قرآن یقینا محفوظ ہے
الله تعالی کتاب الله میں کہتے ہیں
﴿ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (222) يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ
کیا ہم تم کو خبر دیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں ؟ نازل ہوتے ہیں ہر گناہ گار جھوٹے پر جو سنتے ہیں اس میں بات ملاتے اور اکثر جھوٹے ہیں
کچھ افاک اثیم اس امت میں ایسے گزرے جو شوم نصیبی کے چکر میں ایسے الجھے کہ کتاب الله کو پڑھتے تھے لیکن دل میں سے سلاخ کی طرح گزرتی تھی – ان کا دل مانتا نہ تھا کہ عرب کے بدوؤں پر رحمت الہی متوجہ ہوئی اور کوئی چیز عرش سے یہاں لق و دق صحرا میں اتری بھی – لھذا ان خالی خولوں میں ایک شاطر شیخ (ابلیس) کا کنڑول ہوا اور نوک قلم سے ان بیمار اذہان کا غبار صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا- مدعآ یہ تھا کہ قرآن اصلی حالت میں نہیں لہذا بس روایات دیکھیں اور فرما دیا کہ قرآن بدل گیا لیکن اس میں جو تبدیلی بتائی اس سے نہ معنوں میں کوئی قرق پڑا نہ اس کی حکت بالغہ میں کوئی کمی آئی
قارئین کے لئے ان کے اس قسم کے التباس ذہنی کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں –
اب یہاں ہم اختلاف قرات کی روایات پر تبصرہ کریں گے
البراء بن عآزب رضی الله عنہ کی قرات کا اختلاف
فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ
بخاری کی روایت ہے
بخاری ٤٩٩٠ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي} [النساء: 95] القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95]، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْعُ لِي زَيْدًا وَلْيَجِئْ بِاللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ وَالكَتِفِ – أَوِ الكَتِفِ وَالدَّوَاةِ -» ثُمَّ قَالَ: ” اكْتُبْ {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ} [النساء: 95] ” وَخَلْفَ ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَأْمُرُنِي، فَإِنِّي رَجُلٌ ضَرِيرُ البَصَرِ؟ فَنَزَلَتْ مَكَانَهَا: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ} [النساء: 95] {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95] {غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} [النساء: 95]
اسرائیل ، ابی اسحاق سے وہ البراء سے روایت کرتے ہیں کہ جب نازل ہوئی {لاَ يَسْتَوِي} [النساء: 95] القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95]
اس میں اصل آیت سوره النساء کی ہے
لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ
لیکن اوپر روایت میں یہ آگے پیچھے ہے- اس سے بعض کو بہانہ ہاتھ آ گیا کہ قرآن میں آیات صحیح طور رقم نہیں ہوئیں
اس کا جواب ہے کہ بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے
بخاری ٢٨٣١ حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ} [النساء: 95] مِنَ المُؤْمِنِينَ ” دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، فَجَاءَ بِكَتِفٍ فَكَتَبَهَا، وَشَكَا ابْنُ أُمِّ [ص:25] مَكْتُومٍ ضَرَارَتَهُ، فَنَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} [النساء: 95] “
شعبہ ، ابی اسحاق سے وہ البراء سے روایت کرتے ہیں کہ جب نازل ہوئی لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ
یہاں روایت میں آیت اسی طرح ہے جیسی ہم تلاوت کرتے ہیں –اس کا مطلب ہے کہ آیت میں تقدم و تاخیر اصل میں راوی إسرائيل بن يونس بن أبى إسحاق السبيعى سے ہوئی ہے شعبہ کی سند میں نہیں ہے
ابو سعید الخدری، ابو ہریرہ کی قرات میں الله الواحد الصمد؟
راویان حدیث جب روایت لکھتے تو اس میں بعض اوقات الفاظ اپنی پسند کے بھی لکھ دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اضطراب بھی بعض اوقات ہو جاتا ہے اس بات سے لا علم بعض شیعوں اور انکے ہم نوا ملحدین نے مسئلہ اختلاف قرات سے جوڑنے کی کوشش کی
ابو سعید الخدری کی قرات
بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، وَالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ القُرْآنِ فِي لَيْلَةٍ؟» فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ وَقَالُوا: أَيُّنَا يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «اللَّهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ ثُلُثُ القُرْآنِ»
