قبر کا فقیر

  • Work-from-home

yushaa

Newbie
Jun 5, 2013
15
15
3
Edmonton
قبر کا فقیر
پچھلے دنوں مجھے دو جنازوں میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ پہلا جنازہ ایک صاحب حیثیت شخص کا تھا۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے زندگی میں مادی اعتبار سے غیر معمولی کامیابیاں عطا فرمائی تھیں ۔ وہ اپنے پیچھے بہت بڑ ا کاروبار اور وسیع وعریض گھر چھوڑ گئے تھے ۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، بچوں کی خوشیاں دیکھیں اور اپنی طبعی عمر پوری کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔جبکہ دوسرا جنازہ ایک ایسے صاحب کا تھا جن کے پاس ملازمت تھی نہ اپنا گھر۔ ڈاکٹروں نے ان کے ایک معمولی مرض کی غلط تشخیص کی۔آپریشن ہوا۔ان کے جسم میں انفیکشن پھیل گیا اور وہ اپنی طبعی عمر سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
یہ محض میرے جاننے والے دو افراد نہیں ، بلکہ دو کردار ہیں جو آزمائش کی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تفویض کیے ہیں ۔غربت اور امارت، پانا اور کھونا، خوشی اور غمی ، آزمائش کی اس دنیا میں امتحان کے پرچے ہیں ۔اس آزمائش میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس نے اچھے برے حالات پیش آنے پر کیا رویہ اختیار کیا۔ اس نے اللہ اور بندوں کے حقوق کس حد تک پورے کیے ۔اس نے حق ، انصاف اور احسان کا رویہ اختیار کیا یا ظلم ، جہالت اور تعصب کا۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی شخص کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس پر نہیں کہ دنیا میں اس نے کیا کمایا۔ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرتے ہیں ۔ وہ انسان کی مادی دنیا ، اس کے جسم کی طرح، خود تخلیق کرتے ہیں ۔ وہی طے کرتے ہیں کہ دنیا میں اسے کس قسم کے حالات سے گزرنا ہے ۔البتہ ایمان واخلاق کی دنیا انسان کو خود تشکیل دینا ہوتی ہے ۔یہی وہ روحانی دنیا ہے جو کل قیامت کے دن ابد تک باقی رہنے والی ایک مادی دنیا میں بدل جائے گی۔
انسان جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت کی طرح، ایک دفعہ پھر غربت و امارت کے سارے فرق مٹ جاتے ہیں ۔ہرانسان کے پاس پہننے کو صرف کفن کا اور رہنے کو محض قبر کا گڑ ھارہ جاتا ہے ۔ قبر کا یہ گڑ ھا پکار پکار کر ہر انسان کو بتاتا ہے کہ مادی دنیا میں خالی ہاتھ آنے والا انسان ، خالی ہاتھ ہی دنیا سے رخصت ہوتا ہے ۔ہاں جوچیزساتھ جاتی ہے وہ حسن عمل کا سرمایہ ہے ۔ جس کے پاس یہ سرمایہ ہے وہ قبر میں بھی امیر ہے ۔ جس کے پاس یہ نہیں وہ قبر میں فقیر ہے ۔اورقبر کا فقیر دنیا کا سب سے بدنصیب فقیر ہوتا ہے ۔
مسجد کا ماحول
مساجد اللہ کا گھر ہیں ۔یہاں ہر روز مسلمان دن میں پانچ دفعہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔فرض نمازیں جماعت سے ادا کرنے کی بہت فضیلت آئی ہے ۔ بعض روایات میں جماعت کی نماز کوفرد کی نماز سے 27گنا افضل قرار دیا گیا ہے ۔(بخاری:رقم 619)
مسجد میں پڑ ھی جانے والی نماز عام نماز سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے ۔یہ انسان کو اس کے مادی ماحول سے کاٹتی ہے اور مسجد کے روحانی ماحول میں لے جاتی ہے ۔یہ ماحول مختلف طریقوں سے انسان کی تربیت کرتا ہے ۔
انسان اپنے گھر، دکان، دفتر سے اٹھتا ہے اور مسجد کی سمت روانہ ہوتا ہے ۔اپنی جگہ چھوڑ نا اور مسجد کی طرف جانا اپنی ذات میں ایک اعلیٰ درجہ کا خدا پرستانہ عمل ہے جس میں ہر قدم پر انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ در حقیقت وہ اللہ کا بندہ ہے اور اسے لوٹ کر اپنے رب کے حضور جانا ہے ۔
