ہجرتِ مدینہ (دوم)

  • Work-from-home

Sumi

TM Star
Sep 23, 2009
4,247
1,378
113

کاشانہ ء نبوت کا محاصرہ:
کفار مکہ نے اپنے پروگرام کے مطابق کاشانہ ء نبوت کو گھیر لیا اور انتظار کرنے لگے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سو جائیں تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا جائے اس وقت گھر میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس صرف علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ کفار مکہ اگرچہ رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے مگر اس کے باوجود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس امانت رکھتے تھے۔ چنانچہ اس وقت بھی بہت سی امانتیں کاشانہ ء نبوت میں تھیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا کہ تم میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو رہو۔ اور میرے چلے جانے کے بعد تم قریش کی تمام امانتیں ان کے مالکوں کو سونپ کر مدینہ چلے آنا۔

حضرت علی ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) بستر نبوت پر:

یہ بڑا ہی خوفناک اور بڑے سخت خطرہ کا موقع تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو معلوم تھا کہ کفار مکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں مگر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ تم قریش کی ساری امانتیں لوٹا کر مدینہ چلے آنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یقین کامل تھا کہ میں زندہ رہوں گا اور مدینہ پہنچوں گا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بستر جو آج کانٹوں کا بچھونا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے پھولوں کی سیج بن گیا اور آپ بستر پر صبح تک آرام کے ساتھ میٹھی میٹھی نیند سوتے رہے۔ اپنے اسی کارنامے پر فخر کرتے ہوئے شیرخدا نے اپنے اشعار میں فرمایا کہ۔

وقیت بنفسی خیر من وطی الترٰی
ومن طاف بالبیت العتیق و بالحجر

“میں نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس ذات گرامی کی حفاظت کی جو زمین پر چلنے والوں اور خانہ کعبہ و حطیم کا طواف کرنے والوں میں سب سے زیادہ بہتر اور بلند ہیں۔ “
رسول الٰہ خاف ان یمکروا بہ
فنجاہ ذو الطول الالٰہ من المکر

“رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ اندیشہ تھا کہ کفارمکہ ان کے ساتھ خفیہ چال چل جائیں گے مگر خدا وند مہربان نے ان کو کافروں کی خفیہ چال سے بچا لیا۔ “


( زرقانی علی المواہب ج1 ص 322 )


جان ہیں جان کیا نظر آئے ؟
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بستر نبوت پر جان ولایت کو سلا کر ایک مٹھی خاک ہاتھ میں لی اور سورہ یٰسین کی ابتدائی آیتوں کو تلاوت فرماتے ہوئے نبوت خانہ سے باہر تشریف لائے اور محاصرہ کرنے والے کافروں کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان مجمع سے صاف نکل گئے نہ کسی کو نظر آئے نہ کسی کو کچھ خبر ہوئی۔ ایک دوسرا شخص جو اس مجمع میں موجود نہ تھا اس نے ان لوگوں کو خبر دی کہ محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) تو یہاں سے نکل گئے اور چلتے وقت تمہارے سروں پر خاک ڈال گئے ہیں۔ چنانچہ ان کور بختوں نے اپنے سروں پر ہاتھ پھیرا تو واقعی ان کے سروں پر خاک اور دھول پڑی ہوئی تھی۔ ( مدارج النبوۃ ج2 ص 57 )
رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے دولت خانہ سے نکل کر مقام “ حزورہ “ کے پاس کھڑے ہو گئے اور بڑی حسرت کے ساتھ “ کعبہ “ کو دیکھا اور فرمایا کہ اے شہر مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھ کو نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت پذیر نہ ہوتا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پہلے ہی قرار داد ہو چکی تھی وہ بھی اسی جگہ آگئے اور اس خیال سے کفارمکہ ہمارے قدموں کے نشان سے ہمارا راستہ پہچان کر ہمارا پیچھا نہ کریں۔ پھر یہ بھی دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پائے نازک زخمی ہو گئے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیا اور اسی طرح خاردار جھاڑیوں اور نوکدار پتھروں والی پہاڑیوں کو روندتے ہوئے اسی رات “ غارثور “ پہنچے۔ ( مدراج النبوۃ ج2ص58 )


