كيا لڑكى كى اجازت كے بغير يہ نكاح صحيح شمار ہو گا ؟

  • Work-from-home

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
كيا لڑكى كى اجازت كے بغير يہ نكاح صحيح شمار ہو گا ؟


كسى بھى عورت كو ايسے شخص سے شادى كرنے پر مجبور كرنا جائز نہيں جس سے وہ شادى نہ كرنا چاہتى ہو؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" ايم ( طلاق يافتہ يا بيوى ) عورت ولى سے زيادہ اپنے آپ كى حقدار ہے، اور كنوارى سے اس كى بارہ ميں اجازت طلب كى جائيگى اور اس كى اجازت اس كى خاموشى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1421 ).

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" شادى شدہ عورت سے مشورہ كيے بغير اس كى شادى نہيں كى جائيگى، اور كنوارى عورت كى شادى اس كى اجازت كے بغير نہيں كى جائيگى "

صحابہ نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اس كى اجازت كيسے ہو گى ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا

" وہ خاموش ہو جائے "


صحيح بخارى حديث نمبر ( 4843 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1419 ).

اگر اس كى رضامندى كے بغير شادى كر دى جائے تو راجح قول كے مطابق وہ نكاح صحيح نہيں ہو گا، اور جب اس كى شادى مناسب رشتہ اور كفؤ سے نہ كى گئى ہو تو بالاولى صحيح نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں

" جب اس كى غير كفؤ ميں شادى كر دى جائے تو اس كا نكاح باطل ہے، يہ امام احمد كى ايك روايت ہے، اور امام شافعى كا ايك قول بھى يہى ہے، كيونكہ كفؤ كے بغير اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اس ليے وہ باقى حرام نكاحوں كى طرح صحيح نہيں ہو گا.

اور اس ليے بھى كہ ولى نے اپنى ولايت ميں عورت كا نكاح ايسا نكاح كيا ہے جس ميں اسے اس عورت كى اجازت كے بغير كوئى حق حاصل نہ تھا، اس ليے وہ صحيح نہيں ہوگا، بالكل اسى طرح جس طرح اس كى جائداد بغير كسى ضرورت كى فروخت كر دى جائے، يا پھر اس جيسى قيمت كے بغير اسے فروخت كر ديا جائے.

اور اس ليے بھى كہ وہ شرعا اس كا نائب ہے، لہذا جس ميں اس كا كوئى حصہ نہيں اس ميں اسے تصرف كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں جيسا كہ وكيل ہو " انتہى


ديكھيں: المغنى ( 7 / 31 ).

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

خنساء بنت خذام الانصاريہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتى ہيں كہ

" ان كے والد نے ان كى شادى كر دى اور وہ ثيب ( طلاق يافتہ يا بيوى تھيں ) تھيں، تو اس نے اسے ناپسند كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے نكاح كو رد كر ديا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4845 ).

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ

" ايك كنوارى لڑكى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور بيان كرنے لگى كہ اس كے والد نے اس كى شادى كر دى ہے اور وہ مكرہ تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اختيار دے ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2096 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں

" ليكن اس مسئلہ ميں راجح قول يہ ہے كہ

والد اور كسى دوسرے كے ليے جائز نہيں كہ وہ عورت كو كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرے جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى اگرچہ وہ كفؤ بھى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كنوارى عورت كا نكاح اس كى اجازت كے بغير نہيں كيا جائيگا "

اور يہ عام ہے، اس ميں كسى بھى ولى كو مستثنى نہيں كيا گيا، بلكہ صحيح مسلم ميں وارد ہے كہ:

" كنوارى عورت سے اس كا والد اجازت لےگا "


تو يہ كنوارى اور باپ دونوں كے متعلق نص ہے، اور يہ نص محل نزاع ميں ہے اس ليے اس كى طرف جانا ضرورى ہے، اس بنا پر كسى بھى شخص كا اپنى بيٹى سے كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرنا جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى حرام ہے، اور حرام نہ تو صحيح ہوتا ہے اور نہ ہى نافذ كيونكہ اس كو صحيح كہنا اور اسے نافذ كرنا اس كى مخالف ہے جس كى نہى وارد ہے.

