شاعر​

  • Work-from-home

Mahen

Alhamdulillah
VIP
Jun 9, 2012
21,845
16,877
1,313
laнore
شاعر​​
خادم حسین مجاہد
(جينوئن شعرا سے بصد احترام و معذرت کے ساتھ)

کسي دلي يا دماغي چوٹ کے باعث منہ کے راستے موزوں کلام اگلنے والي توپ کو شاعر کہتے ہيں۔۔تاريخ کے ہر دور ميں اس کا وجود ثابت ہے۔ اور يہ واحد پيداوار ہے جس کا کبھي قحط نہيں پڑا۔ ہميشہ افراط ہي رہي ہے۔ کوئي انسان اچانک شاعر کيسے بن جا تا ہے اس بارے ميں محققين ميں اختلاف رائے پايا جا تا ہے۔ بہرحال اس پہ انکا اتفاق ہے کہ جس طرح دماغ چلنے کے کئي عوامل ہوتے ہيںاسي طرح شاعر بننے کے بھي مختلف اسباب و عوامل ہپو سکتے ہيں ۔ اہل نظر شاعر کو دور سے اور با ادب گفتگو سے پہچان ليتے ہيں۔۔پھر بھي اسکي چند موٹي موٹي نشانياں يہ ہيں کہ شاعر بننے کے بعد يہ اپنے نام ميں کسي عجيب و غريب لفظ کا اضافہ کر ليتا ہے۔۔جسے تخلص کا نام ديا جا تا ہے۔۔۔( بعض تخلص پہلے رکھتے ہيں اور شاعري بعد نميں شروع کرتے ہيں) يہ تخلص عموما ايسا ہوتا ہے کہ پہلي مرتبہ سننے والاچونک اٹھتا ہے۔۔۔ہوتا يوں ہے کہ وہ بھولا بھالا لڑکا جسے آپ عبدالرشيد کے نام سے جانتے ہيں بلکہ وقتا فوقتا اسے شيدا کہ کر سگريٹ بھي منگواتے رہتے ہيں اچانک پتہ چلتا ہے کہ وہ عبدالرشيد اب بھولا بھالا شيدا نہيں رہا بلکہ اب عبدالرشيد آزردہ ہو گيا ہے۔آپ لاکھ اس آزردگي کا سبب جاننے کي کوشش کريں مگر وہ وضاحت نہيں کرتا۔
کسي کے شاعر ہونے کي سب سے بڑي نشاني يہ ہے کہ وہ بولتا بولتا سوچوں ميں کھو جائے گا۔اور جب بولے گا تو آفاقي مسائل پر بات کرے گا۔۔۔ليکن بيچارے کے ذاتي مسائل بھي اس سے حل نہ ہو رہے ہوں گے۔۔
معاشرے کي اکثريت شاعري کو اتنا برا سمجھتي ہے کہ وہ سمگلر کو رشتہ دينے پر تيار ہو جاتے ہيں مگر شاعر سے دور بھاگتے ہيں۔۔۔اور تو اور افلاطون جيسے فلسفي نے بھي شاعروں کو ايک فالتو مخلوق قرار ديا اور اپني خيالي جمہوريہ ميں شاعروں کو نمائندگي تک نہ دي۔۔

۔
پرانے زمانے مين شاعروں کا حليہ خاندان والوں سے کم اور نفسياتي مريضوں سے زيادہ ملتا تھا۔ مہينوں غسلخانے، نائي اور آئينے کا منہ نہ ديکھتے تھے۔ جس کي وجہ سے انکي داڑھي، سر کے بال اور مونچھوں ميں خط عليحدگي کھينچنا کار دارد ہوتا تھا۔وہ عموما صرف شاعري ہي کرتے تھے اسي ليے انکي ازدواجي زندگي مرثيوں سے بھري ہوتي تھي۔ يہ لوگ دانت خراب کرنے کے ليے پان کي خدمات حاصل کرتے تھے۔ اور ميسر ہو تو انگور کي بيٹي سے بھي چھيڑ چھاڑ کر ليتے تھے۔
آجکل شاعر، شاعر کم اور بيوروکريٹ نظر آنے کي کوشش زيادہ کرتے ہين۔ اکثر گورنمنٹ سروسز کے شوقين ہوتے ہيں کہ مشق سخن کے ليے زيادہ سے زيادہ وقت مل سکے۔ يہ دانت، معدہ اور دل تباہ کرنے کے ليے سگريٹ ، پائپ، کافي اور چائے کا استعمال تھوک کے حساب سے کرتے ہيں۔

ايک شاعر عملي زندگي ميں جتنا بے عمل ہوتا ہے شاعري ميں اتنا ہي باعمل ہو تا ہے۔ اس کے ارادے ، خواہشات اور مقاصد عموما ممکنات کي سرحد کے پار واقع ہوتے ہيں۔ مگر جب قلم و قرطاس اس کے ہاتھ ميں ہوتا ہے تو وہ کارنامے سر انجام ديتا ہے۔کہ بڑے بڑے سورما چيں بول جاتے ہيں يہ چاہے تو آہ سے آندھي چلوا دے، جنگل جلا کر راکھ کر دے، پوري دنيا آنسوؤں کے سيلاب ميں غرق کر دے، محبوب کا جلوہ دکھادے اور صور پھونک دے۔ محبوب کي جھلک دکھائے اور مرتے ہوؤں کو قبر سے کھينچ لائےيا موڈ ميں آئے تو سمر قند و بخارا کے بادشاہ سے پوچھے بغير محبوب کے ايک خال کے بدلے ہديہ کر دے۔ محبوب کي کمر کو يون غائب کر دے جيسے ملک سے ايمانداري ، دل چاہے تو محبوب کے ماتھے پر صرف ستارے ہي نہيں بلکہ پورا نظام شمسي سجا دے اور چاہے تو محبوب کو باغ کي سير کراکے پھولوں کو احساس کمتري ميں مبتلا کر دے۔ بڑے سے بڑا عالمي تنازعہ جب ايک شاعر کے سامنے آتا ہے تو وہ محض ايک

شعر يا ايک نظم ميں حل پيش کر ديتا ہے۔
شاعر کا مشق سخن کرنے تک کا عمل نہايت پر امن ہے نقص امن کا مسئلہ اس وقت پيدا ہوتا ہے جب شاعر يہ شاعري سنانے پر تل جاتا ہے۔ يہ صورتحال اس وقت زيادہ گھمبير ہو جاتي ہے جب شاعر نيا نيا ہو اور اور آس پاس کوئي مشاعرہ ہو نہ کوئي باذوق ۔اس وقت اسکي حالت کچھ اس مرغي جيسي ہوتہ ہے جس نے انڈا دينا ہو اور کوئي مناسب جگتہ نہ مل رہي ہو۔ايسي صورت ميں پھر جو شخص شاعر کے ہتھے چڑھ جائے اسے اسکي شاعري کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ايسے ہي کسي شاعر کے گھر غلطي سے کوئي چور گھس آيا ۔۔مال وغيرہ تو بيچارے کو کيا ملتا شاعر جو اس وقت مشق سخن ميں مصروف تھا اس نے اسکو پکڑ ليا اور لگا دھمکياں دينے حوالہ پوليس کرنے کي۔۔چور نے منت سماجت کي اور کہا کہ چرايا تو ميں نے کچھ بھي نہيں پھر تم خود ہي کوئي سزا دے لو حوالہ پوليس نہ کرو۔ يہ بات کر کے گويا چور نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑي مار لي۔ شاعراپنا ديوان کھول کے بيٹھ گيا اور شروع سے سنانے لگا۔ابھي دس بارہ غزليں ہي ہوئي ہوں گي کي چور چيخ پڑا کہ خدا کے ليے بس کرو اور مجھے پوليس کے حوالے کر دوليکن تب تک شاعر کے دل کا بوجھ بہت حد تک ہلکا ہو چکا تھا۔

شاعر دماغ رکھتے ہيں يا نہيں يہ بحث طلب ہے کچھ لوگوں کا خيال ہے کي دماغ کے بغير کوئي شاعري کيسے کر سکتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کا خيال ہے کہ دماغ کے ہوتے ہوئے کوئي شاعري کيسے کرے گا۔ ہر موقف کے حامي ٹھوس دلائل رکھتے ہيں مگر ہم نے سنا ہے کہ ايک دفعہ کچھ لوگ جنگل ميٕں آدم خوروں کے ہتے چڑھ گئے اور ان لوگوں کو سالم پکانے کے بعد سردار کي خدمت ميں پيش کيا گيا سردار ان ميں سے ايک شکص سے ڈنر کرتے ہوئے جب اسکي کھوپڑي تک پہنچا تو اسے خالي پايا۔اسے انسانوں کو کھاتے ايک زمانہ بيت گيا تھا مگر ايسا واقعہ کبھي نہ ہوا تھا۔ متجسس ہو کر اسنے اپنے نائب کو تحقيق کرنے کے ليے کہا۔آنجہاني ہونے والے افراد کے سامان کي پڑتال کي گئي تو معلوم ہوا کہ وہ خالي کھوپڑي والا شاعر تھا۔

شاعروں کي خوراک کے بارے ميں بھي پہلوانوں کي طرح خاصي مبالغہ آميز حکايات مشہور ہيں ليکن حقيقت يہ ہے کہ انکي خوراک صرف داد ہے۔ اگر ايک شاعر سے آپ تين ٹائم شاعري سن کر واہ واہ کہہ ديں تو وہ لمبا عرصہ کھائے پيئے بغير زندہ زندہ رہ سکتا ہے۔ ليکن آپ اسکو دنيا جہان کي ہر چيز کھلا ديں ليکن داد نہ ديں تو وہ بھوکا رہے گا۔ اگر آپ کسي شاعر سے انتقام لينا چاہتے ہيں تو پھر اکژ وبيشتر اسکي شاعري سنتے رہيں ليکن کبھي اسے بھول کر بھي واہ واہ نہ کہيں۔ کسي نہ کسي دن اسے خود ہي اختلاج ہو جائے گا۔
دنيا ميں ہر مخلوق کي لاتعداد اقسام پائي جاتي ہيں شاعر بھي اس سے مثتثنٰي نہيں۔ مزاج، انداز اور طريقہ واردات کے تحت ان کي بھي کئي اقسام ہيں جن ميں سے چند ايک کا حال آپ کي عبرت کے ليے درج کيا جا رہا ہے۔

نرا شاعر

جيسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ يہ نرا شاعر ہوتا ہے يعني شاعري کے علاوہ کچھ بھي نہيں کر سکتا۔اسے خالص شاعر بھي کہہ سکتے ہيں چونکہ اسے اکژو بيشتر فاقے سے لطف اندوز ہونا پڑتا ہے اس ليے اسکي شاعري ميں بلا کا درد و سوز ملتا ہے۔ يہ شاعر باآساني کوئي بھي مشاعرہ لوٹ ليتا ہے۔ ليکن محلے کے دکاندار سے ادھار تک حاصل نہيں کر سکتا۔ انکي بيشترزندگي مقروض گزرتي ہے يا پھر يہ شاعري بيچ کے گزارہ کرتے ہين۔غالب، ساغر صديقي اور اقبال ساجد جيسے شاعروں کو اس کيٹيگري ميں رکھا جاسکتا ہے۔

عاشق کم شاعر

يہ عماما بے روزگار ہوتے ہيں اور پارٹ ٹائم عشق سے پورا ٹائم پاس کرتے ہيں ۔عشق کي منزليں طے کرتے کرتے جب يہ رانجھے يا مجنوں کے انجام کے قريب پہنچ جاتے ہيں تو ترقي کر کے شاعر بن جاتے ہيں۔ انکي شاعري عموما بے وزن ہونے کے باوجود کلو گراموں ميں ہوتي ہے۔ايسے شاعر نوکري يا چھوکري کے
پلے پڑنے کے بعد تائب ہو جاتے ہيں اور ادب کو بخش ديتے ہيں۔

سمگلر شاعر

عام سمگلروں کي طرح سمگلر شاعروں کے بھي کئي گروہ ہيں ان کا ايک گروہ کسي انتقال شدہ گمنام شاعر کے اہل خانہ سے اسکي شاعري اونے پونے خريد ليتا ہے اور پھر صاحب ديوان ہو جاتا ہے۔ دوسرا گروہ پرانے شعرا کے کلام اور خيال کو گھما پھراکر کام چلاتا ہے۔ تيسرا گروہ کسي دوسري زبان کي شاعري کے خيالات اڑا کر اپني زبان ميں باندھ ليتا ہے ۔ چوتھا اور آخري گروہ ان ميں سے کسي جھنجھٹ ميں نہيں پڑتا اور شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے کسي بھي نرے شاعر سے شاعري خريد ليتا ہے اچھي سے اچھي غزل پچاس روپے سے کم ميں مل جاتي ہے چوتھے گروہ ميں عموما بيوروکريٹ شاعر ہوتے ہيں جو اس طريقے سے خود کو انٹليکچوئل ثابت کرتے ہيں۔

عظيم شاعر

ان شاعروں کي عظمت ميں انکي دولت، عہدے اور پريس پروري کے علاوہ انکے کاسہ ليسوں کے خوشامدي مضاميں کا بھي دخل ہوتا ہے۔ يہ اپنے تئيں غالب سے کم عظيم نہيں ہوتے اور اسي زعم کي بنا پر کلام اقبال پر خصوصي شفقت فرماتے ہوئے اسکي غلطياں نکالتے رہتے ہيں۔ ايسے شاعروں نے کچھ شاگرد بھي پال رکھے ہوتے ہيں جو دراصل انکے طفيليے ہوتے ہيں۔ وہ انہي کا پڑھتے ہيں اور انہي کا گاتے ہيں۔علاوہ ازيں ايسے عظيم شعرا ان خواتين شاعرات کي سر پرستي بھي فرماتے ہيں جو شاعري بے شک نہ کر سکتي ہوں ليکن شاعرہ بننا چاہتي ہوں يہ ايسي شاعرات کے مجموعے اپنے خرچ اوردوسرے کے مواد پر چھپوا کر اپني عظمت کا ثبوت ديتے ہيں۔

سياسي شاعر

ان کے دو گروہ ہين پہلا گروہ ساحر، فيض، جالب اور شورش کاشميري جيسے شاعروں پر مشتمل ہے۔ يہ کلمہ حق جابر سلطان کے سامنے کہہ کرقيدو بند کي سہولتوں سے فيضياب ہوتے ہيں۔ دوسرا گروہ عوامي ہے جو سياسي جلسوں خصوصا انتخابي جلسوں ميں اپني صلاحيتوں کا لوہا منواتا ہے۔ يہ کسي اميدوار يا سياسي پارٹي کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہيں اور پھر اسکے جلسوں ميں اس کے قصيدے اور مخالفين کي ہجو پڑھتے ہيں يوں يہ عوامي شہرت کے ساتھ ساتھ شاعروں کے سب گروہوں سے زيادہ کماتے ہيں۔

موبائل شاعر

يہ شہر ميں گلي گلي گھومتے رہتے ہيںاور جہاں کہيں کسي شادي ، منگني، مہندي، خنہ يا سالگرہ کي تقريب کي بھنک پڑتي ہے وہاں پہنچ جاتے ہيں۔عام طور پر معززين کا لباس زيب تن کيے ہوتے ہيں اس ليے تقريب ميں باآساني گھس جاتے ہيں۔ پھر تقريب کے مرکزي کرداروں کے نام معلوم کر کے پہلے سے تيار شدہ سہرے اور دعا وغيرہ ميں فٹ کر ليتے ہيں۔ حاضرين تب تک انہيں معزز مہمان ہي سمجھ رہے ہوتے ہيں کہ اچانک يہ اپنا راگ الاپنا شروع کر ديتے ہيں۔ پھر تب تک چپ نہيں ہوتے جب تک (پيسے يا اور کسي چيز
سے) انکا منہ بند نہ کر ديا جائے۔
شاعروں کے بے شمار نقصانات ہيں مگر خدا نے کوئي بھي چيز نکمي
پيدا نہيں کي ۔ يوں شاعروں کے کچھ فوائد بھي ہيں مثلا کسي بھي شاعر سے کسي بھي وقت بے شمار عبرت حاصل کي جا سکتي ہے ۔ کسي ٹارچر سيل ميں شاعروں کو ملازمت دے کر ڈھيٹ مجرموں پر شاعري کا ٹارچر کر کے مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہيں۔ شاعري سننے کے وعدے پر شاعر سے ہر کام کروا سکتے ہيں حتٰي کہ ادھار بھي لے سکتے ہيں۔ شاعر اگر گھر ميں ہو تو اسکي موجودگي ميں ايک تو چوکيدار کي ضرورت نہيں دوسرے آپ جب چاہيں اسکي ردي سے اپني جيب يا ہاتھ گرم کر سکتے ہيں۔
 
Top