الأَعْمَشُ کہتے ہیں ہم سے روایت کیا إِبْرَاهِيمُ اور َالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کیا تم میں سے کسی کو ہمت ہے کہ ہر رات ایک تہائی قرآن کی قرات کر لے؟ پس یہ صحابہ پر سخت گذرا اور انہوں نے کہا اے رسول الله ہم میں کون ایسا کر سکتا ہے آپ نے فرمایا الله الواحد الصمد ایک تہائی قرآن ہے
مسند ابو یعلی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي سَمِينَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الضَّحَّاكِ الْمَشْرِقِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ»
الأَعْمَشُ کہتے ہیں ہم سے روایت کیا َالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں ابو سعید الخدری سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہو قل ھو الله احد یہ ایک تہائی قرآن ہے
یعنی ایک ہی سند ہے لیکن الأَعْمَشُ سے اوپر راوی نے اس کو الگ الگ طرح روایت کیا جس کی وجہ سے بعض کو ابہام ہوا کہ آیات کسی اور طرح نازل ہوئی تھیں
واضح رہے کہ الأَعْمَشُ خود بھی کوفہ کے شیعہ ہیں
ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کی قرات میں قل ھو الله احد ہی تھا اس کی مثال موطا امام مالک کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ” أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلا مِنَ اللَّيْلِ يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يُرَدِّدُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ الرَّجُلَ يُقَلِّلُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدَهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ “
ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کہتے ہیں انہوں نے ایک شخص کو سنا جو رات کو قرات کرتا قل ھو الله احد …. رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک تہائی قرآن ہے
ان دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ ابو سعید الخدری کی قرات وہی تھی جو آج ہم کرتے ہیں
ابو ہریرہ کی قرات
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَزَالُونَ يَسْأَلُونَ حَتَّى يُقَالُ: هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؟ ” قَالَ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” فَوَاللَّهِ، إِنِّي لَجَالِسٌ يَوْمًا إِذْ قَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ: هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَجَعَلْتُ أُصْبُعَيَّ فِي أُذُنَيَّ، ثُمَّ صِحْتُ، فَقُلْتُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ
عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ …. اہل عراق میں سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا یہ الله ہے جس نے ہم کو خلق کیا ہے تو اسکو کس نے خلق کیا ؟ ابو ہریرہ نے کہا میں نے … کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سچ کہا الله الواحد الصمد لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اس کی سند میں عمر بن أبي سلمة بن عبد الرحمن الزهري ہے جس کو ليس بالقوي قوی نہیں النسائي نے کہا اور ابن معين نے تضعیف کی ہے
اس کے مقابلے پر موطا کی روایت ہے
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، مَوْلَى آلِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. «فَسَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَجَبَتْ»، فَسَأَلْتُهُ: مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «الْجَنَّةُ»
ابو ہریرہ کہتے ہیں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک شخص کو سنا جو قل ھو الله احد قرات کر رہا تھا رسول اللہ نے کہا واجب ہو گئی میں نے کہا کیا؟ فرمایا جنت
مسند ابی یعلی صحیح السند روایت جو ابو ہریرہ سے مروی ہے اس میں بھی قل ھو الله احد ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْشِدُوا فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ»، فَحَشَدُوا فَقَرَأَ عَلَيْنَا {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} [الإخلاص: 1]، حَتَّى خَتَمَهَا، ثُمَّ دَخَلَ فَقَالَ بَعْضُنَا: قَدْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ» وَلَمْ يَقْرَأْ مَا هَذَا إِلَّا لِخَبَرٍ جَاءَهُ مِنَ السَّمَاءِ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا فَقَالَ: «إِنَّهَا ثُلُثُ الْقُرْآنِ»