اور شرع نے جس سے منع كيا ہے، تو شريعت امت سے يہ چاہتى ہے كہ وہ كام ميں نہ پڑے اور نہ ہى ايسا عمل كرے، جب ہم اسے صحيح قرار ديں تو اس كا يہ معنى ہوا كہ ہم اس ميں پڑ چكے ہيں، اور اس پرعمل كيا ہے، اور اسے ہم نے ان عہد ميں شامل كر ديا جو شريعت نے مباح كيا ہے، اور يہ نہيں ہو سكتا.

اس راجح قول كى بنا پر والد كا اپنى بيٹى كى شادى ايسے شخص سے كرنا جس كو وہ نہيں چاہتى تھى يہ شادى فاسد ہے، اور فاسد عقد نكاح كے بارہ ميں عدالت كو ہى ديكھنا چاہيے " انتہى

ماخوذ از نور على الدرب.

اس بنا پر اس لڑكى كو شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے اور عدالت سے فسخ نكاح كا مطالبہ كرے؛ كيونكہ وہ ابتدا سے ہى اس خاوند پر راضى نہيں

 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
@Don @Pari @Hoorain @RedRose64 @Mahen @STAR24 @Kachu maasi @*Sarlaa* @Seap
@Abidi @Sid_diQa @Iceage-TM @Toobi @i love sahabah @Prince-Farry @Babar-Azam
@NamaL @Fa!th @MSC @~Ambitiou$ Girl~ @Armaghankhan @yoursks @SaaD_KhaN @thefire1
@Hira_Khan @MIS_MaHa @junaid_ak47 @Guriya_Rani @Azeyy @Gul-e-lala @maryamtaqdeesmo
@shzd @p3arl @Fantasy @Atif-adi @Lost Passenger @marzish @Afrasyyab @Pakhtoon
@Rubi @*fajar* @Tariq Saeed @Mas00m-DeVil @Wafa_Khan @amazingcreator @marib @Prince_Dastan
@S_ChiragH @Binte_Hawwa @sweet_c_kuri @sabha_khan40 @Masoom_girl @hariya @Huree
@Aayat @italianVirus @Ziddi_anGel @Shiraz-Khan @sabeha @attiya @Princess_E @Asheer @bilal_ishaq_786
@Bird-Of-Paradise @shailina @Shararti_Bacha @maanu115 @h@!der @Dua001 @Ezabela
@Rahath @Shireen @zonii @Noor_Afridi @sweet bhoot @Lightman @FaRiShtay BaHaRay @Noorjee @hafaz @Miss_Tittli
@Bela @LuViSh @aribak @BabyDoll @Silent_tear_hurt @gulfishan @Manxil @Raat ki Rani @candy @Asma_tufail
@errorsss @diya. @isma33 @hashmi_jan @smarty_dollie @Era_Emaan @AshirFrhan @aira_roy
@saimaaaaaaa @Nighaat @crystal_eyez @Mantasha_Zawaar @reality @illusionist @DesiGirl @huny
@Hudx @StunninG_BeauTy @Zia_Hayderi @maryamtaqdeesmo @Fadiii @minaahil @Fanii @naazii
@Ichigo [USERGROUP=86]@TM_STAFF[/USERGROUP] @Zakwan @ullo @raaz the secret @Unsaid Words @Charming_Deep @whiteros
@Dreem @sonyki @Azb @SindhiB0Y @Piyare Afzal @7thSky @Menaz @RaPuNzLe @Mehar_G786
@maryoom @Poetry_Lover @cUriOuX @Pari_Qrakh @Miss Khan @Twinkle Queen @Haaan_meiN_Pagal_Hon
@dur-e-shawar @ShyPrincess @chai-mein-biscuit @*SHB* @Bul_Bul @innocent_jannat @sweet_lily @Aaylaaaaa
@p3arl @onemanarmy @Rukh-E-Aaftaab @X_w @sitara_rani @Dove @Just_Like_Roze @shining_galaxy
@RaPuNzLe @Arz0o @Shikra-e-Ab'bar @Ocean_Eyes @CuTe_HiNa @Nadaan_Shazie @ShOna* @ali143 @Angel_A @Iceage-TM
@Jahanger @Missing_Person @Raza-G @umeedz @jimmyz @ali143 @shayan99 @zeeshe @HappySincere @Twinkle Queen
 

