پانی

  • Work-from-home

Guriya_Rani

❥❥ღ ☆º ❥❥SuB Ki LaAdAli GuRiYa❥❥ღ ☆º ❥❥
VIP
Oct 18, 2013
24,325
8,905
1,313
عبدالرشید فاروقی، جھنگ صدر


گرمیوں کے دن تھے۔ رات کے ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا۔گھر کے سب افراد صحن میں سو رہے تھے... ایسے میں سعدیہ کی آوازگونجی:
” ابو جی.... پانی...“
لیکن ابو جی کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ وہ گہری نیند سو رہے تھے۔
سعدیہ نے انہیں دوبارہ پکارا:
”ابو جی...مجھے پیاس لگی ہے...پانی پلادیں۔“
اس بار ابو جی ذرا کسمسائے، لیکن اُٹھے نہیں...
” ابو...پانی...“ سعدیہ کی آواز اس مرتبہ قدرے اونچی تھی۔
ابو اس کی آواز سن کر آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھے:
” کیا بات ہے سعدیہ...سونے بھی نہیں دیتی۔“
اس نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے، پھر کہا:
”ابو جی ...پیاس لگی ہے... پانی پلا دیں۔“
ابو نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ منہ بناتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور فریج سے، ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی ، گلاس میں پانی ڈال کر اسے دیا۔ اس نے جلدی سے بائیں ہاتھ سے گلاس پکڑا اور لگی پانی پینے ۔
” کتنی بار کہا ہے ، سیدھے ہاتھ سے پانی پینا چاہیے۔“
” سوری ابو! بھول گئی، آیندہ غلطی نہیں ہوگی۔“ سعدیہ نے کہا اور سیدھے ہاتھ سے پانی پینے لگی۔
ابو نے اس سے گلاس لیا ہی تھا کہ ثنا کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی:
” ابو جی! مجھے بھی پانی چاہیے۔“
انہوں نے گھور کر اس کی طرف دیکھا ، پھر بغیر کچھ کہے، اسے بھی پانی پلایا اور بوتل فریج میں رکھ کر اپنے بستر کی طرف بڑھے ہی تھے کہ سائرہ کی آواز نے انہیں چونکا دیا:
” ابو جی....“
”اب تمہیں کیا ہے...“وہ زور سے بولے۔ ان کی آنکھوں میں ابھی تک نیند تھی۔
”وہ...وہ مجھے بھی پیاس لگی ہے۔“
” کیا ہے تم لوگوں کو..ایک ساتھ نہیں کہہ سکتیں۔“ انہوں نے پیر پٹخے اور ایک بار پھر فریج کی طرف بڑھے۔ بوتل میں سے پانی لے کر سائرہ کو پلایا اور جلدی سے اپنے بستر پر آگئے۔سائرہ، سعدیہ اورثنا بھی لیٹ چکے تھے۔ سب کو لیٹے ابھی چندہی لمحے ہوئے تھے کہ دفعتاً صحن میں بیگم رشید کی آواز گونجی۔ وہ کہہ رہی تھیں:
” ایک گلاس پانی چاہیے۔“
ان کی آواز سن کر رشید صاحب غصے سے اُٹھے اور پاؤں زمین پر پٹختے ہوئے فریج کی طرف گئے اور پانی لے کر بیگم کی طرف بڑھے۔ ان کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے:
” کیا آج تم لوگوں نے مجھے سونے نہیں دینا...“
” ایک گلاس پانی کیا مانگ لیا۔آپ تو غصے سے لال پیلے ہو نے لگے۔ میرا آپ پر اتنا بھی حق نہیں ہے۔“ انہوں نے پانی لیتے ہوئے برا سا منہ بنایا۔
” کیوں نہیں،سارے حق تو تم لوگوں کے ہیں۔میں تو اس گھر میں نوکری کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔“ وہ جل کر بولے۔
” کیا ہوا بھئی...ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں آپ؟“ انہوں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
” بس ایسے ہی...دماغ خراب ہوگیا ہے میرا، رات کے اس پہر۔“ انہوں نے کہا اور بوتل واپس فریج میں رکھ کرسونے کے لیے لیٹ گئے۔ وہ جیسے ہی لیٹے... خی خی کی آوازیں ان کی سماعت سے ٹکرائیں۔ انہوں نے سر گھما کر بچوں کے بستروں کی طرف دیکھا کیوں کہ خی خی کی آوازیں ادھر ہی سے آرہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ منہ سے کوئی بات نکالتے ،بیگم رشید نے جلدی سے کہا:
” لگتا ہے ...بچوں کو بھی پیاس لگی ہے...سنیے! ذرا ان لوگوں کو بھی پانی پلا دیں...رات پانی پےئے بغیر سو گئے تھے شاید۔“
” اف خدایا...یہ میں کہاں آپھنسا...“ انہوں نے اتنی زور سے کہا کہ ان کے ساتھ لیٹا ہوا ، دانیال گھبرا کر اُٹھ بیٹھا:
” کک...کیا ہوا ...ابو جی!“
”کچھ نہیں بیٹا...تم سو جاؤ۔“
”اچھا ذرا ایک گلاس پانی تو پلا دیں...بڑی پیاس لگ رہی ہے۔“
یہ سن کر ثنا، سائرہ اور سعدیہ زور زور سے ہنسنے لگے۔ ابو کے چہرے پر غصہ ہی غصہ تھا۔
دانیال اور بیگم رشید حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے....
