مچھروں کی سیاست اور علاج

  • Work-from-home

Just_Like_Roze

hmmmm ...
Super Star
Aug 25, 2011
7,884
5,089
1,313
اب ہمارے ہاں مچھروں کی قسمیں نکل آئی ہیں۔ سانپوں کی کئی قسمیں ہیں۔ مگر چڑیوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ امیر کبیر لوگوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ غریبوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ ظالموں حاکموں کی قسمیں ہوتی ہیں۔ محکوم مظلوم محروم لوگوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ سیاستدانوں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ اس دور میں تو حد ہی ہو گئی ہے۔ میں کسی کا نام لوں گا تو کہیں گے کہ میڈیا ہمارے خلاف ہے۔ ہر سیاستدان سمجھتا ہے کہ میڈیا اس کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میڈیا کسی سیاستدان کے خلاف نہیں ہے۔ کچھ ”مچھر سیاستدان“ بھی ہیں۔ کچھ اب ڈینگی مچھر سیاستدان بن کے میدان میں اترے ہیں۔
ڈینگی مچھر بھی عجیب ڈنگا قسم کا مچھر ہے۔ ڈنگا پنجابی میں بدمعاش اور کمینے کو کہتے ہیں۔ جس طرح ڈینگی کا ڈنگ بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ڈینگی سیاستدانوں کے ڈنگ میں بھی بڑا زہر ہے۔ ڈینگی مچھر وی آئی پی مچھر ہے۔ اسے آپ افسر مچھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایسا بیوروکریٹ مچھر ہے جس کا تعلق براکریسی سے ہے۔ افسران تہہ و بالا اور حکمران کیا کم تھے کہ رہی سہی کسر ڈینگی مچھروں کی افسری نے پوری کر دی ہے۔
ڈینگی مادہ مچھر ہے۔ پہلے عورتوں نے مردوں کے ساتھ کیا نہیں کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“۔ مچھروں کی کائنات بھی ہو گی۔ مچھروں کی سیاست بھی ہو گی تو مکھیوں کی سیاست بھی ہو گی۔ پاکستانی سیاستدانوں نے لوگوں کو مکھی مچھر سمجھا ہوا ہے۔ ان کو کیا خبر تھی کہ یہ مچھر ڈینگی مچھر بن جائے گا۔
برادرم توفیق بٹ نے اپنے کالم میں اسے ”مچھری عذاب“ کہا ہے۔ عذاب سب کیلئے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے عذابوں کا رخ غریبوں کی طرف رہا ہے۔ سیلاب کا عذاب بھی غریبوں کیلئے آتا ہے۔ کسی امیر کبیر وزیر شذیر بے ضمیر کے محل کی چوکھٹ بھی گیلی نہ ہوئی تھی۔ مگر ڈینگی مچھر تو امیر کبیر لوگوں پر بھی جھپٹتا ہے اور ڈنگ مارتا ہے۔ یہ مچھر صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ غریبوں کو تو صاف پانی پینے کیلئے بھی میسر نہیں۔ وہ بڑی بڑی کوٹھیوں کے وسیع و عریض سرسبز شاداب لانوں میں جنم لیتا ہے۔ پارکوں میں جہاں ”بڑے لوگ“ واک کرتے ہیں۔ لاہور پر اس مچھر کی خاص نظر بلکہ ”نظر کرم“ ہے۔ غریبوں پر ایسی مصیبت ہو تو اسے نذر کرم“ کہا جاتا ہے۔ ڈینگی سے متاثرہ غریب لوگ بھی ہسپتالوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ زیادہ تعداد امیر لوگوں کی ہے۔ کچھ عورتیں بھی ان مادہ مچھروں یعنی ”مچھرنیوں“ کی ڈنگ زدہ آتی ہیں۔ آخر یہ تو ثابت کرتا تھا کہ عورت عورت کی دشمن ہے۔
لاہور میں وزیراعظم گیلانی کے سیاستدان صاحبزادے ایم پی اے عبدالقادر گیلانی کو بھی ڈینگی نے کاٹا ہے۔ وزیراعظم گیلانی حیران ہے کہ لاہور میں آصف ہاشمی کے ہوتے ہوئے ڈینگی مچھر نے میرے بیٹے کو کاٹ لیا ہے۔ اس کیلئے پنجاب حکومت کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا ہے۔ وہ شہباز تاثیر کو بھول گئے ہیں۔ راجہ ریاض تو یہ کہنے والے ہیں کہ اغوا کے دوران شہباز تاثیر کو ڈینگی نے ڈس لیا ہے اور یہ مچھر رانا ثناءاللہ نے بھجوایا تھا۔ اب مچھروں کی سیاست شروع کی گئی ہے۔ مچھروں کی تاریخ بڑی زبردست ہے۔ ابابیلوں کے لشکر نے ابرہہ کے ہاتھیوں کی فوج کو بھوسے کا ڈھیر بنا دیا۔ مچھروں کے لشکر بھی تاریخ میں نظر آتے ہیں۔ وہ کالے بادلوں کی طرح چھا جاتے تھے۔ اب اس کام کو امریکہ مصنوعی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک نمرودی مچھر بھی تھا جو خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود کے ناک میں گھس گیا اور دماغ میں داخل ہو کے گھر بنا لیا۔ اس کے ساتھ ہی قبر میں اتر گیا۔ آج بھی خدائی دعویٰ رکھنے والے بہت ہیں مگر ان کے انجام سے ان کے انجام سے ان کے جانشین عبرت نہیں پکڑتے۔
