Khail

  • Work-from-home

Queer

Newbie
May 8, 2016
9
4
53
اجمل سکول سے گھر آیا دروازے کا لاک کھول کے گھر میں داخل ہوا دیکھا گھر کوئی نا تھا۔
اس نے بیگ میز پر رکھا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا اس کی نظر زمین پر پرے ہوئے گلاس پر پری جو پلاسٹک کا تھا۔
وہ اس کو اٹھا کے اس کی جگہ یعنی برتن والی ٹوکری پے رکھنے کی بجائے اس کو پاوں کے ساتھ زور دار ٹھوکریں لگا کے اس کے ساتھ کھیلنے لگا۔
وہ پلاسٹک کا گلاس کبھی دیوار پے لگتا کبھی کسی کمرے میں جاتا کبھی کہیں۔
پھر اچانک اک زور دار ضرب سے دیوار کچن کی طرف گیا اور کچن کے اندر دیوار کے ساتھ لگ کے قدرتی طور پے برتن والی ٹوکری میں جا گرا۔
اجمل دل ہی دل میں سوچنے لگا کیسا اس کو اپنی جگہ پے رکھا کھیل بھی لیے اور گلاس بھی اپنی جگہ جا گرا۔
پھر کچھ دن گزرے وہ گھر آیا اس نے دیکھا کے پھر اک گلاس زمین پر گرا ہوا ہے۔
وہ اپنا بیگ جلدی سی میز پر رکھ کے اس کو وہی پرانے طرز عمل سے ٹھوکر یہ مارنے لگتا ہے۔
اس دفعہ اس کی ٹھوکر سے دیوار باتھ روم میں جا گرتا ہے۔
وہ جاتا ہے گلاس اٹھا کے باہر پھنک دیتا ہے۔
کیوں کے اب وہ استعمال کے قابل نہیں رہتا۔
کچھ عرصے بعد وہ پھر گھر آنے پہ اک گلاس گرا ہوا دیکھتا ہے
مگر اس دفعہ گلاس پلاسٹک کی بجائے کانچ کا ہوتا ہے۔ مگر وہ اس بات کی پرواہ کیے بغیر اس کے ساتھ پہلے کی طرح برتاو کرتا ہے
جب وہ گلاس کو ٹھوکر مارتا ہے وہ جا کر دروازے کے پاس دیوار پے لگتا ہے اور ٹوٹ کے وہی بکھر جاتا ہے۔
وہ سوچتا ہے یہ کیا ہوا پھر وہ ٹوٹے ہوئے گلاس کو سمیٹے بغیر اپنے کمرے میں جا کر بوٹ اتار کے بستر پے لیٹ جاتا ہے۔
تھوری دیر بعد دروازے پے گھنٹی بجتی ہے۔
وہ اس کو جلدی سے دروازہ کھلنے کے لیے اٹھتا ہے اور جوتا پہنے بغیر دروازے کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتا کے راستے میں اس نے جو گلاس تورا ہے وہ بکھرا پرا ہے
یونہی وہ دروازے کے قریب جاتا وہ بکھرا ہوا کانچ اس کے پاوں میں لگتا اس کا پاوں زخمی ہو جاتا ہے ۔
وہ غصے سے بکھرے ہوئے کانچ کی طرف دیکھتا اور کہتا یہ گلاس ہی نہیں سہی اپنی اس کو اس میں کوئی بھی غلطی نظر نہیں آتی
۔
کے وہ ا س کو سیدھے سے بھی اس کو رکھ سکتا تھا۔
مگر وہ یہ سوچنے کی بجائے اس کا الٹ سوچنے لگا کے کانچ کے گلاس گھر میں ہونے نہیں چاہیئے ۔
وہ پاوں پے کپڑا باندھ کے لنگڑا تا ہو کچن میں جاتا اور سارے کانچ کے برتن اٹھا کے ایک تھیلے میں دالنے لگتا ہے اک پل کے لئے بھی نہیں سوچتا کے غلطی کس کی ہے بس اس کے سر پے جنون سوار ہوتا ہے کے مجھے کانچ نے اذیت دی میں ابھ کوئی بھی کانچ کا برتن گھر میں نہیں رہنے دو گا۔۔
وہ بس یہی سمجھتا ہے کے قصور اس کانچ کے گلاس کا ہے وہ آنی غلطی تسلیم ہی نہیں کر پاتا کے بھائی تم کو اس گلاس سے کھلنے کی ضرورت کیا تھی تم کو پتا نہیں کانچ ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور اگر اس کو احتیاط سے اکٹھا نا کیا جئے تو باعث اذیت بن سکتا ہے آپ کے لئے یا کسی اور کے لئے تم سیدھے سے بھی تو اٹھا کے رکھ سکتے تھے۔

