فرض کرو ہم تارے ہوتے
اِک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بُجھتےاور پھر اِک دنشاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتےدریا کے دو دھارے ہوتےاپنی اپنی موج میں بہتےاور سمندر تک اس اندھری، وحشی اور منہ زور مسافتکے جادو میں تنہا رہتےفرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتےاُڑتے اُڑتے اِک دوجے کو چھوتے۔۔۔ اور پھرکھلے گگن کی گہری اور بے صرفہ آنکھوں میں کھو جاتے!ابرِ بہار کے جھونکے ہوتےموسم کے اِک بے نقشہ سے خواب میں ملتےملتے اور جُدا ہو جاتےخشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرتےاور اَن دیکھے سپنے بوتےاپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتےفرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے ۔۔۔۔ ؟
__________________
اِک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بُجھتےاور پھر اِک دنشاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتےدریا کے دو دھارے ہوتےاپنی اپنی موج میں بہتےاور سمندر تک اس اندھری، وحشی اور منہ زور مسافتکے جادو میں تنہا رہتےفرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتےاُڑتے اُڑتے اِک دوجے کو چھوتے۔۔۔ اور پھرکھلے گگن کی گہری اور بے صرفہ آنکھوں میں کھو جاتے!ابرِ بہار کے جھونکے ہوتےموسم کے اِک بے نقشہ سے خواب میں ملتےملتے اور جُدا ہو جاتےخشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرتےاور اَن دیکھے سپنے بوتےاپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتےفرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے ۔۔۔۔ ؟
__________________