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پچھلے سال سے ڈاکٹر جاوید اکرم شور مچا رہے ہیں کہ ڈینگی کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں۔ ڈاکٹر طیبہ نے کئی ریسرچ پیپرز لکھے ہیں جو انگریزی روزنامہ نیشن میں شائع ہوتے رہے ہیں مگر شاید انتظامیہ اور افسران اخبار تو پڑھتے نہیں جب مصیبت پڑتی ہے تو وقتی طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کی ڈنگ ٹپاو کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی پبلسٹی زیادہ ہوتی ہے۔
شہباز شریف اس حوالے سے بہت سرگرم ہیں مگر افسران بروقت کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ وہ اس وقت کام کرتے ہیں جب شہباز شریف میدان میں آتے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بتایا کہ ہر روز شہباز شریف میٹنگ لیتے ہیں جس میں ڈاکٹر صاحبان اور افسران شرکت کرتے ہیں مگر ابھی تک ڈینگی مچھر پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ میڈیا نے بھی کچھ زیادہ شور ڈالا ہوا ہے اور ڈینگی بخار کو ”ہوا“ بنا دیا گیا ہے۔ جس آدمی کو عام بخار بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے ڈینگی بخار ہو گیا ہے۔ میو ہسپتال میں 24 گھنٹے کی سروس کے دوران اٹھارہ ہزار مریضوں میں سے صرف اٹھارہ سو کو ڈینگی بخار کی تشخیص ہوئی ہے میو ہسپتال میں ہمارے کولیگ سینئر صحافی برادرم سعید آسی بھی داخل ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی تکلیف میں ہیں۔ میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز نے کہا سعید آسی نے بہت محبت کی بات کی ہے کہ وہ ڈینگی مریضوں کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کیلئے بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ آدھی رات کے بعد آ جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹروں نرسوں سے شکایات بھی پیدا ہوتی ہیں مگر ایمرجنسی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر خدمت کی مثال ہسپتالوں میں قائم ہوتی ہے۔ ایسے میں شہباز شریف کی یہ بات غور طلب ہے کہ میں ڈینگی مچھر کو قابو نہ کر سکا تو جنرل کیانی کو بلاوں گا کہ توپوں سے ان کا قلع قمع کریں۔ توپ سے مچھر مارنے کی بات ایک مذاق ہے۔ یہ شاید ان لوگوں کیلئے ہے جو ڈینگی بخار کا سارا غبار شہباز شریف کی طرف اڑا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ڈینگی مچھر کو لاہور میں ٹارگٹ کلنگ کیلئے بھیجا گیا ہے۔ توپوں کی ضرورت نہیں پڑے گی اگر ملاوٹ کے بغیر خالص دواوں کے سپرے کئے جائیں۔ ڈینگی مچھر اس قسم کے ملاوٹی سپرے کو اپنی خوراک بنا لیتے ہیں۔ لوگ شہباز شریف سے توقع لگا کے رکھتے ہیں کہ وہ افسران اور ملازمین کو سیدھا کر کے رکھیں گے۔ مچھروں سے پہلے ان کو سیدھا کرنا ضروری ہے۔
55
برس کا تجربہ رکھنے والے معروف فزیشن ڈاکٹر یعقوب ضیا نے نوائے وقت اور نیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہومیوپیتھی میں ڈینگی بخار کا شافی علاج موجود ہے۔
کروٹیلکس 200
(Crotalus-200)
کا ایک ایک قطرہ پانی میں ڈال کر صبح‘ دوپہر‘ شام کھانے کے آدھا گھنٹے بعد استعمال کرنے سے ڈینگی بخار سے یقینی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس دوا کا استعمال بخار کے مکمل خاتمے تک جاری رہنا چاہئے۔ اس کے علاوہ حفظ ماتقدم کے طور پر سلفر 200 کا ایک قطرہ پانی میں ڈال کر دس بارہ روز تک نہار منہ استعمال کرنے سے انسان ڈینگی بخار اور دیگر وبائی امراض سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر یعقوب ضیا بلامعاوضہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کا فون نمبر
0300-8039591
ہے۔
 
