اپنے حصے کی شمع تم تو جلاتے جاتے

  • Work-from-home
Sep 20, 2008
28
20
0
اپنے حصے کی شمع تم تو جلاتے جاتے،
از، نثاراحمدناز
آج جس موضع پر اپنا یہ مضمون لکھ رہا ہوں، وہ خاصا شاعرانہ ہے، ایک لمحے میں یہ موضع (اپنے حصے کی شمع تم تو جلاتے جاتے) پاکر مینے یہ جانا کہ شاید مجھے بھی شاعر بن کر غزل یا نظم مکمل کرنا پڑیگا، اور مینے وہ کیا بھی، مینے فوری طور پر چار سطروں کا قطعا مکمل کر ڈالا۔ کہ
اپنے حصے کی شمع تم تو جلاتے جاتے
میرے وطن کو اجالابھی بناتے جاتے
میری زمیں کے عدو،جوچارسو پھیلے ہیں
اپنی ہمت سے یہاں انکو مٹاتے جاتے
لیکن بعد میں مینے سوچا کہ نہیں یہاں تو کوئی مشاعرہ نہیں ہورہا ہے مجھے تو اس زبردست اور بہت ہی ذو معنی موضع پر اپنا اظھار خیال نثر میں پیش کرنا ہے، بلکل شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کی اس عظیم دعا کی طرح کہ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری، دور دنیا سے میرے دم سے اندھیرا ہوجائے ، ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے۔ اس دعا کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ پر مگر مجھے کہنے دیا جائے کے میں کہاں سے شروع کروں اس موضع پر اپنا اظہار خیال، میں کس کس کو قائل کروں کہ اے روشنیوں کے متوالو، جاگو، جاگو، جاگو، یہ اندھیرے ، جو کسی ازدھے کی مانند ، کبھی منشیات فروشوں کے روپ میں، کبھی فحاشی اور عریانی کے روپ میں، کبھی اندر میں ابلیس اور منہ میں موسا کے روپ میں، تو کبھی علم کی عظیم لو کو بجھا کر جہالت کے روپ میں، اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، ہمارے دیس کی نازک کونپلوں میں منشیات کا زہر پھیلا کر ہمارا مستقبل تاریک کر رہے ہیں،
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، صرف جلانے کی باتیں سنی ہیں، صرف مٹانے کی باتیں سنی ہیں، جلانے اور مٹانے کی باتوں میں منفی اور مثبت دونوں پہلو نمایاں ہیں، لیکن ہم نے جب بھی بات کی منفی رویوں کی باتیں کی، صرف جلاؤ گھیراؤ کی باتیں کی جلایا تو اپنی نا اہلی کی وجہ سے اپنا گھر جلا بیٹھے ، اپنا تشخص جلا بیٹھے، اور مٹائی تو اپنے وطن کے چمن کی ہریالی مٹا بیٹھے، ای کاش کوئی شمع جلاتا، صرف اندھیروں کو دور بھگانے کے لیئے، کہتے ہیں کہ لو سے لو جلتی ہے، اپنی سچایوں کو گواہ بنا کر ایک ایسا دیپ جلاتے جس سے ہمارے اس دیس سے جہالتوں، نفرتوں، وحشتوں اور دہشتوں کا اندھیرا ھمیشھ ھمیشھ کے لئے ختم ہوجاتا، اور یہاں پر ایک ایسا امن کا، وفا کا، اجالا پھیلتا جس کی روشنی سے ہماری آنے والی نسلیں زندہ وجاویداں رہتی اے کاش ہم اپنے آپ کو مٹا ڈالتے اس پاک وطن کے سچے رکھوالے بن کر، بلکل پروانے بن کر دوستو، یہاں پر ہر کوئی اپنا اپنا حصہ ملاتا ہے، کوئی اپنا حصہ ملاتا ہے اپنے حصے کی شمع جلاکر، تو کوئی اپنا حصہ ملاتا ہے اپنے حصے کی شمع بجھاکر، جس نے اپنی حصے کی شمع جلائی صرف اجالوں کے لئے، اندھیروں کو دور بھگانے کےلئے اس نے خیر کمایا، اور جس نے اپنے حصے کی شمع بجھا ڈالی صرف اندھیروں کا پجاری بن کر اندھیروں کو پھیلانے کے لیئے بلکل اندھا بن کر اس نے یقینن شر کمایا، یہ خیر اور شر کا جھگڑا تو روز ازل سے ہوتا ہواآیا ہے، یہ اجالوں اور اندھیروں کی لڑائی بھی ابد سے ازل تک چلتی رہیگی، فیصلہ میں آپ سب پر چھوڑتا ہوں، کہ کامیابی کس کے حصے میں آتی ہے، یقینن خیر کا بول ہر دور میں بالا رہا ہے، شر کو ہر زمانے میں ذلت نصیب ہوئی ہے، جیت ہمیشہ اجالوں کی ہوئی ہے، اندھیرے دم دبا کر بھاگے ہیں لیکن آج کے دور میں خصوصی طور پر پاکستان میں اپنے حصے کی شمع جلانا بھی اپنا خون جلانا ہے، کیونکہ بجلی کی روشنی لوڈ شیڈنگ کے ہتھے چڑھ گئی ہے تھوڑی بہت ملتی ہے وہ بھی اتنی مہنگی کہ سردیوں میں بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں ، پسینے کیا ہارٹ اٹیک آجاتا ہے، دیا، باتی اور تیل سے اجالا کرنے کی باتیں سب کرتے ہیں لیکن دیا جلانے کے لئے جس تیل کی ضرورت پڑتی ہے اس کی قیمتیں سن کر ہمارے پورے معاشرے کا تیل نکل جاتا ہے، اب شمع جلانے کے لئے بھی کئی بار سوچنا پڑتا ہے، ابھی حال ہی میں دیوالی کی رسم منائی گئی بجلی تو سولہ سے اٹھارہ گھنٹے نہیں ہوتی میرا ایک ہندو دوست جس نے اپنے حصے کی شمع جلائی مگر جب بہت سارے چراغ اس نے اپنے گھر کے دیواروں پر جلائے صبح جب چراغ جلانے کا حساب کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس رسم کو نباھنے کے لئے بھی بات لاکھوں تک چلی گئی ، ایسا آخر کب تک چلتا رہیگا، ہمارے قول اور فعل میں تضاد کیوں ، بات کہنا تو بہت آسان ہے، مگر اس پر عمل کرکے نبھانا بہت بہت اور بہت ہی مشکل ہے، اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوٹا، توبہ کے دروازے بند نہیں ہوئے، اپنے اپنے حصے کی شمع ہم سب کو خلوص سے ، وفا سے، محبتوں سے جلانی پڑیگی، اور اس سسٹم جو کہ بری طرح سے اندھیروں کے گرداب میں پھنس چکا ہے اسے پیار بھری ٹھنڈی روشنی سے منور کرنا پڑیگا، اسکے بعد ہی ہماری، تمہاری، اس معاشرے کی، اور اس مقدس ارض پاک کی فلاح ممکن ہے
تم کاش لٹتے چمن کے پھول مالی بنکر
اپنے لہو سے جگمگاتے اور سجاتے جاتے
کچھ نام تو ہوتا تری بےنام ہستی کا
اجڑے بہت لوگ ہیں انکو بساتے جاتے ۔
اپنے حصے کی شمع تم تو جلاتے جاتے
 
Top