ہم جہاد کیوں کررہے ہیں ؟

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113
ہم جہاد کیوں کررہے ہیں ؟




جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار سے لڑنے کی اجا زت نہیں تھی جب ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور وہاں بھی کفار نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا تو اللہ تعالی نے لڑنے کی اجازت دے دی ۔


أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ
ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک ﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے
20:39

اس کے بعد اللہ تعالی نے مسلمانوں پرلڑنا فرض فرما دیا ۔

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ
( ﷲ کی راہ میں ) قتال تم پر فرض کر دیا گیا ہے
02:216


کفار سے لڑائی اس وقت تک فرض کر دی ہے جس کے مقاصد درج ذیل ہیں۔


1-
فتنے کا خاتمہ

جب تک دنیا کے کسی خطے میں کفار کے پاس وہ طاقت و شوکت موجود ہے کہ وہ اسلام کی وجہ سے کسی کو فتنہ میں مبتلا کر سکتے ہوں اگر کوئی ایمان لانا چاہتا ہو تو ان کی سزا اور تکلیف کے خوف سے ایمان لانے سے جھکتا ہو اور کوئی ایمان لے آئے تو اسے ان کے ظلم و تشدد کانشانہ بننا پڑتا ہو اس وقت تک ان سے لڑنا فرض ہے کہ اسلام لانے کی راہ کی ہر رکاوٹ (فتنہ)ختم ہو جائے ۔اللہ تعالی نے فرمایا ۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ
اور ان سے جنگ کرتے رہو حتٰی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملًا) ﷲ ہی کے تابع ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں
02:193


2-
غلبہ اسلام


جب تک تمام دنیا میں اسلام غالب نہ ہو جائے اور ہر جگہ اللہ کا قانون نافذ نہ ہو جائے کفار سے لڑتے رہنا فرض ہے ۔


وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے
08:39


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

عن ابن عمر رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :
( أمرت أن أقاتل الناس ، حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام ، وحسابهم على الله تعالى )
رواه البخاري و مسلم .
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نے لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہیں اورنماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لئے مگر اسلام کے حق کے ساتھ ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے ۔
(بخاری و مسلم )


3-
ان سے لڑتے رہنا فرض ہے


قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
(اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں
9:29


4-
کمزوروں کی مدد

جب دنیا کے کسی خطے میں کمزوروں پر ظلم ہو رہا ہو انہیں ظلم سے نجات دلانے تک لڑتے رہنا فرض ہے ۔


وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (غلبۂ دین کے لئے) اور ان بے بس (مظلوم و مقہور) مردوں، عورتوں اور بچوں (کی آزادی) کے لئے جنگ نہیں کرتے جو (ظلم و ستم سے تنگ ہو کر) پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے (وڈیرے) لوگ ظالم ہیں، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے
04:75


5-
مقتولین کا بدلہ


اگر کافر کسی مسلمان کو قتل کر دیں تو اس کا بدلہ لینا فرض ہے ۔ ہاں اگر مسلمان کو کسی مسلمان نے قتل کر دیا ہو تو دینی اخوت کی وجہ سے ویت بھی ہو سکتی ہے ‘ معانی بھی ۔ مگر کافر سے بدلہ فرض ہے الایہ کہ وہ مسلمان ہو جائے ۔


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى
اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں
2:178

2
ھجری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ تشریف لائے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ لڑنے کا نہیں تھا کفار نے آپ کو روک دیا تب بھی آپ نے لڑائی نہیں کی ۔آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا مکہ والوں نے انہیں واپس نہ آنے دیا تو مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ حضرت عثمان کو رضی اللہ تعالی عنہ قتل کر دیے گئے ہیں ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا اب ہم ان لوگوں سے لڑائی کئے بغیر نہیں جائیں گے اورآپ نے چودہ سوساتھیوں سے لڑائی کی بیعت لی ۔کفار نے یہ سنا تو جناب عثمان کو واپس دیا ۔
(مختصر سیرة الرسول اورسیرة ابن ہشام )

صاف ظاہر ہے کہ یہ بیت قصاص عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے لی گئی تھی ۔اللہ تعالی نے اس بیعت پراپنی رضا کااعلان قرآن مجید میں نازل فرمایا ۔

لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک الشجرة
(الفتح)

یقینا اللہ تعالی مومنوں سے راضی ہو گیا جس وقت وہ درخت کے نیچے تجھ سے بیت کر رہے تھے ۔

