Ehsaas..................., ادبی ڈائری-

  • Work-from-home

Dark

Darknes will Fall
VIP
Jun 21, 2007
28,885
12,579
1,313
کچھ لوگ پیدا ہوتے ہی کہانیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ شاید ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ آنکھیں کھولیں، تو دور تک کہانیوں کی چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ ’طلسم ہوشربا‘ کے کرداروں کی طرح گھر اور آس پاس سے جڑا ہر کردار جادو جگاتا، نظروں کے آگے آکر اپنے کھیل دکھاتا، میرے لیے طرح طرح کی دلچسپیوں کے سامان مہیا کر رہا تھا۔ آپ کو بتاؤں، یہاں ڈکینس ہوتا تو وہ کتنے ہی دٹیل آف ٹو سیٹیز، پکوِک پیپر، ڈگریٹ ایکس پیک ٹیشن، ہائی ٹائمس لکھ ڈالتا— گیریل گار سیامارکیز ہوتا تو وہ اپنی اُداسی کے سو سال (One hundred years of solitude) کا دوسرا حصہ لکھنے بیٹھ جاتا— کہ یہ گھر جہاں میںپیدا ہوا، سو برسوں کی اداسیوں سے بھی زیادہ پرانا تھا۔ اور ان خستہ محرابوں، شکستہ درو دیوار میں جانے کتنی ہی کہانیاں دفن تھیں۔ اب یہاں حویلی جیسا کچھ بھی نہ تھا، مگر یہ گھر ’کوٹھی‘ کہلاتا تھا— بڑے محراب نما دروازے پر لٹکتا ہوا پرانا ٹاٹ کا پردہ، میری کہانیاں اسی پردے کے اندر باہر جھانکتی بڑی ہوئیں:
’’یہاں سے گل مہر کے پیڑ نہیں جھانکتے—
’سرو‘ کے پیڑوں کی قطار نظر نہیں آتی
نظر آتا ہے صرف اندھیرا / گھنے بادلوں کے درمیان کہیں چھپ گئی ہے/ روشنی/
زندگی تلاش کرنے والے چہروں میں/ گم ہوتی جارہی ہیں/ میری کہانیاں،‘
بستر پر بیٹھی بیٹھی، ہاتھوں سے مکھیاں اڑاتی، مریم مریم کا ورد کرنے والی بوڑھی دادی ، امّاں۔ اپنے آپ سے زوردار آواز میں باتیں کرنے والی نانی اماں۔ جانوروں سے دوستی گانٹھنے والی، اُن سے انسانوں کے انداز میں باتیں کرنے والی فضیلن بوا، میں آہستہ آہستہ ان کرداروں میں اُتر رہا تھا۔
اس ایک گھر میں کتنے گھر آباد تھے۔ جیسے مہانگروں میں کالونیاں ہوتی ہیں۔ ان کالونیوں کے دروازے الگ الگ ہوتے ہیں۔ اور ان الگ الگ دروازوںمیں اجنبیت کی نظمیں ہوتی ہیں۔
’غیریت‘ کی آیتیں ہوتی ہیں۔ مگر یہاں.
کالونیوں میں، جگمگاتے ستارے نظر نہیں آتے۔
نیلگوں آسماں نظر نہیں آتا۔
کالونیوں میں ’’اُوسارے‘‘ نہیں ہوتے— آنگن نہیں ہوتا— وہ چھت بھی نہیں ہوتی، جس پر ایک پلنگڑی یا چارپائی بچھی ہوتی ہے اور چھت سے ’آنکھوں جتنے فاصلے‘ پر ٹمٹماتے تارے بھی نہیں ہوتے ہیں۔ وہ مانوس سی جانی پہچانی تاریکی بھی نہیں ہوتی ہے، جس میں خواب بُنتے ہیں یا بُنے جاتے ہیں—
تب پہلی بار ایک خواب ’بُنا‘ تھا— اسی تاروں کی بارات والے قافلے کو دیکھتے ہوئے— اُسی پلنگڑی پر لیٹے لیٹے، تاریکی میں بند آنکھوں میں، ’’میدے‘‘ کی چھوٹی چھوٹی ’لوئیوں‘ کی طرح کچھ خوابوںکو گوندھا تھا.