اسی طرح کچھ لوگ دوسروں کی زندگیوں کو بھٹکا ہوا ۔ گرا ہوا پا کر ان سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں
حالانکہ کے وہ سیدھے سے تھیک کر سکنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
مگر ان کے اندر کا کیڑا کیسے چین پائے۔
جب وہ دیکھتے ہیں کوئی گیرا ہوا بھٹکا ہوا ہے تو اس کے ساتھ کھلنا شروع کر دیتے ادھر سے ٹھوکر مار ادھر سے تنگ کر ادھر سے تنگ کر۔
اگر کوئی مضبوط شخصیت کا مالک ہو تو وہ کبھی کبھار سیدھا ہو جاتا ٹھوکر کھا کھا کر۔
تو اسے کہتے دیکھا تم کو ہم بس تھیک کرنا چاہتے تھے۔
ہم نے جو کچھ بھی کیا بس تمہاری بھلائی کے لیے کیا۔
اگر ہم ایسا نا کرتے تم کیسے سدھرتے ۔
ہمارا احسان مانو۔
ہم تمہارے ہمدرد اور رہبر ہیں۔
اگر کوئی ٹھوکر کھا کر مضبوط ہونے کے بعد بھی اس کا غلط مفہوم سمجھ کر اور گرتا جئے تو اسے اپنے قابل نا سمجھتے ہوئے اپنی زندگیوں سے دور پھنک دیتے ہیں۔
مگر اگر کوئی کانچ پیکر ان کو مل جائے تو اس کی طبعیت جانے بغیر اس کھلنا شروع کر دیتے ۔
جو پھر چوٹ کھانے پے ریزہ ریزہ ہو کی انہیں کی راہوں میں بکھر جاتا۔
اور اگر وہ ان کو نا سمیٹے اور ویسے بکھرا رہنے دے تو وہ پھر کانچ کا پیکر ان کو زندگی کی راہوں میں چبھتا کہتے۔
ہائے ہائے میں ہم مر گئے ۔
پھر جواب وہ ان تمام کانچ کے پیکروں کے دشمن بن جاتے۔
لوگوں میں دھوم مچا دیتے۔
اس سے بچو یہ سہی ہے ای نہیں دیکھو ہم کو چبھا ہے زخمی کیا ہے ۔
تم کو بھی کر دے گا۔
اس سے بچو ورنہ پچھتاؤ گے
ن میں ایسی ایسی خامیاں دال کر لوگوں کو بتاتے جو دنیا میں کسی کے اندر بھی نا ہو۔
بس کہتے دیکھو دیکھو لوگو میں نے تو اسے گیرا ہوا بھٹکا ہوا پایا تھا اس طرح کا تھا اس طرح کا کام کر رہا تھا۔
ہائے ہائے میری مت ہی ماری گئی تھی جو ہمدردی کر بیٹھا اس کو سدھارنے نکل پڑا ۔
ہائے یہ تو مجھے ہی زخمی کر گیا۔
اس طرح کی آہیں بھرتے جس کی حد ہی کر د گئ ہو جیسے۔
اپنا قصور تو مانتے نہیں یہ نہیں کہتے ہم نے تو کھیلنا چاہا تھا ۔
ہم نے تو سمجھا پہلے والوں کی طرح ہو گا کھیل بھی لیں گے جی بھر کے اور اسی چوٹ لگتی لگے جو ہوتا ہو سدھر گیا تھیک نا سدھار آیا تو ۔
اپنی زندگی سے نکال پھینکے گے ہمارا کیا بگڑ جانا یہ تو پہلے ہی گیرا ہوا ہے ۔
مگر ہم تو بھول ہی گئے کے یہ شیشے کا پیکر ہے ٹوٹ بھی جاتا ہے آر چبھتا بھی اگر احتیاط نا کی جائے۔
مگر بس لوگو کو اک ہی دھن سنائیں گے۔
ہائے ہائے اس سے بچو دیکھو ہم نے پہلے کتنوں کو تھیک کیا۔
یہ تو ہونے والا ہی نہیں ہائے ہائے ہمارے پے کیسا وبال بن گیا ہم نے تو بس رہنمائ کرنی چاہی تھی۔
اس کے بعد وہ سبھی کانچ پیکروں سے نفرت کرتے اور لوگوں کو ان سے روابط قائم کرنے سے روکتے۔