صدیق اکبر کی جاں نثاری:
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پہلے خود غار میں داخل ہوئے اور اچھی طرح غار کی صفائی کی اور اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غار کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک سوراخ کو اپنی ایڑی سے بند کر رکھا تھا۔ سوراخ کے اندر سے ایک سانپ نے بار بار یارغار کے پاؤں میں کاٹا۔ مگر حضرت صدیق جانثار نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رحمت عالم کے خواب راحت میں خلل نہ پڑ جائے مگر درد کی شدت سے یارغار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پر نثار ہوگئے جس سے رحمت عالم بیدار ہو گئے اور اپنے یارغار کو روتا دیکھ کر بےقرار ہو گئے اور پوچھا اے ابو بکر! کیا ہوا ؟ عرض کیا کہ یارسول اللہ! مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے! یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگای دیا جس سے فوراً ہی سارا درد جاتا رہا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تین رات اس غار میں رونق افروز رہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جوان فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روزانہ رات کو غار کے منہ پر سوتے اور صبح سویرے ہی مکہ چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا تدبیریں کر رہے ہیں؟ جو کچھ خبر ملتی شام کو آکر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کر دیتے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کچھ رات گئے چراگاہ سے بکریاں لے کر غار کے پاس آ جاتے اور اب بکریوں کا دودھ دونوں عالم کے تاجدار اور ان کے یارغار پی لیتے تھے۔ ( زرقانی علی المواہب ج1ص339 )

کفار غار تک آ پہنچے:
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو غارثور میں تشریف فرما ہو گئے۔ ادھر کاشانہ ء نبوت کا محاصرہ کرنے والے کفار جب صبح کو مکان میں داخل ہوئے تو بستر نبوت پر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ ظالموں نے تھوڑی دیر آپ سے پوچھ گچھ کرکے آپ کو چھوڑ دیا پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تلاش و جستجو میں مکہ اور اطراف و جوانب کا چپہ چپہ چھان مارا۔ یہاں تک کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غارثور تک پہنچ گئے مگر غار کے منہ پر اس وقت خداوندی حفاظت کا پہرہ لگا ہوا تھا۔ یعنی غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار قریش آپس میں کہنے لگے کہ اس غار میں کوئی انسان موجود ہوتا تو نہ مکڑی جالا تنتی نہ کبوتری یہاں انڈے دیتی۔ کفار کی آہٹ پاکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کچھ گھبرائے اور کہا کہ یارسول اللہ! اب ہمارے دشمن اس قدر قریب آ گئے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں پر نظر ڈالیں گے۔ تو ہم کو دیکھ لیں گے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ۔

لا تحزن ان اللہ معنا
“مت گھبراؤ، خدا ہمارے ساتھ ہے۔ “


اس کے بعد اللہ تعالٰی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قلب پر سکون و اطمینان کا ایسا سکینہ اتار دیا کہ وہ بالکل ہی بے خوف ہو گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یہی وہ جانثاریاں ہیں جن کو دربار نبوت کے مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا خوب کہا ہے کہ،،

وثانی اثنین فی الفار المنیف وقد
طاف العدوبہ اذ صاعد الجبلا

“اور دو میں کے دوسرے ( ابوبکر ) جب کہ پہاڑ پر چڑھ کر بلند مرتبہ غار میں اس حال میں تھے کہ دشمن ان کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا۔ “
وکان حب رسول اللہ قد علموا
من الخلائق لم یعدل بہ بدلا

“اور وہ ( ابوبکر ) رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے محبوب تھے۔ تمام مخلوق اس بات کو جانتی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کسی کو بھی ان کے برابر نہیں ٹھہرایا ہے۔ “

( زرقانی علی المواہب ج1 ص 337 )
بہرحال چوتھے دن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یکم ربیع الاول دوشنبہ کے دن غارثور سے باہر تشریف لائے۔ عبداللہ بن اریقط جس کو رہنمائی کے لئے کرایہ پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نوکر رکھ لیا تھا وہ قرار داد کے مطابق دو اونٹنیاں لے کر غارثور پر حاضر تھا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ایک اونٹنی پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیٹھے اور عبداللہ بن اریقط آگے آگے پیدل چلنے لگا اور عام راستہ سے ہٹ کر ساحل سمندر کے غیر معروف راستوں سے سفر شروع کر دیا۔


سو اونٹ کا انعام:
ادھر اہل مکہ نے اشتہار دے دیا تھا کہ جو شخص محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) کو گرفتار کرکے لائے گا اس کو ایک سو اونٹ انعام ملے گا۔ اس گراں قدر انعام کے لالچ میں بہت سے لالچی لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تلاش شروع کر دی۔ اور کچھ لوگ تو منزلوں دور تک تعاقب میں گئے۔