’میں لکھنا چاہتا ہوں۔‘
تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں میں
زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو
جو میری سوچ میں عید کی سویّوں کی طرح الجھ گئی ہیں.‘
لگاتھا، یہاں سے آنکھوں جتنے فاصلے پر، پھیلے آسمان تک میری آواز گونج گئی ہو.
’’سنو، میں لکھنا چاہتا ہوں.
تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں.
میں لکھنا چاہتا ہوں کہ.‘‘
ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ رات گا رہی تھی. ہوا گنگنا رہی تھی۔ آنگن میں تنہا امرود کا درخت تیز ہوا سے ڈول رہا تھا. اور وہاں. دور. فلک پر . تاروں کے قافلے سے ذرا الگ. وہ سات تارے ’بنات النعش‘. ﴿وہ سات ستارے جو ایک ساتھ آسمان پر شمال کی سمت میں دکھائی دیتے ہیں۔﴾. اور وہ. اُداس سا قطب تارا.
میری آواز جیسے کہکشاں میں تیر گئی ہو.
’سنو‘ میں لکھنا چاہتا ہوں‘
تمہیں! تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں میں.‘
چھوٹا سا شہر، آرا—
محلہ مہادیوا کی پتھریلی سڑک۔ سڑکوں سے گزرتی گاڑیاں، بیل گاڑیاں، ٹم ٹم، زیادہ تر پیدل چلتے مسافر‘ سائیکل سوار۔ لیکن تب، اس کی نازک سی دہلیز پر سب سے زیادہ چاہت پیدا ہوئی تھی— تو کسی ڈاکیے کے لیے۔
تب— وحشت کا گیارہواں سال تھا—
تب پہلی کہانی لکھی تھی—
تب— پہلی بار اس شہر میں سب سے زیادہ الگ ہونے کا احساس پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس احساس نے مجھے کتنی جلد، میری اوقات بتا دی تھی۔
دوپہر دو بجے کا وقت۔ گرمی، مئی جون کا مہینہ۔ تیز چلتی ہوئی لو، سڑک جیسے آگ اُگل رہی ہے۔ اس دن چھٹی تھی۔ اس دن میں اسکول نہیں گیا تھا۔ آنکھوں میں رہ رہ کر انتظار کی گرد پڑی جارہی تھی.
ڈاکیہ آگیا ہے.
اور ڈاکیہ سچ مچ آگیا۔ ایک لفافہ میرے ہاتھ میں تھما گیا۔ میں رہ رہ کر‘ وہیں کھڑا کھڑا لفافے کو دیکھتا ہوں۔ اس میں میرا نام لکھا ہے. میرا نام. وہیں کھڑا کھڑا بار بار اپنا نام پڑھتا ہوں۔ م. مشر.رف. عالم . ذو. قی. ارے سچ مچ یہ تومیرا نام ہے. ارے واہ یہ خط تو میرے نام کا ہے. یہ کسی رسالہ سے آیا ہوا، میرے نام کا آیا ہوا پہلا خط تھا۔ رسالہ تھا۔ پیام تعلیم۔ اس وقت اس کے مدیر تھے — حسین حسان ندوی ﴿شاید‘ اگر میں نام نہیں بھول رہا ہوں﴾
ظاہر ہے ، یہ خط میری پہلی لوٹائی گئی کہانی کے بارے میں تھا۔ چند نصیحتیں تھیں۔ اور . مگر یہ خط دہلی سے آیا تھا۔ میں دہلی نہیں گیا تھا۔ مگر میری کہانی دہلی تک کا سفر طے کر کے واپس آئی تھی۔ یہ میرے لیے بڑی بات تھی. دلچسپ بات تھی.