یہ سوچتے کہ لوگ ان کی بات مان جائیں گے۔
اگر نا مانیں تو پھر کیسی اور طرح سے ان کی دہائی دینے لگتے۔
مگر پھر بھی کچھ اہل علم ہوتے وہ بات سمجھ جاتے اور اس کی دہائی کا جواب نہیں دیتے۔

ایسے لوگ ہماری زندگیوں میں بھرے پڑے ہیں۔
جو سیدھے سے کوئی کام کسی کے کام تو بہیں آتے مگر ان کو تنہا پا کر یہ جان کر کے کوئی نہیں جانے گا پردے کے پیچھے عکس کس کا ہے۔
اپنی من مانی سے کھلنا شروع کر دیتے اگر کوئی دیکھ لے تو کہتے ہم تو بس اس کو پڑھ رہے تھے کیسا ہے اور یہ دیکھو اس میں عیب ہے۔
اور اگر کوئی نا جان پائے تو جب تک دل کرتا اس کے ساتھ کھیلتے ہیں

ایسے لوگوں کی جھوٹی دہائی کو سننے سے پہلے معاملے کو بھی اک دفعہ سمجھ لیں کہ ایسا ہو سکتا۔
کسی کی نظر سے اگر دنیا دیکھو گے تو اپنی آنکھیں اور دماغ کیسی کو عطیہ کر دو اگر تم نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کو استعمال نہیں کرنا اور سوچنا ہے وہ سہی کہہ رہا تو بھائی مہربانی کر کے عطیہ کر دیں کہیں آپ کی آنکھوں اور دماغ کو زنگ لگ گیا تو کیسی دوسرے کے بھی کام نہیں آنی
شکریا
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
Thanks for beautiful sharing
اجمل سکول سے گھر آیا دروازے کا لاک کھول کے گھر میں داخل ہوا دیکھا گھر کوئی نا تھا۔
اس نے بیگ میز پر رکھا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا اس کی نظر زمین پر پرے ہوئے گلاس پر پری جو پلاسٹک کا تھا۔
وہ اس کو اٹھا کے اس کی جگہ یعنی برتن والی ٹوکری پے رکھنے کی بجائے اس کو پاوں کے ساتھ زور دار ٹھوکریں لگا کے اس کے ساتھ کھیلنے لگا۔
وہ پلاسٹک کا گلاس کبھی دیوار پے لگتا کبھی کسی کمرے میں جاتا کبھی کہیں۔
پھر اچانک اک زور دار ضرب سے دیوار کچن کی طرف گیا اور کچن کے اندر دیوار کے ساتھ لگ کے قدرتی طور پے برتن والی ٹوکری میں جا گرا۔
اجمل دل ہی دل میں سوچنے لگا کیسا اس کو اپنی جگہ پے رکھا کھیل بھی لیے اور گلاس بھی اپنی جگہ جا گرا۔
پھر کچھ دن گزرے وہ گھر آیا اس نے دیکھا کے پھر اک گلاس زمین پر گرا ہوا ہے۔
وہ اپنا بیگ جلدی سی میز پر رکھ کے اس کو وہی پرانے طرز عمل سے ٹھوکر یہ مارنے لگتا ہے۔
اس دفعہ اس کی ٹھوکر سے دیوار باتھ روم میں جا گرتا ہے۔
وہ جاتا ہے گلاس اٹھا کے باہر پھنک دیتا ہے۔
کیوں کے اب وہ استعمال کے قابل نہیں رہتا۔
کچھ عرصے بعد وہ پھر گھر آنے پہ اک گلاس گرا ہوا دیکھتا ہے
مگر اس دفعہ گلاس پلاسٹک کی بجائے کانچ کا ہوتا ہے۔ مگر وہ اس بات کی پرواہ کیے بغیر اس کے ساتھ پہلے کی طرح برتاو کرتا ہے
جب وہ گلاس کو ٹھوکر مارتا ہے وہ جا کر دروازے کے پاس دیوار پے لگتا ہے اور ٹوٹ کے وہی بکھر جاتا ہے۔
وہ سوچتا ہے یہ کیا ہوا پھر وہ ٹوٹے ہوئے گلاس کو سمیٹے بغیر اپنے کمرے میں جا کر بوٹ اتار کے بستر پے لیٹ جاتا ہے۔
تھوری دیر بعد دروازے پے گھنٹی بجتی ہے۔
وہ اس کو جلدی سے دروازہ کھلنے کے لیے اٹھتا ہے اور جوتا پہنے بغیر دروازے کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتا کے راستے میں اس نے جو گلاس تورا ہے وہ بکھرا پرا ہے
یونہی وہ دروازے کے قریب جاتا وہ بکھرا ہوا کانچ اس کے پاوں میں لگتا اس کا پاوں زخمی ہو جاتا ہے ۔
وہ غصے سے بکھرے ہوئے کانچ کی طرف دیکھتا اور کہتا یہ گلاس ہی نہیں سہی اپنی اس کو اس میں کوئی بھی غلطی نظر نہیں آتی
۔
کے وہ ا س کو سیدھے سے بھی اس کو رکھ سکتا تھا۔
مگر وہ یہ سوچنے کی بجائے اس کا الٹ سوچنے لگا کے کانچ کے گلاس گھر میں ہونے نہیں چاہیئے ۔
وہ پاوں پے کپڑا باندھ کے لنگڑا تا ہو کچن میں جاتا اور سارے کانچ کے برتن اٹھا کے ایک تھیلے میں دالنے لگتا ہے اک پل کے لئے بھی نہیں سوچتا کے غلطی کس کی ہے بس اس کے سر پے جنون سوار ہوتا ہے کے مجھے کانچ نے اذیت دی میں ابھ کوئی بھی کانچ کا برتن گھر میں نہیں رہنے دو گا۔۔
وہ بس یہی سمجھتا ہے کے قصور اس کانچ کے گلاس کا ہے وہ آنی غلطی تسلیم ہی نہیں کر پاتا کے بھائی تم کو اس گلاس سے کھلنے کی ضرورت کیا تھی تم کو پتا نہیں کانچ ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور اگر اس کو احتیاط سے اکٹھا نا کیا جئے تو باعث اذیت بن سکتا ہے آپ کے لئے یا کسی اور کے لئے تم سیدھے سے بھی تو اٹھا کے رکھ سکتے تھے۔