8
ھ میں آپ نے صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیر ازودی رضی اللہ تعالی عنہ کو خط دے کر بصری کے حاکم کی طرف بیجا ۔ راستے میں شرحیل بن عمرو غسانی نے جو قیصر کی طرف سے بلقاء شام کی گورنر تھا‘ انہیں گرفتار کر کے شہید کر دیا ۔آپ کو اطلاع پہنچی تو آپ کو سخت صدمہ ہوا ۔آپ نے تین
ہزار کا لشکر تیار کیا اتنا لشکر اس سے پہلے غززہ خندق کے علازہ کبھی جمع نہیں ہوا ۔زید بن حارثہ کو ان کا امیر مقر فرمایا اورانہیں حکم دیا کہ جہاں حارث بن عمیر قتل کئے گئے وہاں جا کر انہیں اسلام کی دعوت دو اگر قبول کریں تو درست ورنہ اللہ سے مدد مانگ ان سے لڑو ۔یہی وہ جنگ موتہ جس میں تین ہزار مسلمان دو لاکھ کفار سے لڑے مسلمانوں کے یکے بعد دیگرے تین امیر شہید ہوئے۔ پھر سیف اللہ خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے کمان سنبھالی اوراللہ تعالی نے فتح فرمائی ۔
(الرحیقا المختوم )

اس علاقے کے لوگوں کو مزید سبق سکھانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب انہی زید بن حارثہ کے فرزند ارجمند اسامہ کو لشکر کا امیر بنا کر روانہ فرمایا تھا ‘ جس کی تکمیل حضرت ابوبکر صدیق صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی ۔


6-
معاہدہ توڑنے کی سزا


اگر کوئی قوم مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ ڈالے تو اس سے لڑنا فرض ہے ۔

وَإِن نَّكَثُواْ أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُواْ فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لاَ أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ
اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیں
09:12


اللہ تعالی نے مسلمانوں کا عہد توڑنے والی قوم سے جنگ کرنے کی صورت میں مسلمانوں کو چھ بشارتیں بھی دیں ہیں ۔

قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
تم ان سے جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان (کے مقابلہ) پر تمہاری مدد فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینوں کو شفا بخشے گا
9:14

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 2 ھجری میں قریش مکہ سے دس سال کے لئے صلع کر لی تھی اور اس صلح میں ان کی ایسی کڑی شرط بھی قبول فرما لی تھیں جو مسلمانوں کو سخت ناگوار تھیں ۔ مگر ۸ھ میں قریش نے صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کے خلاف فوجی کاروائی میں حصہ لے کر معاہدہ صلع توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار کا جانبازوں کے لشکر کے ساتھ مکہ پرحملہ کر دیا اور مکہ فتح فرما لیا ۔


7-
دفاع کے لئے لڑنا


جب کوئی قوم مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائے تو دفاع کے لئے لڑنا فرض ہے ۔


وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور ﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک ﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
2:190


8-
مقبوضہ علاقہ چھڑوانا



اگر کفار مسلمانوں کی کسی جگہ پر قبضہ کر لیں تو انہیں وہاں سے نکالنا اور مسلمانوں کا قبضہ دوبارہ بحال کرنا فرض ہے ۔

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ
اور (دورانِ جنگ) ان (کافروں) کو جہاں بھی پاؤ مار ڈالو اور انہیں وہاں سے باہر نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا
2:191


سورة بقرہ میں طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل کی جس جنگ کا ذکر ہے وہ بھی مسلمانوں کے علاقے واپس لینے کے لئے لڑی گئی تھی۔ اللہ تعالی نے ان مجاہدوں کاقول نقل فرمایا ہے ۔


وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ ﷲ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا
ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم ﷲ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالانکہ ہمیں اپنے گھروں سے اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے


اللہ تعالی نے مسلمانوں کی تعداد اور نہایت کم ہونے کے باوجود ان کی خاص مدد فرمائی اور داﺅد علیہ السلام نے کفار کے سپہ سالار جالوت کو قتل کر دیا اور کفار کو شکست ہوئی۔
مکہ کی فتح میں کفار کے معاہدہ توڑنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی شامل تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو سر زمین مکہ سے نکالا تھا ۔


قرآن مجید سے یہ آٹھ مقاصد لکھے گئے ہیں جن کے حاصل ہونے تک اللہ تعالی نے کفار سے لڑنے رہنے کا حکم دیا ہے۔
__________________​
 

سرفروش

Senior Member
Sep 18, 2009
655
851
93
Karachi
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزا
ٍفریضہ جہاد کے اس موضوع پر کوئی روشن خیال تنقید کرسکتا ہے اگر ایسا ہوا تو میں انہیں خوش آمدید کہوں گا

 

yoursks

Always different.., Confirm
VIP
Jul 22, 2008
17,222
8,013
1,113
دعاؤں میں
jazaakAllah Khair

Allah ta'ala hamaen aakhri dam tak apne raaste maen jehaan karne ki taufeeq ataa farmaye or shahadat ki maut naseeb kare, (ameen)
 
  • Like
Reactions: سرفروش
Top