میں بار بار مڑی تڑی اپنی کہانی کو دیکھتا تھا اور کہانی کے ساتھ منسلک خط کو۔
میں ان لوگوں میں رہا ہوں، جنہوں نے کبھی نقادوں اور مدیروں کی ’پرواہ‘ نہیں کی۔ بچپن سے بس ایک ہی بات گانٹھ کی طرح بندھی رہ گئی تھی— سب سے بڑی چیز کرئیشن ہے— تخلیق ہے۔ جو تخلیق کرتا ہے، اس کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ نقاد ہوں، چاہے مبصر، تخلیق کار کے ’منصب‘ کی دہلیز کو کبھی نہیں چھو سکتے۔
کہانی ایک بار شایع ہوگئی تو پھر لکھنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔ اُن دنوں چھٹے یا ساتویں درجہ میں تھا۔ بچوں کے جو بھی رسائل شایع ہوتے تھے، میں کہانیاں بھیجا کرتا تھا۔ اسکول سے ’ٹفن‘ کے وقت میں گھر آجایا کرتا— گھر کا ایک دروازہ ایک تنگ سی، بدبودار گلی کی طرف کھلا کرتا تھا۔ یہ شارٹ کٹ تھا۔ میں اسی راستے سے ٹفن میں دوڑا دوڑا گھر آتا۔ زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتا۔ دروازہ کھولنے والی زیادہ ترمیری بہنیں ہوتیں۔ دروازہ کھلتے ہی میں اُن آنکھوں میں ایک طنز یہ چمک دیکھتا۔
’مُنّا، تمہاری ایک کہانی واپس آئی ہے.‘
اس ذلت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ لگتا، ’کاش‘ زمین پھٹ جاتی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی بھیّا کے چہرے کی مسکراہٹ۔ اُن کی مسکراہٹ سے میرا آدھا خون سوکھ جاتا تھا۔ بھیا طنز‘ لکھتے تھے۔ ایسا طنز جسے اردو میں ’انشائیہ‘ کہتے ہیں۔ تب گھر میں اُن کی برابری چارلس لیمب اور ’ہزلٹ‘ سے ہونے لگی تھی— دوسری جانب میں تھا۔ یعنی تیز روانی میں لکھنا اور اسی سے کہانی کا روانی واپس آنا۔
ایک دن بھیّا نے مجھے روکا: فرمایا—
’اتنی ساری کہانیاں واپس آتی ہیں۔’اصلاح‘ کیوں نہیں لیتے؟‘
تب، کم عمری میں یہی ایک بات دل کو لگ گئی۔ ’اصلاح‘ کیوں نہیں لیتے۔ اندر کے ’انسان‘ نے ارادہ کرلیا— نہیں چھپونگا۔ لیکن اصلاح نہیں لوں گا۔ ﴿آج سوچتا ہوں، شاید یہ، میرے اسی ارادہ کا نتیجہ ہے۔ میں بغیر تھکے لکھے جارہا ہوں۔ اور بھیّا خاموشی کی دھند میں شاید اپنی ساری تحریریں بھول چکے ہیں۔﴾
بات 1975 کی ہے۔ میری عمر تیرہ سال کی تھی۔ ایک دن خالہ اماں میری ننیہالی‘ گاؤں ’ برہبترا‘ سے تشریف لائیں۔ وہ حیران تھیں— ایک کہانی چھپی ہے، کہکشاں میں— نام تو تمہارا ہی ہے۔‘
کہکشاں بمبئی سے شایع ہونے والا ایک فلمی رسالہ تھا، جس میں ادبی کہانیاں بھی جگہ پایا کرتی تھیں۔ کسی بھی رسالے میں شایع ہونے والا یہ میرا پہلا رومانی افسانہ تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی ایک دوسرا رومانی افسانہ ’موڑ‘ ، ’مورچہ‘، گیا سے نکلنے والے ’ہفت روزہ‘ میں شایع ہوا۔
