کیا جانے کس خیال میں گُم تھا اسیرِو
اپنے پرَوں کو خواب میں پھیلا کے رہ گیا
٭
فصلِ گُل آئی، نشیمن جلے گئے
ہائے دیوانوں کی دور اندیشیاں!
٭
ترے وجوُد سے وابستہ ہے وجودِ حیات
اب ایک توُ جو نہیں، انجمن نہیں باقی
٭
مُجھ کو ہی طلب کا ڈھب نہ آیا
ورنہ ترے پاس کیا نہیں تھا
اپنے پرَوں کو خواب میں پھیلا کے رہ گیا
٭
فصلِ گُل آئی، نشیمن جلے گئے
ہائے دیوانوں کی دور اندیشیاں!
٭
ترے وجوُد سے وابستہ ہے وجودِ حیات
اب ایک توُ جو نہیں، انجمن نہیں باقی
٭
مُجھ کو ہی طلب کا ڈھب نہ آیا
ورنہ ترے پاس کیا نہیں تھا