  • Like
Reactions: hoorain

Qalandar

Active Member
Aug 8, 2011
323
477
63
37

بہت عمدہ کالم ہے
آج کل کے ڈینگی مچھر سیاستدانوں کی نفسیات کو اچھے انداز بیان کیا ہے۔
یہ سیاسی ڈیگی مچھر ۶۰ سال سے غریبوں کا خون چوستے رہے ہیں اب اللہ نے بیلنس رکھنے کے لئے حقیقی ڈینگی پیدا کیا جو غریب و امیر کا فرق کئے بغیر حملہ کرتا ہے۔
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
اب ہمارے ہاں مچھروں کی قسمیں نکل آئی ہیں۔ سانپوں کی کئی قسمیں ہیں۔ مگر چڑیوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ امیر کبیر لوگوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ غریبوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ ظالموں حاکموں کی قسمیں ہوتی ہیں۔ محکوم مظلوم محروم لوگوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ سیاستدانوں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ اس دور میں تو حد ہی ہو گئی ہے۔ میں کسی کا نام لوں گا تو کہیں گے کہ میڈیا ہمارے خلاف ہے۔ ہر سیاستدان سمجھتا ہے کہ میڈیا اس کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میڈیا کسی سیاستدان کے خلاف نہیں ہے۔ کچھ ”مچھر سیاستدان“ بھی ہیں۔ کچھ اب ڈینگی مچھر سیاستدان بن کے میدان میں اترے ہیں۔
ڈینگی مچھر بھی عجیب ڈنگا قسم کا مچھر ہے۔ ڈنگا پنجابی میں بدمعاش اور کمینے کو کہتے ہیں۔ جس طرح ڈینگی کا ڈنگ بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ڈینگی سیاستدانوں کے ڈنگ میں بھی بڑا زہر ہے۔ ڈینگی مچھر وی آئی پی مچھر ہے۔ اسے آپ افسر مچھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایسا بیوروکریٹ مچھر ہے جس کا تعلق براکریسی سے ہے۔ افسران تہہ و بالا اور حکمران کیا کم تھے کہ رہی سہی کسر ڈینگی مچھروں کی افسری نے پوری کر دی ہے۔
ڈینگی مادہ مچھر ہے۔ پہلے عورتوں نے مردوں کے ساتھ کیا نہیں کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“۔ مچھروں کی کائنات بھی ہو گی۔ مچھروں کی سیاست بھی ہو گی تو مکھیوں کی سیاست بھی ہو گی۔ پاکستانی سیاستدانوں نے لوگوں کو مکھی مچھر سمجھا ہوا ہے۔ ان کو کیا خبر تھی کہ یہ مچھر ڈینگی مچھر بن جائے گا۔
برادرم توفیق بٹ نے اپنے کالم میں اسے ”مچھری عذاب“ کہا ہے۔ عذاب سب کیلئے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے عذابوں کا رخ غریبوں کی طرف رہا ہے۔ سیلاب کا عذاب بھی غریبوں کیلئے آتا ہے۔ کسی امیر کبیر وزیر شذیر بے ضمیر کے محل کی چوکھٹ بھی گیلی نہ ہوئی تھی۔ مگر ڈینگی مچھر تو امیر کبیر لوگوں پر بھی جھپٹتا ہے اور ڈنگ مارتا ہے۔ یہ مچھر صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ غریبوں کو تو صاف پانی پینے کیلئے بھی میسر نہیں۔ وہ بڑی بڑی کوٹھیوں کے وسیع و عریض سرسبز شاداب لانوں میں جنم لیتا ہے۔ پارکوں میں جہاں ”بڑے لوگ“ واک کرتے ہیں۔ لاہور پر اس مچھر کی خاص نظر بلکہ ”نظر کرم“ ہے۔ غریبوں پر ایسی مصیبت ہو تو اسے نذر کرم“ کہا جاتا ہے۔ ڈینگی سے متاثرہ غریب لوگ بھی ہسپتالوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ زیادہ تعداد امیر لوگوں کی ہے۔ کچھ عورتیں بھی ان مادہ مچھروں یعنی ”مچھرنیوں“ کی ڈنگ زدہ آتی ہیں۔ آخر یہ تو ثابت کرتا تھا کہ عورت عورت کی دشمن ہے۔
لاہور میں وزیراعظم گیلانی کے سیاستدان صاحبزادے ایم پی اے عبدالقادر گیلانی کو بھی ڈینگی نے کاٹا ہے۔ وزیراعظم گیلانی حیران ہے کہ لاہور میں آصف ہاشمی کے ہوتے ہوئے ڈینگی مچھر نے میرے بیٹے کو کاٹ لیا ہے۔ اس کیلئے پنجاب حکومت کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا ہے۔ وہ شہباز تاثیر کو بھول گئے ہیں۔ راجہ ریاض تو یہ کہنے والے ہیں کہ اغوا کے دوران شہباز تاثیر کو ڈینگی نے ڈس لیا ہے اور یہ مچھر رانا ثناءاللہ نے بھجوایا تھا۔ اب مچھروں کی سیاست شروع کی گئی ہے۔ مچھروں کی تاریخ بڑی زبردست ہے۔ ابابیلوں کے لشکر نے ابرہہ کے ہاتھیوں کی فوج کو بھوسے کا ڈھیر بنا دیا۔ مچھروں کے لشکر بھی تاریخ میں نظر آتے ہیں۔ وہ کالے بادلوں کی طرح چھا جاتے تھے۔ اب اس کام کو امریکہ مصنوعی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک نمرودی مچھر بھی تھا جو خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود کے ناک میں گھس گیا اور دماغ میں داخل ہو کے گھر بنا لیا۔ اس کے ساتھ ہی قبر میں اتر گیا۔ آج بھی خدائی دعویٰ رکھنے والے بہت ہیں مگر ان کے انجام سے ان کے انجام سے ان کے جانشین عبرت نہیں پکڑتے۔
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پچھلے سال سے ڈاکٹر جاوید اکرم شور مچا رہے ہیں کہ ڈینگی کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں۔ ڈاکٹر طیبہ نے کئی ریسرچ پیپرز لکھے ہیں جو انگریزی روزنامہ نیشن میں شائع ہوتے رہے ہیں مگر شاید انتظامیہ اور افسران اخبار تو پڑھتے نہیں جب مصیبت پڑتی ہے تو وقتی طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کی ڈنگ ٹپاو کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی پبلسٹی زیادہ ہوتی ہے۔
شہباز شریف اس حوالے سے بہت سرگرم ہیں مگر افسران بروقت کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ وہ اس وقت کام کرتے ہیں جب شہباز شریف میدان میں آتے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بتایا کہ ہر روز شہباز شریف میٹنگ لیتے ہیں جس میں ڈاکٹر صاحبان اور افسران شرکت کرتے ہیں مگر ابھی تک ڈینگی مچھر پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ میڈیا نے بھی کچھ زیادہ شور ڈالا ہوا ہے اور ڈینگی بخار کو ”ہوا“ بنا دیا گیا ہے۔ جس آدمی کو عام بخار بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے ڈینگی بخار ہو گیا ہے۔ میو ہسپتال میں 24 گھنٹے کی سروس کے دوران اٹھارہ ہزار مریضوں میں سے صرف اٹھارہ سو کو ڈینگی بخار کی تشخیص ہوئی ہے میو ہسپتال میں ہمارے کولیگ سینئر صحافی برادرم سعید آسی بھی داخل ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی تکلیف میں ہیں۔ میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز نے کہا سعید آسی نے بہت محبت کی بات کی ہے کہ وہ ڈینگی مریضوں کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کیلئے بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ آدھی رات کے بعد آ جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹروں نرسوں سے شکایات بھی پیدا ہوتی ہیں مگر ایمرجنسی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر خدمت کی مثال ہسپتالوں میں قائم ہوتی ہے۔ ایسے میں شہباز شریف کی یہ بات غور طلب ہے کہ میں ڈینگی مچھر کو قابو نہ کر سکا تو جنرل کیانی کو بلاوں گا کہ توپوں سے ان کا قلع قمع کریں۔ توپ سے مچھر مارنے کی بات ایک مذاق ہے۔ یہ شاید ان لوگوں کیلئے ہے جو ڈینگی بخار کا سارا غبار شہباز شریف کی طرف اڑا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ڈینگی مچھر کو لاہور میں ٹارگٹ کلنگ کیلئے بھیجا گیا ہے۔ توپوں کی ضرورت نہیں پڑے گی اگر ملاوٹ کے بغیر خالص دواوں کے سپرے کئے جائیں۔ ڈینگی مچھر اس قسم کے ملاوٹی سپرے کو اپنی خوراک بنا لیتے ہیں۔ لوگ شہباز شریف سے توقع لگا کے رکھتے ہیں کہ وہ افسران اور ملازمین کو سیدھا کر کے رکھیں گے۔ مچھروں سے پہلے ان کو سیدھا کرنا ضروری ہے۔
55
برس کا تجربہ رکھنے والے معروف فزیشن ڈاکٹر یعقوب ضیا نے نوائے وقت اور نیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہومیوپیتھی میں ڈینگی بخار کا شافی علاج موجود ہے۔
کروٹیلکس 200
(Crotalus-200)
کا ایک ایک قطرہ پانی میں ڈال کر صبح‘ دوپہر‘ شام کھانے کے آدھا گھنٹے بعد استعمال کرنے سے ڈینگی بخار سے یقینی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس دوا کا استعمال بخار کے مکمل خاتمے تک جاری رہنا چاہئے۔ اس کے علاوہ حفظ ماتقدم کے طور پر سلفر 200 کا ایک قطرہ پانی میں ڈال کر دس بارہ روز تک نہار منہ استعمال کرنے سے انسان ڈینگی بخار اور دیگر وبائی امراض سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر یعقوب ضیا بلامعاوضہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کا فون نمبر
0300-8039591
ہے۔
ahan bohat hi zabardast column hay :-bd

really awesome

writer kon hay iska?

aap ne khud likha?
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
haan nellu nawabi machar hay wo saaf pani may rehta hay baqi machron ko lift bhi nhi krata nakhre barre hain us k :p
 
Top