Armaghankhan

Likhy Nhi Ja Sakty Dukhi Dil K Afsaany
Super Star
Sep 13, 2012
10,433
5,571
1,313
KARACHI
كيا لڑكى كى اجازت كے بغير يہ نكاح صحيح شمار ہو گا ؟


كسى بھى عورت كو ايسے شخص سے شادى كرنے پر مجبور كرنا جائز نہيں جس سے وہ شادى نہ كرنا چاہتى ہو؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" ايم ( طلاق يافتہ يا بيوى ) عورت ولى سے زيادہ اپنے آپ كى حقدار ہے، اور كنوارى سے اس كى بارہ ميں اجازت طلب كى جائيگى اور اس كى اجازت اس كى خاموشى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1421 ).

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" شادى شدہ عورت سے مشورہ كيے بغير اس كى شادى نہيں كى جائيگى، اور كنوارى عورت كى شادى اس كى اجازت كے بغير نہيں كى جائيگى "

صحابہ نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اس كى اجازت كيسے ہو گى ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا

" وہ خاموش ہو جائے "


صحيح بخارى حديث نمبر ( 4843 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1419 ).

اگر اس كى رضامندى كے بغير شادى كر دى جائے تو راجح قول كے مطابق وہ نكاح صحيح نہيں ہو گا، اور جب اس كى شادى مناسب رشتہ اور كفؤ سے نہ كى گئى ہو تو بالاولى صحيح نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں

" جب اس كى غير كفؤ ميں شادى كر دى جائے تو اس كا نكاح باطل ہے، يہ امام احمد كى ايك روايت ہے، اور امام شافعى كا ايك قول بھى يہى ہے، كيونكہ كفؤ كے بغير اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اس ليے وہ باقى حرام نكاحوں كى طرح صحيح نہيں ہو گا.

اور اس ليے بھى كہ ولى نے اپنى ولايت ميں عورت كا نكاح ايسا نكاح كيا ہے جس ميں اسے اس عورت كى اجازت كے بغير كوئى حق حاصل نہ تھا، اس ليے وہ صحيح نہيں ہوگا، بالكل اسى طرح جس طرح اس كى جائداد بغير كسى ضرورت كى فروخت كر دى جائے، يا پھر اس جيسى قيمت كے بغير اسے فروخت كر ديا جائے.

اور اس ليے بھى كہ وہ شرعا اس كا نائب ہے، لہذا جس ميں اس كا كوئى حصہ نہيں اس ميں اسے تصرف كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں جيسا كہ وكيل ہو " انتہى


ديكھيں: المغنى ( 7 / 31 ).

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

خنساء بنت خذام الانصاريہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتى ہيں كہ

" ان كے والد نے ان كى شادى كر دى اور وہ ثيب ( طلاق يافتہ يا بيوى تھيں ) تھيں، تو اس نے اسے ناپسند كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے نكاح كو رد كر ديا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4845 ).

