فارسی کے پاکستانی زبانوں پر لسانی اثرات
ایران ناصرف برصغیر کا ہمسایہ ملک ہے بلکہ دونوں خطوں کا تہذیبی ثقافتی معاشی اور نظریاتی رشتہ صدیوں نہیں‘ ہزاروں سال پرانا ہے۔ یہی نہیں ان کی رشتہ دایاں بھی رہی ہیں۔ برصغیر کے یودھا جنگ سلاسل مں موجود تھے۔ بےشمار علماء کرام اور مشاءخ عظام تبلیغ اور ہدایت و رشد کے لیے یہاں شریف لاءے۔ برصغیر کی شاید ہی کوئ ولایت ہو گی جہاں ان حضرات باصفا کی تشریف آوری کے آثار موجود نہ ہوں۔.
جب بھی دو خطوں کے لوگ کسی بھی حوالہ سے‘ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں شعوری یا لاشعوری طور پر لسانی اثرات بھی قبولتے ہیں۔ جہاں آوازوں کے نظام ایک حد تک سہی‘ میں کسی بھی سطع پر سانجھ‘ ذہنی و فکری مطابقت‘ نظریاتی قربت یا پھر رشتہءالفت موجود ہو تو وہاں لسانی معاملات اور بھی آسان ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں مترادف اور متبادل آوازوں کا استعمال عام ہو جاتا ہے۔ دوسری زبانوں کی آوازوں کو بھی قبولا جاتا ہے۔ لفظوں کی اشکالی تبدیلی‘ لفظوں کے الگ سے تلفظ اور نءے مفاہیم روزمرہ کا حصہ بن جاتا ہے۔
فارسی شعروادب کی ہمہ گیری اور آفاقی صلاحتوں نے برصغیر کی تقریبا تمام زبانوں کو لسانی حوالہ سے متاثر کیا۔ ہر زبان کا‘ جواس سے مخصوص ہوتا ہے اپنا ذاتی مزاج‘ کلچر اور نفسیات ہوتی ہے۔ شعوری اور لاشعوری طور پر دونوں خطوں کے لوگ ایک دوسرے کا کلچر نفسیات قبول کرتے رہے ہیں اور یہ چیز آتے وقتوں میں ناصرف فکری سطع پر ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے بلکہ اس سے زبانوں کو دسعت ثروت گہرائ جلا اور نکھار میسر آتا ہے۔
فارسی کا بلاشبہ اچھے وقتوں میں برصغیر کی ہر چھوٹی بڑی ولایت میں طوطی بولتا تھا۔ مہاجر قوتوں نے اس کی بیخ کنی میں اپنی سی قوت صرف کر دی۔ مقامی بولیوں اور زبانوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائ کی لیکن قدم جمنے کے بعد ان کا کیلے کے چھلکے سے بھی بدتر حال کیا۔ اکثر سے زیادہ قومی غدار حضرات کا بھی یہی حال کیا۔ فارسی سے متعلق باتیں عام کر دیں۔ پڑھو فارسی بیچو تیل۔ بعد ازاں انہیں محاورے کا درجہ حاصل ہو گیا۔
ان تمام باتوں کے باوجود فارسی تمام زبانوں میں زندہ رہی۔ آج فارسی الفاظ سابقے لاحقے وغیرہ عدم مانوسیت کا شکار نہیں ہوءے۔ اس سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فارسی روح و جسم کے حوالہ سے کتنی توانا ہے اور برصغیر والے فکری اور ثقافتی سطع پر اہل فارس سے کتنا قریب ہیں۔ اس ناچیز مضمون میں چند زبانوں اور بولیوں پر فارسی کے اثرات کے حوالہ سے چند معروضات پیش کی گئ ہیں۔ یقین ہے اہل دانش حضرات بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کریں گے۔
جب بھی دو خطوں کے لوگ کسی بھی حوالہ سے‘ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں شعوری یا لاشعوری طور پر لسانی اثرات بھی قبولتے ہیں۔ جہاں آوازوں کے نظام ایک حد تک سہی‘ میں کسی بھی سطع پر سانجھ‘ ذہنی و فکری مطابقت‘ نظریاتی قربت یا پھر رشتہءالفت موجود ہو تو وہاں لسانی معاملات اور بھی آسان ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں مترادف اور متبادل آوازوں کا استعمال عام ہو جاتا ہے۔ دوسری زبانوں کی آوازوں کو بھی قبولا جاتا ہے۔ لفظوں کی اشکالی تبدیلی‘ لفظوں کے الگ سے تلفظ اور نءے مفاہیم روزمرہ کا حصہ بن جاتا ہے۔
فارسی شعروادب کی ہمہ گیری اور آفاقی صلاحتوں نے برصغیر کی تقریبا تمام زبانوں کو لسانی حوالہ سے متاثر کیا۔ ہر زبان کا‘ جواس سے مخصوص ہوتا ہے اپنا ذاتی مزاج‘ کلچر اور نفسیات ہوتی ہے۔ شعوری اور لاشعوری طور پر دونوں خطوں کے لوگ ایک دوسرے کا کلچر نفسیات قبول کرتے رہے ہیں اور یہ چیز آتے وقتوں میں ناصرف فکری سطع پر ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے بلکہ اس سے زبانوں کو دسعت ثروت گہرائ جلا اور نکھار میسر آتا ہے۔
فارسی کا بلاشبہ اچھے وقتوں میں برصغیر کی ہر چھوٹی بڑی ولایت میں طوطی بولتا تھا۔ مہاجر قوتوں نے اس کی بیخ کنی میں اپنی سی قوت صرف کر دی۔ مقامی بولیوں اور زبانوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائ کی لیکن قدم جمنے کے بعد ان کا کیلے کے چھلکے سے بھی بدتر حال کیا۔ اکثر سے زیادہ قومی غدار حضرات کا بھی یہی حال کیا۔ فارسی سے متعلق باتیں عام کر دیں۔ پڑھو فارسی بیچو تیل۔ بعد ازاں انہیں محاورے کا درجہ حاصل ہو گیا۔
ان تمام باتوں کے باوجود فارسی تمام زبانوں میں زندہ رہی۔ آج فارسی الفاظ سابقے لاحقے وغیرہ عدم مانوسیت کا شکار نہیں ہوءے۔ اس سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فارسی روح و جسم کے حوالہ سے کتنی توانا ہے اور برصغیر والے فکری اور ثقافتی سطع پر اہل فارس سے کتنا قریب ہیں۔ اس ناچیز مضمون میں چند زبانوں اور بولیوں پر فارسی کے اثرات کے حوالہ سے چند معروضات پیش کی گئ ہیں۔ یقین ہے اہل دانش حضرات بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کریں گے۔