الغرض قل ھو الله احد کو عام بول چال میں الله الواحد الصمد کہا جا رہا تھا جیسے آج ہم کہتے ہیں قل پڑھنا یا فاتحہ پڑھنا محدثین کے دور میں چونکہ سورتوں کے نام نہیں تھے لہذا سورت کو چھوٹا کر کے بیان کر دیا جاتا تھا
ابی بن کعب اور عمر کا قرآن پر اختلاف تھا؟
بعض لوگوں نے عمر اور ابی بن کعب رضی الله عنہ کا اختلاف قرات کے حوالے سے تذکرہ کیا اور اس میں اپنی طرف سے الفاظ بڑھا کر بات کو اپنے مدعآ میں پیش کیا
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الفَضْلِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أُبَيٌّ أَقْرَؤُنَا، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ لَحَنِ أُبَيٍّ، وَأُبَيٌّ يَقُولُ: «أَخَذْتُهُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ أَتْرُكُهُ لِشَيْءٍ»، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا} [البقرة: 106]
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں حبیب بن ابی ثابت نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، ابی بن کعب ہمارے قاری ہیں اور بے شک ہم لحن ابی (تلفظ) پر جاتے ہیں اور ابی کہتے ہیں کہ میں نے تو اس قرات کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ہے، میں اس میں سے کوئی چیز چھوڑنے والا نہیں اور (جبکہ) اللہ نے خود فرمایا ہے کہ ماننسخ من آیۃ اوننسھا الآیۃ یعنی ہم جب کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں پھر یا تو اسے بھلا دیتے ہیں یا اس سے بہتر لاتے ہیں۔
اس روایت کا غلط ترجمہ آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں
http://www.urdumajlis.net/threads/صحیح-بخاری.26533/page-90
جس میں ہے کہ
لیکن ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں (وہ بعض منسوخ التلاوۃ آیتوں کو بھی پڑھتے ہیں) اور کہتے ہیں
حالانکہ روایت میں یہ الفاظ ” ابی جہاں غلطی کرتے ہیں ” سرے سے ہیں ہی نہیں –
عربی لغت مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کے مطابق الفاظ
لندع من “لحن” أبي، هو الطريق واللغة، وأراد روايته وقراءته
لندع من “لحن” أبي (بن کعب) یہ طریقه ہے اور لغت ہے اور مقصد ہے انکی روایت اور قرات کے مطابق
دوسری روایت ہے
بخاری حدیث ٤٤٨١ حَدَّثَنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ، وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ قَوْلِ أُبَيٍّ، وَذَاكَ أَنَّ أُبَيًّا يَقُولُ: لاَ أَدَعُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “. وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا}
ابن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں عمر رضی الله عنہ نے کہا ابی بن کعب ہمارے لئے قرات کرتے ہیں اور علی ہمارے قاضی کے فیصلے کرتے ہیں اور ہم بلا شبہ ان ابی بن کعب کے قول (لحن) پر جاتے ہیں اور یہ ابی بن کعب کہتے ہیں میں کسی چیز کو نہیں چھوڑ سکتا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو ، جبکہ الله نے کہا ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے۔
یعنی باوجود اس کے کہ ابی بن کعب منسوخ قرات بھی کرتے ہیں ہم انہی کی قرات لیتے ہیں اور اسکی دلیل ہے کہ
عمر رضی الله عنہ نے رمضان میں نماز الترآویح کے لئے مسلمانوں کو مسجد النبی میں ابی بن کعب رضی الله عنہ کی قرات پر جمع کیا بخاری ہی کی حدیث ہے فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ان سب پر ابی بن کعب کو (امام) کیا
اس پر مزید یہ کہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں بھی جمع القرآن کی کمیٹی میں ابی بن کعب شامل تھے اس کا مطلب ہے کہ وہ منسوخ آیات بھی ہم قرات کرتے ہیں جن کے لئے عمر رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ انکو چھوڑ سکتے ہیں
عبد الله ابن مسعود کا اختلاف