ام معبد کی بکری :
دوسرے روز مقام قدید میں ام معبد عاتکہ بنت خالد خزاعیہ کے مکان پر آپ کا گزر ہوا ام معبد ایک ضعیفہ عورت تھی جو اپنے خیمہ کے صحن میں بیٹھی رہا کرتی تھی۔ اور مسافروں کو کھانا پانی دیا کرتی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے کچھ کھانا خریدنے کا قصد کیا۔مگر اس کے پاس کوئی چیز موجود نہیں تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کے خیمے کے ایک جانب ایک بہت ہی لاغر بکری ہے دریافت فرمایا کیا یہ دودھ دیتی ہے ؟ ام معبد نے کہا نہیں ! آپ نے فرمایا اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں ام معند نے اجازت دے دی اور آپ نے “ بسم اللہ“ پڑھ کر جو اس کے تھن کو ہاتھ لگایا تو اس کا تھن دودھ سے بھر گیا اور اتنا دودھ نکلا کہ سب لوگ سیراب ہو گئے اور ام معبد کت تمام برتن دودھ سے بھر گئے ۔ یہ معجزہ دیکھ کر ام معبد اور ان کے خاوند دونوں مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔ ( مدارج النبوۃ ج 2 ص 61) روایت ہے کہ ام معبد کی یہ بکری 18ھ تک زندہ رہی اور برابر دودھ دیتی رہی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب “ عام الرماد“ کا سخت قحط پڑا کہ تمام جانوروں کے تھنوں کا دودھ خشک ہو گیا اس وقت بھی یہ بکری صبح و شام برابر دودھ دیتی رہی۔ ( زرقانی علی المواہب ج 1 ص 346)


سراقہ کا گھوڑا:
جب ام معبد کے گھر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگے روانہ ہوئے تو مکہ کا ایک مشہور شہسوار سراقہ بن مالک بن جعشم تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر تعاقب کرتا نظر آیا قریب پہنچ کر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی۔ او وہ گھوڑے سے گر پڑا مگر سو اونٹوں کا انعام کوئی معمولی چیز نہ تھی۔ انعام کے لالچ نے اسے دوبارہ ابھارہ اور وہ حملے کی نیت سے آگے بڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے پتھریلی زمین میں اس کے گھوڑے کا پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا سراقہ یہ معجزہ دیکھ کر خوف و دہشت سے کانپنے لگا اور امان-امان پکارنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل رحم و کرم کا سمندر تھا سراقہ کی لاچاری اور گریہ وازاری پر آپ کا دریائے رحمت جوش میں آگیا۔ دعا فرمادی تو زمین نے اس کے گھوڑے کو چھوڑ دیا اس کے بعد سراقہ نے عرض کیا کہ مجھ کو امن کا پروانہ لکھ دیجیئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے سراقہ کے لئے امن کی تحریر لکھ دی۔ سراقہ نے اس تحریر کو اپنے ترکش میں رکھ لیا اور واپس لوٹ گیا راستہ میں جو شخص بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کرتا تو سراقہ اس کو یہ کہہ کر لوٹا دیتا کہ میں نے بڑی دور تک بھت زیادہ تلاش کیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف نہیں ہیں ۔ واپس لوٹتے ہوئے سراقہ نے کچھ سامان بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور نذرانہ کے پیش کیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا۔ ( بخاری باب ہجرۃ النبی ج 1 ص 554 و زرقانی ج 1 ص 346 و مدارج النبوۃ ج 2 ص 62 )
سراقہ اس وقت تو مسلمان نہیں ہوئے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت نبوت اور اسلام کی صداقت کا سکہ ان کے دل پر بیٹھ گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ اور جنگ طائف و حنین سے فارغ ہو کر “ جعرانہ“ میں پڑاؤ کیا تو سراقہ اسی پروانہء امن کو لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوگئے اور اپنے قبیلے کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ۔ ( دلائل النبوۃ ج 2 ص 15 و مدارج النبوۃ ج 2 ص 62 )


حضرت سراقہ کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن:

واضح رہے کہ یہ وہی سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالٰی ہیں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے علم غیب سے غیب کی خبر دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اے سراقہ ! تیرا کیا حال ہو گا جب تجھ کو ملک فارس کے بادشاہ کسرٰی کے دونوں کنگن پہنائے جائیں گے؟ اس ارشاد کے برسوں بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں ایران فتح ہوا اور کسرٰی کے کنگن دربار خلافت میں لائے گئے تو امیر المومنین ح&
</B>
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top