اسی طرح کچھ لوگ دوسروں کی زندگیوں کو بھٹکا ہوا ۔ گرا ہوا پا کر ان سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں
حالانکہ کے وہ سیدھے سے تھیک کر سکنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
مگر ان کے اندر کا کیڑا کیسے چین پائے۔
جب وہ دیکھتے ہیں کوئی گیرا ہوا بھٹکا ہوا ہے تو اس کے ساتھ کھلنا شروع کر دیتے ادھر سے ٹھوکر مار ادھر سے تنگ کر ادھر سے تنگ کر۔
اگر کوئی مضبوط شخصیت کا مالک ہو تو وہ کبھی کبھار سیدھا ہو جاتا ٹھوکر کھا کھا کر۔
تو اسے کہتے دیکھا تم کو ہم بس تھیک کرنا چاہتے تھے۔
ہم نے جو کچھ بھی کیا بس تمہاری بھلائی کے لیے کیا۔
اگر ہم ایسا نا کرتے تم کیسے سدھرتے ۔
ہمارا احسان مانو۔
ہم تمہارے ہمدرد اور رہبر ہیں۔
اگر کوئی ٹھوکر کھا کر مضبوط ہونے کے بعد بھی اس کا غلط مفہوم سمجھ کر اور گرتا جئے تو اسے اپنے قابل نا سمجھتے ہوئے اپنی زندگیوں سے دور پھنک دیتے ہیں۔
مگر اگر کوئی کانچ پیکر ان کو مل جائے تو اس کی طبعیت جانے بغیر اس کھلنا شروع کر دیتے ۔
جو پھر چوٹ کھانے پے ریزہ ریزہ ہو کی انہیں کی راہوں میں بکھر جاتا۔
اور اگر وہ ان کو نا سمیٹے اور ویسے بکھرا رہنے دے تو وہ پھر کانچ کا پیکر ان کو زندگی کی راہوں میں چبھتا کہتے۔
ہائے ہائے میں ہم مر گئے ۔
پھر جواب وہ ان تمام کانچ کے پیکروں کے دشمن بن جاتے۔
لوگوں میں دھوم مچا دیتے۔
اس سے بچو یہ سہی ہے ای نہیں دیکھو ہم کو چبھا ہے زخمی کیا ہے ۔
تم کو بھی کر دے گا۔
اس سے بچو ورنہ پچھتاؤ گے
ن میں ایسی ایسی خامیاں دال کر لوگوں کو بتاتے جو دنیا میں کسی کے اندر بھی نا ہو۔
بس کہتے دیکھو دیکھو لوگو میں نے تو اسے گیرا ہوا بھٹکا ہوا پایا تھا اس طرح کا تھا اس طرح کا کام کر رہا تھا۔
ہائے ہائے میری مت ہی ماری گئی تھی جو ہمدردی کر بیٹھا اس کو سدھارنے نکل پڑا ۔
ہائے یہ تو مجھے ہی زخمی کر گیا۔
اس طرح کی آہیں بھرتے جس کی حد ہی کر د گئ ہو جیسے۔
اپنا قصور تو مانتے نہیں یہ نہیں کہتے ہم نے تو کھیلنا چاہا تھا ۔
ہم نے تو سمجھا پہلے والوں کی طرح ہو گا کھیل بھی لیں گے جی بھر کے اور اسی چوٹ لگتی لگے جو ہوتا ہو سدھر گیا تھیک نا سدھار آیا تو ۔
اپنی زندگی سے نکال پھینکے گے ہمارا کیا بگڑ جانا یہ تو پہلے ہی گیرا ہوا ہے ۔
مگر ہم تو بھول ہی گئے کے یہ شیشے کا پیکر ہے ٹوٹ بھی جاتا ہے آر چبھتا بھی اگر احتیاط نا کی جائے۔
مگر بس لوگو کو اک ہی دھن سنائیں گے۔
ہائے ہائے اس سے بچو دیکھو ہم نے پہلے کتنوں کو تھیک کیا۔
یہ تو ہونے والا ہی نہیں ہائے ہائے ہمارے پے کیسا وبال بن گیا ہم نے تو بس رہنمائ کرنی چاہی تھی۔
اس کے بعد وہ سبھی کانچ پیکروں سے نفرت کرتے اور لوگوں کو ان سے روابط قائم کرنے سے روکتے۔

