ﻭﮦ ﻣﺮﯼ ﺩﺳﺘﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺩﺳﺘﺮﺱ ﮐﺎ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ
کام حرص و ہوّس کا تھوڑی ہے
عشق ہر اک کے بس کا تھوڑی ہے
اپنی تنہائی چھوڑدوں کیوں کر
ساتھ اک دو برس کا تھوڑی ہے
آہ، آزاد چھوڑ دے کہ میاں
یہ پرندہ قفس کا تھوڑی ہے
جست بھرنے کا وقت ہے تاصف
وقت یہ پیش و پس کا تھوڑی ہے
اب تو بس صُور پھونکئے کہ یہ کام
اب صدائے جرس کا تھوڑی ہے