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ

" ايك كنوارى لڑكى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور بيان كرنے لگى كہ اس كے والد نے اس كى شادى كر دى ہے اور وہ مكرہ تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اختيار دے ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2096 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں

" ليكن اس مسئلہ ميں راجح قول يہ ہے كہ

والد اور كسى دوسرے كے ليے جائز نہيں كہ وہ عورت كو كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرے جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى اگرچہ وہ كفؤ بھى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كنوارى عورت كا نكاح اس كى اجازت كے بغير نہيں كيا جائيگا "

اور يہ عام ہے، اس ميں كسى بھى ولى كو مستثنى نہيں كيا گيا، بلكہ صحيح مسلم ميں وارد ہے كہ:

" كنوارى عورت سے اس كا والد اجازت لےگا "


تو يہ كنوارى اور باپ دونوں كے متعلق نص ہے، اور يہ نص محل نزاع ميں ہے اس ليے اس كى طرف جانا ضرورى ہے، اس بنا پر كسى بھى شخص كا اپنى بيٹى سے كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرنا جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى حرام ہے، اور حرام نہ تو صحيح ہوتا ہے اور نہ ہى نافذ كيونكہ اس كو صحيح كہنا اور اسے نافذ كرنا اس كى مخالف ہے جس كى نہى وارد ہے.

اور شرع نے جس سے منع كيا ہے، تو شريعت امت سے يہ چاہتى ہے كہ وہ كام ميں نہ پڑے اور نہ ہى ايسا عمل كرے، جب ہم اسے صحيح قرار ديں تو اس كا يہ معنى ہوا كہ ہم اس ميں پڑ چكے ہيں، اور اس پرعمل كيا ہے، اور اسے ہم نے ان عہد ميں شامل كر ديا جو شريعت نے مباح كيا ہے، اور يہ نہيں ہو سكتا.

اس راجح قول كى بنا پر والد كا اپنى بيٹى كى شادى ايسے شخص سے كرنا جس كو وہ نہيں چاہتى تھى يہ شادى فاسد ہے، اور فاسد عقد نكاح كے بارہ ميں عدالت كو ہى ديكھنا چاہيے " انتہى

ماخوذ از نور على الدرب.

اس بنا پر اس لڑكى كو شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے اور عدالت سے فسخ نكاح كا مطالبہ كرے؛ كيونكہ وہ ابتدا سے ہى اس خاوند پر راضى نہيں

jazak ALLAH
 

ShehrYaar

Senior Member
Dec 3, 2014
700
336
113
كيا لڑكى كى اجازت كے بغير يہ نكاح صحيح شمار ہو گا ؟


كسى بھى عورت كو ايسے شخص سے شادى كرنے پر مجبور كرنا جائز نہيں جس سے وہ شادى نہ كرنا چاہتى ہو؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" ايم ( طلاق يافتہ يا بيوى ) عورت ولى سے زيادہ اپنے آپ كى حقدار ہے، اور كنوارى سے اس كى بارہ ميں اجازت طلب كى جائيگى اور اس كى اجازت اس كى خاموشى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1421 ).

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" شادى شدہ عورت سے مشورہ كيے بغير اس كى شادى نہيں كى جائيگى، اور كنوارى عورت كى شادى اس كى اجازت كے بغير نہيں كى جائيگى "

صحابہ نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اس كى اجازت كيسے ہو گى ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا

" وہ خاموش ہو جائے "


صحيح بخارى حديث نمبر ( 4843 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1419 ).

اگر اس كى رضامندى كے بغير شادى كر دى جائے تو راجح قول كے مطابق وہ نكاح صحيح نہيں ہو گا، اور جب اس كى شادى مناسب رشتہ اور كفؤ سے نہ كى گئى ہو تو بالاولى صحيح نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں

" جب اس كى غير كفؤ ميں شادى كر دى جائے تو اس كا نكاح باطل ہے، يہ امام احمد كى ايك روايت ہے، اور امام شافعى كا ايك قول بھى يہى ہے، كيونكہ كفؤ كے بغير اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اس ليے وہ باقى حرام نكاحوں كى طرح صحيح نہيں ہو گا.

اور اس ليے بھى كہ ولى نے اپنى ولايت ميں عورت كا نكاح ايسا نكاح كيا ہے جس ميں اسے اس عورت كى اجازت كے بغير كوئى حق حاصل نہ تھا، اس ليے وہ صحيح نہيں ہوگا، بالكل اسى طرح جس طرح اس كى جائداد بغير كسى ضرورت كى فروخت كر دى جائے، يا پھر اس جيسى قيمت كے بغير اسے فروخت كر ديا جائے.