یہ سوچتے کہ لوگ ان کی بات مان جائیں گے۔
اگر نا مانیں تو پھر کیسی اور طرح سے ان کی دہائی دینے لگتے۔
مگر پھر بھی کچھ اہل علم ہوتے وہ بات سمجھ جاتے اور اس کی دہائی کا جواب نہیں دیتے۔

ایسے لوگ ہماری زندگیوں میں بھرے پڑے ہیں۔
جو سیدھے سے کوئی کام کسی کے کام تو بہیں آتے مگر ان کو تنہا پا کر یہ جان کر کے کوئی نہیں جانے گا پردے کے پیچھے عکس کس کا ہے۔
اپنی من مانی سے کھلنا شروع کر دیتے اگر کوئی دیکھ لے تو کہتے ہم تو بس اس کو پڑھ رہے تھے کیسا ہے اور یہ دیکھو اس میں عیب ہے۔
اور اگر کوئی نا جان پائے تو جب تک دل کرتا اس کے ساتھ کھیلتے ہیں

ایسے لوگوں کی جھوٹی دہائی کو سننے سے پہلے معاملے کو بھی اک دفعہ سمجھ لیں کہ ایسا ہو سکتا۔
کسی کی نظر سے اگر دنیا دیکھو گے تو اپنی آنکھیں اور دماغ کیسی کو عطیہ کر دو اگر تم نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کو استعمال نہیں کرنا اور سوچنا ہے وہ سہی کہہ رہا تو بھائی مہربانی کر کے عطیہ کر دیں کہیں آپ کی آنکھوں اور دماغ کو زنگ لگ گیا تو کیسی دوسرے کے بھی کام نہیں آنی
شکریا
 
Top