات کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غالب اپنے اس شعر میں کس جنت کو خوش خیالی کا نام دے رہے ہیں۔غالب کے شعر کی یہی شرح بنتی ہے‘ مجھے قطعا اصرار نہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ان توجہحات کی روشنی میں غالب کی فکر تک رسائ کی کوئ راہ نکل آءے۔

















 
Top