عبدالرشید فاروقی، جھنگ صدرایک گلاس پانی...!!!
عبدالرشید فاروقی
گرمیوں کے دن تھے۔ رات کے ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا۔گھر کے سب افراد صحن میں سو رہے تھے... ایسے میں سعدیہ کی آوازگونجی:
” ابو جی.... پانی...“
لیکن ابو جی کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ وہ گہری نیند سو رہے تھے۔
سعدیہ نے انہیں دوبارہ پکارا:
”ابو جی...مجھے پیاس لگی ہے...پانی پلادیں۔“
اس بار ابو جی ذرا کسمسائے، لیکن اُٹھے نہیں...
” ابو...پانی...“ سعدیہ کی آواز اس مرتبہ قدرے اونچی تھی۔
ابو اس کی آواز سن کر آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھے:
” کیا بات ہے سعدیہ...سونے بھی نہیں دیتی۔“
اس نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے، پھر کہا:
”ابو جی ...پیاس لگی ہے... پانی پلا دیں۔“
ابو نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ منہ بناتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور فریج سے، ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی ، گلاس میں پانی ڈال کر اسے دیا۔ اس نے جلدی سے بائیں ہاتھ سے گلاس پکڑا اور لگی پانی پینے ۔
” کتنی بار کہا ہے ، سیدھے ہاتھ سے پانی پینا چاہیے۔“
” سوری ابو! بھول گئی، آیندہ غلطی نہیں ہوگی۔“ سعدیہ نے کہا اور سیدھے ہاتھ سے پانی پینے لگی۔
ابو نے اس سے گلاس لیا ہی تھا کہ ثنا کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی:
” ابو جی! مجھے بھی پانی چاہیے۔“
انہوں نے گھور کر اس کی طرف دیکھا ، پھر بغیر کچھ کہے، اسے بھی پانی پلایا اور بوتل فریج میں رکھ کر اپنے بستر کی طرف بڑھے ہی تھے کہ سائرہ کی آواز نے انہیں چونکا دیا:
” ابو جی....“
”اب تمہیں کیا ہے...“وہ زور سے بولے۔ ان کی آنکھوں میں ابھی تک نیند تھی۔
”وہ...وہ مجھے بھی پیاس لگی ہے۔“
” کیا ہے تم لوگوں کو..ایک ساتھ نہیں کہہ سکتیں۔“ انہوں نے پیر پٹخے اور ایک بار پھر فریج کی طرف بڑھے۔ بوتل میں سے پانی لے کر سائرہ کو پلایا اور جلدی سے اپنے بستر پر آگئے۔سائرہ، سعدیہ اورثنا بھی لیٹ چکے تھے۔ سب کو لیٹے ابھی چندہی لمحے ہوئے تھے کہ دفعتاً صحن میں بیگم رشید کی آواز گونجی۔ وہ کہہ رہی تھیں:
” ایک گلاس پانی چاہیے۔“
ان کی آواز سن کر رشید صاحب غصے سے اُٹھے اور پاؤں زمین پر پٹختے ہوئے فریج کی طرف گئے اور پانی لے کر بیگم کی طرف بڑھے۔ ان کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے:
” کیا آج تم لوگوں نے مجھے سونے نہیں دینا...“
” ایک گلاس پانی کیا مانگ لیا۔آپ تو غصے سے لال پیلے ہو نے لگے۔ میرا آپ پر اتنا بھی حق نہیں ہے۔“ انہوں نے پانی لیتے ہوئے برا سا منہ بنایا۔
” کیوں نہیں،سارے حق تو تم لوگوں کے ہیں۔میں تو اس گھر میں نوکری کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔“ وہ جل کر بولے۔
” کیا ہوا بھئی...ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں آپ؟“ انہوں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
” بس ایسے ہی...دماغ خراب ہوگیا ہے میرا، رات کے اس پہر۔“ انہوں نے کہا اور بوتل واپس فریج میں رکھ کرسونے کے لیے لیٹ گئے۔ وہ جیسے ہی لیٹے... خی خی کی آوازیں ان کی سماعت سے ٹکرائیں۔ انہوں نے سر گھما کر بچوں کے بستروں کی طرف دیکھا کیوں کہ خی خی کی آوازیں ادھر ہی سے آرہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ منہ سے کوئی بات نکالتے ،بیگم رشید نے جلدی سے کہا:
” لگتا ہے ...بچوں کو بھی پیاس لگی ہے...سنیے! ذرا ان لوگوں کو بھی پانی پلا دیں...رات پانی پےئے بغیر سو گئے تھے شاید۔“
” اف خدایا...یہ میں کہاں آپھنسا...“ انہوں نے اتنی زور سے کہا کہ ان کے ساتھ لیٹا ہوا ، دانیال گھبرا کر اُٹھ بیٹھا:
” کک...کیا ہوا ...ابو جی!“
”کچھ نہیں بیٹا...تم سو جاؤ۔“
”اچھا ذرا ایک گلاس پانی تو پلا دیں...بڑی پیاس لگ رہی ہے۔“
یہ سن کر ثنا، سائرہ اور سعدیہ زور زور سے ہنسنے لگے۔ ابو کے چہرے پر غصہ ہی غصہ تھا۔
دانیال اور بیگم رشید حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے
 
Top