مسجد میں نماز کے انتظا رمیں اسے بیٹھنا پڑ تا ہے ۔یہ تنہائی اور خاموشی کا وقت ہوتا ہے ۔ انسان اپنے روٹین کی روزمرہ زندگی اور معمولات میں غور و فکر کا کوئی وقت نہیں پاتا۔مگر مسجد میں اسے نماز کی عبادت کے ساتھ غور و فکر کی عظیم عبادت بھی نصیب ہوجاتی ہے ۔وہ اس دوران میں اللہ کا ذکر کرتا اور کائنات میں پھیلی اس کی نشانیوں پر غور کرتا ہے ۔اسے احساس ہوتا ہے کہ جس طرح اس لمحے لوگ بظاہر بے مصرف اورخاموش بیٹھے ، مگر درحقیقت اللہ کی یاد میں مشغول ہیں ، اسی طرح کائنات میں موجود مخلوقات کا ہجوم اپنی خاموش زبان میں رب کی حمد اور تسبیح بیان کرتا ہے ۔اسے اپنے رب کی عظمت کا احساس ہوجاتا ہے جو ان تمام مخلوقات کا خالق ہے ۔
مسجد میں بہت سے لوگوں کے ساتھ جماعت کی نماز ادا کی جاتی ہے ۔ جس میں ہر شخص ایک امام کی پیروی کرتا ہے ۔اس سے نمازی کو یہ سبق ملتا ہے کہ انسانوں کو اپنے اپنے اختلافات کے باجود ایک ساتھ زندگی گزارنی ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سب لوگ اپنے آپ کو ایک ڈسپلن کے حوالے کر دیں ۔
مسجد سے واپسی پر وہ یہ احساس لے کر جاتا ہے کہ وہ ابھی سر سے پاؤں تک جسم کے ہر حصے کو خدا کے سامنے جھکا کر اس سے اطاعت کا عہد کر کے آیا ہے ۔ اس لیے مسجد سے باہر آتے ہی وہ اطاعت کا یہ عہد نہیں توڑ سکتا۔ اس طرح نماز اسے مسجد سے باہر بھی رب کا بندہ بنائے رکھتی ہے ۔
قبر کی پکار
نماز جنازہ میں شرکت کرنا ہماری روایت ہے ۔یہ مرنے والے کے حقوق میں سے ایک حق ہے جو ہر قریبی شخص پر عائد ہوجاتا ہے ۔اس روایت کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ دنیا سے جانے والے ایک بھائی کو عزت و احترام سے رخصت کیا جائے اور رب کے حضور پیشی کے وقت دعاؤں کی سوغات اس کے ہم رکاب کی جائے ۔
مرنے والے اور اس کے لواحقین سے گہرا تعلق رکھنے والے لوگ نمازِ جنازہ کے بعد قبرستان تک ساتھ جاتے ہیں ۔ وہ جنازے کو کندھا دیتے ہیں ۔ اپنے بھائی کو قبر میں اتارتے وقت موجود رہتے ہیں ۔اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہیں اور واپسی سے پہلے ایک دفعہ پھر رب کے حضور اس کی خطاؤں پر در گزر کی درخواست کرتے ہیں ۔
اس پورے عمل کا ایک بہت بڑ ا فائدہ ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو جنازے کے ہمراہ ہوتے ہیں ۔ انسان زندگی کی گہما گہمی میں موت کی تلخ حقیقت کو فراموش کیے رہتا ہے ۔ مگر جنازے میں شرکت کا یہ عمل اسے موت کے ناگزیر سامنے کی یاددہانی کرادیتا ہے ۔اسے یاد آ جاتا ہے کہ یہ مرنے والا اسی طرح پیدائش، نکاح، معاش اور زندگی کے دیگر معاملات سے گزرا جس طرح وہ گزر رہا ہے ۔مگر ان سب کے باوجود جس طرح موت نے مرنے والے کو آدبوچا ، اس کا وقت بھی جلد ہی آنے والا ہے ۔
مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ عین جنازہ اور دفن کے مناظر کے وقت بھی ان کی توجہ دنیا کی طرف لگی رہتی ہے ۔ کوئی میت کے حالات پر گفتگو کرتا ہے ، کوئی سیاست کو موضوع بحث بناتا ہے ۔کسی کو قبرستان میں امریکی سازشیں یاد آ جاتی ہیں اور کوئی قبرستان کی حالت زار کا رونا رونے لگتا ہے ۔بہت سے لوگوں کے لیے یہ عزیزوں ، رشتہ داروں سے ملنے کا نادر موقع ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے کاروباری حالات اور خاندانی معاملات پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں ۔
جو لوگ بہت زیادہ بولتے ہیں وہ سنتے نہیں ہیں ۔ ورنہ اگر سننے والے کان ہوں تو اُس وقت وہ قبر کی پکار کو ضرور سنیں گے جو چیخ چیخ کر لوگوں کو بتاتی ہے کہ اے غافلو! میرے پاس آئے ہو تو لمحہ بھر کے لیے سہی، اِس دنیا کو چھوڑ کراُس دنیا کو یاد کر لو۔میں آخرت کا دروازہ ہوں ۔ یہ دروازہ آج تمہارے بھائی پر کھلا ہے بہت جلد یہ تمہارے لیے کھول دیا جائے گا۔
 
  • Like
Reactions: Hoorain
Top