اور اس ليے بھى كہ وہ شرعا اس كا نائب ہے، لہذا جس ميں اس كا كوئى حصہ نہيں اس ميں اسے تصرف كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں جيسا كہ وكيل ہو " انتہى


ديكھيں: المغنى ( 7 / 31 ).

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

خنساء بنت خذام الانصاريہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتى ہيں كہ

" ان كے والد نے ان كى شادى كر دى اور وہ ثيب ( طلاق يافتہ يا بيوى تھيں ) تھيں، تو اس نے اسے ناپسند كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے نكاح كو رد كر ديا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4845 ).

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ

" ايك كنوارى لڑكى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور بيان كرنے لگى كہ اس كے والد نے اس كى شادى كر دى ہے اور وہ مكرہ تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اختيار دے ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2096 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں

" ليكن اس مسئلہ ميں راجح قول يہ ہے كہ

والد اور كسى دوسرے كے ليے جائز نہيں كہ وہ عورت كو كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرے جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى اگرچہ وہ كفؤ بھى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كنوارى عورت كا نكاح اس كى اجازت كے بغير نہيں كيا جائيگا "

اور يہ عام ہے، اس ميں كسى بھى ولى كو مستثنى نہيں كيا گيا، بلكہ صحيح مسلم ميں وارد ہے كہ:

" كنوارى عورت سے اس كا والد اجازت لےگا "


تو يہ كنوارى اور باپ دونوں كے متعلق نص ہے، اور يہ نص محل نزاع ميں ہے اس ليے اس كى طرف جانا ضرورى ہے، اس بنا پر كسى بھى شخص كا اپنى بيٹى سے كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرنا جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى حرام ہے، اور حرام نہ تو صحيح ہوتا ہے اور نہ ہى نافذ كيونكہ اس كو صحيح كہنا اور اسے نافذ كرنا اس كى مخالف ہے جس كى نہى وارد ہے.

اور شرع نے جس سے منع كيا ہے، تو شريعت امت سے يہ چاہتى ہے كہ وہ كام ميں نہ پڑے اور نہ ہى ايسا عمل كرے، جب ہم اسے صحيح قرار ديں تو اس كا يہ معنى ہوا كہ ہم اس ميں پڑ چكے ہيں، اور اس پرعمل كيا ہے، اور اسے ہم نے ان عہد ميں شامل كر ديا جو شريعت نے مباح كيا ہے، اور يہ نہيں ہو سكتا.

اس راجح قول كى بنا پر والد كا اپنى بيٹى كى شادى ايسے شخص سے كرنا جس كو وہ نہيں چاہتى تھى يہ شادى فاسد ہے، اور فاسد عقد نكاح كے بارہ ميں عدالت كو ہى ديكھنا چاہيے " انتہى

ماخوذ از نور على الدرب.

اس بنا پر اس لڑكى كو شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے اور عدالت سے فسخ نكاح كا مطالبہ كرے؛ كيونكہ وہ ابتدا سے ہى اس خاوند پر راضى نہيں

usefull sharing...........thanks
 

Aaylaaaaa

priNcess
TM Star
Sep 25, 2014
4,096
2,430
1,313
kohkaaf
nice bro
@Don @Pari @Hoorain @RedRose64 @Mahen @STAR24 @Kachu maasi @*Sarlaa* @Seap
@Abidi @Sid_diQa @Iceage-TM @Toobi @i love sahabah @Prince-Farry @Babar-Azam
@NamaL @Fa!th @MSC @~Ambitiou$ Girl~ @Armaghankhan @yoursks @SaaD_KhaN @thefire1
@Hira_Khan @MIS_MaHa @junaid_ak47 @Guriya_Rani @Azeyy @Gul-e-lala @maryamtaqdeesmo
@shzd @p3arl @Fantasy @Atif-adi @Lost Passenger @marzish @Afrasyyab @Pakhtoon
@Rubi @*fajar* @Tariq Saeed @Mas00m-DeVil @Wafa_Khan @amazingcreator @marib @Prince_Dastan
@S_ChiragH @Binte_Hawwa @sweet_c_kuri @sabha_khan40 @Masoom_girl @hariya @Huree
@Aayat @italianVirus @Ziddi_anGel @Shiraz-Khan @sabeha @attiya @Princess_E @Asheer @bilal_ishaq_786
@Bird-Of-Paradise @shailina @Shararti_Bacha @maanu115 @h@!der @Dua001 @Ezabela
@Rahath @Shireen @zonii @Noor_Afridi @sweet bhoot @Lightman @FaRiShtay BaHaRay @Noorjee @hafaz @Miss_Tittli
@Bela @LuViSh @aribak @BabyDoll @Silent_tear_hurt @gulfishan @Manxil @Raat ki Rani @candy @Asma_tufail
@errorsss @diya. @isma33 @hashmi_jan @smarty_dollie @Era_Emaan @AshirFrhan @aira_roy
@saimaaaaaaa @Nighaat @crystal_eyez @Mantasha_Zawaar @reality @illusionist @DesiGirl @huny
@Hudx @StunninG_BeauTy @Zia_Hayderi @maryamtaqdeesmo @Fadiii @minaahil @Fanii @naazii
@Ichigo [USERGROUP=86]@TM_STAFF[/USERGROUP] @Zakwan @ullo @raaz the secret @Unsaid Words @Charming_Deep @whiteros
@Dreem @sonyki @Azb @SindhiB0Y @Piyare Afzal @7thSky @Menaz @RaPuNzLe @Mehar_G786
@maryoom @Poetry_Lover @cUriOuX @Pari_Qrakh @Miss Khan @Twinkle Queen @Haaan_meiN_Pagal_Hon
@dur-e-shawar @ShyPrincess @chai-mein-biscuit @*SHB* @Bul_Bul @innocent_jannat @sweet_lily @Aaylaaaaa
@p3arl @onemanarmy @Rukh-E-Aaftaab @X_w @sitara_rani @Dove @Just_Like_Roze @shining_galaxy
@RaPuNzLe @Arz0o @Shikra-e-Ab'bar @Ocean_Eyes @CuTe_HiNa @Nadaan_Shazie @ShOna* @ali143 @Angel_A @Iceage-TM
@Jahanger @Missing_Person @Raza-G @umeedz @jimmyz @ali143 @shayan99 @zeeshe @HappySincere @Twinkle Queen
 

Fanii

‎Pяiиcε ♥
VIP
Oct 9, 2013
61,263
16,095
1,313
Moon
كيا لڑكى كى اجازت كے بغير يہ نكاح صحيح شمار ہو گا ؟


كسى بھى عورت كو ايسے شخص سے شادى كرنے پر مجبور كرنا جائز نہيں جس سے وہ شادى نہ كرنا چاہتى ہو؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" ايم ( طلاق يافتہ يا بيوى ) عورت ولى سے زيادہ اپنے آپ كى حقدار ہے، اور كنوارى سے اس كى بارہ ميں اجازت طلب كى جائيگى اور اس كى اجازت اس كى خاموشى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1421 ).

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" شادى شدہ عورت سے مشورہ كيے بغير اس كى شادى نہيں كى جائيگى، اور كنوارى عورت كى شادى اس كى اجازت كے بغير نہيں كى جائيگى "

صحابہ نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اس كى اجازت كيسے ہو گى ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا

" وہ خاموش ہو جائے "


صحيح بخارى حديث نمبر ( 4843 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1419 ).