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ خُمَيْرِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أُمِرَ بِالْمَصَاحِفِ أَنْ تُغَيَّرَ قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَغُلَّ مُصْحَفَهُ فَلْيَغُلَّهُ فَإِنَّ مَنْ غَلَّ شَيْئًا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ ثُمَّ قَالَ قَرَأْتُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ سُورَةً أَفَأَتْرُكُ مَا أَخَذْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
خمير بن مالک کہتے ہيں کہ حکم ہوا کہ مصاحف قرآني کو بدل ديا جائے – ابن مسعود رضي اللہ عنہ نے کہا تم ميں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہو، چھپالے، کيونکہ جو شخص جو چيز چھپائے گا، قيامت کے دن اس کے ساتھ ہي آئے گا، پھر فرمايا کہ ميں نے نبي (صلي اللہ عليہ وسلم) کے دہن مبارک سے ستر سورتيں پڑھي ہيں ، کيا ميں ان چيزوں کو چھوڑ دوں، جو ميں نے رسول الله (صلي اللہ عليہ وسلم) سے حاصل کي ہيں
مسند ابو داود طیالسی میں ہے عبد الله ابن مسعود نے یہ بھی کہا
وَإِنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَصَبِيُّ مِنَ الصِّبْيَانِ
اور زید بن ثابت تو بچوں میں ایک بچہ تھا
گویا کہ جمع القران زید بن ثابت نے کیا حالانکہ اس میں ابی بن کعب بھی موجود ہیں
مسند احمد میں ہے ابن مسعود نے کہا
وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ لَهُ ذُؤَابَةٌ فِي الْكُتَّابِ
اور زید بن ثابت اس کے لئے الکتاب گچھا ہے
یعنی زید کے پس کا روگ نہیں ہے
ان تمام کی سند میں خمير بن مالك کا تفرد ہے ابن أبي حاتم کی کتاب الجرح والتعديل 3/391، کے مطابق یہ کوفی ہے حمصی نہیں ہے –
اس خمير بن مالك نام کے دو راوی ہیں ایک کوفی ہے اور ایک شامی ہے- کوفی سے صرف ابی اسحاق روایت کرتا ہے اور ابن مسعود بھی کوفہ میں تھے دوسرا شامی ہے جس سے صرف عَبد اللهِ بْن عِيسَى روایت کرتا ہے بعض لوگوں کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس کو شامی سمجھ کر روایت کو صحیح سمجھا- اصلا یہ خمير بن مالك کوفی ہے
اس کی وضاحت کتاب تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از القاضي أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) میں موجود ہے
خمير بن مالك کوفی مجھول ہے جس کا اتا پتا نہیں کون ہے لہذا روایت ضعیف ہے
مسند احمد میں ہے
حدثنا عفان حدثنا عبد الواحد حدثنا سليمان الأعمش عن شَقِيق بن سَلَمة قال: خطَبَنَا عبدُ الله بن مسعود فقال: لقد أخذتُ من في رسول الله – صلى الله عليه وسلم – بضعاً وسبعين سورة، وزيد بن ثابت غلام له ذؤابتان، يلعبُ مع الغِلْمان
شَقِيق بن سَلَمة کہتے ہیں عبد الله ابن مسعود نے خطبہ دیا بلاشبہ میں نے رسول الله سے ستر کے قریب سوره لیں اور زید بن ثابت کے لڑکا تھا جس کے (سر پر) دو لچھے تھے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا تھا
یعنی زید بن ثابت کے سر کے بال تک نہیں نکلے تھے جب ابن مسعود مدینہ میں انکو دیکھتے تھے
اسکی سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر يحيى القطان نے کلام کیا ہے
وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً
صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا
زید بن ثابت انصاری رضی الله عنہ ہجرت سے ١٢ سال قبل پیدا ہوے – ابن مسعود رضی الله عنہ حبشہ ہجرت کر گئے اور وہاں سے جنگ بدر سے پہلے مدینہ پہنچے تو اس وقت تک زید بن ثابت ١٣ یا ١٤ سال کے تھے جو اسلام میں لڑکوں کی بلوغت کے عمر کے قریب ہے ظاہر ١٣ یا ١٤ سال کے لڑکے کے سر پر بالوں کے دو لچھے نہیں ہوتے نہ وہ بچہ سمجھا جاتا ہے
ترمذی ح ٣١٠٤ میں ہے
قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَرِهَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ المَصَاحِفِ … وَاللَّهِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ وَإِنَّهُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ يُرِيدُ زيد بن ثَابت
امام زہری نے کہا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ نے کہا کہ عبد الله ابن مسعود زید بن ثابت سے کراہت کرتے کہ مصاحف مٹا دیے گئے … اور الله کی قسم میں ایمان لایا جب یہ زید تو ایک کافر کے صلب میں تھا
لیکن مصاحف تلف کرنا عثمان رضی الله عنہ خلیفہ وقت کا حکم تھا نہ کہ زید رضی الله عنہ کا- سندا یہ بات منقطع ہے
عبيد الله بن عبد الله بن عتبة کا سماع عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے