الله تعالی نے کتاب الله میں واضح کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک کوئی قوم منتخب کردہ نہیں – امت الوسطی ہے جس پر ذمہ داری ہے کہ وہ الوسطی کا کردار ادا کریں کہ نہ یہود کی طرح رحمت الہی کو مقید کریں نہ نصاری کی طرح اس کو لام و عام بلکہ افراط و تعصب سے بچیں اور دین میں غلو نہ کریں
صحیح روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے نجد میں بھی۔ آپ نے فرمایا ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور ہمارے یمن میں بھی۔ لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی۔ راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تیسری بار رسول اللہ نے فرمایا کہ وہاں پر زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔
ایسی روایات سے بعض لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلمان اگر رہ گئے ہیں تو وہ صرف شام اور یمن میں ہیں حالانکہ اس میں برکت کا ذکر ہے اور ایمان کا ذکر نہیں ہے – ایمان کا تعلق تو دل سے ہے اور اس کا کسی علاقے سے تعلق نہیں ہے – شام کی فضیلت کا ذکر صحیح احادیث میں ہے جن کو قرب قیامت کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا لیکن اس کے علاوہ بعض دوسرے ، تیسرے اور چوتھے درجے کی کتب میں ایسی ضعیف روایات بھی ہیں جن میں ملک شام کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے اور بہت سے شام پسند اور اس میں سکونت اختیار کرنے والے علماء نے فضائل الشام پر کتب میں ان ضعیف روایات کو درجہ قبولیت دے دیا ہے – ایسی کتب سے نوجوانوں کا ایک طبقہ متاثر ہوا جو علم حدیث اور علل حدیث کی پیچدگیوں سے نا واقف تھا اور پھر جو ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کےسامنے ہے
واضح رہے کہ دور نبوی میں شام سے مراد وہ علاقہ تھا جو آج ملک شام اردن اسرائیل پر مشتمل ہے
شام کی یہ اہمیت کہ اس پر کوئی غالب نہ ہو گا اور یہاں پر وقت فرشتے سایہ رکھتے ہیں اور یہاں ابدال رہتے ہیں قابل غور ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ اس کو صلیبیوں نے قبضے میں کیا – پہلی صلیبی جنگ ١٠٩٦ ع میں شروع ہوئی اور نویں ١٢٧٢ ع میں ہوئی یعنی ڈیڑھ سو سال سے اوپر شام کا با برکت علاقہ مسلمانوں کے پاس نہ تھا یہاں تک کہ شام میں ارض مقدس میں قبلہ اول بھی آج نہیں ہے
اس تاریخی تناظر میں اب یہاں علماء کی صحیح قرار دی گئی روایات پر نظر ڈالتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کیا یہ واقعی حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم ہو سکتی ہیں
مدینہ سے ایمان کا شام منتقل ہونا
حدثنا أحمدُ بن محمَّد بن يحيى بن حَمْزَة الدمشقي، ثنا يحيى بن صالح الوُحَاظِي، ثنا سعيدُ بن عبد العزيز، عن يونُس بن مَيْسَرة بن حَلْبَس، عن عبد الله بن عَمرو بن العاص، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: «رَأَيْتُ عَمُودَ الكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُو نُورٌ سَاطِعٌ إِلَى الشَّامِ
عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب (الله) کو مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا، ادھرشام سے بہت نور پھوٹ رہا تھا۔
اس حدیث کو ابو نعیم نے الحلیۃ میں، ابن عساکر نے، الطبرانی نے الکبیر میں مسند الشاميين میں اور الاوسط میں روایت کیا ہے الحاکم نے صحیح قرار دیا ہے
اس کی سند میں سعيدُ بن عبد العزيز ہیں جو مدلس تھے اور آخری عمر میں مختلط بھی ہوئے
افسوس روایت کے راوی يونس بن ميسرة بن حلبس خود ایک فتنہ میں ہلاک ہوئے کتاب الطبقات الكبرى از ابن سعدکے مطابق
لما دخل المسودة في أول سلطان بني هاشم دمشق دخلوا مسجدها فقتلوا من وجدوا فيه فقتل يومئذ يونس بن ميسرة بن حلبس
جب کالیے (بنو ہاشم جنہوں نے کالے کپڑے پہن کر بنو امیہ کے خلاف خروج کیا) جو بنو ہاشم کے لیڈر تھے دمشق میں مسجد میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس میں تمام (مسلمانوں) کو قتل کر دیا پس اس روز يونس بن ميسرة بن حلبس قتل ہوئے
معجم طبرانی کی اسی متن کی روایت أَبِي أُمَامَةَ سے بھی ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الْمِصِّيصِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ قَالَ: «رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُوَ نُورٌ سَاطِعٌ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَدْ هَوَى بِهِ، فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، وَإِنِّي أَوَّلْتُ أَنَّ الْفِتَنَ إِذَا وَقَعَتْ أَنَّ الْإِيمَانَ بِالشَّامِ
اسکی سند میں الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں سند میں عفير بن معدان الحضرمى ہے جو ضعیف ہے منکر الحدیث ہے
ایک روایت مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ احْتُمِلَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ مَذْهُوبٌ بِهِ، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلَا وَإِنَّ الْإِيمَانَ حِينَ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ
أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ کتاب میرے سر کے نیچے سے سیدھی اوپر گئی پھر میں نے گمان کیا کہ یہ جا رہی ہے پس میری نگاہ نے اس کا تعاقب کیا تو دیکھا یہ شام کی طرف جا رہی ہے خبر دار ایمان شام میں ہے جب فتنہ ہو
الغرض یہ روایت شاذ و منکر ہے- یہ روایت ایمان کا مدینہ سے شام منتقل ہونا بتا رہی ہے جبکہ صحیحین کے مطابق تو ایمان مدینہ میں سمٹے گا اور دجال کی آمد پر مدینہ تین بار لرز جانے گا اور مدینہ منافقین سے خالی ہو گا
عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب (الله) کو مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا، ادھرشام سے بہت نور پھوٹ رہا تھا۔
اس حدیث کو ابو نعیم نے الحلیۃ میں، ابن عساکر نے، الطبرانی نے الکبیر میں مسند الشاميين میں اور الاوسط میں روایت کیا ہے الحاکم نے صحیح قرار دیا ہے
اس کی سند میں سعيدُ بن عبد العزيز ہیں جو مدلس تھے اور آخری عمر میں مختلط بھی ہوئے
افسوس روایت کے راوی يونس بن ميسرة بن حلبس خود ایک فتنہ میں ہلاک ہوئے کتاب الطبقات الكبرى از ابن سعدکے مطابق
لما دخل المسودة في أول سلطان بني هاشم دمشق دخلوا مسجدها فقتلوا من وجدوا فيه فقتل يومئذ يونس بن ميسرة بن حلبس
جب کالیے (بنو ہاشم جنہوں نے کالے کپڑے پہن کر بنو امیہ کے خلاف خروج کیا) جو بنو ہاشم کے لیڈر تھے دمشق میں مسجد میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس میں تمام (مسلمانوں) کو قتل کر دیا پس اس روز يونس بن ميسرة بن حلبس قتل ہوئے
معجم طبرانی کی اسی متن کی روایت أَبِي أُمَامَةَ سے بھی ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الْمِصِّيصِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ قَالَ: «رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُوَ نُورٌ سَاطِعٌ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَدْ هَوَى بِهِ، فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، وَإِنِّي أَوَّلْتُ أَنَّ الْفِتَنَ إِذَا وَقَعَتْ أَنَّ الْإِيمَانَ بِالشَّامِ
اسکی سند میں الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں سند میں عفير بن معدان الحضرمى ہے جو ضعیف ہے منکر الحدیث ہے
ایک روایت مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ احْتُمِلَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ مَذْهُوبٌ بِهِ، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلَا وَإِنَّ الْإِيمَانَ حِينَ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ
أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ کتاب میرے سر کے نیچے سے سیدھی اوپر گئی پھر میں نے گمان کیا کہ یہ جا رہی ہے پس میری نگاہ نے اس کا تعاقب کیا تو دیکھا یہ شام کی طرف جا رہی ہے خبر دار ایمان شام میں ہے جب فتنہ ہو
الغرض یہ روایت شاذ و منکر ہے- یہ روایت ایمان کا مدینہ سے شام منتقل ہونا بتا رہی ہے جبکہ صحیحین کے مطابق تو ایمان مدینہ میں سمٹے گا اور دجال کی آمد پر مدینہ تین بار لرز جانے گا اور مدینہ منافقین سے خالی ہو گا
شام پر فرشتوں کے پر
امام احمد اور امام ترمذی اپنی کتب میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی الله
علیہ وسلم نے فرمایا:
حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حِينَ قَالَ: “طُوبَى لِلشَّامِ، طُوبَى لِلشَّامِ ” قُلْتُ: مَا بَالُ الشَّامِ؟ قَالَ: “الْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَجْنِحَتِهَا عَلَى الشَّامِ
“شام کتنی مبارک جگہ ہے!”، صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: “اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہے؟”، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: “میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔”
اسکی سند میں ابْنُ لَهِيعَةَ ہے جو ضعیف ہے دوسری میں يحيى بن أيوب الغافقي ہے وہ بھی ضعیف ہے
شام میں ہر وقت جہاد
حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ، وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خُذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ
مسند ابی یعلی ج۱۳ ص۱۸۱ رقم:۶۲۸۶۔ المعجم الکبیر للطبرانی ج ۱۹ص۹۸۔ مجمع الزوائد ج۱۰ص۶۰واسنادہ صحیح
ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
میری امت کا ایک گروہ لڑتا رہے گا دمشق کے دروازوں اور اس کے اطراف اور بیت المقدس کے دروازوں اور اس کے اطراف، ان کی مخالفت کرنے والا ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا اور وہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
لوگوں نے اس روایت کو صحیح قرار دے دیا ہے جبکہ میزان الآعتدل میں الذھبی سند کے راوی کے لئے کہتے ہیں الوليد بن عباد، شيخ. حدث عنه إسماعيل بن عياش مجهول ہے
مسند احمد، مسند ابو داود الطیالسی، مسند البزار کی روایت ہے
ابو عبداللہ شامی کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سناکہ مجھے انصاری صحابی زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا اور مجھے امید ہے کہ اے ا ہل شام! یہ تم ہی ہو۔ (مسند احمد)
اس کی سند میں ابو عبد الله الشامی کون ہے محققین پر واضح نہیں ہو سکا الشيخ مصطفى العدوي ، المنتخب من مسند عبد بن حميد پر اس روایت کی تعلیق پر لکھتے
أبو عبد الله لم نستطع تمييزه ابو عبد الله ہم اس کی تمیز نہ کر سکے
مسند البزار میں امام البزار کہتے ہیں وَأبُو عَبد اللَّهِ الشَّامِيُّ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا سَمَّاهُ، ولاَ نَعْلَمُ رَوَى عَنْهُ إلاَّ شُعْبَة
اور ابو عبد الله الشامی پس ایسا نام کسی کو نہ دیا گیا اور ہم نہیں جانتے کہ شعبہ کے علاوہ اس سے کسی نے روایت کیا ہو
شعیب الآرنوط مسند احمد کی تعلیق میں کہتے ہیں وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبي عبد الله الشامي اور یہ روایت ابی عبد الله الشامی کی مجہولیت کی وجہ سے ضعیف ہے
لہذا روایت ضعیف ہے
اہل شام ……آخری دور میں فتنوں کی زمین
تاریخ الکبیر از امام بخاری کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن يوسف أنا يحيى ابن حَمْزَةَ حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ وَكَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ قَالا: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ وَابْنَ السِّمْطِ قَالا: لا يَزَالُ الْمُسْلِمونَ فِي الأَرْضِ حَتَّي تَقُومَ السَّاعَةُ وَذَلِكَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا تَزَالُ
عِصَابَةٌ قَوَّامَةً، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُمْ أَهْلُ الشَّامِ
ابو ہریرہ اور ابن السمط رضی الله عنہما نے کہا کہ مسلمان زمین پر نہیں جائیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہی اور یہ اس وجہ سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ایک گروہ کو زوال نہ ہو گا جو قائم رہے گا اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ اہل شام ہیں
کتاب المعرفة والتاريخ از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) کے مطابق
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن يوسف قال: حدثنا يحي بْنُ حَمْزَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَلْقَمَةَ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ الْحَضْرَمِيُّ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ أَنَّ عمير بن الْأَسْوَدِ وَكَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ قَالا: إِنَّ أبا هُرَيْرَةَ وَابْنَ السِّمْطِ كَانَا يَقُولَان
لا تزالُ من أمَّتي عِصابةٌ قوَّامةٌ على أمْرِ الله عزّ وجلّ، لا يضرُّها من خالفَها؛ تقاتلُ أعداءها، كلما ذهبَ حربٌ نشِبَ حربُ قومٍ آًخرين، يزيغُ اللهُ قلوب قوم ليرزقَهم منه، حتى تأتيهم الساعةُ، كأنّها قطعُ الليلِ المظلمِ، فيفزعونَ لذلك؛ حتّى يلبسُوا له أبدانَ الدُّروع، وقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: همْ أهلُ الشّامِ، ونكَتَ رسولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – بإصبعِه؛ يومئُ بها إلى الشّامِ حتّى أوجَعها
ابو ھریرۃ اور ابن السمط رضی اللہ عنہما سے اسی سند سے طویل حدیث مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
میری امت کا ایک گروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے قتال کرتا رہے گا، ان کو ان کے مخالف نقصان نہ دےسکیں گے اور وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے رہیں گے جب بھی جنگ جائے گی ایک اور لڑنے والی جنگ ان سے الجھ جائے گی اللہ ایک قوم کے دل ٹیڑھے کر دے گا کہ ان کو رزق دے (کر آزمائش میں ڈالے گا) یہاں تک کہ قیامت آئے جیسے کہ کالی رات – پس وہ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے اس پر یہاں تک کہ ان کے بدن ڈھال بن جائیں گے اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: ’ وہ اہل شام ہونگے‘ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے شام کی طرف اشارہ کیا، یہاں تک کہ انھیں افسوس ہوا ۔
البانی سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں لکھتے ہیں
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات
میں کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کے رجال ثقہ ہیں
لوگوں نے اس روایت سے اہل شام کی تعریف لی ہے حالانکہ اس میں ان کی برائی کی جا رہی ہے – شام میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دور نبوی سے آج تک جنگ جدل کا بازار گرم رہا ہو جیسا کہ اس روایت میں ہے یہ ایک عظیم تاریخی غلطی ہے ایسی روایت منکر ہے بلکہ بنو امیہ کا ٩٠ سال کے دور میں یہ عموما پر امن رہا ہے
روئے زمین کے بہترین جنگجو
سنن ابو داود، مسند احمد ، مستدرک الحاکم کی روایت ہے
حدَّثنا حيوةُ بن شُريح الحضرمي، حدَّثنا بقيةُ، حدثني بَحيرٌ، عن خالدٍ – يعني ابنَ مَعدانَ – عن أبي قُتَيلةَ عن ابن حَوالةَ، قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “سيصير الأمرُ إلى أن تكونوا جنُوداً مُجنَّدةً، جندٌ بالشام، وجندٌ باليمن، وجندٌ بالعراق” قال ابن حَوالة: خِرْ لي يا رسول الله إن أدركتُ ذلك، فقال: “عليك بالشامِ فإنها خِيَرةُ اللهِ من أرضِه، يجْتبي إليها خِيَرتَه من عبادِه، فأما إن أبيتُم فعليكم بيَمَنِكم، واسقُوا من غُدُرِكم، فإن الله تَوكّل لي بالشامِ وأهلِه
عبداللہ بن حَوالةَ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “تم لوگ عنقریب کچھ فوجی دستے ترتیب دو گے؛ شام کی فوج، عراق کی فوج، اور یمن کی فوج۔” تو عبداللہ ؓ نے کہا: “اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم میرے لئے ایک دستہ چن لیں!” تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “شام جاؤ، اور جو بھی ایسا نہیں کر سکے وہ یمن جائے، جیسے کہ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے میرے لئے شام اور اس کے لوگوں کو پسند کیا ہے۔”
اسکی سند میں أبي قُتَيلةَ ہے جو مجھول ہے بعض محدثین نے اس سے صحابی مَرثَد بْن وداعَة رضی الله عنہ مراد لئے ہیں – لیکن کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق قال أبو حاتم وغيره لا صحبة له ابو حاتم اور دوسرے محدثین کہتے ہیں صحابی نہیں ہے – أبي قُتَيلةَ کے حالات پر جرح و تعدیل کی کتب خاموش ہیں لہذا یہ مجھول ہے اور روایت ضعیف ہے
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا مَكْحُولٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَوَالَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” سَيَكُونُ جُنْدٌ بِالشَّامِ، وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ “، فَقَالَ رَجُلٌ: فَخِرْ لِي يَا رَسُولَ اللهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَلَيْكَ بِالشَّامِ، عَلَيْكَ بِالشَّامِ – ثَلَاثًا، عَلَيْكَ بِالشَّامِ – فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ، وَلْيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فَإِنَّ اللهَ قَدْ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ “، قَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّتَيْنِ: فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ حَوَالَةَ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے شام میں لشکر ہوں گے اور یمن میں لشکر ہوں گے ہے پس ایک آدمی نے کہا پس مجھے چن لیں کہ میں بھی وہاں ہوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے وہاں شام میں شام میں تین بار کہا
اس کی سند میں ہے محمد بن راشد المكحولي ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے مکحول سے بہت ارسال کیا ہے ، وهو لم يسمع هذا الحديث من ابن حوالة اور یہ حدیث ابن حوالہ سے نہیں سنی.
لہذا یہ ضعیف روایت ہے
صحیح ابن حبان اور طبرانی الکبیر میں اس کی سند میں سَعِيدَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ہے جو مختلط اور مدلس تھے دوم عبد الله بن العباس بن الوليد بن مزيد العذري البيروتي ہیں جن کے لئے أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري کتاب إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني میں کہتے ہیں یہ مجھول ہے
شام و یمن کا محاذ
كتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء أز أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) كي روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ النَّحَّاسُ، ثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ اللهَ اسْتَقْبَلَ بِيَ الشَّامَ وَوَلَّى ظَهْرِي الْيَمَنَ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَكَ مَا تُجَاهَكَ غَنِيمَةً وَرِزْقًا، وَمَا خَلْفَ ظَهْرِكَ مَدَدًا وَلَا يَزَالُ اللهُ يَزِيدُ – أَوْ قَالَ -: يُعِزُّ الْإِسْلَامَ وَأَهْلَهُ وَيُنْقِصُ الشِّرْكَ وَأَهْلَهُ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ بَيْنَ كَذَا – يَعْنِي الْبَحْرَيْنِ – لَا يَخْشَى إِلَّا جَوْرًا، وَلَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرَ مَبْلَغَ اللَّيْلِ ” غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الشَّيْبَانِيِّ، تَفَرَّدَ بِهِ عَنْهُ ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ
ابو امامۃ الباھلی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے: اے محمد صلی الله علیہ وسلم! میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے اور تمھارے پیچھے مدد رکھی ہے۔ … یہ حدیث غریب ہے …..اس میں ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ کا تفرد ہے
راوی ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ کو صالح الحدیث کہا جاتا ہے الذھبی ، میزان الآعتدل میں کہتے ہیں مشهور ما فيه مغمز مشھور ہے ان میں غلطیاں ہیں