اگر اس كى رضامندى كے بغير شادى كر دى جائے تو راجح قول كے مطابق وہ نكاح صحيح نہيں ہو گا، اور جب اس كى شادى مناسب رشتہ اور كفؤ سے نہ كى گئى ہو تو بالاولى صحيح نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں

" جب اس كى غير كفؤ ميں شادى كر دى جائے تو اس كا نكاح باطل ہے، يہ امام احمد كى ايك روايت ہے، اور امام شافعى كا ايك قول بھى يہى ہے، كيونكہ كفؤ كے بغير اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اس ليے وہ باقى حرام نكاحوں كى طرح صحيح نہيں ہو گا.

اور اس ليے بھى كہ ولى نے اپنى ولايت ميں عورت كا نكاح ايسا نكاح كيا ہے جس ميں اسے اس عورت كى اجازت كے بغير كوئى حق حاصل نہ تھا، اس ليے وہ صحيح نہيں ہوگا، بالكل اسى طرح جس طرح اس كى جائداد بغير كسى ضرورت كى فروخت كر دى جائے، يا پھر اس جيسى قيمت كے بغير اسے فروخت كر ديا جائے.

اور اس ليے بھى كہ وہ شرعا اس كا نائب ہے، لہذا جس ميں اس كا كوئى حصہ نہيں اس ميں اسے تصرف كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں جيسا كہ وكيل ہو " انتہى


ديكھيں: المغنى ( 7 / 31 ).

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

خنساء بنت خذام الانصاريہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتى ہيں كہ

" ان كے والد نے ان كى شادى كر دى اور وہ ثيب ( طلاق يافتہ يا بيوى تھيں ) تھيں، تو اس نے اسے ناپسند كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے نكاح كو رد كر ديا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4845 ).

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ

" ايك كنوارى لڑكى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور بيان كرنے لگى كہ اس كے والد نے اس كى شادى كر دى ہے اور وہ مكرہ تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اختيار دے ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2096 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں

" ليكن اس مسئلہ ميں راجح قول يہ ہے كہ

والد اور كسى دوسرے كے ليے جائز نہيں كہ وہ عورت كو كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرے جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى اگرچہ وہ كفؤ بھى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كنوارى عورت كا نكاح اس كى اجازت كے بغير نہيں كيا جائيگا "

اور يہ عام ہے، اس ميں كسى بھى ولى كو مستثنى نہيں كيا گيا، بلكہ صحيح مسلم ميں وارد ہے كہ:

" كنوارى عورت سے اس كا والد اجازت لےگا "


تو يہ كنوارى اور باپ دونوں كے متعلق نص ہے، اور يہ نص محل نزاع ميں ہے اس ليے اس كى طرف جانا ضرورى ہے، اس بنا پر كسى بھى شخص كا اپنى بيٹى سے كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرنا جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى حرام ہے، اور حرام نہ تو صحيح ہوتا ہے اور نہ ہى نافذ كيونكہ اس كو صحيح كہنا اور اسے نافذ كرنا اس كى مخالف ہے جس كى نہى وارد ہے.

اور شرع نے جس سے منع كيا ہے، تو شريعت امت سے يہ چاہتى ہے كہ وہ كام ميں نہ پڑے اور نہ ہى ايسا عمل كرے، جب ہم اسے صحيح قرار ديں تو اس كا يہ معنى ہوا كہ ہم اس ميں پڑ چكے ہيں، اور اس پرعمل كيا ہے، اور اسے ہم نے ان عہد ميں شامل كر ديا جو شريعت نے مباح كيا ہے، اور يہ نہيں ہو سكتا.

اس راجح قول كى بنا پر والد كا اپنى بيٹى كى شادى ايسے شخص سے كرنا جس كو وہ نہيں چاہتى تھى يہ شادى فاسد ہے، اور فاسد عقد نكاح كے بارہ ميں عدالت كو ہى ديكھنا چاہيے " انتہى

ماخوذ از نور على الدرب.

اس بنا پر اس لڑكى كو شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے اور عدالت سے فسخ نكاح كا مطالبہ كرے؛ كيونكہ وہ ابتدا سے ہى اس خاوند پر راضى نہيں

JazakALLAH ..
 
Top