۱۲ربیع الاول

  • Work-from-home

miao

Newbie
Apr 23, 2009
26
15
0
38
۱۲ربیع الاول کا دن نبی پاک صلی الله علیه وسلم کی زندگی میں تریسٹھ بار آیا
حضرت ابو بکر کی خلافت میں ۱۰ بار

حضرت عثمان کی خلافت میں ۱۲ بار آیا
حضرت علی کی خلافت میں ۴ بار آیا
کیا ان میں سے کسی نے عید میلادالنبی مناٰٰی؟
کیا صحابه ۔تابعین اور اعماء اربعه میں سے کسی نے یه دن منایا؟
اگر نهیں ﴿اور هر گز نهیں﴾ تو جان لیں که یه
تیسری عید بدعت هے
اور
ھر بدعت گمراھی ھے
جس کا انجام جھنم کی آگ ھے



الله ھم سب کو دین کی سمجھ عطا فرماۓ
آمین

 

سرفروش

Senior Member
Sep 18, 2009
655
851
93
Karachi
یہاں ایک غلطی کو درست کر لیا جائے
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دو سال اور تین ماہ خلیفہ رہے لہذا ان کی زندگی میں دو بار ربیع الاول آیا
ہاں آپ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا وہ دس سال چھ ماہ خلیفہ رہے ان کی زندگی میں دس مرتبہ ربیع الاول آیا
اللہ تعالی آپ کی کاوش کو قبول فرمائے

۱۲ربیع الاول کا دن نبی پاک صلی الله علیه وسلم کی زندگی میں تریسٹھ بار آیا
حضرت ابو بکر کی خلافت میں ۱۰ بار

حضرت عثمان کی خلافت میں ۱۲ بار آیا
حضرت علی کی خلافت میں ۴ بار آیا
 
  • Like
Reactions: H!N@ and yoursks

H!N@

TM Star
Jul 12, 2009
4,098
2,198
1,113
Karachi
یہاں ایک غلطی کو درست کر لیا جائے

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دو سال اور تین ماہ خلیفہ رہے لہذا ان کی زندگی میں دو بار ربیع الاول آیا
ہاں آپ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا وہ دس سال چھ ماہ خلیفہ رہے ان کی زندگی میں دس مرتبہ ربیع الاول آیا
اللہ تعالی آپ کی کاوش کو قبول فرمائے


۱۲ربیع الاول کا دن نبی پاک صلی الله علیه وسلم کی زندگی میں تریسٹھ بار آیا

حضرت ابو بکر کی خلافت میں ۱۰ بار
حضرت عثمان کی خلافت میں ۱۲ بار آیا
حضرت علی کی خلافت میں ۴ بار آیا


JazakAllah khair
 

طارق راحیل

Active Member
Apr 9, 2008
247
189
1,143
39
Karachi
(1) یومِ موسیٰ علیہ السلام منانے سے اِستدلال

یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کاد ن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ یوم عاشورہ کے روزہ کے حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :
قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة، فرأي اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال : ما هذا؟ قالوا : هذا يوم صالح، هذا يوم نَجَّي اﷲ بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسي. قال : فأنا أحق بموسي منکم. فصامه وأمر بصيامه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا : یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یوم آزادی اور یوم نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، رقم : 2644
3. ابو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567
4. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 92
2۔ ایک اور طرُق سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی اسی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں :
لما قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة. وجد اليهود يصومون عاشوراء، فَسُئِلوا عن ذلک، فقالوا : هذا اليوم الذي أظفر اﷲ فيه موسي وبني إسرائيل علي فرعون، ونحن نصومه تعظيما له، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : نحن أولي بموسي منکم. ثم أمر بصومه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ ونصرت عطا فرمائی تو ہم اس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں، (یہ ہمارا یومِ فتح ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب إتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، رقم : 1130
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444
3۔ ایک روایت میں یہودیوں کا جواب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اِس طرح منقول ہے :
فقالوا : هذا يوم عظيم، أنجي اﷲ فيه موسي وقومه، وغرق فرعون وقومه. فصامه موسي شکرا، فنحن نصومه. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فنحن أحق وأولي بموسي منکم. فصامه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وأمر بصيامه.
’’انہوں نے کہا : یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1130
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
3. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 336، رقم : 3112
مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل فرعون کے جبر و اِستبداد کا شکار تھے جس کی وجہ سے اﷲ کے دین کی پیروی ان کے لیے مشکل تھی۔ لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں وہ حسین دن بھی طلوع ہوا جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر گئے اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت اِسی دریا میں غرق ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ظلم و استبداد سے نجات اور آزادی ملی۔ فتح و آزادی کی یہ نعمت اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو یوم نجات اور یوم آزادی کے طور پر آج تک منا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اس دن کو روزہ رکھ کر منایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ اِمام طحاوی (229. 321ھ) فرماتے ہیں کہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موسی علیہ السلام کے فرعون پر غلبہ پا لینے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لیے روزہ رکھا۔
طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 132، رقم : 3209
یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء اور سید المرسلین و الانبیاء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری انسانیت کو آزادی عطا کرنے اور ہر ظلم و نااِنصافی سے نجات دلانے کے لیے تشریف لائے۔ ارشادِ ربانی ہے :
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.
’’اور (یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے، ساقط فرماتے ( اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
الأعراف، 7 : 157
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کے لیے نجات اور آزادی کی نوید تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ اﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو امت کے لیے بہت بڑے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ وہ دن جس میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے عالم انسانیت کو نواز گیا سب کے لیے تعظیم و تکریم کامستحق ہے۔ ظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم اس دن عطائے نعمتِ عظمی پر سراپا تشکر بن جائیں، اس کی تعظیم کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیں اور اِسے ہر ممکن جائز طریقے سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوب کرجشن کی صورت میں خوب دھوم دھام سے منائیں۔

---------- Post added at 12:37 PM ---------- Previous post was at 12:37 PM ----------

(2) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود نسبتِ موسیٰ علیہ السلام کے سبب سے دن منانا

مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے! لہٰذا یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمرے میں آتا ہے۔
(3) یہود یومِ عاشورہ یومِ عید کے طور پر مناتے تھے

بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہود اپنا یومِ آزادی یعنی عاشورہ کا دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن یومِ عید کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یومِ مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جا سکتا ہے۔ اگر یہود یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کرلیا جائے اور اس دن کو روزہ رکھنے کے سوا کسی اور طریقے سے نہ منایا جائے۔ احادیثِ مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اس خوشی کے موقع پر روزہ ایک اضافی نیک عمل کے طور پر رکھتے تھے اور وہ یہ دن بہ طور عید مناتے تھے۔
قبل اَز اِسلام عرب معاشرہ میں یومِ عاشورہ کے موقع پر عید منائی جاتی تھی۔ اگرچہ عربوں کا اس دن عید منانا مختلف وجوہات کی بنا پر تھا۔ (1) جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی بھی اس دن صرف روزہ نہیں رکھتے بلکہ عید بھی مناتے تھے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :
(1) اِس کی تفصیلات آئندہ صفحات میں آئیں گی۔
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان يوم عاشوراء تَعُدُّه اليهود عيدًا، قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم.
’’یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا : تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، 705، رقم : 1901
2۔ اِمام مسلم (206۔ 261ھ) نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
کان يوم عاشوراء يوما تعظّمه اليهود، وتتّخذه عيدًا، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : صوموه أنتم.
’’یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2، 796، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، رقم : 1131
2. نسائي، السنن الکبري، 2 : 159، رقم : 2848
3. طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 133، رقم : 3217
4. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 289، رقم : 8197
اِمام طحاوی (229۔ 321ھ) اِس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم صرف اِس لیے دیا تھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے۔
3۔ اِمام مسلم (206. 261ھ) نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے :
کان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتّخذونه عيدًا، ويُلْبِسُوْنَ نساء هم فيه حُلِيَّهمْ وشَارَتَهُمْ. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم.
’’اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1131
2. ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 : 212، رقم : 2575
3. إسماعيلي، معجم شيوخ أبي بکر الإسماعيلي، 3 : 722، رقم : 337
4. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اور اِمام مسلم (206۔ 261ھ) کی مذکورہ بالا روایات سے مستنبط ہوتا ہے کہ :
1۔ یومِ عاشورہ یہودیوں کے لیے یومِ نجات اور یومِ کامیابی تھا۔ وہ عرصہ قدیم سے من حیث القوم اِسے یومِ عید کے طور پر شایانِ شان طریقے سے مناتے چلے آرہے تھے۔
2۔ عید کا دن اُن کے لیے یومِ تعظیم تھا، وہ اس کا احترام کرتے اور بطور شکر و اِمتنان ایک اِضافی عمل کے طور پر اس دن روزہ بھی رکھتے تھے۔
3۔ یہ دن صرف روزہ رکھنے پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ روزہ رکھنا محض ایک اِضافی عمل تھا جو اس دن انجام دیا جاتا تھا۔
4۔ اِس حوالے سے اگر آج کوئی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اِعتراض کرے اور کہے کہ روزہ کے بغیر عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا جائز نہیں، تو یہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا اِستدلال احادیث کی روشنی میں ممکن ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشورہ یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے عید منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے۔ ’’تعظیماً لہ‘‘ اور ’’شکراً لہ‘‘ کہہ کر بہ طور تعظیم و تشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔

---------- Post added at 12:40 PM ---------- Previous post was at 12:37 PM ----------

قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے جشنِ میلاد کیوں نہیں منایا؟

محبوبِ ربّ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت باسعادت پر اِظہارِ مسرت کرنا، محافلِ میلاد منعقد کرنا اور جشنِ عید منانا ایک مومن کے لیے سب سے بڑی سعادت ہے، مگر شومیء قسمت کہ بعض لوگ اس عظیم سعادت کو خلافِ شریعت عمل قرار دیتے ہیں۔ وہ لوگ اس کے عدمِ جواز پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جشنِ میلاد قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں کے عمل سے ثابت نہیں، اس کا آغاز بعد کے اَدوار میں ہوا ہے۔ نیز یہ کہ حضور ختمی مرتبت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وِصال مبارک کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جشنِ میلاد کیوں نہ منایا؟ زیرِ نظر باب میں ہم اُس دور کے معروضی حالات کی روشنی میں اِس کے اَسباب کی توضیح بیان کریں گے۔
1۔ صحابہ رضی اللہ عنھم کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سانحۂ اِرتحال اِنتہائی غم اَنگیز تھا

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت مسلمانانِ عالم کے لیے دنیا کی تمام خوشیوں اور مسرتوں سے بڑھ کر ہے۔ قرنِ اَوّل کے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لیے بالخصوص اِس دنیائے آب و گل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے بڑی اہم خبر اور کیا ہو سکتی تھی! صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق اور جاں نثار تھے ان سے بڑھ کر اس نعمتِ عظمیٰ کا قدردان اور کون ہو سکتا تھا! اس پر اِظہارِ فرحت و مسرت جس طرح وہ کر سکتے تھے آج کے دور کے مسلمان اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اگر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تزک و اِحتشام سے نہیں منایا تو اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا دن بھی تھا، سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر غم و آلام کا ایک کوہِ گراں ٹوٹ گیا، اس لیے جب ان کی زندگی میں بارہ ربیع الاول کا دن آتا تو وصال کے صدمے تلے ولادت کی خوشی دب جاتی اور جدائی کا غم اَز سرِ نو تازہ ہو جاتا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی یادوں کے جَلَو میں بارہ ربیع الاول کا دن آتا تو خوشی و غم کی کیفیتیں مل جاتیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وصالِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد کر کے صدمہ زدہ دلوں کے ساتھ خوشی کا اظہار نہ کر سکتے تھے۔ سو وہ ولادت کی خوشی میں جشن مناتے نہ وصال کے غم میں اَفسردہ ہوتے۔
اِنسانی فطرت لمحاتِ غم میں خوشی کا کھلا اِظہار نہیں کرنے دیتی

روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ جب کسی گھر میں کسی عزیز کی وفات ہو جائے جب کہ چند دنوں کے بعد اسی گھر میں شادی کی تقریب بھی منعقد ہونے والی ہو تو عام دستور یہی ہے کہ اُس غم کے باعث شادی ملتوی کردی جاتی ہے۔ اگر شادی کی تقریب ملتوی نہ بھی کی جائے تو نہایت سوگوار ماحول میں سادگی کے ساتھ منعقد ہوتی ہے۔ لیکن اسی گھر میں اگر اس سوگوار واقعہ کے پانچ، دس سال بعد شادی ہو تو بالعموم یہی دیکھا گیا ہے کہ شادی کا اہتمام رسم و رواج کے مطابق دھوم دھام سے کیا جاتا ہے اور اس موقع پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ چند سال پہلے ان کا والد فوت ہوا تھا اب وہ دھوم دھام سے شادی کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت کے مطابق ایک عرصہ تک غم و اندوہ کا پہلو صبر و ضبط پر غالب رہتا ہے اور جوں جوں زمانہ بیت جاتا ہے صدمے کا اثر زائل ہو جاتا ہے جس کے باعث حالات معمول پر آتے ہی زندگی پرانی ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی ہے۔
2۔ کیفیاتِ غم کی شدت قرونِ اُولیٰ میں جشن منانے میں مانع تھی

بشری تقاضوں کے مطابق قرنِ اَوّل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کے غم کا پہلو زیادہ اثر آفریں تھا۔ ولادت اور وفات کا دن ایک ہونے کے باعث جب یومِ میلاد آتا تو ان پر غم کی کیفیات خوشی کی نسبت بڑھ جاتی تھیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایثار و قربانی کی ایک زندہ و تابندہ مثال تھے۔ وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنبشِ اَبرو پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ معیارِ ایمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے غایت درجہ محبت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ وصال ان کے لیے سب سے عظیم سانحہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کی اَلم ناک خبر کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر قیامت بن کر ٹوٹی ہوگی، لمحاتِ غم کی شدت میں غلاموں نے کس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ وہ تو ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے آقا کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کے جذباتی اور عشقی تعلق کی کیفیت یہ تھی کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ظاہری حیاتِ مبارکہ سے پردہ فرما گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری اور قوی دل صحابی یہ صدمہ برداشت نہ کر سکنے کے باعث خود پر قابو نہ رکھ سکے۔
صحابہ کرام اور اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنھم کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کی خبر اندوہ ناک اور ہوش رُبا تھی کیوں کہ ان کا محبوب ان سے جدا ہو گیا تھا۔ اپنی محبوب ترین ہستی کے بچھڑ جانے پر جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ ردِ عمل ایک فطری اَمر تھا، اس لیے کہ انہوں نے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنا وطن، عزیز و اَقارب، مال و دولت، بیوی بچے، الغرض سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جب وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے درمیان ظاہری طور پر نہ دیکھتے تھے تو ان کی کیفیت دگرگوں ہو جاتی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا کاری زخم بھی لگ سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جن جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ان کی ایک جھلک ذیل میں دیکھی جا سکتی ہے:
(1) سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کا سبب فراقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد اِمامِ عشاقانِ مصطفیٰ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر وقت اپنے محبوب کے ہجر میں تڑپتے تھے، اور آپ کی وفات کا سبب بھی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کا غم تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :
کان سبب موت أبي بکر موت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما زال جسمه يجري حتٰي مات.
’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا سبب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال (کا غم) تھا، یہی وجہ ہے کہ فراق میں آپ کا جسم نہایت ہی کمزور ہو گیا تھا حتی کہ آپ کا اِنتقال ہو گیا۔‘‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 63، 64، رقم : 4410
2. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 263
3. سيوطي، مسند أبي بکر الصديق : 198، رقم : 631
حضرت زیاد بن حنظلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان سبب موت أبي بکر الکمد علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا سبب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال پر ہونے والا حزن و اَلم تھا۔‘‘
سيوطي، مسند أبي بکر الصديق : 198، رقم : 632
 
Top