تب گیا سے کلام حیدری ’مورچہ‘ اخبار اور ’آہنگ‘ ﴿ادبی رسالہ﴾ نکالا کرتے تھے۔ 80 کے آس پاس میں آہنگ میں چھپنے لگا تھا۔ اس وقت کلام حیدری مرحوم اور ’آہنگ‘ کی حیثیت کسی دھماکے جیسی تھی۔ ہر شمارے پر ہنگامہ رہتا تھا۔ ہر شمارہ دھماکہ خیز اور بحث کا موضوع۔ گیا، آہنگ اور کلام حیدری کی گونج ادب میں چاروں طرف تھی۔ اُن دنوں کلام حیدری نوجوان لکھنے والوں پر ’آہنگ‘ میں خصوصی گوشہ‘ شایع کر رہے تھے۔ ایک خط میرے پاس بھی آیا۔ مجھے خط کے وہ جملے آج بھی یاد ہیں— اپنی کئی چیزیں اکٹھے بھیج دیجئے، تاکہ دیکھ سکوں، آپ میں شناخت کی کیا خاص بات ہے۔‘‘
نوجوانی کا زمانہ— ’گوشے‘ میں شامل ہونے کا رقعہ۔ میں نے کئی طرح کے افسانے/ مضمون وغیرہ ’آہنگ‘ کو بھیجوا دیئے۔ اور یہ میری زندگی کا وہ برقی جھٹکا تھا، جسے اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی بھول نہیں سکا۔ ’آہنگ‘ نے میری سب چیزیں لوٹا دی تھیں۔ ساتھ میں مختصر سا، ایک خط تھا‘ جس پر صرف اتنا لکھا تھا : ’’اتنی ساری چیزیں، اُف میں تاب نہیں لاسکتا۔‘‘
میں حیران تھا۔ ایک لمحے کو، جیسے خط کا ہر لفظ بچھو بن گیا تھا۔ میں کسی بچھو گھاٹی میں تھا۔ لہو لہان. اور لفظ مجھے ڈسے جارہے تھے. ’ اُف ، میں تاب نہیں لاسکتا‘. کیا یہ آدمی کانوں کا کچا تھا؟ کسی نے میرے خلاف کان بھرے تھے۔ کہانیاں پسند نہیں آئی تھیں تو صاف لکھ دیتا کہ پسند نہیں آئیں، مجھے کوئی شکوہ نہیں ہوتا۔ بیشک، چیزوں کو پسند نا پسند کرنے کا اختیارہے۔
نفرت کی ایک تیز اندھی چلی تھی میرے اندر—
اور میں زندگی بھر کبھی اس شخص کو معاف نہیں کرسکا۔ مرنے کے بعد بھی نہیں—

میں جانتاہوں میں فرشتہ نہیں— اور میری کہانیاں انسان ہونے کے احساس سے جنم لیتی ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے کتنے ورق ہوا میں پھڑپھڑا کر اڑ گئے— میں نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ وقت اور حادثے ہر بار میری کہانیوں کو ایک نیا چہرہ سونپ جاتے— اور ہر بار نئی تخلیق کے ساتھ ہی میں رائیڈر ہیگزرڈ کے شہرہ آفاق ناول ’شی‘ کے کردار کی طرح جیسے خود کو زیادہ جوان اور اُمنگوں بھرا محسوس کرتا— جیسے وہ ہزار برس پرانی ساحرہ دھوپ کی کرنوں سے غسل کرتی ہوئی ایک نوجوان حسین لڑکی میں تبدیل ہوجایا کرتی تھی۔
میں اپنی ہر کہانی کے ساتھ جیتا ہوں— اور جیسے کہانی لکھنے کے ’آفتابی غسل‘ کے ساتھ میں ہر بار ایک نیا ذوقی بن جاتا ہوں
 
Top